بے علم بدلیں گے زمانے کا نظام
تحریر: ساغر جمیل رشک مرکزی بے علم بدلیں گے زمانے کا نظام
بے علم بدلیں گے زمانے کا نظام
اللہ تبارک و تعالی نے کم و بیش اٹھارہ ہزار مخلوقات کو وجود بخشا۔ان ہی میں سے ایک مخلوق انسان بھی ہے، جسے اللہ رب العزت نے بے شمار نعمتوں سے نوازا۔مگر ایک ان نعمتوں میں ایک نعمت ایسی بھی ہے
جس کی بنیاد پر حضرت آدم علیہ السلام خلیفۃ اللہ،مسجود الملائکہ اور اشرف المخلوقات کے تاج زریں سے سرفراز کیے گئے۔ اور وہ نعمت علم ہے۔ علم ایک ایسی دولت ہے جس کو خرچ کرنے سے گھٹتی نہیں بلکہ اس میں اور اضافہ ہوتا ہے، علم ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے ہر کوئی ڈرتا ہے، جو ہر دم آپ کی حفاظت کرتا ہے، جس کے پاس علم کا سرمایہ ہوتا ہے
اس کی ہر جگہ عزت افزائی ہوتی ہے، اپنے بیگانے سبھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اللہ جل جلالہ نے قرآن مجید میں اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فصیح و بلیغ بیان میں جابجا علم کی اہمیت و افادیت کو بیان فرمایا ہے: ۔
چناں چہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان عالی شان ہے: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک سے (سورہ اقراء)۔ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:۔
اے محبوب آپ فرما دیجئے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں(سورہ زمر) اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے: اللہ تم میں سے ان کو جو ایمان لائے اور ان کو جنہیں علم دیا گیا درجوں بلند فرمائے گا (سورہ مجادلہ)۔
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم علم کی ضرورت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں کہ” علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے”۔ مذکورہ بالا آیات اور روایت میں بالکل صاف صاف علم کی اہمیت و ضرورت کو بیان کیا گیا ہے۔
لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس امت کے نبی پر نزول وحی کی ابتدا اقراء سے ہوئی آج وہی امت سب سے نا خواندہ اور ان پڑھ ہے۔ جب تک مسلمان حصول علم کی تگ و دو میں لگے رہے تب تک دنیا ان کے قدموں تلے رہی مگر جیسے جیسے ہمارے ہاتھوں سے علم کا دامن چھوٹتا گیا ہمارا حال تاریک سے تاریک تر ہونے لگا، ہم ہر میدان میں پیچھے نظر آنے لگے
دوسری قوموں کا ہم پر تسلط ہونے لگا، اور آج حال یہ ہے کہ جو قوم علم و اخلاق سے پہچانی جاتی تھی اب دہشت گردی اس کی پہچان بن چکی ہے۔ جو کبھی دنیا پر حکومت کرتی تھی
وہی آج غلامی کی زندگی گذار رہی ہے۔ خاص طور سے وطن عزیز ہندوستان میں، یہاں کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، دن بدن مسلمان پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، ہر روز غریبی اور بھوک مری کی وجہ سے کسی نہ کسی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، بھیک مانگنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد دوسری سے کہیں زیادہ اور روز افزوں ہے
اتنا ہی نہیں بلکہ جیلوں میں بند قیدیوں میں بھی مسلمان سر فہرست ہیں۔ اسی کے بالمقابل دوسری قوموں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ وہ ہر آن ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔
ہر میدان میں اُنہیں کا قبضہ ہے۔ تجارت، سیاست، سائنس، آرٹس، کامرس اور ریاضی ہر جگہ انہیں کے لوگ نظر آتے ہیں۔ ہر محاذ پر وہ ہم سے آگے ہیں۔ ہر دن کوئی نیا انسٹیٹوٹ، نئی کمپنی، نئی فیکٹری معرض وجود میں آتی ہے مگر وہ دوسروں کی ہوتی ہے۔
کھانے سے اوڑھنے پہننے تک تمام چیزیں غیروں کی بنائی ہوئی ہیں۔
وزیر اعظم سے گاؤں کے پردھان تک سب پر کافروں کا قبضہ ہے۔ اکیڈمک فیلڈ میں وی۔سی سے پرائمری اسکول کے ٹیچر تک اکثریت انہیں کی ہے، اور ہمارا وجود بس سر رمق ہے۔پھر بھی ہم یہ چاہتے ہیں کہ دنیا پر حکم رانی کریں۔
دنیا میں عدل و انصاف کے ذریعہ امن و امان قائم کریں۔لوگ ہمیں دہشت گرد کے بجائے محب وطن اور محافظ سمجھیں۔ کوئی بھی ہم پر جبر و تشدد نہ کرے۔ہم عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنی حالت نہیں بدل لیتے۔
ان سب کی سب بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم صرف اپنے پیٹ کے بارے میں سوچتے ہیں، بس کسی بھی طرح دو وقت کی روٹی کا انتظام ہوجائے۔ اور اس کے لیے اپنے بچوں کو لکھنے پڑھنے کی عمر میں کام پر لگا دیتے ہیں۔جس سے دو وقت کی روٹی تو مل جاتی ہے مگر بچوں کا مستقبل تاریک بن جاتا ہے۔
اور ہم نے جس غریبی اور غلامی میں پوری زندگی گذار دی اسی روش پر ہماری نسلیں بھی چل پڑتی ہیں پھر ہم چوراہوں اور نکڑوں پر بیٹھ کر حکومت کو کوستے ہیں کہ فلاں سرکار خراب ہے، فلاں بری ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ جب ہمیں خود ہی اپنی اور اپنے بچوں کی فکر نہیں، ہم خود اپنے ساتھ وفادار نہیں تو دوسروں کو ہماری فکر کیسے ہو سکتی ہے، دوسرا ہمارے ساتھ وفادار کیوں کر ہو سکتا ہے؟ دوسروں کو اپنی اور اپنی قوم کے بارے میں سوچنے سے فرصت کہاں؟
لہٰذا ہمیں بھی خود ہی اپنے اور اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا ہے، بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنا ہے تاکہ ان کا مستقبل روشن و تابناک ہو۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جو لوگ زندگی میں تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں وہ دو گروپوں میں بٹ چکے ہیں۔ ایک وہ جو صرف دینی علوم کے حصول پر زور دیتا ہے اور عصری علوم سے روکتا ہے۔
حالاں کہ عصری علوم کے حصول کی بالکلیہ کہیں بھی ممانعت نہیں ہے بلکہ قرآن و احادیث میں جا بجا ان علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، قرآن میں موجود پچھلی امتوں کے حالات، ان پر انعام و اکرام اور سزا و عذاب ہمیں علم تاریخ کا پتا دیتے ہیں جس کو آج ہسٹری کہا جاتا ہے۔
لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ اور کسی جرم پر سزا ہمیں قانون کا درس دیتے ہیں۔ چاند کی گردش اور اس طرح کی دوسری آیتیں ہمیں سائنس کے بارے میں بتاتی ہیں۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی، آپ کا چلنا پھرنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا اور اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا ہمیں سماجیات اور اخلاق و آداب کی طرف بلاتے ہیں جس کو عصر حاضر میں سوشل سائنس اور سوشل اتھکس کہا جاتا ہے۔
جب قرآن و سنت میں ان کا ذکر ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان علم کا حاصل کرنا ممنوع نہیں ہے۔ اور خود اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو دعا کا انداز سکھاتے ہوئے فرمایا ہے: ”اے ہمارے رب ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے بچا”(سورہ بقرہ)۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بھلائی طلب کرنا سکھایا ہے اور ان بھلائیوں میں یہ علوم بھی داخل ہیں۔ اگر ہم قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے یہ علوم حاصل کریں تو نقصان دہ نہیں ہیں۔
اور دوسرا گروپ وہ ہے جو صرف عصری علوم، مال و دولت اور دنیاوی جاہ و منصب کو اہمیت دیتا ہے، دین سے کوئی مطلب نہیں۔ وہ کلمہ پڑھ کر اور مسلمانوں جیسا نام رکھ کر مسلمانوں کی فہرست میں داخل تو ہو گیےمگر صحیح معنوں میں اسلام ابھی ان کے دل میں داخل ہی نہیں ہوا۔
ان میں اکثر کا حال یہ ہے کہ ان بنیادی عقائد سے عاری ہیں جن پر اسلام کی عمارت تعمیر ہوتی ہے، اور نا ہی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ دین سے دور تو ہیں ہی، دنیا والے بھی مسلمانوں جیسے نام کی وجہ سے دبانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہیں۔
لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں دنیا و آخرت دونوں میں سرخروئی حاصل ہو۔
دونوں جہان میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوں تو ضروری ہے کہ اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے تھوڑی سی تکلیف برداشت کریں، دین و دنیا دونوں کو ہم آہنگی کا چولا پہنا کر قدم آگے بڑھائیں اور اپنے بچوں کو دینی و عصری دونوں علوم سے آراستہ کریں
اگر اللہ تعالی نے چاہا تو وہ دن دور نہیں جس دن ہمارے بچے بھی ڈاکٹر، انجینئر، آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن کر دنیا کے سامنے آئیں گے اور اپنی قوم کا نام روشن کریں گے۔
اور اس وقت ملک و ملت کی باگ ڈور ہمارے ہاتھوں میں ہوگی۔
بے علم بدلیں گے زمانے کا نظام
یہ آپ کا خیال ہے، کمال ہے !۔
تحریر: ساغر جمیل رشک مرکزی
البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، علی گڑھ
ان مضامین کو بھی پڑھیں
تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں
ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں
ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں