حافظ محمد سعد انور شہید آئینۂ حیات اور مظلومانہ شہادت

Spread the love

حافظ محمد سعد انور شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ سیتامڑھی بہار :  آئینۃ حیات اور مظلومانہ شہادت

بہ قلم : محمد انواراللہ فلک قاسمی مؤسس و معتمد ادارہ سبیل الشریعہ رحمت نگر آواپور شاہ پور سیتامڑھی بہار و رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و نائب صدر جمعیت علما ضلع سیتامڑھی بہار ۔

بائیس سالہ مظلوم شہید حافظ محمد سعد انور ابنِ محترم جناب محمد مشتاق صاحب حفظہ اللہ ، مقام منیا ڈیہ ، پنڈول بزرگ ، نزد بالاساتھ ، تھانہ نانپور ، ضلع سیتامڑھی بہار کے رہنے والے تھے ، ان کا گاؤں مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی آبادی پر مشتمل ہے ، اس میں بھی مسلکی اختلاف و افتراق کی خلیج بہت ہے اور گرد و پیش کی تقریبآ وہی صورت حال ہے ، قریب میں بالا ساتھ اور بلواہا ہے

جہاں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے اور مسلکی اعتبار سے وہاں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے ، مجاھد ملت حضرت مولانا عبد الحنان صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ، اسی بالاساتھ کے رہنے والے تھے ، اُنہیں کی فکر و مساعی ، جہد مسلسل ، اور غیر معمولی ایثار و قربانی سے جامعہ قاسمیہ دارالعلوم بالاساتھ کا قیام عمل میں آیا تھا 

اس جامعہ نے اپنے گرد و پیش سے لے کر دور دراز تک ناخواندہ علاقوں میں مکاتب کا جال بچھایا اور علم کی شمع روشن کی اور آج بھی پورے آب و تاب اور رعنائیوں کے ساتھ قائم ہے ، اس وقت جامعہ کا باگ ڈور ، حضرت مجاہد ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ کے کے فرزند ہوش مند حضرت مولانا قاری حفظ الرحمن صاحب رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ہاتھوں میں ہے اور اس پورے علاقے میں جامعہ دینی تعلیم و تربیت کا مصدر اور شریعت و سنت کی ترویج و اشاعت کا محور ہے ۔

اسی دارالعلوم نے “منیا ڈیہ ” کی ظلمت و جہالت کو دیکھ کر ” اسلامیہ تجوید القرآن” کے نام سے وہاں ایک مکتب کا نظام قائم کیا تھا ، “حافظ سعد انور شہید ،” اسی مکتب کے فیض یافتہ تھے ، ابتدائی اور بنیادی دینی تعلیم ، اسی مکتب کے ایک مخلص استاذ مولانا محمد رضوان الرحمٰن صاحب مفتاحی آواپوری سے حاصل کیا تھا اور آج بھی اس مکتب کا فیض جاری ہے ، اسی سے نئی نسلوں میں عقائد اسلامی کی صحیح ترویج و اشاعت ہورہی ہے ۔ رب کریم اپنی شان کریمی سے اس معدن ایمان و یقین اور سرچشمہء خیر کو دیر تک اور دور تک باقی رکھے ۔

حافظ سعد انور شہید مدرسہ حیات العلوم اور دارالعلوم وقف دیوبند میں ۔

مکتب کی تعلیم کے بعد چھتر پور ، مہرولی ، دھلی کے مدرسہ حیات العلوم میں داخلہ لیا ، وہاں شروع سے بیس ( 20) پارے تک قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا ، اس کے بعد سنہ 2019ء میں الجامعتہ الاسلامیہ دارالعلوم وقف دیوبند کے شعبہء حفظ میں داخل ہوئے اور وہاں قاری نصرالامین صاحب کی درس گاہ سے وابستہ رہے اور وہیں سے قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا ۔ تکمیل حفظ قرآن کریم کے بعد وہ گھر لوٹ گئے ۔

حافظ سعد انور شہید دارالعلوم بالاساتھ میں۔

دارالعلوم وقف دیوبند سے تکمیل حفظ کے بعد ، فارسی عربی کی ابتدائی تعلیم کے لیے دارالعلوم بالاساتھ کا انتخاب کیا اور داخلہ لے کر تحصیل علم میں مصروف ہو گئے ، عربی فارسی کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شروع ہی کیا تھا کہ خانگی احوال ، معاشی تقاضے اور کئی قسم کی ذمہ داریوں کے احساس نے ان کو گھیر لیا

گروگرام ہریانہ کا سفر

اسی احساس نے تعلیم کی تکمیل سے پہلے کسب معاش کے لیے ہریانہ “گروگرام ” جانے پر مجبور کر دیا ، وہاں جانے کی وجہ یہ ہوئی ہوگی کہ وہاں پہلے سے بڑے بھائی حافظ شاداب انور موجود تھے اور ٹیوشن کی راہ سے مسلمانوں کے بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دے رہے تھے 

سعد کے لیے کسب معاش کے دوسرے امکانات بھی یقیناً رہے ہوں گے لیکن سعد نے اس کو اپنی سعادت مندی کے خلاف سمجھا ہوگا کہ اللہ پاک نے میرے سینے کو قرآن دان بنایا ہے ، لوح محفوظ کے بعد اگر قرآن کی حفاظت کا دوسرا کوئی مصدر و محور ہے تو وہ حافظ قرآن کا سینہ ہے اور کسب معاش کی دوسری راہ ، شاید مجھے حفاظت کے اس مصدر و محور اور مشن کا حصہ اور اس کی رکنیت سے محروم نہ بنا دے ،

اس لیے مسجد و محراب اور تعلیم و تدریس کی راہ کو اختیار کیا اور اس کے لیے وہ نکل بھی گئے اور ایک مدت تک گروگرام سکٹر نمبر ستاون (57) ہریانہ کی انجمن مسجد کی امامت وخطابت اور اذان جیسی ” دعوت تامہ” کے مشن پر مامور ہوگئے اور اس تسلسل و استقامت کے ساتھ وہاں رہے جس طرح سعودی عرب جانے والے لوگ وہاں رہتے ہیں اور دو سال ، تین سال کے بعد واپس آتے ہیں ،

ٹھیک اسی طرح حافظ سعد انور شہید ، تقریبآ تین سالوں کے بعد گھر لوٹنے والے تھے ۔ ان کی تیاری مکمل ہوچکی تھی اور وہ گھر لوٹنے کے لیے وقت کے منتظر تھے ۔ شہادت کی رات اور اہل خانہ سے بات ۔۔۔ جولائی سن 2023ء کا آفتاب ڈوب چکا تھا اور یکم اگست کی سحر ہونا چاہتی تھی ،

سعد کا ریل ٹکٹ بھی بن چکا تھا 

وہ گھر پہنچ کر والدین کریمین کی قدم بوسی چاہتے تھے ، بھائی بہنوں کی مسکراہٹ اور متبسم و شگفتگی کے حسین مناظر دیکھنا چاہتے تھے اور انہیں اپنا پیار ومحبت دینا چاہتے تھے ، گھر پر سبھوں کو انتظار تھا ” ماں ” بیٹے کی آمد کے لیے سراپا منتظر تھیں ، اپنی پلکیں بچھائے ہوئیں تھیں ، دیدار و ملاقات کا ارمان سجائے ہوئیں تھیں ، بہنوں کا دل خوشیوں سے لبریز تھا اور چھوٹا بھائی صادق انور ، آگے بڑھ کر استقبال کے لیے سراپا بیقرار تھا

والد گرامی اپنی ضعیفی کو سہارے کی تسلی دے رہے تھے کہ نہ گھبراؤ میری توانائی آ رہی ہے ، دونوں طرف خیالوں کا ہجوم تھا جو ایک فطری بات ہے ، یہی وجہ تھی کہ سعد نے شہادت کی شب میں والدین کریمین سے باتیں کیں ، بڑے بھائی کی اہلیہ سے گفتگو ہوئی ، بہنوں سے ہم کلام ہوئے اور آخری بات ، رات کے گیارہ بج کر بتیس منٹ پر بڑے بھائی “حافظ شاداب انور” سے کی ، بڑے بھائی نے کہا کہ تم رات ہی میں میرے پاس چلے آؤ ! صبح تم کو گھر جانا ہے 

لیکن سعد نے کہا کہ بھائی جان ! امام صاحب یہاں نہیں ہیں اور فجر کی نماز مجھے پڑھانی ہے ، کوئی دوسرا پڑھانے والا بھی نہیں ہے ، اس لیے اس وقت آنا احساس ذمہ داری کے خلاف ہوگا

اس لیے اب ان شاءاللہ نمازِ فجر کے بعد حاضری ہوگی آپ پریشان نہ ہوں مسجد کے باہر پولیس بھی تعینات ہے اور یہ خدا کا گھر ہے ، عبادت و بندگی کی جگہ ہے ، یہاں کوئی کیا کرے گا ؟

آپ فکر نہ کریں ، بات مکمل ہوئی ، سعد اپنے بستر پر فجر کی نماز اور امامت کی نیت کر کے محو خواب ہو گئے اور کچھ ہی دیر سویا ہوگا کہ رات کے اندھیرے اور پولیس کی موجودگی میں ملک کے دشمن عناصر ، امن و سلامتی کے حریف ، اسلام اور مسلمانوں کے سیاہ ناگ ، انسان نما درندے ، اقتدار و کرسی کے حریص ، سانپوں ، درندوں ، اور بھیڑیوں کی ایک ٹیم ، اپنے ہاتھوں میں آتشیں شعلے اور جان لیوہ اسلحوں کے ساتھ مسجد میں گھس گئی 

پہلے مسجد کو نذر آتش کیا اور اس کے بعد “حافظ سعد انور” نائب امام مسجد کو گولی مارا ، اس پر بھی اس کی درندگی اور حیوانیت کو سکون نہیں ملا تو جسم انور کے مختلف حصوں کو شمشیر آبدار کی تیز سانوں سے گود دیا اور پولیس تماشائی بنی رہی 

اس لیے کہ یہ اس کے بیٹے کی جان نہیں تھی ، یہ ایک مؤمن کے فرزند دلبند مؤمن کی جان تھی ۔ سعد انور کی شہادت ہوگئی اس نے جام شہادت نوش کر لیا ، اس کی روح قفسِ عنصری سے نکل گئی اور قندیل ضو فشاں بن کر جنت کے مینارہ نور کا حصہ بن گئی ، جنت کی غذائیں یقیناً مل رہی ہونگی حور و غلماں نے اس کا استقبال کیا ہوگا البتہ ہم سبھوں سے ایک مدت تک کے لیے ملاقات موقوف ہو گئی ۔ سعد انور کی شہادت کے بعد ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعد انور کی شہادت کے بعد اس کی مظلومانہ شہادت کی خبریں ایک طوفان ، بجلی کی رو اور آتش صحرا کی طرح پورے ملک اور ملک سے باہر پھیل گئی ، ہر طرف ایک شور ، ایک غوغا ، ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ، الکٹرانک اور شوشل میڈیا نے کہرام مچا دیا ، ملت ٹائمس کے نمائندوں نے حادثہ کی صحیح تصویر پیش کیا اور اچھی منظر کشی کی ۔ سعد انور سیتامڑھی کے رہنے والے تھے

اور میرا تعلق بھی سیتامڑھی سے ہے اس لیے ملک بھر سے فکر مند احباب و شخصیات نے فون پر تفصیلات جاننے کی کوشش کی ، حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی صاحب پٹنہ ، حضرت مولانا رشید ندوی صاحب ، ممبئی ، محترم جناب صبیح بابو علی گڈھ ، انیس اسلم صاحب دھلی ، مولانا نسیم احمد صاحب وجےواڑہ آندھراپردیش قاری آیاز احمد صاحب سیتامڑھی اور دورو نزدیک کے متعدد احباب نے جنازے کی تفصیل اور تدفین سے متعلق معلومات حاصل کیں ۔ حافظ سعد انور شہید کا جنازہ منیا ڈیہ میں

حافظ سعد شہید کی مظلومانہ شہادت کی خبر اہل خانہ پر ایک بجلی بن کر گر چکی تھی ،

پورا گھرانہ صبر کے سایہ میں غم سے چور تھا ، جو طبعی بھی تھا اور شرعی بھی ، چاہیئے تو یہی تھا کہ شہید کی تدفین وہیں ہوتی جہاں مظلومانہ شہادت ہوئی تھی ، لیکن والدین کریمین کی اجازت نہیں ہوئی اس لیے سعد انور کے بڑے بھائی حافظ شاداب انور نے گھر لانے کا فیصلہ کیا اور قانونی راہ سے گذر کر بذریعہ ایمبولینس دو ( 2) اگست سن 2023ء کو سعد شہید کا جنازہ منیا ڈیہ لا یا گیا اور اس گھر میں پہنچا جہاں سے تین ( 3) سال قبل نکلا تھا ۔ سعد انور شہید کا جنازہ اور زائرین کا ہجوم 

جنازہ مشرقی سفالہ پوش مکان کے بر آمدہ میں رکھا ہوا تھا ، جسم زخموں سے چور تھا ، زندوں کے مانند زخموں سےتازہ خون رس رہا تھا ، چہرے پر سکون و طمانیت تھی حسن و جمال کا نور تھا ، کالی شرعی ڈاڑھی کے ہالہ میں چاند جیسی چاندنی چہرے پر چمک رہی تھی 

