کوہِ نور
کوہِ نور
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال کے بعد سے کوہ نور ایک بار پھر سر خیوں میں ہے، ۱۲-۲۱؍ گرام وزن ، ۶-۳؍ سینٹی میٹر لمبے ۲-۳؍سنٹی میٹر چوڑے اور ۳-۱ ؍ سینٹی میٹر موٹے اس کوہِ نور کی مالیت اس وقت ۴۷۸۰ ؍ کروڑ روپے ہے، بیضوی ہیئت کے اس ہیرے کا وزن کبھی ۲× ۳۶ ؍ گرام تھا، لیکن اب اس کے وزن میں کمی آئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سینکڑوں سال پہلے آندھرا پردیش میں کھدائی کے دوران یہ ہیرا نکلا تھا، شاہ جہاں تک کئی واسطوں سے یہ پہونچا اور اس نے تخت طاؤس کے اوپری حصے میں اسے جڑوادیا، نادر شاہ نے جب دہلی کو تخت وتاراج کیا تو اسے تخت طاؤس سے نکال کر اپنے بازو پر باندھنے لگا اور ایران لے گیا
۱۷۴۷ء میں یہ افغانستان کے احمد شاہ ابدالی کے پاس پہونچا ، شاہ شجاع کے واسطے سے یہ رنجیت سنگھ تک پہونچا، رنجیت سنگھ ہمیشہ تو نہیں لیکن بڑی تقریبات کے موقع سے اسے بازو پر باندھا کرتا تھا۔ ۱۸۳۹ء میں رنجیت سنگھ کے وفات پانے کے چار سال بعد ۱۸۴۳ء میں دلیپ سنگھ کو پنجاب کا راجہ بنایا گیا
اس وقت اس کی عمر صرف دس سال تھی ، ۲۹؍ مارچ ۱۸۴۹ء کو دلیپ سنگھ نے انگریزوں سے ڈر کر سمجھوتہ کر لیا جس کے نتیجے میں لاہور کا قلعہ اور کوہِ نور ہیرا انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ لارڈ لہوزی اسے لینے خود لاہور آیا تھا، اس نے اسے وکٹوریہ کو بھیجوا دیا بعد میں اسے تراش خراش کر وکٹوریہ کے تاج میں لگایا گیا
وکٹوریہ کے بعد ایورڈ ہفتم نے اسے تاج میں جگہ نہیں دی، آخری بار یہ تاج میں جڑا ہوا رانی الزبتھ کے تابوت پر ۲۰۰۲ء میں نظر آیا تھا، ملکہ الزبتھ دوم کے دور میں یہ ہیرا ٹاور آف لندن کے جویلر ہاؤس میں رکھ دیا گیا اور یہ اب تک وہیں موجود ہے، اس طرح کوہ ِ نور ہیرا کو برطانیہ کے قبضہ میں ایک سو تہتر (۱۷۳) سال پورے ہو گیے ہیں۔
ہندوستان اس ہیرے پراپنا حق جتاتا رہا ہے، ۱۹۴۷، ۱۹۵۳، ۲۰۰۰، ۲۰۰۸، اور ۲۰۱۰ء میں اس کی واپسی کے لیے ہندوستان نے کوشش کی، ۲۰۱۶ء میں سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ بھارت کی چیز ہے اسے ہندوستان واپس لانا چاہیے، سوشل میڈیا پر وینکٹیشور شکلا نے ایک بار پھر اسے ہندوستان لانے کی مہم چھیڑی ہے
لیکن یہ کام بہت آسان نہیں ہے، قانونی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے، البتہ آپسی سمجھوتے کے نتیجہ میں ایسا ہو سکتا ہے، لیکن جب برطانیہ اس کی موجودگی کو باعث فخر سمجھتا ہے تو یہ سمجھوتہ کس طرح ممکن ہو سکے گا۔ البتہ اگر یہ مہم کام یاب ہو گئی تو آرلاؤ، ری جنٹ، دی بلو ہوپ کی علی الترتیب روس، فرانس اور امریکہ سے واپسی کی مانگ بھی زور پکڑے گی
گریٹ مغل ڈائمنڈ کے نام سے مشہور آر لاؤ ہندوستان سے بر آمد ہیروں میں سب سے بڑا ہے، اس کا وزن ۶۲-۱۸۹؍ کریٹ ہے، یہ گول کنڈا ، آندھرا پردیش کی کھدائی سے سترہویں صدی میں نکلا تھا، مختلف تاجروں کے دست بدست یہ روس پہونچا اور ان دنوں یہ ماسکو میں واقع ڈائمنڈ فنڈ میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔
ری جنٹ ۶۴-۱۴۰؍ کریٹ کا ہیرا ہے یہ بھی گول کنڈہ میں کھدائی کے دوران ۱۶۹۸ء میں بر آمد ہوا تھا، یہ مختلف ہاتھوں سے گذر کر فرانس کے راجہ لوئیس ۱۵، تک پہونچا ، ۱۸۰۱ء میں اسے نپولین نے قبضہ کرکے اپنے تلوار میں لگایا، ان دنوںیہ فرانس کے لاؤرے میوزیم کی زینت ہے۔
۵۲-۴۵؍ کریٹ کا دی بلو ہوپ نیلے رنگ کا بہت چمکدار ہیرا ہے، یہ سترہویں صدی میں کولو کھان سے نکلا تھا، یہ ہندوستان ، فرانس، برطانیہ ہوتا ہوا، اب امریکہ کے نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں رکھا ہوا ہے۔ ظاہر ہے ان ہیروں کی واپسی کے مطالبہ کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، اب یہ جہاں ہیں، جن کے قبضہ میں ہیں، ان کی ملکیت ہیں، آخر میں جن تین ہیروں کا ذکر کیا گیا ہے
وہ ہندوستان سے لُوٹ کے ذریعہ نہیں گیے ہیں، اس لیے اس پر دعویٰ کی بنیاد ہی نہیں بنتی ہے، لیکن سوشل میڈیا اور ہیش ٹیگ پر مہم چلانے کے لیے کوئی منطقی بنیاد ضروری تو نہیں ہے۔