قدر و قیمت
قدر و قیمت
مزمل حسین علیمی آسامی
ڈائریکٹر: علیمی اکیڈمی آسام (AAA)
”لوگ ہر چیز کی قیمت جانتے ہیں
لیکن کسی چیز کی قدر نہیں“
(آسکر وائلڈ)
دنیا ایک اجنبی سرزمین ہے۔ جہاں ہم سب مسافر ہیں۔اور اس مسافر خانے کو ایک روز الوداع کہ کر ایک دن ہم سب کو خدا کے حضور پیش ہونا ہے۔
موت ایک حقیقت ہے جس کی لذت سے ہر نفس کو آشنا ہونا ہے ۔ رب تعالیٰ نے بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے ہمیں بہت سی نعمتیں دے کر ہم پر آسانیاں پیدا کیا ہے۔
لیکن ہم ان نعمتوں پر شکرگزار ہوتے اور نہ ہی ان کی قدر کرتے ہیں۔ ہر وہ شئی جسکی قدر نہیں ہوتی ہے وہ ضائع ہوجاتی ہے۔ اس لیے چیزوں کی قدر کریں اور انہیں اہمیت دینا سیکھئے۔
ہماری آرزو و کوشش ہوتی ہے کہ جو چیز ہمارے پاس نہیں ہے وہ ہمیں مل جائے، اور اس چیز کی حصول یابی کے لیے خدا سے التجائیں کرنا بھی ہماری فطرت میں داخل ہوتی ہے۔
لیکن خدا نے پہلے سے ہی ہمیں بہت کچھ دی رکھی ہے، جس کی ہم قدر نہیں کرتے۔
جو لوگ رب کی دی گئی نعمتوں پر شکر گزار نہیں ہوتے اور ان کی قدر نہیں کرتے ہیں تو وہ نعمتیں ان سے چھین لی جاتی ہیں۔
مثلاً بعض ایسے لوگ جو ہماری زندگی میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں جب وہ باحیات ہوتے تو ہم ان کی قدر نہیں کرتے
لیکن جب وہ ہم سے رخصت ہوجاتے ہیں، تب ہمیں ان کے فوت ہونے کا خوب پچھتاوا ہوتا ہے۔ ماضی گزر گیا ظاہر ہے کہ وہ آنے والا نہیں اور مستقبل قابل اعتماد نہیں۔
اس لیے زمانۂ حال کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ جو اہم چیزیں اور جو اہم لوگ ہمیں زمانہ حال میں دستیاب ہیں، ان کی قدر کی جاۓ۔
زندگی کے اہم لوگوں میں مثلاً والدین، اساتذہ، علما و مشائخ احباب و اقربا ہیں جو کئ اعتبار سے ہماری زندگی کے نظام کا حصہ ہیں، لہذا ان کی بروقت قدر کرنا بھی خداۓ لم یزل کی بہترین توفیق ہے۔
علما و مشائخ
ہمارے علما و مشائخ ہمیں گمراہیت کی دل دل سے نکال کر راہ راست کا راہی بنانے میں ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔
عصر حاضر کے فتنوں سے بچاتے اور مسائل شرعیہ سے روشناس کراتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ یہ لوگ دین اسلام کے تحفظ اور اس کے دفاع کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہتے ہیں۔
آج المیہ یہ ہے کہ جو علماے کرام باحیات ہیں ان کی بارگاہ میں حاضر ہونے، خیریت طلبی اور اکتسابِ فیض کرنے کی توفیق تو ملتی نہیں مگر جب وہ ہم سے رخصت ہوجاتے ہیں تب ہمیں سوشل میں ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ ان کی وفات کا سب سے زیادہ غم ہمیں ہی ہے۔
پھر ان کی تعریف و توصیف کے خوب پل باندھنے سے نہیں تھکتے۔ یہ کتنی بدنصیبی اور بے توفیقی کی بات ہے۔
ایک فقیر نے ایک مال دار آدمی سے کہا کہ اگر مجھے تمہارے گھر میں موت آجائے، تو تم میرے ساتھ کیا سلوک کرو گے؟
مال دار شخص نے جواب دیا کہ تمہیں کفن دے کر دفنا دوں گا
فقیر بولا ابھی میں زندہ ہوں مجھے پہننے کے لیے کپڑے دے دو اور جب مر جاؤں تو بغیر کفن کے دفنا دینا۔
لہذا اس مختصر مکالمے کے عکس پر جھانک کر دیکھیے اور غور کیجیے کہ ہم ذہنی طور پر کسی قدر بے حس اور بد ذوق کے حامل واقع ہوۓ ہیں۔
چنانچہ جو باحیات ہیں ان کی قدر کریں، ان کی خیریت لیں، ان سے رابطے رکھیں، ضرورت کے مطابق ان کی امداد کریں اور انہیں تحائف بھی بھیجیں۔
چناں چہ مزارات پر حاضری کے ساتھ ساتھ جو باحیات علما ہیں ان کی بارگاہوں میں بھی بہ کثرت حاضری دیں کیونکہ یہی لوگ تو روۓ زمین پر ان صاحبان مزار کی یادگار ہیں اور ہمارے قائد و رہ نما بھی۔
اساتذہ و والدین
اس فانی دنیا میں اساتذہ و والدین کا نعم البدل شاید ہی کوئی ہوں، جنکی پوری زندگی ہمارے روشن مستقبل کے لیے صرف ہوجاتی ہے، انکی خواہش ہماری کام یابی و کامرانی ہے۔
دنیا ایک بڑی کتاب ہے۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہم ہر روز یہاں کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ مگر جتنا منظم طور پر ہم اساتذہ سے سیکھتے ہیں اتنا کہیں سے نہیں۔
اساتذہ ہماری شخصی تعمیر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو ہماری شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے میں اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔
یہ وہ گمنام لوگ ہیں جو پردے کے پیچھے انتھک محنت کرتے ہیں، اور پردے پر اپنے شاگردوں کو چمکتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں سچ کہا ہے کسی نے ”استاذ بادشاہ نہیں ہوتا مگر بادشاہ بناتا ہے“ والدین کا مقام بھی زندگی میں کچھ کم نہیں بلکہ آج ہم جو کچھ بھی ہیں وہ انہیں والدین کے توسط سے ہیں اور انہیں کی توجہات سے ہیں۔ اگر زندگی جینے کا سلیقہ ہمیں اساتذہ سکھاتے ہیں تو ان اساتذہ تک ہمیں پہنچانے میں بھی یہی والدین ذریعہ بنتے ہیں۔
یہ اپنے آرم و آسائش کوتج کر ہماری بلندیوں کے خواب اپنی آنکھوں میں سجاتے ہیں۔
لہذا انہیں خوش رکھیں، ان کی خدمت کریں ان سے دعائیں لیں تبھی آپ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