حکمت عملی
حکمت عملی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ایمانی واسلامی زندگی مسلمانوں کے لیے مطلوب ومقصود، شریعت کے احکام ومسائل منصوص اور زندگی کے تمام شعبوں کے لیے تفصیلی ہدایات اور طریقۂ کار قرآن واحادیث میں مذکور ہیں
ہماری زندگی اسی کے مطابق گذرنی چاہیے، ان معاملات میں مذاہب یا حکومت کی دخل اندازی کسی بھی درجہ میں مسلمانوں کے لیے نا قابل برداشت ہے اور پوری استطاعت کے ساتھ اس دخل اندازی کو روکنے کے لیے ہر سطح پر تیاری ہماری مذہبی ذمہ داری ہے۔
یہ دخل اندازی کس طرح روکی جا سکتی ہے، اس کا تعلق بڑی حد تک حکمت عملی سے ہے اور حکمت عملی زمان ومکان کے فرق سے الگ الگ ہو سکتی ہے اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے
یہی وجہ ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غزوات بدر، احد، خندق، حنین وغیرہ میں باطل طاقتوں سے مقابلے کے لیے الگ الگ حکمت عملی اختیار کی، کبھی شہر سے باہرجا کر مقابلہ کیا گیا اور کبھی شہر کے قریب خندق کھود کر دفاعی قوت مضبوط کی گئی، بعض کے معاملہ میں فدیہ لے کر رہائی کا فیصلہ کیا گیا اور بعض کو تعلیم وتدریس کی خدمت لے کر چھوڑا گیا
اسی طرح اسلام دشمن طاقتوں سے سمجھوتے میں بھی ساری کفریہ طاقت کو مذہب اسلام سے دور ہونے کی وجہ سے ملت واحدۃ نہیں قرار دیا گیا
حالاں کہ حقیقتا الکفر ملۃ واحدۃ ہی کہا گیا ہے، لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت عملی یہ اختیار کی کہ ہر قبیلے سے الگ الگ معاہدہ کیا؛ تاکہ ان کو اپنی اکثریت اور کفر کے ملۃ واحدۃ ہونے کی وجہ سے بر تری کا احساس نہ ہو
اسی طرح خلیفہ کے انتخاب کے معاملہ کو دیکھیں، ہلکے قسم کے اشارہ کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان خود آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے نہیں کیا، جب کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام کا اعلان فرمادیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس سے مختلف رہا، انہوں نے چند افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی کہ وہ خلیفہ کا انتخاب کرلے، یہ تاریخی واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ احکام منصوص ہیں
عبادت، معاملات وغیرہ کا طریقہ متعین ہے، لیکن حکمت عملی کے اختیار کرنے میں جو شر عی طور پر کسی احکام سے متصادم اور کسی منکراور گناہ میں پڑنے کا سبب نہ بنے یک گونہ حالات وزمانہ کی رعایت کا اس میں دخل ہے۔
اس وقت پورے ملک کے جو حالات ہیں اور مسلمانوں پر کشادگی کے باوجود زمین کے تنگ کرنے اور زندگی دشوار کرنے کی جو مہم چل رہی ہے
جس طرح بے گناہوں کا خون، گائے کے تحفظ، لو جہاد، ہجومی تشدد کے نام پر بہایا جا رہا ہے اور حکومت نے جس طرح عدالت اور پارلیامنٹ کا سہارا لے کر شرعی احکام میں مداخلت کی ٹھان رکھی ہے نیز اسلامی ایمانی زندگی گذارنے سے قانون اور عدالت کے ذریعہ جبراً روکا جا رہا ہے، دستور میں دیئے گیے اقلیتوں کے حقوق و مراعات کی جس طرح اَن دیکھی کی جا رہی ہے اور جس طرح دستور کی آ برو سے کھیلا جا رہا ہے
اس کا تقاضہ یہ ہے کہ مضبوط اور منظم حکمت عملی کے ساتھ اسے روکنے کی کوشش کی جائے او رسرکار کو بتادیا جائے کہ مسلمان اس ملک سے محبت کرتے ہیں، اس ملک کی سالمیت بقاء اوریہاں کی جمہوری اور دستوری قدروں کے تحفظ کے لیے قربانیاں دیتے رہے ہیں
اور آج بھی ملک کے دستور اور جمہوری قدروں کی حفاظت کے لیے آگے ا ٓنے کوتیارہیں اور یہ سب کچھ ہم ہندوستانی دستور وقوانین پر عمل کرتے ہوئے کر سکتے ہیں، ہم قانون کی خلاف ورزی او رفرقہ پرستوں کی طرح لا قانونیت برپا کرکے کچھ نہیں کرنا چاہتے۔