استاد جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
استاد جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
اساتذہ تعلیم دینے کے غرض سے اسکولوں میں بحال کئے گئے ہیں لیکن ان کے کام کا جائزہ لیں گے تو آپ دنگ رہ جائیں گے۔ اگر آپ سچ میں معیاری تعلیم فراہم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اساتذہ سے بات کرنی ہوگی اور تمام تر غیر تدریسی فرائض سے آزاد کرنا ہوگا خواہ وہ ایم ڈی ایم ہو یا بلڈنگ کی مرمتی وغیرہ
استاد کو والدین سے بڑا درجہ حاصل ہے۔ استاد سماج میں ایسی شخصیت ہے جو قابل اعتماد، قابل احترام اور قابل تقلید ہوتا ہے اسی لیے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
جی ہاں! استاد اس کمہار کی طرح ہے جو مٹی کو خوب صورت شکل دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی استاد طلبہ و طالبات کا دوست بھی ہے، رہبر بھی اور رہنما بھی ہے۔ بقول شاعر
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
شاعر نے بالکل درست فرمایا ہے، استاد رہبر اور ہمدم ہونے کے ساتھ ہی ہمارے غم کے بھی ساتھی بھی ہیں۔ اسی لئے اسے معمار قوم ” راشٹر نرماتا ” کہا جاتا ہے۔ گروکل اور شسیہ کی بھی ایک عمدہ روایت رہی ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے جس نے چانکیہ جیسے گرو کی قدر نہیں کی اسے تباہی کا سامنا ہوا۔ سماج میں استاد کو عزت حاصل ہے لیکن اب عزت پیسے سے ہوتی ہے۔ ایمانداری، شرافت اور نیک عمل دولت کے بغیر بے معنی ہیں۔ ہاں! یہ بات بھی درست ہے کہ ہر کسی کو سب کچھ مکمل نہیں ملتا، ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا
محکمۂ تعلیم بہار معیاری تعلیم کے حصول کے لئے روز نیا حکم نامہ نکال رہی ہے۔ لیکن اس حکم نامہ کو زمین پر اتارنے کا کام اساتذہ کے ذمہ ہی ہے اور اساتذہ کے لئے محکمہ کی جانب سے روز زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ سختی سے بھلے ہی سب کچھ بظاہر ٹھیک لگ رہا ہو لیکن حقیقت کیا ہے اس کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ تعلیم کا معیار اعلی ہو اساتذہ کو اس سے بھلا کہاں انکار ہو سکتا ہے
لیکن اس کے بدلے اسے مل کیا رہا ہے یہ بڑا سوال ہے۔ محکمۂ تعلیم کے پرنسپل سیکریٹری جناب کے کے پاٹھک کا خوف ڈپارٹمنٹ میں اعلی سے ادنیٰ تک دکھ رہا ہے۔
لیکن ان کے حکم نامہ اور طریقہ کار سے اساتذہ کو سماج میں بے عزت ہونا پڑ رہا ہے۔ جدھر جاتا ہوں عوامی مقامات پر ایک ہی آواز سننے کو ملتی ہے کہ ” کے کے پاٹھک ماسٹر سب کے حال خراب کئے ہوا ہے۔ ” یہ باتیں وہ مزہ لے کر کہتے نظر آتے ہیں۔ اس سے اساتذہ کی جو بے عزتی ہو رہی ہے وہ اساتذہ کے لئے ہی نہیں بلکہ ملک کے لئے بھی بہت خطرناک ہے۔ میں نے پہلے ہی ذکر کیا ہے کہ اساتذہ بچوں کے لئے والدین سے زیادہ قابل قدر اور آئیڈیل ہیں تو جب ان کی عزت ہی نہیں رہے گی تو بھلا ان بچوں پر جو ان کے طلبہ و طالبات ہیں کیا اثر ہوگا۔
اس لئے بہار میں تعلیم کے شعبہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ ہم برابر کہتے اور سنتے آرہے ہیں کہ ون وے کمیونیکیشن کا طرز عمل نقصاندہ ہے۔ اس لیے دوران تعلیم اس طریقہ کار میں تبدیلی آئی اور ایسے کلاس کا کانسیپٹ آیا جس میں اساتذہ کے ساتھ بچوں کی حصہ داری کو بھی یقینی بنایا گیا۔
لیکن محکمۂ تعلیم میں کیا چل رہا ہے؟ ون وے کمیونیکیشن، حکومت اپنی سطح پر بھی یہی کر رہی، نتیجہ ظاہر ہے بہتر نہیں ہوگا۔ میں بتاؤں محکمہ کے ایک ایک مکتوب پر عمل ہو رہا ہے، اگر اسکول میں انفراسٹرکچر وغیرہ بہتر نہیں ہیں تو اس کے لئے بھی اساتذہ سے پوچھا جاتا ہے، آپ نے کیا کیا؟ لیکن ان افسران سے نہیں پوچھا جاتا ہے کہ اساتذہ نے کوئی شکایت کی، کوئی مشورہ دیا یا کسی طرح کی امداد چاہی اس پر کیا عمل ہوا؟
میں نے خود بارہا ڈپارٹمنٹ کو، یہاں تک کہ وزیر اعلی نتیش کمار، چیف سیکریٹری جناب عامر سبحانی اور پرنسپل سیکریٹری محکمہ تعلیم کے کے پاٹھک کو بھی اردو کی تعلیم کو یقینی بنانے کے لئے لکھا، مشورہ دیا لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہوا، آخر اس کے لئے جوابدہ کون ہے؟
آپ کو جواب دینا چاہیے تھا کہ آخر آپ نے میرے مکتوب پر کیا عمل درآمد کیا، نہیں تو یہ یک طرفہ رویہ تعلیمی نظام میں انقلاب کا صرف ہنگامہ ہو کر ہی رہ جائے گا، زمینی سطح پر کچھ نہیں ہوگا۔ اردو کی تعلیم کو یقینی بنانے کے راستے میں جو رکاوٹیں ہیں میں نے اس کی شکایت کی، محکمۂ تعلیم سے اسے دور کرنے کے لئے لکھا، نتیجہ صفر۔ اردو تعلیم کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں وہ یہ ہیں
روٹین میں اردو مضمون شامل نہ کرنا
(ریاست کی طرف سے جاری کردہ روٹین میں بھی اردو شامل نہیں ہے، کسی سطح پر اگر کوشش ہوئی تو پوری طرح اسے لازمی طور نافذ کیا جانا چاہئے)۔
اردو کے علاوہ تمام زبانوں اور مضامین کے لئے اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اساتذہ تدریس کے نئے نئے طریقوں اور تکنیکوں سے واقف ہوتے ہیں۔ اردو اساتذہ کو یہ موقع نہیں ملتا ہے۔
افسران کے ذریعہ اسکول معائنہ میں اردو
کی تعلیم کو یقینی بنانے پر کوئی زور نہیں دیا جاتا ہے۔
اردو زبان کے موضوع پر بحال اساتذہ سے اسکولوں میں اردو کے بجائے دوسرے مضامین پڑھوائے جا رہے ہیں یا پھر دوسرا کام لیا جا رہا ہے۔
محکمہ تعلیم تمام مضامین کے لئے نصابی کتابیں فراہم کرتی ہے، لیکن اسکول کے سربراہ، کمپلیکس سینٹر انچارج، بلاک اور ضلعی دفتر کے عملے کی سستی کی وجہ سے اردو کی نصابی کتابیں طلبہ تک نہیں پہنچ پاتی ہیں۔
اردو کتابوں اور اردو اساتذہ کی عدم دستیابی کا بہانہ بنا کر اردو بولنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی اردو زبان کی جانچ نہ تو ششماہی امتحان میں کی جاتی ہے اور نہ ہی سالانہ امتحان میں۔ قومی زبان (ہندی) کا سوالیہ پرچہ بھی دستیاب نہیں ہو پاتا ہے، اسکول کے سربراہ اس کا مطالبہ نہیں کرتے اور نہ ہی لاتے ہیں اور تقسیم کرنے والے بھی ہندی اسکولوں کو سبھی مضامین کے سوالیہ پرچے اردو میں دے دئیے جاتے ہیں جبکہ اردو زبان ہی اردو میں دینا ہوتا ہے، نتیجتاً اردو اسکولوں کو تمام مضامین کا سوالیہ پرچہ اردو زبان میں نہیں مل پاتا ہے۔
میں نے محکمہ تعلیم سے کہا اگر اس پر غور ہو اور کمیاں دور کر لی جائیں، تو شاید اردو کی تعلیم کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ لیکن ہر جانب معیاری تعلیم کو لے کر تعلیمی نظام کو درست کرنے کا دعویٰ تو کیا جا رہا ہے لیکن اردو پڑھنے والے بچوں کی بڑی آبادی ہونے کے باوجود اس کی کسی کو فکر نہیں ہے۔
میں صاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ حکومت یا محکمۂ تعلیم اگر سچ مچ بچوں کو معیاری تعلیم دینے کی سمت میں سنجیدہ ہے تو اسے سیدھے سیدھے اساتذہ سے، اس کی تنظیموں سے اور ماہرین تعلیم سے بات کرنی چاہئے، جس میں اساتذہ تنظیمیں بھی شامل ہوں، سب سے کار آمد اساتذہ سے گفتگو کرنا ثابت ہوگا۔
قومی اساتذہ تنظیم بہار کے نمائندوں سے تو لازمی طور پر بات کی جانی چاہئے تاکہ مسائل کو آسانی سے حل کیا جا سکے۔ یہ اس لئے کہا کہ جسے زمین پر کام کرنا ہے اس کے بغیر آپ کا کام نہیں ہو سکتا ویسے ہی ان کے مشورہ کے بغیر آپ وہ تبدیلی نہیں لا سکتے اور نہ ہی تعلیمی انقلاب پیدا کر سکتے ہیں جس کی ہم سب امید کرتے ہیں۔ ایک تو حکومت کا ون وے کمیونیکیشن دوسرا اساتذہ کی حالت بچوں سے بدتر کر دی گئی ہے۔ روز روز نیا فرمان، اساتذہ خوف و ہراس میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
جیسے بچوں کو زیادہ ہوم ورک دینا سودمند نہیں ہوتا ویسے ہی اساتذہ کو بھی زیادہ لوڈ درست نہیں۔ اس کا دو ہی نتیجہ ہوگا یا تو کام نہیں ہوگا یا پھر کام غیر معیاری ہوگا۔ اسکول کے پرنسپل کے ذہنی توازن کو بگاڑنے کا بھی کھیل ہو رہا ہے، روز روز ویڈیو کانفرنسنگ یعنی وی سی کے ذریعہ میٹنگ کا کیا جواز ہے۔
ایک ہی باتوں کو روز دوہرایا جاتا ہے۔ وہ بھی اپنے اپنے علاقے میں واقع کمپلیکس سینٹر میں جا کر وی سی میں شامل ہونا دوہری مار جیسی ہے۔ اساتذہ روز صبح ساڑھے سات، آٹھ بجے اسکول کے لئے نکلتے ہیں اور اسکول کے بعد وی سی میں چھ بجے تک شامل رہنا پھر آٹھ بجے شام تک گھر پہنچنا یہ ذہنی الجھن ہی پیدا نہیں کرتا بلکہ آنے والے وقت میں یہی سب چلتا رہا تو وہ بیماریوں کے جال میں پھنس کر قبل از وقت دنیا کو الوداع کہنے کو مجبور ہوں گے۔
اساتذہ تو اساتذہ ہے معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا، اساتذہ کے بہانے اس پر بھی حملہ ہوا۔ اسکولوں میں چھٹیاں اساتذہ کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی ہوتی ہیں، اس لئے محکمۂ تعلیم نے چھٹی میں تخفیف کر اساتذہ کے ساتھ ساتھ بچوں کی بنیادی و مذہبی آزادی پر بھی حملہ کیا ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔
قومی اساتذہ تنظیم بہار نے اس کی شدید مذمت کی ہے اور وزیر اعلیٰ بہار جناب نتیش کمار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خود مداخلت کریں، اساتذہ اور بچوں کی مذہبی آزادی کو متاثر ہونے سے بچائیں، محکمہ کے اس تغلقی فرمان سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوں گے۔ بچے بچپن کا بہتر حصہ گزارنے کے ناقابل ہوں گے اور مایوس ہو کر زندگی کو بوجھ سمجھیں گے، جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ بچوں کی تعلیم کو بچوں پر بوجھ نہیں بننے دینا چاہئے، اسی مقصد کے تحت بچوں کو مختلف قسم کے تفریحی طریقوں سے پڑھایا جاتا ہے۔
اسکول میں چھٹیاں بچوں کو تعلیمی بوجھ وغیرہ سے دور رکھنے کا ذریعہ بھی ہے اور مذہبی تعطیلات بھی مذہبی عقائد کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کا احترام ضروری ہے، بچے تہواروں میں اپنے رشتہ داروں کے گھر اور بڑے شہروں میں گھومنے جاتے ہیں، اکثر والدین اپنے بچوں کو دسہرہ کے موقع پر کولکاتہ جیسے شہروں میں میلہ گھمانے لے جاتے ہیں۔ انہیں باتوں کے مدنظر پہلے کی چھٹیوں کا ٹیبل تیار کیا گیا تھا، جسے منسوخ کرنا ناانصافی ہے، اس لئے قومی اساتذہ تنظیم بہار کا مطالبہ ہے کہ پہلے کی چھٹیوں کی ٹیبل کو دوبارہ نافذ کیا جائے۔
اساتذہ تعلیم دینے کی غرض سے اسکولوں میں بحال کئے گئے ہیں لیکن ان کے کام کا جائزہ لیں گے تو آپ بھی دنگ رہ جائیں گے۔ اسکول میں تعلیمی نظام درست کرنے کے ساتھ ہی ایم ڈی ایم بنوانا، اسکول کی بلڈنگ کا رنگ روغن کروانا، کبار اور بورہ جمع کر بیچنا، ہفتہ واری، ماہ واری بچوں کا ٹیسٹ لینا، میدھا سوفٹ میں بچوں کی انٹری، شالا سدھی میں انٹری، انسپائر ایوارڈ میں انٹری و مختلف قسم کی رپورٹس کو تیار کرنا، انتخاب کرانا، مردم شُماری، بی ایل او کی ذمہ داری، میٹرک، انٹر و دوسرے سبھی امتحانات کو کامیابی کے ساتھ کرانا، سکچھا سمیتی و بچوں کی والدہ کے ساتھ اساتذہ کی میٹنگ کرانا اس کے ساتھ ہی ڈپارٹمنٹ کے بے جا موبائل کال اور مکتوب کا پریشر جھیلنا وغیرہ یہ کام خصوصی طور پر اسکول کے پرنسپل اور اساتذہ مل کر کرتے ہیں کام کو انجام دینے کے لئے چوک، بازار، ہاٹ اور بینک وغیرہ کا چکر لگانا ہوتا ہے۔ یہ تمام کام کافی پیچیدہ ہیں، آج بھی بہت سے ایسے اساتذہ ہیں جسے موبائل اور کمپیوٹر کی تھوڑی بھی سمجھ نہیں ہے، پوچھ پوچھ کر یا دوسروں کی حمایت حاصل کر وہ تمام کام انجام دیتے ہیں
اب بتائیے وینڈر بنانا اور پی ایف ایم ایس سے ادائیگی کتنا مشکل کام ہے اس لئے زیادہ تر پرنسپل بیچولیا یا دلال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اب تو روز روز اسکول کا جانچ یا تو تعلیمی مرکز، ٹولہ سیوک یا کوئی کلرک وغیرہ کے ذریعہ ہو رہا ہے۔ اسکول کے پرنسپل نے ہی تعلیمی مرکز و ٹولہ سیوک کو بحال کیا اور وہی ان کا اسکول جانچ رہے ہیں۔ کلرک پرنسپل کے مساوی بھی نہیں وہ بھی ان کے اسکول کی جانچ کرتے ہیں۔
بہتر کرنے کے چکر میں محکمۂ تعلیم کے پرنسپل سیکریٹری جناب کے کے پاٹھک تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر یہ سب کر رہے ہیں تو کیا اس کے بہتر رزلٹ کی ہم امید کر سکتے ہیں؟
سچائی ہے کہ اساتذہ یا اس کی تنظیمیں پاٹھک کے خوف سے تحریک نہیں چھیڑ رہے ہیں لیکن اگر ایسا زیادہ دنوں تک چلا تو اساتذہ بغاوت کو مجبور ہوں گے، وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے تب ان کے سامنے 1942 جیسی حالت ہوگی، ” کرو یا مرو “، تب نہ تو اسے نوکری جانے کا ڈر ہوگا نہ ہی کسی کارروائی کا غم۔ حکومت اپنی جوابدہی سے بھاگ رہی ہے آج بھی بلڈنگ اور اساتذہ کی بڑی بھاڑی کمی ہے، پرنسپل کو بھی کلاس میں جاکر پڑھانا ہوتا ہے، الگ الگ مضامین کے اساتذہ ضرورت سے بہت کم ہیں۔
آخر میں میں محکمۂ تعلیم اور حکومت بہار کو ایک مشورہ دینا چاہوں گا، اگر آپ سچ میں معیاری تعلیم کے لئے فکرمند ہیں تو سب سے پہلے آپ اساتذہ، خواہ وہ پرنسپل ہوں یا کوئی اور اسے غیر تدریسی تمام تر جوابدہی سے آزاد کریں تاکہ وہ ٹھیکیدار، مزدور، سویپر، بینک، دکان وغیرہ کے چکر سے محفوظ رہ کر اپنا صد فی صد وقت درس و تدریس میں صرف کرسکے، جو اساتذہ کی اصل ذمہ داری ہے۔
محمد رفیع
7091937560
rafimfp@gmail.com