منھ کھلا ہوا تھا اور آنکھیں اس طرح وا تھیں کہ گویا وہ حور و غلماں کے استقبالیہ مناظر کو دیکھ رہے ہیں اور جام کوثر و تسنیم سے شہادت کے وقت ، لگی پیاس کو بجھانے کے لیے تیار ہیں ، تاخیر صرف ان کے پہنچنے کی ہے ، اس لیے عملی طور پر وہ سب کو پیغام دے رہے تھے کہ تاخیر اچھی نہیں ہے ۔ لوگ آتے رہے اور ایک آہ بھر کر دیکھتے اور دیکھ کر جاتے رہے 

حافظ سعد انور شہید کی والدہ محترمہ اپنے جواں سال بیٹے ، نو خیز لخت جگر ، امیدوں کا مرکز ، بڑھاپے کی لاٹھی کی شکستگی اور جدائگی پر اشکبار تھیں لیکن نہ کوئی نوحہ تھا اور نہ ماتم ، بہنوں کا وہی حال تھا ، باپ اور بھائی کے آنکھوں کا آنسو غم سے خشک ہو چکا تھا اور چہرے پر شان شہادت کی جلوہ نمائی تھی 

طمانیت و تسکین کا قدرتی تحفہ مل چکا تھا اس لیے وہ سرخرو بھی تھے اور انہیں ہونا بھی چاہیے تھا ، یہی وجہ تھی کہ شہیدوں کے خون کے قدر شناس لوگوں نے صبر کی تلقین اور تعزیتی کلمات کے ساتھ ساتھ مبارکبادی بھی دے رہے تھے اور یہ بھی کہہ رہے تھے کہ حافظ سعد انور شہید کی مظلومانہ شہادت کا خون رنگ لائے گا ، ہند میں کسی بڑے صالح انقلاب کی بنیاد پر چکی ہے ، سعد انور مظلوم شہید کے جسم و تن کی تخم ریزی اور اس کی شہادت کا خون گلشن ہند کی آبیاری کرے گا اور اس کے موسم خزاں کو بہار آفریں بنائے گا ۔ نمازِ جنازہ اور تدفین

 دو ( 2) اگست سن 2023ء کو سعد انور شہید کا جنازہ بذریعہ ایمبولینس گرو گرام سکٹر نمبر ستاون (57) کی انجمن مسجد سے دن کے گیارہ ( 11) بجے منیا ڈیہ پہنچا ، پہلے سے نماز جنازہ کے وقت کا اعلان کیا جا چکا تھا کہ آج ہی بعد نمازِ ظہر شہید کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی اور منیاڈیہ کے آبائی جدید قبرستان میں تدفین ہوگی ، چنانچہ ایساہی ہوا ، دور دراز سے شرکت کرنے والے لوگ پہلے پہنچ چکے تھے ، مہسول سیتامڑھی سے سیاسی نمائندہ جنید صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ پہنچے ہوئے تھے 

جمعیتِ علماء سیتامڑھی کے صدر عالی قدر محترم جناب ڈاکٹر اکرام الحق صاحب ، سکریٹری مخلص و محترم جناب مولانا احسان اللہ شمس صاحب ، شعبہء اصلاح معاشرہ کے ذمہ دار مفتی فیاض صاحب قاسمی اور راقم الحروف بھی جنازے میں شریک تھا ، امارت شرعیہ پٹنہ سے علماء کا ایک وفد بھی آگیا ، شوشل میڈیا ، گرد پیش کے علماء ، مدارس کے طلبہ اور غیور مسلمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی لیکن قرب و جوار کے مسلکی اسیر اور قیدی نے اپنی شرکت کو خلاف مسلک تصور کیا اور وہ لوگ شریک نہیں ہوئے جس سے اچھا اور موئثر پیغام نہیں جا سکا ، حالانکہ ان لوگوں کو سوچنا چاہیے تھا کہ نفرت کے سوداگروں کے ہتھیار پر کوئی مسلک کا نام لکھا ہوا نہیں ہوتا ہے

بلکہ اس کو تو نفس مسلمان سے عداوت ہوتی ہے ۔ جنازہ وقت مقررہ پر ، جنازہ گاہ میں لایا گیا ، ایم ائی ایم کی جماعت اور دوسرے ساتھیوں کے انتظار میں قدر تاخیر بھی ہوئی لیکن اہل خانہ کی تسلی کے خاطر اس کو گوارا کیا گیا ۔ اس وقفے میں قاری حفظ الرحمٰن صاحب ، قاضی وصی صاحب اور راقم نے مختصر تعزیتی پیغام دیا ، نماز جنازہ ادا کی گئی ، اس کے بعد تدفین عمل میں آئی اور ہمیشہ کے لیے سعد انور شہید کو رخصت کر دیا گیا ، اب جنت ہی میں ملاقات ہو سکے گی ۔

حافظ سعد انور شہید کا خانگی پس منظر

حافظ سعد انور شہید ، اپنے تینوں بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے ، بڑے بھائی کا نام شاداب انور اور چھوٹے بھائی کا نام صادق انور ہے اور تینوں بحمدللہ حافظ قرآن ہیں ، چار بہنیں ہیں ، بڑی بہن کی شادی مولانا غلام رسول صاحب ، دملہ ، مدھوبنی سے ہو چکی ہے ، وہ پونے مہاراشٹر میں دین کی خدمت سے وابستہ ہیں ۔ اس کے علاوہ تین بہنیں ہیں جو یک بعد دیگرے ، شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں 

اس کے لیے اہل خانہ اور خصوصاً سعد انور شہید پہلے سے فکر مند تھے اور اس واقعہ کے بعد اہل خانہ کی مزید فکر مندی بڑھ گئی ہوگی ۔ والد صاحب پہلے ممبئی میں تجارت کرتے تھے ، لیکن اب عمر و صحت کی ناہمواری مانع ہے ۔ شاداب اور سعد کی مختصر 

لیکن بابرکت آمدنی سبھوں کے لیے کفاف بنی ہوئی تھی اور اسی پر گذر بسر ہو رہا تھا ، سعد انور شہید کی نانہال ، رام پور سگہری میں تھی وہ گھرانہ تعلیم و تربیت اور تہذیب شرافت کے اعتبار سے ممتاز تھا اور اب بھی ہے ، نانا کا نام : مدنی اختر کریمی تھا ، وہ اچھے خوش نویس اور خطاط تھے ، دارالعلوم بالاساتھ میں ایک عرصہ تک شعبہء خطاطی سے وابستہ رہے

اور آج بھی ان کا خانوادہ رام پور سگہری میں اپنے محاسن سے ممتاز ہے اور علاقہ بھر میں اس کی اپنی شناخت ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ سعد کے اہل خانہ کا رکھ رکھاؤ ، متانت و سنجیدگی ، چہرہ مہرہ اور تہذیب و شرافت ، تمام تر وسائل کی قلت اور مسائل کے ہجوم کے باوجود نمایا ہے ، سماج و معاشرے میں ایسے گھرانے آبرومند سمجھے جاتے ہیں ، ان کی والدہ شروع ہی سے دینی مزاج رکھتی ہیں اس لیے بچوں کو دین کی تعلیم سے آراستہ کرتی رہیں ، ایک وقت تھا کہ حضرت مولانا عبد الحنان صاحب قاسمی رحمۃ اللّٰہ علیہ 

بالا ساتھ سے فجر کی نماز کے بعد تفریح کے لیے نکلتے تو سعد کے گھر پر ضرور جا تے وہاں ٹھرتے ، سعد کی والدہ چنا چورا اور چائے سے حضرت کی ضیافت کرتیں اور بہت خوش ہوتیں کہ حضرت ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں اور یہ معمول بن گیا تھا ، کیا بعید ہے کہ اس درویش کے قدوم میمنت کی برکت سے وہ گھر سعادتوں سے بھر رہا ہو ۔

ملت کے خوش نصیب افراد کا سعد انور شہید کے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک ۔

 مقام شکر ہے کہ ہندوستان کے خوش نصیب اور ملت کے غیور مسلمانوں نے بطورِ خود دست غیب بننے کی کوشش کی ہے اور مزید دست تعاون دراز کر نے کی ضرورت ہے ہنگامے کی نہیں ۔ اس لیے کہ کسی کی عزت نفس کو مارکٹ کے حوالے کر دینا اچھی بات نہیں ہے لیکن ملت کے افراد نے بطورِ خود جو کچھ کیا اور کرنا چاہتے ہیں وہ بہت قابل ستائش اور لائق تبریک ہے ۔

رب کریم اپنی شان کریمی سے ان سبھوں کے ہاتھوں کو مضبوط بنائے اور سرسبز و شاداب رکھے ۔

آمین یارب العالمین بحرمت محمد ابوبکر و عمر و عثمان و علی و اصحابہ اجمعین 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *