ماہ رمضان کے روزوں کے مختلف مسائلی پہلو

Spread the love

تحریر:  محمد عامل ذاکر مفتاحی جنرل سیکرٹری آل انڈیا تعمیر ملت فاؤنڈیشن ممبئی ماہ رمضان کے روزوں کے مختلف مسائلی پہلو

ماہ رمضان کے روزوں کے مختلف مسائلی پہلو

رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کے بارے میں اس کے بیانات خوب واضح ہیں اور حق و باطل کے درمیان فرق ظاہر کرنے والے ہیں سو جو شخص تم میں سے اس ماہ میں موجود ہے وہ اس میں روزہ رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں کی گنتی کر کے روزے رکھ لے۔

اللہ تمہارے لیے آسانی کا ارادہ فرماتا ہے۔ دشواری کا ارادہ نہیں فرماتا اور تاکہ تم گنتی پوری کرو۔ اور تاکہ تم اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تم کو ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔(185 البقرہ)

ماہ رمضان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ماہ میں کلام الٰہی کا نزول ہوا ، جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کے بارے میں واضح بیانات ہیں اور وہ حق اور باطل میں فرق کرنیوالا ہے۔

قرآن کی یہ صفت ظاہر باہر واضح ہے دوست دشمن سب پر عیاں ہے ، رمضان المبارک کے روزے کے بہت سے مسائل ہیں جن میں سے کچھ بنیادی مسائل ہیں اور زیادہ تر عورتوں کے باریکی مسائل ہیں جن پر ہلکی سی روشنی قرآن و حدیث کو سامنے رکھ کر ڈالی جا رہی ہے ۔

یہ جو فرمایا فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ اس میں ہر عاقل و بالغ مسلمان مرد عورت پر رمضان کے روزوں کی فرضیت کی تصریح فرمادی ہے البتہ مسافر اور مریض اور حمل والی عورت اور دودھ پلانے والی عورت کو اجازت دی گئی کہ وہ رمضان میں روزہ نہ رکھیں اور بعد میں اس کی قضاء رکھ لیں اور حیض و نفاس والی عورت کو حکم ہے کہ وہ رمضان میں روزے نہ رکھیں اور بعد میں رکھ لیں۔آگے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ” جو شخص ماہ رمضان میں موجود ہو اس کے روزے رکھے “ مریض اور مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی۔

اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جتنے دنوں کے روزے رمضان المبارک میں مسافر اور مریض نے نہیں رکھے وہ رمضان کے بعد دوسرے دنوں میں اتنی ہی گنتی کرکے جتنے روزے چھوٹے ان کی قضاء رکھ لے۔  کس طرح کے مریض کو رخصت دی گئی ہے

واضح رہے کہ ہر مریض کو اجازت نہیں ہے کہ بعد میں قضا رکھنے کے لیے رمضان کے روزے چھوڑے بلکہ یہ رخصت و اجازت ایسے مریض کو دی ہے جس کو روزہ رکھنے سے سخت تکلیف میں مبتلا ہونے یا کسی عضو کے تلف ہونے کا قوی اندیشہ ہو، یا ایسے مرض میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو کہ روزے رکھنے کی وجہ سے مرض طول پکڑ لے گا جو تجربہ سے یا ماہر مسلم معالج کے قول کی بنیاد پر ہو اور یہ ماہر مسلم معالج ایسا ہو جس کا فاسق ہونا معلوم نہ ہو۔

اس بارے میں بہت سے لوگ غلطی کرتے ہیں کہ معمولی سے مرض میں روزہ چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ بعض امراض میں روزے مفید بھی ہوتے ہیں پھر بھی مرض کا بہانہ بنا کر روزہ نہیں رکھتے اور بہت سے لوگ ڈاکٹروں کے کہہ دینے سے روزہ چھوڑ دیتے ہیں۔

اس بارے میں ہر ڈاکٹر کا قول معتبر نہیں ڈاکٹر بےدین فاسق بلکہ کافر بھی ہوتے ہیں۔ انہیں نہ مسئلہ کا علم ہوتا ہے نہ روزہ کی قیمت جانتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو تو خواہ مخواہ روزہ چھڑوانے میں مزہ آتا ہے اور کافر ڈاکٹر کا قول تو اس بارے میں بالکل ہی معتبر نہیں۔

مریض کو اپنے تجربہ اور اپنی ایمانی صوابدید سے اور کسی ایسے معالج سے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہئے جو مسلمان ہو روزے کی اہمیت سمجھتا ہو اور خوف خدا رکھتا ہے اور مسئلہ شرعیہ سے واقف ہو۔ اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بہت سے لوگ بیماری کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر رکھتے ہی نہیں اور بہت بڑی گنہگاری کا بوجھ لے کر قبر میں چلے جاتے ہیں۔

کھانے پینے کی محبت اور آخرت کی بےفکری کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ یہ ان مریضوں کا بیان ہوا جو عموماً تندرست رہتے ہیں اور عارضی طور پر مریض ہوگئے۔

یہ لوگ صحت یاب ہو کر بعد میں قضاء رکھ لیں۔ لیکن ایسا مرد یا عورت جو مستقل مریض ہو جسے روزہ رکھ سکنے کی زندگی بھر امید نہ ہو۔ اور ایسے مرد یا عورت جو بہت بوڑھے ہوں، نہ اب روزہ رکھنے کی طاقت ہے نہ پھر کبھی روزہ رکھ سکنے کی امید ہے تو یہ لوگ روزوں کے بجائے فدیہ دیں۔ لیکن اگر کبھی بعد میں روزہ رکھنے کے قابل ہوگئے تو روزہ رکھنا فرض ہوگا اور فدیہ جو دیا ہے نفلی صدقہ ہوجائے گا۔

کس طرح کے مسافر کو رخصت ہے جس طرح کہ ہر مریض کو روزہ چھوڑ نے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح ہر مسافر کو بھی روزہ چھوڑ نے کی اجازت نہیں۔

رمضان المبارک کا روزہ بعد میں قضا رکھنے کی نیت سے اس مسافر کو روزہ نہ رکھنا جائز ہے جو مسافت قصر کے ارادہ سے اپنے شہر یا بستی سے نکلا ہو۔ جب تک سفر میں رہے گا مرد ہو یا عورت اسے رمضان کا روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔

جب گھر آجائے تو روزوں کی قضا کرلے۔ ہاں اگر سفر میں کسی جگہ پر پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلی تو اب شرعاً مسافت کے حکم میں نہیں رہا۔ ان دنوں میں رمضان المبارک ہو تو روزہ رکھنا فرض ہوگا اور نماز میں قصر کرنا جائز نہ ہوگا۔ مسافر قصر 48 میل ہے اتنی مسافت کے لیے خواہ پیدل سفر کرے یا بس سے یا ہوائی جہاز سے شرعی مسافر مانا جائے گا۔

وہ نمازوں میں قصر بھی کرے اور اسے یہ بھی جائز ہے کہ رمضان شریف کے روزے نہ رکھے اور بعد میں گھر آجائے تو چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا رکھ لے۔

جو شخص مسافت قصر سے کم سفر کے لیے گیا ہو اسے روزہ چھوڑ ناجائز نہیں ہے۔ شرعی مسافر کو سفر میں روزہ چھوڑ نے کی اجازت تو ہے لیکن رمضان میں روزہ رکھ لینا بہتر ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اول تو رمضان کی برکت اور نورانیت سے محرومی نہ ہوگی۔ دوسرے سب مسلمانوں کے ساتھ مل کر روزہ رکھنے میں آسانی ہوگی اور بعد میں تنہا روزہ رکھنا مشکل ہے۔

فدیہ کے مسائل

جو لوگ تندرست ہو کر روزہ رکھنے پر قادر ہوسکتے ہیں ان کے لیے روزہ کا فدیہ نہیں ہے، بلکہ قضا لازم ہے، البتہ ایسا بوڑھا شخص جس کے تندرست ہونے کی کوئی امید نہ ہو تو وہ فدیہ دے سکتا ہے

٭اگر کوئی شخص شوگر کا مریض ہو اور روزہ رکھنا اس کے لیے دشوار ہو تو وہ روزہ نہ رکھ کر اس کا فدیہ دے سکتا ہے ٭ایک روزہ کا فدیہ صدقۃ الفطر کی مقدار ہے

٭کوئی شخص دوسرے کی قضاء اپنی طرف سے نہیں رکھ سکتاہے بلکہ جس پر روزہ فرض ہے اسی پر قضاء لازم ہے اگر وہ ایسا معذورہوگیا کہ اب اسے مرتے دم تک روزہ کی طاقت نہ ہوگی تو اس پر روزہ کا فدیہ دینا ہوگا

٭جس شخص پر فدیہ ہے وہ روزانہ بھی فدیہ دے سکتا ہے اور پورے رمضان کا فدیہ ایک ساتھ رمضان کے ختم پر یا رمضان کے شروع میں دے سکتا ہے اس پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے ۔حاملہ اور مرضعہ کے لیے رخصت

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسافر کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے اور اس کی نماز کا ایک حصہ معاف فرما دیا ہے اور دودھ پلانے والی عورت اور حمل والی عورت کو بھی رمضان میں روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے کہ وہ رمضان المبارک میں روزہ نہ رکھیں اور بعد میں ان روزوں کی قضا رکھ لیں 

جس حاملہ کو روزہ رکھنے سے تکلیف ہوتی ہو یا زیادہ تکلیف میں پڑجانے یا اپنی جان یا بچے کی جان کا اندیشہ ہو تو وہ عورت رمضان کے روزے چھوڑ کر بعد میں رکھ لے اسی طرح دودھ پلانے والی عورت کے لیے بھی اسی وقت رمضان المبارک کا روزہ چھوڑنا جائز ہے جبکہ روزہ رکھنے سے بچے کو دودھ سے محرومی ہوتی ہو اور بچہ دودھ پلانے والی کے دودھ کے علاوہ دوسری غذا کے ذریعہ گزارہ نہ کرسکتا ہو تو روزہ چھوڑ سکتی ہے

اور اگر خریدا ہوا دودھ پلانے سے یا چاول وغیرہ کھانے سے بچہ کی غذا کا کام چل سکتا ہے تو پھر دودھ پلانے والی کو رمضان المبارک کے روزے چھوڑ نے کی اجازت نہیں ہے اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ جب بچہ کی عمر دو سال ہوجائے تو اس کو عورت کا دودھ پلانا ہی منع ہے۔ جب بچہ کی عمر دو سال ہوجائے اس کے دودھ پلانے کے لیے روزہ چھوڑ نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

حیض اور نفاس والی عورت کے لیے رخصت جس عورت کو رمضان المبارک میں ماہواری کے دن آجائیں یا ولادت کے بعد کا خون آ رہا ہو جسے نفاس کہتے ہیں یہ دونوں عورتیں رمضان المبارک کے روزے نہ رکھیں اگرچہ روزہ رکھنے کی طاقت ہو لیکن بعد میں ان روزوں کی قضا رکھ لیں۔ اور حیض و نفاس کے زمانہ کی نمازیں بالکل معاف ہیں۔

ان دونوں پر ان کی قضا نہیں۔اللہ نے دین میں آسانی رکھی ہے اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی بات کا حکم نہیں دیا جو بندوں کی طاقت سے باہر ہو قرآن میں کئی جگہ اس کا ذکر ہے آیت بالا میں مریض اور مسافر کا حکم بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ “اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے اور تمہارے ساتھ مشقت کا ارادہ نہیں فرماتا”۔

نمازوں کے بارے میں بھی مریض کے لیے آسانی ہے کہ کھڑے ہو کر لیٹ کر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ یا اشارہ کے ساتھ اپنی طاقت کے مطابق جس طرح ممکن ہو نماز پڑھ لے زکوٰۃ میں بھی مطلق مال ہونے پر زکوٰۃ فرض نہیں کی گئی بلکہ صاحب نصاب پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے

اور اس کی ادائیگی اس وقت فرض ہے جب نصاب پر چاند کے حساب سے ایک سال گزر جائے اور پھر زکوٰۃ میں جو کچھ واجب ہوتا ہے وہ بہت قلیل ہے۔ یعنی کل مال کا چالیسواں حصہ دینا واجب ہوتا ہے۔

اسی طرح حج ہر شخص پر فرض نہیں بلکہ جو شخص مکہ معظمہ تک سواری پر آنے جانے کی طاقت رکھتا ہو اور ساتھ ہی سفر کا خرچ بھی ہو اور بال بچوں کا ضروری خرچہ پیچھے چھوڑ جانے کے لیے موجود ہو تب حج فرض ہوتا ہے اور وہ بھی زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ روزہ رمضان فرض ہونے کے باو جود مریض اور مسافر اور شیخ فانی حاملہ اور دودھ پلانے والی کے لیے جو آسانیاں ہیں وہ اوپر ابھی بیان ہوچکیں دیگر احکام میں جو آسانیاں ہیں وہ بھی عام طور سے معلوم اور مشہور ہیں۔

اور لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ میں تسہیل اور تیسیر کی علت بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حالت سفر اور مرض میں روزہ چھوڑ کر بعد میں قضا رکھنے کی جو آسانی دی ہے یہ اس لیے ہے کہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ یہ آسانی اللہ  تعالیٰ کی نعمت ہے اس نعمت کی قدر دانی کرو

تحریر:  محمد عامل ذاکر مفتاحی

جنرل سیکرٹری آل انڈیا تعمیر ملت فاؤنڈیشن ممبئی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *