انیس سو پچیس سے دو ہزار پچیس تک چوک کہاں ہو رہی ہے
تحریر :محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف چئیرمین : تحریک علمائے بندیل کھنڈ رکن: روشن مستقبل دہلی انیس سو پچیس سے دو ہزار پچیس تک چوک کہاں ہو رہی ہے 1925 سے 2025 تک، چوک کہاں ہو رہی ہے
انیس سو پچیس سے دو ہزار پچیس تک چوک کہاں ہو رہی ہے
کہتے ہیں کہ تاریخ خود کو دوہراتی ہے، قریب سو سال کا عرصہ گزر گیا اور انڈین مسلمان اسی راہ پر کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے، آج کے حالات اور سو سال قبل کے حالات میں سر مو فرق نہیں ہے
بلکہ زیادتی ہی کہ اس وقت انگریزوں کا دباؤ تھا، اب تو ہر ممکن حکومتی امداد بھی حاصل ہے، گزشتہ حالات کو سمجھنے کے لیے پہلے آپ کے سامنے مرادآباد کانفرنس 1925 میں حضور حجت الاسلام علیہ الرحمہ کے خطبہ صدارت کی چند سطور پیش کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
آپ فرماتے ہیں” موجودہ زمانہ میں ہمسایہ قوم نے مسلم آزاری کی جو پیہم کوششیں جاری کر رکھی ہیں ان میں” شدھی “کا فتنہ سب سے اہم ہے شدھی مسلمانوں کو مرتد کرنے اور معاذ اللہ مشرک بنانے کا نام ہے
جس کے لیے ہندو دو برس سے سالہا سال کی منظم کوششوں اور تیاریوں کے بعد پوری قوت کے ساتھ ٹوٹ پڑے ہیں، ہر طبقہ کے ہندو اس میں سرگرم ہیں۔والیان ریاست اور راجگان ان سبھاؤں میں شرکت کرتے رہے ہیں، مدتوں کی پر اطمینان کوششوں سے وہ ہندوستان بھر میں ایک نظم قائم کر چکے ہیں،گاؤں گاؤں میں سبھائیں قائم ہیں
کثیر التعداد مناظر ین ملک بھر میں دورے کرتے پھر رہے ہیں، جابجا مسلمانوں کو چھیڑنا پریشان کرنا ، جاہلوں اور دیہاتیوں کو بہکانا شاہان اسلام اور بزرگان دین کی شان میں گالیاں دینا، گستاخیاں کرنا اسلام کی توہین کے پوسٹر چھاپنا اوران میں حضرت پروردگار عالم تک کو گالیاں دینا ان کا شیوہ ہے
طمع اور دباؤ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، یہی ان کے دین کی تبلیغ کا ذریعہ ہے “۔
ذرا غور فرمائیے اور اوپر کی سطور کو دوبارہ پڑھیے اور دیکھیے کیا آج سو سال بعد بھی کچھ بدلا ہے، علی الإعلان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخیاں کی جارہی ہیں، مساجد ڈھائی جارہی ہیں
قبروں کو توڑا جارہا ہے، قرآن پر حملے ہو رہے ہیں،کہیں لالچ دے کر غریب لوگوں کو ہندو بنایا جارہا ہے تو کہیں ڈرا دھمکا کر مسلمانوں کا رہنا دوبھر کیا جارہا ہے گویا سو سال میں کچھ بھی نہیں بدلا، ہم کربلا کے وہ مسافر ہیں جو چلتے آگے ہیں مگر پہنچتے پیچھے ہیں ۔
ہماری تنظیمیں کامیاب کیوں نہیں؟ آج ہمارا یہ حال ہماری جمعیت نہ ہونے کی بنا پر ہے، اور جمعیت کیوں نہیں ہے یہ حضور حجت الاسلام کی زبانی ہی سنیے آپ فرماتے ہیں۔
۔ “ہمارے سنی حضرات کے دل میں جب بھی اتفاق کی امنگیں پیدا ہوئیں تو انہیں اپنوں سے پہلے مخالف یاد آئے جو رات دن اسلام کی بیخ کنی کے لیے بے چین ہیں اور سنیوں کی جماعت پر طرح طرح کے حملے کر کے اپنی تعداد بڑھانے کے لیے مضطر اور مجبور ہیں ۔
ہمارے برادران کی اس روش نے اتحاد واتفاق کی تحریک کو بھی کام یاب نہ ہونے دیا، کیوں کہ اگر وہ فرقے اپنے دلوں میں اتنی گنجائش رکھتے کہ سنیوں سے مل سکیں تو علاحدہ ڈیڑھ اینٹ کی تعمیر کر کے نیا فرقہ ہی کیوں بناتے، اور مسلمانوں کے خلاف ایک جماعت کیوں بناتے؟۔
وہ تو حقیقتا مل ہی نہیں سکتے ۔اور صورۃ مل بھی جائیں تو ملنا کسی مطلب سے ہوتا ہے جس کے حصول کے لیے ہردم تیش زنی جاری رہتی ہے اور اس کا انجام جدال و فساد ہی نکلتا ہے “۔
حضور حجت الاسلام علیہ الرحمہ نے ہمیں کتنا بہتر راستہ بتایا مگر ہم سنتے ہی کب ہیں آپ آگے فرماتے ہیں” ہمارے سنی جو بفضلہ تعالی تعداد میں تمام فرقوں کے مجموعہ سے قریب قریب آٹھ گنا زیادہ ہیں ، ان میں نہ نظم ہے نہ ارتباط، نہ کبھی ان کی کوئی آل انڈیا کانفرنس قائم ہوئی نہ اپنی شیرازہ بندی کا خیال آیا۔ انہیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ہمت ہی نہیں
اگر کبھی اپنی درستی کا خیال آیا تو اس سے پہلے اغیار پر نظرگئی اور یہ سمجھا کہ وہ شامل نہ ہوئے تو ہم کچھ نہ کرسکیں گے، باوجودیکہ اگر صرف یہی باہم متحد ہو جائیں اور چھ کروڑ کی جماعت میں نظم قائم ہو تو انہیں(سنیوں) ان کی (فقہائے باطلہ ) کی کچھ حاجت ہی نہیں
بلکہ اس وقت ان کی شوکت دوسرے فرقوں کو ان کی طرف مائل ہونے پر مجبور کرے گی اور آپسی اختلافات کی مصیبت سے بچ کر اپنے اتحاد و انتظام میں کامیاب ہوسکیں گے”۔
ہمارے زمانے میں سنیوں کی تعداد ابھی پندرہ کروڑ سے کسی بھی حالت میں کم نہ ہوگی اگر ہم اب بھی اپنوں میں اتحاد کی راہیں ہموار کریں، فروعی مسائل میں افراط و تفریط سے بچتے ہوے فکر رضا کا معتدل رویہ اپنائیں تو ہم اب بھی کام یاب ہو سکتے ہیں
ضرورت ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ہے جتنا ہم اغیار سے اتحاد پر زور دیتے ہیں اگر اس سے آدھا سنیوں کے اتحاد پر زور دیں تو شاید ہم کام یاب ہو جائیں ۔
کلمہ گو فرقوں سے اتحاد صرف دھوکا ہے ۔
آج اس پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ مشکل وقت ہے ایک ساتھ مل کر کام کریں، لیکن ہم جب بھی اغیار سے ملے ہمیں کیا ملا؟۔
یہ تو سرکاری لوگ ہیں ان کا دین تو سرکار کی ہاں میں ہاں ملانا ہی ہے، انھوں نے کب مسلمانوں کا بھلا چاہا، ایک طرف تحریک ندوہ کے لیے اتحاد کی کوششیں کر رہے تھے تو دوسری طرف حرمین شریفین میں سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا کو مشرک، بدعتی قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوے تھے
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ آزادی سے قبل کی بات تھی تو آزادی کے بعد بھی ان کی کوششوں میں کمی نہ آئی۔
۔ 1980 میں سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا کے ترجمہ قرآن “کنز الایمان” پر دیابنہ وہابیہ کے فریب کے ذریعے پابندی عائد کرائی گئی، سنی علما کی کتب پر پابندی عائد کرائی گئی
حج پر جانے والے سنی علماے کرام کے خلاف ہمیشہ محاذ آرائی کی، بابری مسجد ہو یا مسلم پرسنل لا ہر ایک چیز میں مداخلت کی، قبضہ کیا، سنی مساجد کی کمیٹیوں میں ہیر پھیر کرکے ان کی تولیت و صدارت پر قابض ہوے ۔
انڈیا میں اتحاد کا نعرہ دینے والے ان فرقوں کو ہم پچھلے 74 سالوں سے دیکھ رہے ہیں، ان سے سنیوں کا کبھی فائدہ نہ ہوا، مسلمانوں کے وقف کی آمدنی سے اپنے مذہب کو فروغ دیا
ہمارے خلاف مشرکین کا ساتھ دیا اور تمام مسلمانوں کی طرف سے دلالی کرتے ہوئے حکومت سے خوب فائدہ اٹھایا، جب صورت حال یہ ہے تو ہم انکے ساتھ مل کر اپنا دین اور اپنی دنیا کیوں تباہ کریں، سنیوں کو وہابی، دیوبندی، قادیانی، رافضی غیر مقلدین وغیرہ سے دور رہ کر ہی کام کرنا چاہیے، گمراہ فرقوں سے اتحاد صرف چھلاوہ ہے نہ کل کچھ حاصل ہوا تھا نہ آج حاصل ہوگا ۔
حضور حجت الاسلام فرماتے ہیں “شیعہ با ہمتفق ہو جاتے ہیں اور ان کی آل انڈیا کانفرنسیں کام کرتی ہیں اور وہ اپنا شیرازہ درست کر لیتے ہیں اور اس وقت سنی یا کسی اور فرقہ کی طرف نظر بھی نہیں کرتے ، غیر مقلد متحد ہوتے ہیں
ان کی آل انڈیا اہل حدیث کانفرنسیں قائم ہوتی ہیں وہ آپس میں نظم وارتباط کے رشتے مضبوط کرتے ہیں اور دوسرے کسی گروہ کی پرواہ بھی نہیں کرتے ، دیو بندی، وہابی اپنی جماعتیں بنا کر اپنا کام کرتے ہیں ۔
قادیانی باہم متحد ہوکر ایک مرکز پر جمع رہتے ہیں، یہ سب اپنے کام میں چست اور اپنے نظام کو استوار کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں کسی کا سہارا نہیں تکتے “۔
اتحاد کے علم برادر کچھ مثالیں پیش کرتے ہیںتاریخ ہند میں کوئی ایک ایسا واقعہ دکھا دے جس سے سنیوں اور فرقہائے باطلہ کے خمیر سے وجود میں آنے والے اتحاد سے سنیوں کو فائدہ ہوا ہو! مجھے یقین ہے کہ تاریخ اس معاملے میں” بانجھ “ہے ۔
کچھ لوگ جواز کے لیے حضور مفتی اعظم کا حضور برہان ملت کو ممبئی بھیجنا بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کو اس کانفرنس کے بعد ان پر یقین ہوتا تو ایسی بہت سی مثالیں ہوتیں، لیکن وہ پہلا اور آخری دورہ ثابت ہوا۔
لہذا اسے بطور دلیل پیش کرنا جہالت ہے ۔ اور اگر بطور دلیل بھی قبول کر لیا جائے تو محض اتنا ہی ثابت ہوتا ہے کہ بسا اوقات کسی امر میں اگر دعوت آئے اور شرکت ضروری محسوس ہو تو کسی کو بھیج دیا جائے ۔
لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ان کی ہر محفل کی زینت بنیں، ان کا ذبیحہ حلال سمجھ کر کھائیں، ان کی دینی مجالس میں جائیں ، یا ان کو اپنے یہاں بلائیں ؟ ۔
زندگی کے ایک واقعے کو دلیل بنانا اور ساری زندگی ان سے دور بھاگنے والے فرمان سے آنکھیں بند کرلینا کہاں کا انصاف ہے؟۔
نوٹ :حضور حجت الاسلام علیہ الرحمہ کی جانب منسوب ساری عبارتیں آل انڈیا کانفرس مرادآباد کے خطبہ صدارت 1925 سے لی گئ ہیں ۔
تحریر :محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف
چئیرمین: تحریک علمائے بندیل کھنڈ
رکن: روشن مستقبل دہلی
ان مضامین کو بھی پڑھیں
تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں
ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں
ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں