ناموس رسالتﷺ میں بے ادبی و جرأت

Spread the love

ناموسِ رسالتﷺ میں بے ادبی و جرأت اور علماے دیوبند

> (علمی وتحقیقی مطالعہ کی روشنی میں)

قسط-1

 

غلام مصطفیٰ رضوی

نوری مشن، مالیگاؤں

 

کیا کوئی مسلمان یہ تصوّر کر سکتا ہے کہ کوئی مسلمان کہلانے والا شخص رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں توہین اور بے ادبی کی جرأت کرے گا- لیکن! یہ بھی حقیقت ہے کہ توہین رسالت کے مرتکبین کی ایک طویل فہرست ہے جو بظاہر کلمہ گو تھے، نام و شباہت مسلمانوں کی سی تھی؛ لیکن اُن کے قلم و زبان نے گستاخی و توہین کی مسموم فضا پیدا کی، مسلمانوں کے قلب و روح کو توہین کے تیروں سے زخمی کیا۔ عقائد اسلامی کی فصیل میں توہین کی سرنگیں لگائیں۔ وہابیت، دیوبندیت و قادیانیت اسی توہین و بے ادبی کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے۔

مسلمان نبی پاک ﷺ سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے۔ یہ وہ جذبۂ صادق ہے جس کی بنیاد پر عاشقانِ رسول نے تاریک و بنجر وادیوں میں محبت و اُلفت کی فصلیں اُگائیں۔ اِسی جذبۂ محبت نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قیصر و کسریٰ جیسی سُپر پاورز پر غلبہ عطا کیا۔ یہی جذبۂ محبت تھا جس کے دوش پر یورپ کی وادیوں میں اذانِ سحر گونج گونج اُٹھی۔ ایثار کی ہر بزم محبت رسول ﷺ سے عطر بیز ہے۔ محبتوں کی اسی روش نے سلفِ صالحین کو بلندیاں عطا کیں۔ آج جو نغماتِ دُرود وسلام بلند ہو رہے ہیں وہ اظہارِ محبت کے والہانہ نظارے ہیں۔ آج ہر بزمِ محبت رسول ﷺ میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنّت کا تحریر کردہ یہ نغمۂ روح یوں ہی نہیں گونج رہا ہے؎

مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

جس نے محبتوں کی جوت جگائی، جس نے عشقِ رسول ﷺ سے دلوں کو بھر دیا۔ جس نے ہمیشہ اپنے قلم کو مدحتِ مصطفیٰ ﷺ میں چلایا۔ جس نے جو کچھ لکھا ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے لکھا؛ اس کا قلم اُن لوگوں پر بھی چلا جنھوں نے ناموسِ رسالت ﷺ کے قصرِ رفیع میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی۔ علم و تحقیق اور آگہی کی روشنی میں اعلیٰ حضرت کی تصانیف کا مطالعہ کیجیے، کتاب و سنت سے ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ میں وہ وہ دلائل ملیں گے کہ ایمان تازہ ہو جائے گا۔ گلشنِ حیات میں محبتوں کی بادِ خوش گوار صاف محسوس ہوگی۔

عصمتِ انبیا علیہم السلام کا عقیدہ مُسلّم رہا ہے۔ اس عقیدے میں کسی بھی طرح کی کجی ایمان کے عظیم مینار کو زمیں بوس کر سکتی ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی و متانت کی عینک لگا کر اِس عبارت کو پڑھیے اور بتائیے کہ کیا یہ اُس دل کی زبان ہو سکتی ہے جس میں محبت رسول ﷺ کا ذرہ برابر نشان موجود ہو:

’’یہی وہ دن (عاشورہ) ہے جس میں حق تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے-‘‘

* (ڈسپلن ڈیلی مالیگاؤں، ۹؍جولائی۲۰۲۴ء، صفحہ۲، از مولانا سراج احمد قاسمی)

للہ! انصاف کے ساتھ بتائیے یہ جرأت و جسارت معمولی ہے کہ جھٹ رسول اللہ ﷺ کے لیے ’’گناہ‘‘ کا داغ گڑھ لیا۔ کیا یہ دل کا داغ نہیں جو لفظوں کے لباس میں ظاہر ہوا؟ یہاں یہ نکات حاشیۂ ذہن پر اُبھرتے ہیں:

(۱) شاید یہ الفاظ اتفاقاً منصۂ شہود پر آئے ہوں؛ لکھنے والے کا مطمح نظر رسول اللہ ﷺ کی بے ادبی و توہین نہ رہا ہو!!

(۲)مذکورہ جملہ میں گناہ کا انتساب رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں بہت بڑی جسارت ہے۔ایک سوال یہ ہے کہ پھر یہ جرأت کیوں کی گئی۔ اِس طرح کا خیال قلم کار کے دل و دماغ میں کیوں کر آیا؟ پس پشت کیا محرکات تھے؟

اول الذکر پر جب غور کیا گیا تویہ ضرورت محسوس ہوئی کہ قلم کار کے فکری رشتے کو ٹٹولنا چاہیے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ بزمِ دل میں محبتوں کی کوئی شمع فروزاں ہے یا نہیں!یہ دیکھناچاہیے کہ مذکورہ عبارت قلمی سہو کا نتیجہ ہے یا قصد و ارادہ سے وجود میں آئی!!

ثانی الذکر کا نتیجہ فکری رشتے کی اکابرِ دیوبند سے استواری نکلا۔

بہر کیف! جب خیالات کی وادیاں دلائل کی روشنی میں تلاشی گئیں، افکار کے رشتےکتابوں کے سائے میں ڈھونڈے گئے، غیر جانب دارانہ انداز میں حقائق کو دیکھا پرکھا گیا؛ سُنی سُنائی باتوں کے بجائے تحقیق و تدقیق کی گہرائی و گیرائی میں اُتر کر مشاہدہ کیا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ: قلم کار کا رشتۂ فکر علماے دیوبند سے ملتا ہے جن کے اکابر کی توہین رسالت ﷺ سے پُر عبارتوں سے مسلمانوں کے دل لہولہان ہیں۔ جن کی تحریروں نے اسلام کے قصرِ رفیع میں شگاف ڈالنے کی کوششیں کیں۔ جن کی کتابیں رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخیوں سے بھری پڑی ہیں۔ جن پر عثمانی دور کے علماے حرمین طیبین نے فتاوے صادر فرمائے۔ بے ادبی سے پُر عبارتوں پر حکم شرعی عائد کیے۔ نگہِ تحقیق جب گستاخانہ عبارتوں کو پڑھتی ہے اور ان عبارتوں پر بیان کیے گئے حکم کو دیکھتی ہے تو یہ تسلیم کرتی ہے کہ جب گستاخی کی قلمیں لگائی جائیں گی، توہین کی جرأتیں کی جائیں گی تو پھر حکم بھی سخت عائد ہوگا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: حسام الحرمین، از اعلیٰ حضرت، زلزلہ از علامہ ارشدالقادری، دعوت انصاف از علامہ ارشد القادری)

 

*شانِ رسالت ﷺ میں توہین کا آغاز:*

ہند میں وہابیت دیوبندیت کے نقطۂ آغاز سے متعلق شاہ ابوالحسن زید فاروقی دہلوی لکھتے ہیں:

’’حضرت مجدد(الف ثانی) کے زمانے سے ۱۲۴۰ھ (۱۸۲۵ء) تک ہندوستان کے مسلمان دو فرقوں میں بٹے رہے۔ ایک اہل سنت و جماعت، دوسرے شیعہ۔

اب مولانا اسمٰعیل دہلوی کا ظہور ہوا۔ وہ شاہ ولی اللہ کے پوتے اور شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کے بھتیجے تھے۔ ان کا میلان محمد بن عبد الوہاب نجدی کی طرف ہوا۔اور نجدی کا رسالہ ردالاشراک ان کی نظر سے گزرا۔ اور اردو میں انھوں نے’تقویۃ الایمان‘ لکھی۔ اس کتاب سے مذہبی آزاد خیالی کا دور شروع ہوا۔کوئی غیر مقلدہوا، کوئی وہابی بنا، کوئی اہلِ حدیث کہلایا، کسی نے اپنے کو سلفی کہا۔

ائمہ مجتہدین کی جو منزلت اور احترام دل میں تھا وہ ختم ہوا، معمولی نوشت و خواند کے افراد امام بننے لگے، اور افسوس اس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہِ نبوت کی تعظیم و احترام میں تقصیرات (بے ادبی و توہین) کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ یہ ساری قباحتیں ماہ ربیع الآخر ۱۲۴۰ھ (۱۸۲۵ء) کے بعد سے ظاہر ہونی شروع ہوئی ہیں۔‘‘

* (مولانا اسمٰعیل دہلوی اور تقویۃ الایمان،ص۹،ازشاہ ابوالحسن زید دہلوی ،شاہ ابوالخیر اکیڈمی دہلی)

قارئین! ’’توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہِ نبوت ﷺ کی تعظیم و احترام میں تقصیرات (بے ادبی و توہین) کا سلسلہ‘‘ جو شروع ہوا تھا؛ وہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا ہے- مالیگاؤں کے اخبار ڈسپلن میں جو توہینِ رسالت کا ارتکاب (٩ جولائی ٢٠٢٤ء کو) ہوا وہ اسی سلسلے و فکر کی ایک کڑی ہے- لگے ہاتھ یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے زیر اثر ’’وہابیت‘‘ سے متعلق دیوبندی رائے کیا ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی دیوبندی کے یہ اقوال دیکھیں:

’’اس وقت اور ان اطراف میں ’’وہابی‘‘ متبعِ سنت اوردین دار کو کہتے ہیں۔‘‘

* (فتاویٰ رشیدیہ،مولانا رشید احمد گنگوہی، فرید بک ڈپو دہلی، س ن، ص۱۱۰)

’’محمد بن عبدالوہاب کو لوگ وہابی کہتے ہیں وہ اچھا آدمی تھا۔‘‘

’’محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ تھے۔‘‘

* (مرجع سابق، ص۲۸۰)

دیوبندی فرقہ کے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: ’’بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں یہاں فاتحہ نیاز کے لئے کچھ مت لایا کرو ۔‘‘

* (اشرف السوانح، جلد ۱/ ص۴۵ )

یہی صاحب فرماتے ہیں: ’’اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں۔‘‘

* (الافاضات الیومیہ جلد ۵/۶۷, ۲/۲۲۱)

تبلیغی جماعت کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کے مصنف زکریا کاندھلوی کا اعتراف: ’’مولوی صاحب ! میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں۔‘‘

* (سوانح یوسف کاندھلوی، صفحہ نمبر ۱۹۳)

قارئین! آپ نے اکابرِ دیوبند کے مستند علما کی رائے ملاحظہ کی۔ کئی اور اقتباسات بھی ایسے ملتے ہیں جن میں دیوبندی علما نے ’وہابی‘ ہونے کا اقرار کیا ہے؛ وہابیت کی تعریف میں اپنی زبانیں تر کیں۔

(جاری…..)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *