دلت مسلم ایکتا فرنٹ
دلت مسلم ایکتا فرنٹ (ایک تجزیہ)
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)
جناب ق۔ اشرف صاحب کی جانب سے ”دلت مسلم اتحاد اور ہماری ذمہ داری “ کی میٹنگ میں شرکت کرنے کے لئے دعوت نامہ موصول ہؤا ۔ شرکت کی شدید خواہش کے باوجود میں نہیں پہنچ سکا جس کا مجھے بے حد افسوس ہے ۔
دلت مسلم اتحاد ایک ایسا عنوان ہے جو میرا میدان بھی ہے شوق بھی ہے اور میرے نزدیک بھارتی مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے امید کی ایک مضبوط کرن بھی اور ہندتوا طاقتوں کو توڑنے کے لئے ایک ہائپر سونک نظریاتی میزائل بھی ۔
اس عنوان کے انتہائی اہم اور تیر بہدف ہونے کے باوجود ہماری قیادت اس طرف سے بالکل ہی غافل ہے اور اس طرف بالکل توجہ نہیں دیتی ، چنانچہ ائی ایس آفیسر عبدالرحمن اپنی مشہور کتاب ”ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی محرومی“ میں ”دلت ۔
مسلم اتحاد“ کے عنوان کے تحت صفحہ 236 پر لکھتے ہیں ”اشراف قائدین اور ان کی تنظیمیں جیسے جماعت اسلامی ہند ، جمعیت علمائے ہند وغیرہ ، ان کے ادارے جیسے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کبھی بھی پرجوش طریقے سے اس ایجنڈے کی حمایت نہیں کی ۔ میں یہاں ان ذرائع کا جائزہ لینا چاہتا ہوں جنہیں کام میں لا کر دلتوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک مضبوط اور دیر پا اتحاد قائم کیا جا سکتا ہے ۔ ماہر عمرانیات اور کاسٹ اسٹڈیز کی اسکالر Gail Omvedt کا کہنا ہے کہ ایک مضبوط دلت — مسلم اتحاد خوشحال مساوی اور ذات پات سے پاک ہندوستان کی تعمیر کی سمت میں کام کر سکتا ہے۔ “ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج تک ہماری قیادت ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتی رہی ہے ، ہماری قیادت نے پسماندہ طبقات کو اور دیگر اقلیتوں کو ہندوؤں سے الگ کرکے نہیں دیکھا جبکہ بہوجن سماج اور ایس سی ایس ٹی اور او بی سی سماج ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے زمانے سے چیخ رہا ہے کہ ہم ہندو نہیں ہیں اور یہ کہ ہندو تو ہم کو مسلمانوں سے لڑانے کے لئے بنایا جاتا ہے ۔ جنکو ہم ہندو کہتے اور سمجھتے ہیں وہ خود ہندتوا طاقتوں اور برہمن ازم کے مارے ہوئے ہیں ان کو مسلمانوں کے سہارے کی ضرورت ہے مگر مسلم قیادت ان کو ہندو سمجھ کر اور بول کر واپس اسی گڑھے میں پھینک دیتی ہے جہاں سے وہ لوگ نکلنا چاہتے ہیں ۔ قارئین کرام ! آزاد بھارت میں 1968 کے زمانے میں مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی مرحوم نے مسلم مجلس مشاورت کے عنوان سے اس طرف توجہ دی تھی اور آج کل مجلس اتحاد السملمین کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب بھی اس پر توجہ دے رہے ہیں ورنہ تو ہماری قیادت کی اکثریت اس طرف سے غافل ہی ہے ، مجھے بے انتہا خوشی ہے کہ ماشاءاللہ مسلمانوں کے اندر بھی ”دلت مسلم اتحاد “ کے عنوان کو لیکر کچھ سرسراہٹ سی ہونے لگی ہے مگر ایک تو اس سرسراہٹ کی رفتار بہت دھیمی ہے دوسرے یہ سرسراہٹ بغیر کسی نظریاتی مطالعہ کے ہے جو جلد ہی غلط فہمیوں کی نظر ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گی یا پھر اپنا تسلسل برقرار نہیں رکھ پائے گی ، تسلسل برقرار رکھنے کے لئے کسی بھی تحریک کا نظریاتی ہونا اور پھر اس نظریے کا مستقل مطالعہ اور اس پر تبادلۂ خیال ہونا بہت ضروری ہے ۔ میں اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں کہتا ہوں کہ پسماندہ طبقات میں سیاسی بیداری مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے مختلف عنوانات سے یہ لوگ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے مشن کو اور ان کے لٹریچر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ، مگر دو وجہوں سے یہ لوگ کامیاب نہیں ہوپاتے ایک تو یہ لوگ ضرورت سے زائد لبرل ہوجاتے ہیں اور مذہب دشمنی پر اترجاتے ہیں جبکہ بھارت میں کوئی بھی تحریک ”مذہب دشمن“ مستقل طورپر جڑ نہیں پکڑ سکتی ہاں عارضی طور پر ابھر سکتی ہے ۔ اس تعلق سے مزید تفصیل کیلیے کمیونزم کے زوال کا مطالعہ کیجیے۔ دوسرے ان لوگوں کا ”آگے کا رخ“ متعین نہیں یعنی یہ لوگ ہندتوا طاقتوں اور برہمن ازم کے خلاف تو ایک زبان ہیں مگر سماج اور ملک کو کس طرف لیکر جائیں گے ؟ اسکا کوئی واضح جواب نہیں دے پاتے ۔ لیکن اگر مسلمان نظریاتی سطح پر پسماندہ طبقات کی قیادت سے مستقل گفتگو کریں مسلمان ان کو اور ان کے مسائل کو سمجھیں اور وہ مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے مسائل کو سمجھیں تو دونوں ہی گروپس کے اہل علم حضرات کسی ایک حل پر پہنچ سکتے ہیں ۔