حضرت اُم حکیم بنت حارث رضی اللہ عنہا

Spread the love

حضرت اُم حکیم بنت حارث رضی اللہ عنہا

حافظ شہنواز احمد سلفی

مکّہ فتح ہو چُکا ہے اور حرمِ کعبہ بُتوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ اللہ کے نبیﷺ نے ملتزم کی چوکھٹ پکڑ کر اعلان فرمایا ،’’ آج تم سے کوئی بازپُرس نہیں ہوگی، جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘ ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور جبیر بن مطعم سمیت قریش کے تمام سرداروں کو امان مل چُکی ہے۔ نبی کریم ﷺ بیتُ اللہ کی دیوار سے ٹیک لگائے تشریف فرما ہیں۔

آس پاس صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی موجود ہیں ۔ بابِ بنو شیبہ سے ایک خاتون اپنے کم سن بچّوں کے ساتھ حرم میں داخل ہوتی ہیں اور بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضری کی استدعا کرتی ہیں۔ آج عام معافی کا دن ہے اور یہ خاتون آج صبح اسلام قبول کر چُکی ہیں۔

حضور رسالت مآبﷺ نہایت عزّت و احترام کے ساتھ قریش کی اس معزّز خاتون کا استقبال کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،’’کہو ،اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا ! کیسے آنا ہوا ؟ کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘

لبِ اقدس ﷺ سے خلوص کے پھول فضا میں بِکھر جاتے ہیں۔ چھوٹے بچّوں کی جانب شفقت سے دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں،’’ اِن بچّوں کا باپ کہاں ہے؟‘‘ اُمّ حکیم رضی اللہ عنہا نہایت شرمندگی کے ساتھ زمین کی طرف نظریں جُھکائے، لرزتی آواز میں عرض کرتی ہیں۔

’’ یارسول اللہ ﷺ! وہ تو یمن کی جانب بھاگ گیا ہے۔‘‘

دراصل، اُن کا شوہر اُن نو مجرمین میں شامل تھا، جنہوں نے اللہ اور اُس کے نبیﷺ کی دشمنی میں جبر و استبداد، ظلم و وحشت کی تمام حدود پار کر لی تھیں اور انہی گھناؤنے جرائم کی طویل فہرست کی بنا پر اُن کے قتل کی اجازت دی گئی تھی۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ  کو بھی امان مل گئی حضرت اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا نے ڈرتے ڈرتے پھر عرض کیا،’’ یارسول اللہﷺ، میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان! کیا میرے شوہر کو بھی امان مل سکتی ہے؟‘‘

اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا کی اس درخواست پر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سنجیدہ چہروں کے ساتھ حضورﷺ کے جواب کے منتظر تھے۔

نبیٔ رحمتﷺ نے نو مسلم خاتون کی التجا سُنی، معصوم بچّوں کی جانب شفقت و محبّت بَھری نگاہوں سے دیکھا۔ پھر اللہ کے محبوبﷺ کا رُخِ انور دِل آویز تبسّم سے منوّر ہوا اور رحمتُ اللعالمینﷺ کے فیوض و برکات کا دریا جوش میں آگیا۔

آپﷺ نے اپنا سَرِمبارک اوپر اُٹھایا، تو سامنے حضرت اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا کی التجا بَھری نظروں میں امید و یاس کے سائے تھے۔ معصوم بچّے اپنے مستقبل سے بے خبر حضورﷺ کے پُرنور چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے اور ایک بار پھر فضا پاکیزہ الفاظ کی خوش بُو سے معطّر ہو گئی۔

ارشاد ہوا،’’اے اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا! ہم نے تمہارے شوہر، عکرمہ بن ابی جہل کو بھی امان دی۔‘‘ اللہ اکبر…اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے بدترین دشمن ابوجہل کا وہ بیٹا، جو باپ سے بھی بڑھ کر مسلمانوں کے خون کا پیاسا تھا۔ آج رحمتِ نبویﷺ کی بدولت امان پا گیا۔

سلسلۂ نسب حضرت اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا کا قریش کے نام وَر خاندان، بنو مخزوم سے تعلق تھا۔

یہ ابوجہل کے حقیقی بھائی، حارث بن ہشام کی بیٹی اور عکرمہ بن ابوجہل کی بیوی تھیں۔ یوں ابوجہل سے بھتیجی اور بہو کا رشتہ تھا۔

اُن کی والدہ، فاطمہ حضرت خالد بن ولید کی حقیقی بہن تھیں۔ اِس طرح اُن کی بھانجی ہوئیں۔

سلسلۂ نسب اِس طرح ہے:

حضرت اُمّ ِ حکیمؓ بنتِ حارث بن ہشام بن مغیرہ بن عبداللہ بن عُمر بن مخزوم۔ والدہ کا نام فاطمہ بنتِ ولید بن مغیرہ بن عبداللہ بن عُمر بنا مخزوم ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ’’ فتحِ مکّہ کے دن حضرت اُمّ ِ حکیم  رضی اللہ عنہا اور اُن کی والدہ، فاطمہ رضی اللہ عنہا دونوں اسلام لائیں اور خدمتِ اقدسﷺ میں حاضر ہو کر شرفِ بیعت حاصل کیا۔‘‘ (طبقات ابنِ سعد، جلد8 ، صفحہ 400)

ملک الموت چند لمحات کی دُوری پرمکّہ فتح ہو چُکا تھا۔ قریش کے تمام سرداروں نے آں حضرتﷺ کے ہاتھوں پر بیعت کرلی تھی۔ ضدّی، متکبّر اور انتقام کے مارے عکرمہ نے جب یہ صُورتِ حال دیکھی، تو جدّہ کے ساحل سے ایک کشتی میں سوار ہو کر یمن کی جانب بھاگ نکلا۔

اُس کی کشتی سمندر کا پُرسکون سینہ چیرتی ہوئی اپنے سفر پر رواں دواں تھی کہ اچانک سمندری طوفان کی زد میں آکر ہچکولے کھانے لگی۔ جب بے پناہ کوششوں کے بعد بھی صُورتِ حال بہتر نہ ہوئی، تو ملاحوں کو یقین ہوگیا کہ اب کشتی کو ڈوبنے سے بچانا ممکن نہیں۔ اُنھوں نے مسافروں سے کہا کہ’’ اب صرف اللہ ہی اِسے ڈوبنے سے بچا سکتا ہے۔

لہٰذا سب اللہ کی تسبیح پڑھو اور اُس سے مدد طلب کرو۔‘‘ عکرمہ سمیت تمام مسافر اِس ناگہانی سمندری آفت سے بہت زیادہ خوف زدہ تھے۔ سمندر کی بے رحم بپھری موجوں میں پھنس کر کشتی کٹی پتنگ کی طرح ہچکولے کھا رہی تھی۔

گویا ملک الموت چند لمحات کی دُوری پر تھا۔ کفّارِ مکّہ کا بہادر ترین کمانڈر، غزوۂ اُحد میں خالد بن ولید کے ساتھ مل کر ہاری بازی پلٹ دینے والا خون خوار جنگ جُو اور دہشت کی علامت، عکرمہ سمندر کی بے تاب لہروں سے دہشت زدہ ہو کر کشتی کے ایک کونے میں دبکا ایک اللہ کو پُکار رہا تھا’’اللہ کی قسم! اگر سمندر میں ایک اللہ کے سِوا کوئی نجات نہیں دے سکتا، تو خشکی میں بھی اُس کے سِوا کوئی نجات دہندہ نہیں۔ اے اللہ! اگر مَیں یہاں سے صحیح سلامت نکل گیا، تو تیرے رسولﷺ کے ہاتھوں پر بیعت کرکے مسلمان ہو جائوں گا۔‘‘ (تفسیر ابنِ کثیر 464/3)

اللہ کو اس شخص سے اپنے دین کا کام لینا تھا، چناں چہ حکمِ الہٰی ہوا اور ایک بڑی لہر نے کشتی کو طوفانی بھنور سے باہر پھینک دیا، جہاں پُرسکون سمندر
اُس کا منتظر تھا۔شوہر کو جہنّم کی آگ سے بچالیا حضرت اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہ کو بارگاہِ رسالتﷺ سے امان کا پروانہ مل چُکا تھا۔ چناں چہ وہ شوہر کو لانےکے لیے فوری طور پر یمن روانہ ہو گئیں۔

اللہ تعالیٰ نے عکرمہ کے دل میں عشقِ مصطفیٰﷺ کی شمع پہلے ہی روشن فرما دی تھی۔ جب اہلیہ نے امان کی خوش خبری سنائی، تو بے اختیار زبان سے نکلا،’’ کیا واقعی رسول اللہﷺ مجھے معاف کردیں گے؟‘‘ ۔

اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کفّارِ مکّہ کا یہ جنگ جُو سردار جب خدمتِ اقدسﷺ میں حاضر ہوا، تو آں حضرتﷺ نے نہایت گرم جوشی سے اُس کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا، ’’مرحبا یاالراکب المہاجر‘‘ یعنی’’پردیسی سوار خوش آمدید۔‘‘

یوں عکرمہ نے مشرف بہ اسلام ہو کر نہ صرف اپنے تمام پچھلے گناہوں کا کفّارہ ادا کیا، بلکہ آگے چل کر غزوات میں نہایت شجاعت، بہادری اور پامردی سے کفّار کا مقابلہ کیا۔حضرت عکرمہ حضرت اُم حکیم بنت حارث رضی اللہ عنہ کی شہادت حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اپنی باقی زندگی جہاد کے لیے وقف کردی تھی۔ شام اور روم کے جنگی محاذوں پر دونوں میاں بیوی مصروفِ جہاد رہے۔

شام میں دریائے یرموک کے کنارے رومیوں کی بڑی فوج کے خلاف لڑا جانے والا خون ریز معرکہ اپنے عروج پر تھا۔ غازیانِ اسلام شیروں کی مانند رومیوں کی صفوں میں گھس کر اُنہیں تہس نہس کر رہے تھے۔ مجاہدین کا شوقِ شہادت آخری حد کو چُھو رہا تھا۔ اور پھر جلد ہی وہ لمحہ بھی آگیا کہ جب رومی فوج اپنے ایک لاکھ، تیس ہزار فوجیوں کی بکھری لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلی اور مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب ہوئی۔

سرزمینِ یرموک کے اِس میدانِ جنگ میں تین مجاہد شدید زخمی حالت میں ایک دوسرے کے قریب پڑے تھے۔ اُن میں سے ایک حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل، دوسرے حارث رضی اللہ عنہ  بن ہشام اور تیسرے عیاش رضی اللہ عنہ بن ابی ربیعہ تھے۔ مسلمان زخمیوں کی طبّی امداد کا کام شروع ہو چُکا تھا۔

ایک شخص نے پانی کا پیالہ اُن کی طرف بڑھایا، تو عکرمہ رضی اللہ عنہ نے حارث رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا۔ پیالہ حارث رضی اللہ عنہ کے منہ کی طرف بڑھا، تو اُنہوں نے عیاش حضرت اُم حکیم بنت حارث رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا کہ پہلے اُنہیں پلادو۔ پیالہ عیاش رضی اللہ عنہ کی جانب بڑھایا گیا، تو اُنہوں نے اشارہ کیا’’ نہیں، پہلے عکرمہ رضی اللہ عنہ کو پلاؤ۔‘‘ پانی پلانے والا عکرمہ رضی اللہ عنہ کی جانب بڑھا، تو وہ جامِ شہادت نوش کر چُکے تھے۔

وہ حارث رضی اللہ عنہ کی طرف پلٹا، تو اُن کی روح بھی پرواز کر چُکی تھی۔ جلدی سے پانی کا پیالا عیاش رضی اللہ عنہ کی جانب بڑھایا ،لیکن وہ بھی جنّت جا چُکے تھے۔

کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے جنگِ یرموک نہیں، اجنادین کے معرکے میں داد ِشجاعت دیتے ہوئے شہادت پائی، تاہم بیش تر نے اُن کی شہادت کا واقعہ جنگِ یرموک ہی کے ذیل میں تحریر کیا ہے۔

پیرہنِ عروسی میں جہاد حضرت اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا کو اپنے شوہر، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے بے حد محبّت تھی۔ اسی محبّت کی بنا پر وہ اُنھیں معافی دلوانے کے لیے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، پھر شوہر کی تلاش میں یمن تک جا پہنچیں

اور اُنہیں ساتھ لاکر حضورﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اِس طرح اُنہوں نے اپنے شوہر کو دوزخ کی آگ کا ایندھن بننے سے بچالیا۔ حضرت اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہااپنے شوہر کی شہادت کے بعد دیارِ غیر میں اکیلی رہ گئی تھیں۔

اُنہوں نے عدّت کے دن شام ہی میں گزارے ۔ بعد ازاں، کئی صحابۂ کرام نے اُنھیں رشتے کے پیغامات بھجوائے، تاہم اُنہوں نے اپنے لیے بلند پایہ صحابی، حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن سعید کا انتخاب فرمایا، جو ’’سابقون الاوّلون‘‘ میں سے تھے اور کئی غزوات میں دادِ شجاعت پا چُکے تھے۔ دمشق کے قریب ایک بستی، مرج الصفر میں 400 درہم مہر کے عوض نکاح ہوا۔ یہاں ہر وقت رومیوں کے حملے کا خطرہ تھا۔ رسمِ عروسی کی ادائی کی تیاری ہو رہی تھی۔

حضرت اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر سے کہا کہ’’ نہ جانے کس وقت رومی فوج حملہ کردے، چناں چہ ابھی تھوڑا توقّف کرلیں۔‘‘
اس پر حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’مجھے اِس بات کا یقین ہے کہ آیندہ ہونے والے معرکے میں مجھے ضرور شہادت نصیب ہو گی۔‘‘ چناں چہ ایک پُل کے قریب خیمہ نصب کیا گیا، جو اب ’’قنطرہ اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

دوسرے دن ابھی لوگ دعوتِ ولیمہ سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ رومی فوج نے اُس جگہ حملہ کر دیا اور اس لڑائی میں حضرت خالدرضی اللہ عنہ جامِ شہادت نوش کرگئے۔ حضرت اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا اگرچہ عروسی لباس میں تھیں، لیکن بپھری شیرنی کی طرح کھڑی ہوئیں۔

اُس وقت خیمے میں کوئی تلوار یا نیزہ نہیں تھا۔ اُنھوں نے چاروں جانب دیکھا، جب کچھ نظر نہ آیا، تو خیمے کی نوکیلی چوب اُکھاڑا کر میدان میں نکل کھڑی ہوئیں۔
اور پھر دمشق کے نیلے آسمان سے آگ برساتے سورج نے یہ محیّرالعقول منظر دیکھا کہ ایک دن کی دلہن نے جذبۂ جہاد سے سرشار ہو کر شجاعت و بہادری کا ناقابلِ یقین کارنامہ سَرانجام دیتے ہوئے سات رومیوں کو واصلِ جہنّم کر دیا۔

وفات و تدفین :

حضرت اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہا کی بقیہ زندگی وفات، تدفین اور اولاد سے متعلق مستند معلومات دست یاب نہیں۔

حاصلِ مطالعہ حضرت اُمّ ِ حکیم رضی اللہ عنہاکے اِس ایمان افروز تذکرے میں یہ درس پنہاں ہے کہ ایک مسلمان عورت اپنے شوہر کو جہنّم کی آگ، اپنے خاندان کو تباہی اور اپنا سہاگ بچانے کے لیے سخت سے سخت حالات کا بھی مقابلہ کرسکتی ہے۔

مسلمان عورت زندگی کے ہر شعبے میں مرد کے شانہ بشانہ مصروفِ عمل رہتی ہے، یہاں تک کہ بوقتِ ضرورت میدانِ جنگ میں بھی شجاعت و بہادری کے کارہائے نمایاں سَرانجام دیتی ہے۔ گہوارے سے لحد تک جو آزادی، تحفّظ، عزّت و
احترام اور حقوق اسلام نے عورت کو دیے ہیں، کیا دنیا کے کسی اور مذہب میں ان کی جھلک بھی نظر آتی ہے؟

حافظ شہنواز احمد سلفی

shahnawazahmad02345@gmail.com

ان سب پر ایک نظر :

غزوہ بدر اشاعت اسلام کا پیش خیمہ

سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عہد خلافت اور شہادت

میدان عرفات میں حج بھی اور محشر کی جھلک بھی 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *