قطر کا فیفا ورلڈ کپ
قطر کا فیفا ورلڈ کپ
قطر کو آج سے بارہ سال پہلے یعنی دو ہزار دس میں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ ان بارہ سالوں میں جدید مراعات پر مشتمل نئے اسٹیڈیمز، ہوٹل، شاپنگ مالز، فین زون اور رہائش گاہوں کی تعمیر و تیاری کی مد میں قطر اب تک تقریبا تین سو بلین ڈالرز خرچ کر چکا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے مہنگا ترین ورلڈ کپ ہے اور اس کی لاگت ماضی کے تمام ورلڈ کپز کی کُل لاگت سے بھی زیادہ ہے۔
ان دنوں میں دوحہ کا ائیرپورٹ دنیا کا مصروف ترین ائیرپورٹ ہو گا جہاں ہر روز نو سو سے زائد مسافر طیارے اتریں گے اور ایک اعداد و شمار کے مطابق قریبا بارہ لاکھ لوگ قطر کو وزٹ کریں گے۔قطر نے ہر طرح کی ممکن جدت کو بروئے کار لاتے ہوئے آنے والوں کے لیے مقامی ثقافت و روایت کے مطابق آرٹ گیلری، میوزیم، فن زون، قومی اور بین الاقوامی کھانوں کے سٹال، موسیقی، اطفال و عوائل پروگرام غرض ہر ہر طرح کی تفریح ترتیب دے رکھی ہے۔
اتنی مہنگی اور اتنی شان دار تیاری کے باوجود قطر کی میزبانی کو محض اس لیے عالمی اور سوشل میڈیا پر ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے آنے والے لوگوں سے گزارش کی ہے کہ “براہ مہربانی ہماری ثقافت و روایات کا احترام کریں۔
ہمارے یہاں کھلے عام شراب، ہم جنس پرستی کے جھنڈے و نعرے، عُریاں لباس، اور بند کمروں کی کارروائی سڑکوں پر کرنے پر پابندی ہے۔
اس چھوٹی سی عرضی کو لے کر پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے قطر نے ان کی دم پر نہیں “گچی” پر پاؤں رکھ دیا ہے۔
نام نہاد مغربی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور این جی اوز باؤلے کتے کی طرح صبح شام بس ایک ہی رٹ لگا رہی ہیں کہ “قطر کا بائیکاٹ کرو”آپ کو ایسے ڈرامے پر کوئی حیرت ہو تو ہو تاریخ کے کسی طالب علم کو نہیں ہوگی۔ کیوں کہ ان سفید چمڑی میں چھپی مہذب کالی بھیڑوں نے پچھلے کئ سو سالوں میں یہی تو کیا ہے۔ تمہارا کُتا ۔۔کتا، ہمارا کتا ٹومی۔اسی بحث کو موضوع بناتے ہوئے کچھ ماہ پہلے ایک انگلش اینکر نے جب قطر ورلڈ کپ کے سیکورٹی چئیرمین عبدالعزیز عبداللہ الانصاری سے اس متعلق سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ“ہم اپنے ملک میں ہر کسی کو خوش آمدید کہتے ہیں لیکن آنے والوں کو ہماری روایات کا احترام کرنا ہوگا محض اٹھائیس دن کے لیے ہم اپنا مذہب نہیں بدل سکتے”.
پچھلے کچھ ماہ سے زور پکڑتی یہ تنقید و تضحیک اب اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے اور اس کی شدت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ ورلڈ کپ سے محض ایک دن قبل فیفا چئیرمین جیانی انفین ٹینو کو قریبا ڈیڑھ گھنٹے کی پریس کانفرنس کرنی پڑی جس کا لب لباب کچھ یوں بنتا ہے کہ “ہم کچھ نہیں کر سکتے جس کو آنا ہے آئے نہیں آنا تو بھاڑ میں جائے کھسماں نوں کھائے”اگر اس بائیکاٹ کی تحریک کے پیش نظر سیکیورٹی اور امن عامہ کا بہانہ بنا کر یہ ورلڈ کپ کینسل کر دیا جاتا تو قطر کی بارہ سالہ محنت اور بلینز آف ڈالر ڈوب جاتے۔۔۔۔ مگر اتنا بڑا خطرہ مول لیتے ہوئے یہ چھوٹا سا ملک اپنی روایات کے لیے جس طرح پوری دنیا کے بدتہذیب، بے راہرہ اور بدمعاش ٹولے کے سامنے پوری جرأت سے کھڑا ہوا ہے یقینا ہر ہر طرح سے لائق تحسین اور قابل داد ہے۔
قطر مسلسل حیران کر رہا ہےکھیلوں کی دنیا کے سب سے بڑے ایونٹ کو دعوت اسلام کا ذریعہ بنا دیا دنیا بھر سے سینکڑوں علمائے کرام اور سکالرز منگوائے گئے ہیں جو کہ مختلف زبانوں میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیں گے ۔ دو ہزار مقامی علمائے کرام بھی فٹ ورلڈ کپ کی ڈیوٹی کریں گے ۔
ملک بھر کی مساجد کے مؤذن تبدیل کرکے دلکش آوازوں والے مؤذن مقرر کر دئیے گئے ہیں ۔ تمام مساجد کو اسلامی میوزیم طرز پر پیش کیا جائے گا جہاں کسی بھی وقت کوئی آکر معلومات لے سکے گا ۔ ملک بھر میں قرآنی آیات ۔ احادیث اور تاریخ اسلامی کو نمایاں کرکے فلیکس اور بل بورڈز لگائے گئے ہیں ۔ قرآن مجید کے تراجم ۔ مختلف زبانوں میں ۔ اسلامی تاریخ و سیرت کی کتب بانٹی جا رہی ہیں ۔ ہر اسٹیڈیم میں نماز کی نمایاں جگہ ہو گی ۔
اس کے برعکس ہمارے یہاں ہر وقت امریکہ سے خطرہ امداد کا خطرہ قرضوں کا خطرہ موجود رہتا ہے ۔ دنیا کو اسلام سے خطرہ نہیں ، منافقین کو امداد نہ ملنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔#صفہ_اسلامک_ریسرچ_سینٹر