انہیں ماضی کی راہوں پے پلٹ جانے کا وقت آیا
انہیں ماضی کی راہوں پے پلٹ جانے کا وقت آیا
تحریر: طارق ثقافی رسول پوری
“ان هذه امتكم امة واحدة” کا نعرہ لے کر چلنے والی امت محمدیہ کا انقلابی مشن 610ء کو مکہ مکرمہ سے شروع ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے عراق، ایران، آزربائجان، آرمینیا، کرمان، ملک شام اور دمشق تک کے علاقے اسلامی سلطنت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس کے بعد سندھ ،افریقہ اور اسپین جیسی فتوحات سے پوری دنیا میں مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم ہو جاتا ہے اور مسلمان دُنیا کی طاقتور ترین قوم بن کر اُبھرتے ہیں۔
مغرب کے تاریخ داں بھی حیران ہیں کہ مسلمانوں نے اتنے قلیل عرصہ میں ایسا عظیم تاریخی انقلاب کیسے برپا کر دیا کہ دُنیا کے سپر پاور بن گئے!
حیران کن بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ عروج و غلبہ محض سیاست میں نہیں تھا بلکہ تعلیم و صنعت مذہب و ثقافت معیشت و تجارت اور طب و سائنس جیسے دیگر شعبوں میں بھی مسلمان کارہائے نمایاں انجام دے رہے تھے۔ 16 ویں صدی عیسوی قبل کا لیٹریچر بتاتا ہے کہ سائنسی میدان میں مسلمانوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا تھا اور بو علی سینا، (جنکی کتابیں عرصہ دراز تک یوروپ کی یونیورسٹیز میں شامل نصاب رہیں ) جابر ابن حیان(father of chemistry ) عمر خیام، (عظیم ریاضی دان ) الخوارضمی، ( موجودہ دور کی بہترین ایجاد کمپیوٹر بھی انہی کے اصولوں پر کام کرتا ہے جسے کمپیوٹر کے ماہرین algorithm کے نام سے جانتے ہیں ) ابو ریحان البیرونی، اور علّامہ رضی جیسے سائنسداں پیدا کئے اور بڑی بڑی جامعات قائم کیں چنانچہ مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ، بغداد، نیشاپور، غرناطہ اور بخارا میں ایسے تعلیمی ادارے قائم ہوئے کہ پوری دنیا علمی میدان میں مسلمانوں کی محتاج ہو گئی۔
جس طرح آج اعلی تعلیم کے لیے لوگ امریکہ و یورپ کا رخ کرتے ہیں اور اِس کو اپنی زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔ اُس دور میں اقوام عالم اسلامی جامعات کا رخ کرتے تھے۔
علمی خدمات کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے صلاح الدین ایوبی،محمد بن قاسم اور طارق ابن زیاد جیسے بہادر جنرل بھی امت مسلمہ کو عطا کیے جن کے نام سے کفر لرزہ بر اندام تھا.
مسلمانوں کا یہ سفر عروج اسی طرح پروان چڑھتا رہا یہاں تک کہ 1600ء تک دنیا کی تین سب سے بڑی طاقتیں صرف مسلمانوں کے پاس تھیں، سلطنت عثمانیہ ترکی میں، سلطنت مغلیہ ھندوستان میں اور سلطنت صفویہ ایران میں.
ان تینوں سلطنتوں نے دُنیا کے اکثر خطے کو اپنے تحت لے رکھا تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بارہویں صدی کے اواخر میں جب مسلمانوں کا سیاسی و عسکری زوال سامنے آیا اور مسلمان آپسی اختلافات میں پڑ کر فرقہ پرسی کی آگ میں جلنے لگے تو بادشاہان اسلام نے تعلیمی اداروں پر توجہ کم کردی اور جنگ و جدال میں مصروف ہو گئے جس سے ان کا علمی زوال بھی شروع ہو گیا۔
یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوتے ہی بیک وقت بیس ہزار جامعات کو ڈھا دیا گیا اور پھر تحقیق و تصنیف، اجتھاد و حرکت اور نئ دریافتوں و ایجادات کی راہ چھوڑ کر امت مسلمہ جمود و تعطل کا شکار ہوتی چلی گئی اور اس کے نتیجے میں مسلسل پسماندگی میں اضافہ ہوتا رہا
اِس امت کا تنزل سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت کاری، تہذیب و ثقافت، علوم و فنون اور ادب و آرٹ وغیرہ ہر فیلڈ میں ہوا نتیجتاً مسلمان 19 ویں صدی میں آکر انگریزوں کے سیاسی و معاشی غلام بن کے رہ گئے۔
اِس طرح ایک ترقی یافتہ قوم کی حالت یہ ہو گئ کہ وہ ثریا سے تحت الثری پے آ گئی اور ہر میدان میں بلواسطہ یا بلا واسطہ غیروں کی غلام بن کر رہ گئی۔
یہ آپسی اختلافات اور علم سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں بھی مسلمان مسلسل کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ اقتدار سے محروم یہ قوم دن بہ دن پسماندگی کا شکار ہوتی جا رہی ہے اور اب صورتحال یہ ہو چُکی ہے کہ دیگر کمیونٹیز کے بالمقابل ہندوستانی مسلمان ترقی کے اِس دور میں دلتوں سے بھی پچھڑ چُکے ہے۔ شعبئہ تعلیم کی بات کریں تو ہندوستانی مسلمانوں کا لٹریسی ریٹ 58 % ہے یعنی مسلمانوں میں جہالت کی شرح 42% ہے۔
جو کسی بھی جماعت کے لئے انتہائی افسوس ناک ہے بالخصوص اس قوم کے لیے جس کا مشن ہی اقرا سے شروع ہوا تھا۔ دیگر شعبہ جات کی بات کریں تو پولیس میں مسلمانوں کی تعداد 7% ، فوج میں 3% اور موجودہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے بر عکس جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد 25 % ہے.
اس تمام تر صورت حال کے باوجود چہار جانب سے امت مسلمہ پر دشمنوں کی یلغار ہے۔ ایک طرف مذہبی انتہا پسند آتنکواد، لو جہاد، بھارت ماتا کی جے، وندے ماترم،گو رکچھا جیسے پروپیگنڈوں کے نام پر عام مسلمانوں کی لنچنگ کو اپنا پیشہ بنائے ہوئے ہیں تو دوسری جانب نفرت کی راجنیتی یک طرفہ کارروائی، بلڈوزر اور اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے با اثر مُسلم شخصیات کو مُلک کے مرکزی دھارے سے صاف کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
ہمیں کرہ ارض سے مٹانے کے لیے اغیار مکمل تیاری کے ساتھ سازشیں رچ رہے ہیں مگر وہ قوم جسے
“و اعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترهبون به عدو الله “
کے ذریعے تیاری کا حکم دیا گیا تھا وہ آج غفلت کی ایسی چادر اوڑھے ہوئے ہے کہ اسے محمد اخلاق کی آواز سنائی نہیں دیتی ، حافظ جنید کی اسٹیشن پر تڑپتی لاش دکھائی نہیں دیتی، پہلو خان کی بے بسی نظر نہیں آتی، تبریز انصاری کی مظلومیت ہمارے ایمان کو نہیں جھنجوڑتی، آئے دن بے قصور مسلمانوں کے منہدم ہوتے گھر اور انکاؤنٹرز میں جاتی جانیں ہمارے اندر ایمانی حرکت پیدا نہیں کرتیں، فلسطینی بچوں و بہنوں کی چیخ و پکار ہمارے لیے روز مرہ کی بات ہو گئی ہے،
اس کے علاوہ سیریا،برما، عراق، يمن لبنان گویا کہ پورا عالم اسلام اس بحران سے دو چار ہے۔
اس لیے آج ضرورت ہے کہ مسلمان پھر سے اپنے ماضی کی طرف لوٹیں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور موجودہ آتنکواد کے خلاف علمی و فکری جہاد کرتے ہوئے امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کا کام کریں،سماج میں پھیلی برائیوں کا تدارک کر بہتر لائحہ عمل طے کریں اور اپنی ایک مضبوط قیادت تیار کریں تاکہ ہم پھر سے ایک طاقتور اور ترقی یافتہ قوم بن کر اُبھریں۔
جلا ڈالیں تھیں تم نے کشتیاں اندلس کے ساحل پر
مسلماں پھر ترا تاریخ دہرانے کا وقت آیا
چلے تھے 313 جہاں سے تم مسلمانوں
انہیں ماضی کی راہوں پے پلٹ جانے کا وقت آیا
✍️ ۔۔ محمد طارق ثقافی رسول پوری