حضور حافظ ملت جامع الصفات شخصیت

Spread the love

حضور حافظ ملت جامع الصفات شخصی

از: محمد شمیم احمد نوری مصباحی

خادم: دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)

اسلامی تاریخ میں ایسی بے شمار نابغہ روزگار شخصیات موجود ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں دینِ اسلام کی خدمت اور اس کی ترویج و اشاعت، امت مسلمہ کی اصلاح اور افراد سازی کے لیے وقف کر دیں۔

ان روشن و درخشاں ستاروں اور جلیل القدر ہستیوں میں ایک تابناک نام جلالة العلم، استاذ العلماء، حافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی ثم مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آپ کی ذات اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ اور علم و عمل کا حسین امتزاج تھی۔

آپ کو “حافظ ملت” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، جو آپ کی دینی خدمات، علمی قابلیت، اور اعلیٰ صفات کا اعتراف ہے۔ آپ چودہویں صدی ہجری کی ان عظیم شخصیات میں سے ہیں، جن کی علمی، اصلاحی، اور تربیتی جدوجہد نے اسلامی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔آپ کی ذات مختلف اوصاف کمالات کا حسین امتزاج تھی۔

آپ کی صفات وخدمات پر جس قدر بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔

ابتدائی حالات اور تعلیم و تربیت:

حافظ ملت حضرت علامہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ 1312ھ/1894ء میں ضلع مرادآباد کے قصبہ بھوجپور میں پیدا ہوئے۔ آپ کاتعلق ایک علمی اور دینی گھرانے سے تھا، جس نے آپ کی شخصیت کی بنیادرکھنے میں اہم کردار اداکیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے قصبہ میں حاصل کی اور نہایت کم عمری میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔

اس کے بعد علومِ اسلامیہ کے حصول کے لیے مختلف علمی مراکز کا سفر کیا اور علم حدیث، فقہ، تفسیر اور دیگر علوم میں گہرے اسرار و رموز کو سمجھا۔آپ کی تربیت میں والدین کی دینی محبت اور اساتذہ کی محنت نے اہم کردار ادا کیا، جنہوں نے آپ کو دین کی خدمت کے لیے تیار کیا۔ آپ کی شخصیت کی بنیاد خلوص، محنت، اور دین سے بے پناہ محبت پر رکھی گئی تھی۔دینی خدماتآپ کی دینی خدمات بے شمار ہیں، مگر ان میں سب سے نمایاں خدمت جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا قیام ہے۔

جو آج دنیا بھر میں دینی علوم کا ایک ممتاز مرکز ہے- اس ادارہ کو 1353ھ/1935ء میں آپ نے قائم کیا، جس کا مقصد امت مسلمہ کو علمِ دین سے آراستہ کرنا، علماء کی تربیت کرنا، اور اسلامی اقدار کو فروغ دینا تھا۔ بلاشبہ جامعہ اشرفیہ کی بنیاد نےاسلامی تعلیمات کی اشاعت میں ایک نئی تاریخ رقم کی اور ہزاروں علما وطلبہ کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنی-

جامعہ اشرفیہ آج دنیا کے معروف دینی اداروں میں شامل ہے اور یہاں سے فارغ التحصیل علماء پوری دنیا میں دین اسلام کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔

جامع الصفات شخصیت:حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کئی خوبیوں اور اوصاف کا مجموعہ تھی، جن کا ذکر آپ کی حیاتِ طیبہ کے پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے۔

1 . عشقِ رسول ﷺ:

آپ کی ذات عشقِ رسول ﷺ کا عملی نمونہ تھی۔ آپ کا ہر قول و فعل محبتِ رسول ﷺ سے مزین تھا۔ آپ کی مجالس میں سیرتِ طیبہ ﷺ کا چرچا رہتا، اور آپ کی گفتگو سامعین کے دلوں کو ایمان کی حرارت سے منور کر دیتی۔

2. زہد و تقویٰ:

آپ دنیاوی مال و متاع اور خواہشات سے کنارہ کش تھے۔ آپ کی زندگی اللہ کی رضا اور دین کی خدمت کے لیے وقف تھی۔ آپ کی عبادات، دعا، اور عاجزی میں خشیت الٰہی نمایاں تھی۔

3. تواضع اور انکساری:

آپ کی شخصیت کا ایک اہم پہلو آپ کی تواضع اور انکساری تھی۔ باوجود بلند علمی مقام کے، آپ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے۔ طلبہ، علماء، اور عوام کے ساتھ آپ کا رویہ عاجزی و انکساری کا آئینہ دار تھا۔ آپ نے کبھی اپنے علم و عمل پر غرور نہیں کیا، بلکہ اپنے طرز عمل سے ہمیشہ سادگی کا مظاہرہ کیا۔

4. طلبہ پر شفقت:

حافظ ملت طلبہ کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آتے۔ آپ ان کی علمی و اخلاقی تربیت پر خاص توجہ دیتے اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں گہری دلچسپی لیتے۔ آپ طلبہ کو نصیحت فرماتے کہ علم کے ساتھ عمل کو بھی زندگی کا حصہ بنائیں۔حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگردوں کو نہ صرف علومِ دینیہ میں مہارت عطا کی بلکہ ان کی روحانی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی۔ آپ کے معروف شاگردوں میں کئی عظیم شخصیات شامل ہیں، جنہوں نے عالمی سطح پر دینِ اسلام کی خدمت انجام دی۔ جامعہ اشرفیہ سے وابستہ ہزاروں علما اور فضلا آج بھی حافظ ملت کی فکر کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔

5. افراد سازی:

آپ نے اپنی قیادت اور تربیت کے ذریعے ایک ایسی نسل تیار کی، جو دین کی خدمت اور انسانیت کی بھلائی کے لیے ہمیشہ مصروف عمل رہی۔ جامعہ اشرفیہ کے ہزاروں فارغ التحصیل علماء، آپ کی افراد سازی کے بہترین شاہکار ہیں، جو آج بھی دنیا بھر میں دین کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔

6. اصلاحِ معاشرہ:

آپ نے معاشرتی برائیوں کے خاتمے اور اسلامی اقدار کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ کے خطبات، تحریریں، اور ادارے اسلامی معاشرت کے قیام کے لیے سرگرم رہے۔

7. وقت کی قدر:

آپ کے معمولات زندگی میں وقت کی پابندی نمایاں تھی۔ مدرسے کا نظام الاوقات، عبادات، جلسے اور ملاقاتیں، سب میں آپ وقت کے نہایت پابند رہے۔ یہ وصف آپ کی شخصیت کا اہم جز تھا، جو دوسروں کے لیے قابل تقلید ہے۔

8. علمی بصیرت:

آپ علم و دانش کے سرچشمہ تھے۔ علم حدیث، فقہ، تفسیر اور دیگر اسلامی علوم میں آپ کو گہری بصیرت حاصل تھی۔ امت کے علمی مسائل کو آپ نے قرآن و سنت کی روشنی میں حکمت اور دانائی کے ساتھ حل کیا۔

9.ایفائے عہد:

حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ وعدے کے پکے اور قول کے سچے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں کبھی عہد شکنی نہیں کی۔ اگر کسی سے وعدہ کر لیتے تو اسے ہر حال میں پورا کرتے۔ یہ صفت آپ کی دیانت داری اور بلند اخلاق کا مظہر تھی۔

10. استغنا اور قناعت:

آپ دنیاوی مال و دولت سے بالکل بے نیاز اور قانع مزاج تھے۔ کبھی دنیاوی عیش و عشرت یا دولت کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ آپ کی زندگی کا مقصد صرف اللہ کی رضا اور دین کی خدمت تھا۔ استغنا کے باوجود آپ کے دل میں دوسروں کی مدد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

11. سادگی اور درویشانہ شان:

آپ کی زندگی میں سادگی اور درویشانہ طرزِ عمل نمایاں تھا۔ آپ نے ہمیشہ سادہ لباس پہنا، سادہ غذا استعمال کی، اور کبھی دنیاوی نمود و نمائش کو پسند نہیں کیا۔ آپ کی درویشی اور مومنانہ شان آپ کے کردار کو مزید پرکشش بناتی تھی۔

11. حسنِ سلوک اور حسنِ معاملہ:

آپ لوگوں کے ساتھ نہایت نرمی، محبت، اور شفقت کے ساتھ پیش آتے۔ کسی کے ساتھ سختی کرنا یا برے الفاظ کہنا آپ کی طبیعت سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ آپ کے حسنِ سلوک نے کئی دلوں کو جیتا اور آپ کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہر شخص کو متاثر کیا۔

12. بڑوں کا ادب اور احترام:

آپ اپنے سے بڑے علما، بزرگوں، اور اساتذہ کا بے حد ادب و احترام کرتے تھے۔ حتیٰ کہ عام لوگوں میں بھی اگر کوئی عمر میں بڑا ہوتا، تو آپ اس کے ساتھ عزت و وقار کے ساتھ پیش آتے۔ یہ ادب و احترام آپ کی تربیت اور اخلاقی بلندی کی علامت تھی۔

13. مسیحائے مبارک پور:

حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ مبارکپور کے عوام کے لیے ایک مسیحا تھے۔ آپ نے وہاں کے علمی، سماجی، اور دینی حالات کو بہتر بنانے کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ آپ نے تعلیم و تربیت کے ذریعے مبارکپور کو ایک دینی مرکز بنا دیا۔

14. مظلومین کی مدد اور اس پر لوگوں کو ابھارنا:

آپ نہ صرف خود مظلوموں کی مدد کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس جانب متوجہ کرتے۔ آپ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتے اور ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرتے۔ آپ نے کئی بے سہارا اور مظلوم لوگوں کی مدد کرکے ان کی زندگی کو بہتر بنایا۔

15. عیادت اور تعزیت:

حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ بیماروں کی عیادت اور غم زدہ لوگوں کی تعزیت کے لیے ہمیشہ حاضر رہتے۔ آپ کے اخلاق کا یہ پہلو دلوں کو جیت لیتا تھا۔ آپ کے اس طرز عمل نے امت کے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا درس دیا۔

16. برائی کے عوض بھلائی:

آپ کی زندگی قرآن مجید کی اس تعلیم کی عملی تفسیر تھی کہ “برائی کو بھلائی سے دفع کرو۔” اگر کوئی آپ کے ساتھ برا سلوک کرتا تو آپ اسے معاف کر دیتے اور اس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرتے۔ یہ صفت آپ کے اعلیٰ کردار کی عکاس تھی۔

17. کفایت شعاری اور سخاوت:

آپ اپنی زندگی میں کفایت شعاری کا عملی مظاہرہ کرتے۔ آپ غیر ضروری اخراجات سے اجتناب کرتے اور دستیاب وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نہایت سخی بھی تھے اور ضرورت مندوں کی دل کھول کر مدد کرتے۔

18. لوگوں کے ساتھ حسنِ معاملہ:

معاملات میں آپ نہایت صاف گو اور دیانت دار تھے۔ کاروباری یا دیگر سماجی تعلقات میں آپ ہمیشہ انصاف کا مظاہرہ کرتے۔ آپ کے ساتھ لین دین کرنے والے لوگ آپ کی سچائی اور دیانت داری کے معترف تھے۔

19. برائیوں کا خاتمہ:

آپ نے معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے عملی جدوجہد کی۔ آپ کے خطبات اور دروس معاشرتی اصلاح کا بہترین ذریعہ بنے۔

آپ کی حیاتِ طیبہ کا پیغام:

حافظ ملت کی زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ سادگی، قناعت، خلوصِ نیت، عشقِ رسول ﷺ، علم و عمل کو یکجا کرنا، اور استغنا کےساتھ دین کی خدمت کو اپنا نصب العین بنانا اور اس کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردینا ہی حقیقی کامیابی ہے۔

آپ نے اپنے قول وعمل، اخلاقی عظمت اور بے لوث خدمت سے یہ ثابت کیا کہ اللہ کی رضا کے لیے کی جانے والی جدوجہد کبھی ضائع نہیں جاتی۔ اور آپ کی پاکیزہ زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی شخص اپنی محنت،اخلاص اور اللہ پر کامل یقین کے ذریعہ امت مسلمہ کی صحیح معنوں میں رہ نمائی کرسکتاہے-

حاصل کلام یہ ہے کہ حافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت بلاشبہ جامع الصفات تھی۔ آپ کی علمی خدمات، اخلاقی کردار، اور اصلاحی جدوجہد ہمیشہ امت مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ رہیں گی۔

اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دین کی خدمت کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *