امام احمد رضا اورجلسہ وعرس میں عورتوں کی شرکت

Spread the love

 امام احمد رضا اورجلسہ وعرس میں عورتوں کی شرکت

(ازقلم: الحاج مفتی محمدشمس تبریز قادری علیمی۔(ارریہ،بہار

مقیم.حال: غوثیہ مسجد، ادارہ شرعیہ، اسلامی مرکز ،رانچی ۔

اللہ رب العزت عزوجل دین اسلام کاحامی وناصر ہے۔نبی کریم ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد اس دین متین کی حفاظت وصیانت صحا بۂ کرام ،تابعین تبع تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے ہوتی رہی ۔تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتاہے کہ جب کبھی دین اسلام کے خلاف فتنہ انگیزی ہوئی ہے تواس کاقلع قمع کرنےکے لئے اللہ رب العزت نےہرقرن اورہرصدی میں مجاہد بندہ ضرور بھیجاہے۔حدیث پاک میں ہے ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے ختم پر اس امت کے لئے ایک مجدد ضرور بھیجتاہے جوامت کے لئے اس کادین تازہ کردے‘‘۔ہم جب چودھویں صدی میں غورکرتے ہیں

تو ہرطرف نئے نئے فتنے جنم لیتے نظرآتے ہیں۔ نئی نئی جماعتیں وجود میں آنے لگیں اورغیر دینی عقائد تراشے جانے لگے ۔ ایسے پُرآشوب وقت میں ضرورت تھی ایک ایسے مجدد کی جوامت کوبلے ہوئے احکام شرعیہ یاد دلائے۔ نبی کریم ﷺ کی مردہ سنتوں کوزندہ کرے۔ تمام سلاسل اورخانقاہوں کے سجادگان کی دعائیں باب اجابت سے ہمکنارہوئیں اوراللہ تعالیٰ نے سرزمین بریلی میں اپناخاص بندہ امام احمد رضاکی شکل میں پیدا فرمادیا۔

امام احمدرضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت شہر بریلی ،محلہ جسولی میں ۱۰/شوال المکرم ۱۲۷۲؁ھ مطابق 14/ جون 1856؁ء ، بروز شنبہ ظہر کے وقت ہوئی۔ آپ کاپیدائشی نام ’’محمد‘‘ اور تاریخی نام ’’المختار‘‘ہے۔جد امجد حضرت مولانا شاہ رضا علی خان نے ’’

احمد رضا‘‘ تجویز فرمایا۔آپ کی تعلیم کاآغاز اس طرح ہواکہ بزرگوں کے طریقے کے بموجب رسم بسم اللہ خوانی ادا کی گئی۔ اور آپ کے دولت کدہ پرہی ایک مولوی صاحب سے ناظرہ قرآن مکمل فرمایا۔آپ کواللہ تعالیٰ نے ایسی ذہانت عطافرمائی کہ جس استاذ کے پاس ابتدائی کتب پڑھاکرتے تھے ایک دومرتبہ دیکھ کرکتاب بند کر دیاکرتے اورجب سبق سناتے توحرف بحرف لفظ بہ لفظ سنادیاکرتےتھے۔ روزانہ یہ حالت دیکھ کر استاذ سخت تعجب کیاکرتے ۔ایک دن استاذ بول پڑے کہ’’

احمد میاں ! یہ تو بتاؤ کہ تم آدمی ہو یاجن ؟ کہ مجھ کو پڑھاتے دیر لگتی ہے مگر تم کو یاد کرتے دیر نہیں لگتی‘‘؟ آپ کی ذہانت کا عالم یہ تھاکہ استاذ سے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی ایک چوتھائی کتاب استاذ سے پڑھنے کے بعد بقیہ تمام کتاب خود ہی یاد کرکے سنا دیاکرتے تھے۔صرف ساڑھے تین سال کی عمر شریف میں ایک بزرگ سے فصیح وبلیغ عربی زبان میں گفتگو کی۔

چار سال کے ہوئے تو آپ نے ناظرہ قرآن ختم کرلیا۔ بارہ ربیع الاول عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پرچھ سال کی عمر میں آپ نےایک بڑے مجمع میں سامعین کے روبرو پہلا خطاب فرمایا۔’’ہدایۃ النحو‘‘ علم نحو کی مشہور درسی کتاب کی عربی شرح آٹھ سال کی عمر مبارک میں تحریر فرمائی۔عمر کے آٹھویں سال میں وراثت کاپہلافتویٰ لکھا جس کودیکھ کروالد محترم بے حد مسرور ہوئے۔ دس سال کی عمر میں ’’مسلم الثبوت‘‘ پرحاشیہ قلمبند کیا۔تیرہ سال دس مہینے  کی عمر شریف میں آپ کودستار فضیلت عطا کی گئی۔

اوراسی سال مسند افتاء کی ذمہ داری باضابطہ طور پر آپ کے سپرد کی گئی۔تقریباً بیس سال کی عمر میں افضل حسین کی بڑی لڑکی ارشاد بیگم سے آپ کاعقدمسنون ہوا۔جن سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی سات اولادیں ہوئیں۔ دولڑکےاورپانچ صاحبزادیاں ۔

(۱)بڑے لڑکے حضرت مولانا حامد رضا خان ،المعروف حجۃ الاسلام(۲) اور چھوٹے صاحبزادے حضرت مولانا مفتی مصطفیٰ رضا خان معروف بہ مفتی اعظم ہند ہیں ۔خداداد صلاحیت وقابلیت کی بناپرآپ نےتمام علوم نقلیہ وعقلیہ میں مہارت تامہ حاصل کیں۔علوم طریقت ومعرفت کے حصول کے لئے والد بزرگوار کے ہمراہ مارہرہ شریف حاضر ہوئے اور سیدنا سرکار آل رسول احمدی رحمۃ اللہ علیہ کی شرف بیعت سے مشر ف ہوئے اور اسی محفل میں پیرومرشد برحق نے تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطافرمائی ۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحقیق وتدقیق،تبحرعلمی اورکثرت تصانیف کے لحاظ سے بلاشبہ یکتائے زمانہ بزرگ تھے۔خداوند عالم نے اپنا خاص فضل فرمایا کہ آپ نے تفسیر،اصول تفسیر،حدیث،اصول حدیث،اسما الرجال،جرح وتعدیل،اصول فقہ،منطق ،فلسفہ،عقائد وکلام،ادب،معانی،بیان،بدیع،بلاغت وغیرہ بچاس علوم وفنون میں تقریباً ایک ہزارکتابیں تصنیف فرمائیں۔

آپ کی صلاحیت وقابلیت کا لوہا بڑے بڑے اہل علم اورمشہور زمانہ علماء وفضلا نے ماناہے۔ اپنوں کی توبات ہی کیا ،غیروں کی محفل میں بھی آپ کے علم وفضل کا شہرہ تھا۔علوم عقلیہ ونقلیہ میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔فقہ میں تو آپ کی نکتہ رسی وباریک بینی اورکمال کاہرموافق ومخالف معترف ہے ۔  بدمذہبوں اور گستاخِ نبی نے جب ترجمۂ قرآن کے نام پر غلط تراجم شائع کئے،جس سے ایمان وعقائد متزلزل ہونے لگے توامام احمدرضاعلیہ الرحمہ نے ’’کنزالایمان ‘‘ تحریر فرمایااوراس طرح مسلمانوں کے ایمان وعقائد کی حفاظت فرمائی ۔

اور جب شرعی مسائل کے نام پرشب خون ماراجانے لگاتو وقت کامجدد بے چین ہوگیا اور’’فتاویٰ رضویہ ‘‘بارہ جلدوں میں ایک ایسا علمی فقہی انسائیکلو پیڈیا لکھ دیاکہ ایمانی لٹیروں کے پاس جس کا اب تک کوئی جواب نہیں ۔ جس کی ایک ایک جلد تقریباً ایک ہزار صفحات پرمشتمل ہے۔تخریج شدہ نیا ایڈیشن تیس جلدوں پر مشتمل ملک وبیرون ملک سے شائع ہوچکاہے۔ اس میں مستفسرہ سوالات کے نہایت علمی اورتحقیقی جوابات دیئے گئے ہیں ۔ بلاشبہ یہ آپ کاعظیم علمی شاہکارہے۔

آپ نے اپنی قیمتی زندگی کا سارا حصہ اسلام کی حمایت ،مسلک اہل سنت کی ترویج واشاعت اور علوم وفنون کی خدمت میں گزاردیا۔آخر وہ ساعت موعود آگئی جس کاہر نفس کو انتظارہے۔ سن عیسوی کے اعتبار سے ۶۵/سال اورباعتبارسن ہجری ۶۸/برس کی عمر میں بروز جمعہ،بوقت: ۲/  بج کر ۳۸/منٹ پر، ۲۵/ صفر المظفر ۱۳۴۰؁ھ مطابق نومبر ۱۹۲۱؁ء کو یہ عاشقِ رسول داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے خالق سے جاملے۔(بحوالہ:حیات اعلیٰ حضرت،ماہنامہ المیزان کاامام احمد رضانمبر ،سیرت اعلیٰ حضرت)

امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے بدعقیدوں ، ایمان کے لٹیروں کا اصلی چہرہ جب لوگوں کے سامنے عیاں کردیا تو ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے ‘‘ کے مترادف بے جاالزامات اور طعن وتشنیع کے تیر وں سے آپ کونشانہ بنایا جانے لگا ۔سنی سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لئے حیلے بہانےاورغلط پروپیگنڈوں کاسہارا لیا گیا ۔اور لٹریچر،کتابچے،اخبارات کے ذریعے اپنی من گھڑت باتیں شائع کی گئیں ۔ ان طوفان بدتمیزی میں سے یہ باتیں بہت زیادہ مشہور کی گئیں کہ دیکھو جن کو عاشق رسول ،اسلام وسنیت کاحامی کہاجاتاہے وہ تو بدعات ومنکرات کو فروغ دینے والے ہیں۔مگر ان جاہلوں کوکون سمجھائے کہ جنہوں نے ایک ایک برائی کے خلاف مسلسل قلمی جہاد کیا ہو بھلا وہ بدعات ومنکرات کوفروغ دینے والا کیسے ہوسکتاہے؟ وہ کونسی بدعت قبیحہ اوروہ کون سا مکروہ وممنوع کام ہے جس کی انہوں نے حمایت کی ہو؟

عنوانِ مضمون کے تحت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جلسہ و جلوس اوراعراس میں عورتوں کی شرکت کے متعلق کیا فرمایا ہے اسی پر روشنی ڈالی جارہی ہے، قارئین اسے بغور پڑھیں اورخود ہی فیصلہ کریں کہ مخالفین کے الزامات کس قدر بے بنیاد اورعبث ہیں۔ امام احمدرضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے دریافت کیاگیا کہ جلسہ وجلوس میں عورتوں کا جانا درست ہے یانہیں؟ تو آپ فرماتے ہیں:’

’ اگر واعظ ،اکثرواعظانِ زمانہ کی طرح جاہل وناعاقل وبے باک وناقابل ہوتے ہیں ۔مبلغ علم کچھ ،اشعار خوانی یابے سروپاکہانی ،یاتفسیر مصنوع یاتحدیث موضوع ۔ نہ عقائد کاپاس۔ نہ مسائل کا احتفاظ ۔ نہ خدا سے شرم نہ رسول کالحاظ ،

غایت مقصود پسند عوام، اورنہایت مراد جمعِ حُطام، یا ذاکر ایسے ہی ذاکرین ، غافلین،مبطلین سے کہ رسائل پڑھیں توجہال مغرورکے، اشعار گائیں توشعراء بے شعور کے، انبیا کی توہین۔خداپراتہام اورنعت ومنقبت کانام بد نام ۔جب تو جانا بھی گناہ ،بھیجنا بھی حرام اوراپنے یہاں انعقاد مجمع ِ آثام۔

آج کل اکثر مواعظ ومجالس کایہی حالِ پُر ملال۔اسی طرح اگرعادتِ نساء سے معلوم یامظنون کہ بنام مجلس وعظ وذکر اقدس جائیں۔ اورسنیں نہ سنائیں بلکہ عین وقتِ ذکر اپنی کچریاں پکائیں ۔ جیساکہ غالب احوال زنانِ زماں ۔توبھی ممانعت ہی سبیل ہے۔ک

ہ اب یہ جانا اگرچہ بنامِ خیر ہے مگربروجہ غیر ہے۔ ذکرو تذکیر کے وقت لغو ولَغَط شرعاً ممنوع وغلط۔ اور اگران سب مفاسد سے خالی ہو۔ اوروہ قلیل ونادر ہے تو محارم کے یہاں بشرائط معلومہ بھیجنے میں حرج نہیں اور غیر محارم یعنی مکان غیر یاغیر مکان میں بھیجنا اگر کسی طرح احتمال فتنہ یا منکر کامظنہ یا وعظ وذکر سے پہلے پہنچ کر اپنی مجالس جمانا یا بعد ختم اسی مجمع زنان کا رنگ منانا ہوتوبھی نہ بھیجے کہ منکر ونامنکر مل کر منکر. اور اگر فرض کیجئے کہ واعظ و ذاکر عالم سنی متدین ماہر ،

اور عورتیں جاکر حسب آداب شرع بحضور قلب سماع میں مشغول رہیں اور حال مجلس وسابق ولاحق وذہاب وایاب جملہ اوقات میں جمیع منکرات وشنائع مالوفہ وغیر مالوفہ معروفہ وغیر معروفہ سب سے تحفظِ تام وتحرز تمام پر اطمینان کافی ووافی ہو۔ اور سبحان اللہ ! کہاں تحرز اورکہاں اطمینان۔تو محارم کے یہاں بھیجنے میں اصلاً حرج نہیں‘‘۔

(اقتباس :احکام شریعت ،سوم ،بحوالہ امام احمد رضا اوررد بدعات ومنکرات ،ص:۳۳۸/۳۴۰)

تحریر کردہ اقتباس کی روشنی میں ہراہل فکرونظر پر یہ بات آفتاب نیم روز سے بھی زیادہ روشن ہوجانی چاہیے کہ مخالفین کے من گھڑت الزامات یکسر بے اصل ہیں۔آپ سے سوال کیاگیاکہ جلسہ وجلوس میں عورتوں کی شرکت درست ہے یانہیں ؟

تو آپ نے کس قدر اچھوتے اسلوب اور علمی انداز میں یہ واضح کیاکہ جلسہ میں خطاب کرنے والے اکثر مقررین کاحال اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ جہالت وبے باکی اورکم علمی کامظاہرہ کھلے عام کیاجارہاہے۔وعظ ونصیحت کی جگہ بے سروپاکہانی اورموضوع روایات سناکر گمراہ کیاجارہاہے۔

نہ تو شریعت کے مسائل یاد ہیں اورنہ ہی خوفِ خدا وشرم نبی ۔ان خطباء کامقصود یہ ہے کہ کسی طرح عوام سے واہ واہی لوٹنا ہے۔پندونصائح کے نام پر ایسے ایسے من گھڑت واقعات بیان کئے جاتے ہیں جن سے لوگوں میں بے راہ روی پیدا ہو رہی ہے ،ا

سی طرح شعرا کے حالات بیان فرمایا۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ایک سو برس پہلے جلسہ وجلوس کے متعلق سرکارِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے بیان فرمایا اورپھرکہا کہ ایسے جلسہ وجلوس میں عورتوں کی شرکت گناہ اوربھیجناحرام ہے۔عصر حاضر کے جلسہ میں مدعو پیشہ و خطباء و شعراء کے احوال وکوائف کس قدر بھیانک ہیں ذرا اندازہ لگائیں کہ آج اکثر جلسوں میں شاعری کے نام پر چاپلوسی ،ریاکاری

،ڈرامہ بازی کابازار گرم ہے، بھلا ایسے جلسوں میں عورتوں کی شرکت کیسے درست ہوسکتی ہے ؟ میرے امام نے شریعت مطہرہ کی روشنی میں یہ بتادیاکہ اگر جلسے وجلوس منکرات وممنوعات سے یکسر خالی ہوں توبشرائط، محارم کے یہاں بھیجنے میں حرج نہیں۔

  امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے عرس یاغیر عرس میں بزرگوں کے مزارات پر عورتوں کی شرکت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے جواباً تحریر فرمایا: ’’ عورتوں کو مزارات اولیاء ومقابر عوام دونوں پر جانے کی ممانعت ہے‘‘۔  امام احمد رضا اورجلسہ وعرس میں عورتوں کی شرکت v

(ازقلم: الحاج مفتی محمدشمس تبریز قادری علیمی۔(ارریہ،بہار 

مقیم.حال: غوثیہ مسجد، ادارہ شرعیہ، اسلامی مرکز ،رانچی ۔

اللہ رب العزت عزوجل دین اسلام کاحامی وناصر ہے۔نبی کریم ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد اس دین متین کی حفاظت وصیانت صحا بۂ کرام ،تابعین تبع تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے ہوتی رہی ۔تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتاہے کہ جب کبھی دین اسلام کے خلاف فتنہ انگیزی ہوئی ہے تواس کاقلع قمع کرنےکے لئے اللہ رب العزت نےہرقرن اورہرصدی میں مجاہد بندہ ضرور بھیجاہے۔حدیث پاک میں ہے ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے ختم پر اس امت کے لئے ایک مجدد ضرور بھیجتاہے جوامت کے لئے اس کادین تازہ کردے‘‘۔ہم جب چودھویں صدی میں غورکرتے ہیں تو ہرطرف نئے نئے فتنے جنم لیتے نظرآتے ہیں۔ نئی نئی جماعتیں وجود میں آنے لگیں اورغیر دینی عقائد تراشے جانے لگے ۔ ایسے پُرآشوب وقت میں ضرورت تھی ایک ایسے مجدد کی جوامت کوبلے ہوئے احکام شرعیہ یاد دلائے۔ نبی کریم ﷺ کی مردہ سنتوں کوزندہ کرے۔ تمام سلاسل اورخانقاہوں کے سجادگان کی دعائیں باب اجابت سے ہمکنارہوئیں اوراللہ تعالیٰ نے سرزمین بریلی میں اپناخاص بندہ امام احمد رضاکی شکل میں پیدا فرمادیا۔ امام احمدرضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت شہر بریلی ،محلہ جسولی میں ۱۰/شوال المکرم ۱۲۷۲؁ھ مطابق 14/ جون 1856؁ء ، بروز شنبہ ظہر کے وقت ہوئی۔ آپ کاپیدائشی نام ’’محمد‘‘ اور تاریخی نام ’’المختار‘‘ہے۔جد امجد حضرت مولانا شاہ رضا علی خان نے ’’ احمد رضا‘‘ تجویز فرمایا۔آپ کی تعلیم کاآغاز اس طرح ہواکہ بزرگوں کے طریقے کے بموجب رسم بسم اللہ خوانی ادا کی گئی۔ اور آپ کے دولت کدہ پرہی ایک مولوی صاحب سے ناظرہ قرآن مکمل فرمایا۔آپ کواللہ تعالیٰ نے ایسی ذہانت عطافرمائی کہ جس استاذ کے پاس ابتدائی کتب پڑھاکرتے تھے ایک دومرتبہ دیکھ کرکتاب بند کر دیاکرتے اورجب سبق سناتے توحرف بحرف لفظ بہ لفظ سنادیاکرتےتھے۔ روزانہ یہ حالت دیکھ کر استاذ سخت تعجب کیاکرتے ۔ایک دن استاذ بول پڑے کہ’’ احمد میاں ! یہ تو بتاؤ کہ تم آدمی ہو یاجن ؟ کہ مجھ کو پڑھاتے دیر لگتی ہے مگر تم کو یاد کرتے دیر نہیں لگتی‘‘؟ آپ کی ذہانت کا عالم یہ تھاکہ استاذ سے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی ایک چوتھائی کتاب استاذ سے پڑھنے کے بعد بقیہ تمام کتاب خود ہی یاد کرکے سنا دیاکرتے تھے۔صرف ساڑھے تین سال کی عمر شریف میں ایک بزرگ سے فصیح وبلیغ عربی زبان میں گفتگو کی۔ چار سال کے ہوئے تو آپ نے ناظرہ قرآن ختم کرلیا۔ بارہ ربیع الاول عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پرچھ سال کی عمر میں آپ نےایک بڑے مجمع میں سامعین کے روبرو پہلا خطاب فرمایا۔’’ہدایۃ النحو‘‘ علم نحو کی مشہور درسی کتاب کی عربی شرح آٹھ سال کی عمر مبارک میں تحریر فرمائی۔عمر کے آٹھویں سال میں وراثت کاپہلافتویٰ لکھا جس کودیکھ کروالد محترم بے حد مسرور ہوئے۔ دس سال کی عمر میں ’’مسلم الثبوت‘‘ پرحاشیہ قلمبند کیا۔تیرہ سال دس مہینے  کی عمر شریف میں آپ کودستار فضیلت عطا کی گئی۔ اوراسی سال مسند افتاء کی ذمہ داری باضابطہ طور پر آپ کے سپرد کی گئی۔تقریباً بیس سال کی عمر میں افضل حسین کی بڑی لڑکی ارشاد بیگم سے آپ کاعقدمسنون ہوا۔جن سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی سات اولادیں ہوئیں۔ دولڑکےاورپانچ صاحبزادیاں ۔ (۱)بڑے لڑکے حضرت مولانا حامد رضا خان ،المعروف حجۃ الاسلام(۲) اور چھوٹے صاحبزادے حضرت مولانا مفتی مصطفیٰ رضا خان معروف بہ مفتی اعظم ہند ہیں ۔خداداد صلاحیت وقابلیت کی بناپرآپ نےتمام علوم نقلیہ وعقلیہ میں مہارت تامہ حاصل کیں۔علوم طریقت ومعرفت کے حصول کے لئے والد بزرگوار کے ہمراہ مارہرہ شریف حاضر ہوئے اور سیدنا سرکار آل رسول احمدی رحمۃ اللہ علیہ کی شرف بیعت سے مشر ف ہوئے اور اسی محفل میں پیرومرشد برحق نے تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطافرمائی ۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحقیق وتدقیق،تبحرعلمی اورکثرت تصانیف کے لحاظ سے بلاشبہ یکتائے زمانہ بزرگ تھے۔خداوند عالم نے اپنا خاص فضل فرمایا کہ آپ نے تفسیر،اصول تفسیر،حدیث،اصول حدیث،اسما الرجال،جرح وتعدیل،اصول فقہ،منطق ،فلسفہ،عقائد وکلام،ادب،معانی،بیان،بدیع،بلاغت وغیرہ بچاس علوم وفنون میں تقریباً ایک ہزارکتابیں تصنیف فرمائیں۔ آپ کی صلاحیت وقابلیت کا لوہا بڑے بڑے اہل علم اورمشہور زمانہ علماء وفضلا نے ماناہے۔ اپنوں کی توبات ہی کیا ،غیروں کی محفل میں بھی آپ کے علم وفضل کا شہرہ تھا۔علوم عقلیہ ونقلیہ میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔فقہ میں تو آپ کی نکتہ رسی وباریک بینی اورکمال کاہرموافق ومخالف معترف ہے ۔  بدمذہبوں اور گستاخِ نبی نے جب ترجمۂ قرآن کے نام پر غلط تراجم شائع کئے،جس سے ایمان وعقائد متزلزل ہونے لگے توامام احمدرضاعلیہ الرحمہ نے ’’کنزالایمان ‘‘ تحریر فرمایااوراس طرح مسلمانوں کے ایمان وعقائد کی حفاظت فرمائی ۔ اور جب شرعی مسائل کے نام پرشب خون ماراجانے لگاتو وقت کامجدد بے چین ہوگیا اور’’فتاویٰ رضویہ ‘‘بارہ جلدوں میں ایک ایسا علمی فقہی انسائیکلو پیڈیا لکھ دیاکہ ایمانی لٹیروں کے پاس جس کا اب تک کوئی جواب نہیں ۔ جس کی ایک ایک جلد تقریباً ایک ہزار صفحات پرمشتمل ہے۔تخریج شدہ نیا ایڈیشن تیس جلدوں پر مشتمل ملک وبیرون ملک سے شائع ہوچکاہے۔ اس میں مستفسرہ سوالات کے نہایت علمی اورتحقیقی جوابات دیئے گئے ہیں ۔ بلاشبہ یہ آپ کاعظیم علمی شاہکارہے۔ آپ نے اپنی قیمتی زندگی کا سارا حصہ اسلام کی حمایت ،مسلک اہل سنت کی ترویج واشاعت اور علوم وفنون کی خدمت میں گزاردیا۔آخر وہ ساعت موعود آگئی جس کاہر نفس کو انتظارہے۔ سن عیسوی کے اعتبار سے ۶۵/سال اورباعتبارسن ہجری ۶۸/برس کی عمر میں بروز جمعہ،بوقت: ۲/  بج کر ۳۸/منٹ پر، ۲۵/ صفر المظفر ۱۳۴۰؁ھ مطابق نومبر ۱۹۲۱؁ء کو یہ عاشقِ رسول داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے خالق سے جاملے۔(بحوالہ:حیات اعلیٰ حضرت،ماہنامہ المیزان کاامام احمد رضانمبر ،سیرت اعلیٰ حضرت) امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے بدعقیدوں ، ایمان کے لٹیروں کا اصلی چہرہ جب لوگوں کے سامنے عیاں کردیا تو ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے ‘‘ کے مترادف بے جاالزامات اور طعن وتشنیع کے تیر وں سے آپ کونشانہ بنایا جانے لگا ۔سنی سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لئے حیلے بہانےاورغلط پروپیگنڈوں کاسہارا لیا گیا ۔اور لٹریچر،کتابچے،اخبارات کے ذریعے اپنی من گھڑت باتیں شائع کی گئیں ۔ ان طوفان بدتمیزی میں سے یہ باتیں بہت زیادہ مشہور کی گئیں کہ دیکھو جن کو عاشق رسول ،اسلام وسنیت کاحامی کہاجاتاہے وہ تو بدعات ومنکرات کو فروغ دینے والے ہیں۔مگر ان جاہلوں کوکون سمجھائے کہ جنہوں نے ایک ایک برائی کے خلاف مسلسل قلمی جہاد کیا ہو بھلا وہ بدعات ومنکرات کوفروغ دینے والا کیسے ہوسکتاہے؟ وہ کونسی بدعت قبیحہ اوروہ کون سا مکروہ وممنوع کام ہے جس کی انہوں نے حمایت کی ہو؟  عنوانِ مضمون کے تحت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جلسہ و جلوس اوراعراس میں عورتوں کی شرکت کے متعلق کیا فرمایا ہے اسی پر روشنی ڈالی جارہی ہے، قارئین اسے بغور پڑھیں اورخود ہی فیصلہ کریں کہ مخالفین کے الزامات کس قدر بے بنیاد اورعبث ہیں۔ امام احمدرضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے دریافت کیاگیا کہ جلسہ وجلوس میں عورتوں کا جانا درست ہے یانہیں؟ تو آپ فرماتے ہیں:’ ’ اگر واعظ ،اکثرواعظانِ زمانہ کی طرح جاہل وناعاقل وبے باک وناقابل ہوتے ہیں ۔مبلغ علم کچھ ،اشعار خوانی یابے سروپاکہانی ،یاتفسیر مصنوع یاتحدیث موضوع ۔ نہ عقائد کاپاس۔ نہ مسائل کا احتفاظ ۔ نہ خدا سے شرم نہ رسول کالحاظ ، غایت مقصود پسند عوام، اورنہایت مراد جمعِ حُطام، یا ذاکر ایسے ہی ذاکرین ، غافلین،مبطلین سے کہ رسائل پڑھیں توجہال مغرورکے، اشعار گائیں توشعراء بے شعور کے، انبیا کی توہین۔خداپراتہام اورنعت ومنقبت کانام بد نام ۔جب تو جانا بھی گناہ ،بھیجنا بھی حرام اوراپنے یہاں انعقاد مجمع ِ آثام۔ آج کل اکثر مواعظ ومجالس کایہی حالِ پُر ملال۔اسی طرح اگرعادتِ نساء سے معلوم یامظنون کہ بنام مجلس وعظ وذکر اقدس جائیں۔ اورسنیں نہ سنائیں بلکہ عین وقتِ ذکر اپنی کچریاں پکائیں ۔ جیساکہ غالب احوال زنانِ زماں ۔توبھی ممانعت ہی سبیل ہے۔ک ہ اب یہ جانا اگرچہ بنامِ خیر ہے مگربروجہ غیر ہے۔ ذکرو تذکیر کے وقت لغو ولَغَط شرعاً ممنوع وغلط۔ اور اگران سب مفاسد سے خالی ہو۔ اوروہ قلیل ونادر ہے تو محارم کے یہاں بشرائط معلومہ بھیجنے میں حرج نہیں اور غیر محارم یعنی مکان غیر یاغیر مکان میں بھیجنا اگر کسی طرح احتمال فتنہ یا منکر کامظنہ یا وعظ وذکر سے پہلے پہنچ کر اپنی مجالس جمانا یا بعد ختم اسی مجمع زنان کا رنگ منانا ہوتوبھی نہ بھیجے کہ منکر ونامنکر مل کر منکر. اور اگر فرض کیجئے کہ واعظ و ذاکر عالم سنی متدین ماہر ، اور عورتیں جاکر حسب آداب شرع بحضور قلب سماع میں مشغول رہیں اور حال مجلس وسابق ولاحق وذہاب وایاب جملہ اوقات میں جمیع منکرات وشنائع مالوفہ وغیر مالوفہ معروفہ وغیر معروفہ سب سے تحفظِ تام وتحرز تمام پر اطمینان کافی ووافی ہو۔ اور سبحان اللہ ! کہاں تحرز اورکہاں اطمینان۔تو محارم کے یہاں بھیجنے میں اصلاً حرج نہیں‘‘۔ (اقتباس :احکام شریعت ،سوم ،بحوالہ امام احمد رضا اوررد بدعات ومنکرات ،ص:۳۳۸/۳۴۰) تحریر کردہ اقتباس کی روشنی میں ہراہل فکرونظر پر یہ بات آفتاب نیم روز سے بھی زیادہ روشن ہوجانی چاہیے کہ مخالفین کے من گھڑت الزامات یکسر بے اصل ہیں۔آپ سے سوال کیاگیاکہ جلسہ وجلوس میں عورتوں کی شرکت درست ہے یانہیں ؟ تو آپ نے کس قدر اچھوتے اسلوب اور علمی انداز میں یہ واضح کیاکہ جلسہ میں خطاب کرنے والے اکثر مقررین کاحال اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ جہالت وبے باکی اورکم علمی کامظاہرہ کھلے عام کیاجارہاہے۔وعظ ونصیحت کی جگہ بے سروپاکہانی اورموضوع روایات سناکر گمراہ کیاجارہاہے۔ نہ تو شریعت کے مسائل یاد ہیں اورنہ ہی خوفِ خدا وشرم نبی ۔ان خطباء کامقصود یہ ہے کہ کسی طرح عوام سے واہ واہی لوٹنا ہے۔پندونصائح کے نام پر ایسے ایسے من گھڑت واقعات بیان کئے جاتے ہیں جن سے لوگوں میں بے راہ روی پیدا ہو رہی ہے ،ا سی طرح شعرا کے حالات بیان فرمایا۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ایک سو برس پہلے جلسہ وجلوس کے متعلق سرکارِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے بیان فرمایا اورپھرکہا کہ ایسے جلسہ وجلوس میں عورتوں کی شرکت گناہ اوربھیجناحرام ہے۔عصر حاضر کے جلسہ میں مدعو پیشہ و خطباء و شعراء کے احوال وکوائف کس قدر بھیانک ہیں ذرا اندازہ لگائیں کہ آج اکثر جلسوں میں شاعری کے نام پر چاپلوسی ،ریاکاری ،ڈرامہ بازی کابازار گرم ہے، بھلا ایسے جلسوں میں عورتوں کی شرکت کیسے درست ہوسکتی ہے ؟ میرے امام نے شریعت مطہرہ کی روشنی میں یہ بتادیاکہ اگر جلسے وجلوس منکرات وممنوعات سے یکسر خالی ہوں توبشرائط، محارم کے یہاں بھیجنے میں حرج نہیں۔   امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے عرس یاغیر عرس میں بزرگوں کے مزارات پر عورتوں کی شرکت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے جواباً تحریر فرمایا: ’’ عورتوں کو مزارات اولیاء ومقابر عوام دونوں پر جانے کی ممانعت ہے‘‘۔ (احکام شریعت،حصہ دوم،ص:۱۶۸) اسی طرح ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:’’ میں اس رخصت کوجو بحرالرائق میں لکھی ہے مان کرنظر بحالات نساء سوائے حاضری روضۂ انور کہ واجب یاقریب بواجب ہے، مزاراتِ اولیاء یا دیگر قبور کی زیارت کوعورتوں کا جانا باتباع غنیہ علامہ محقق ابراہیم حلبی ہرگز پسند نہیں کرتا، خصوصاً اس طوفانِ بے تمیزی رقص ومزامیرو سرودمیں جوآج کل جُہّال نے اعراسِ طیبہ میں برپا کررکھاہے اس کی شرکت تو میں عوام رجال کو بھی پسندنہیں رکھتا نہ کہ وہ جن کو انجشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حُدی خوانی بالحان خوش پرعورتوں کے سامنے ممانعت فرماکرانہیں نازک شیشیاں فرمایا‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ ،مخرجہ،ج،۹،ص۵۴۱/۵۴۲) امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’امام قاضی سے استفتاء ہواکہ عورتوں کامقابر کوجانا جائز ہے یانہیں؟ فرمایا: ایسی جگہ جواز وعدمِ جواز نہیں پوچھتے ، یہ پُوچھو کہ اس میں عورت پر کتنی لعنت پڑتی ہے؟ جب گھر سے قبور کی طرف چلنے کاارادہ کرتی ہے اللہ اور فرشتوں کی لعنت میں ہوتی ہے، جب گھر سے باہر نکلتی ہے سب طرفوں سے شیطان اسے گھیر لیتے ہیں، جب قبر تک پہنچتی ہے میت کی روح اس پر لعنت کرتی ہے، جب واپس آتی ہے اللہ کی لعنت میں ہوتی ہے‘‘۔(ایضاً ص:۵۵۷) قارئین ! ہمیں عدل وانصاف کی نگاہوں سے امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔مخالفین نے بغض و حسد کا چشمہ لگاکر دیکھا اورحق سے چشم پوشی کی اوربے بنیاد غلط باتیں عوام تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔جن لوگوں نے انصاف کی نظر سے میرے امام کو دیکھا تو وہ بولنے پر مجبور ہوگئے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جو کہااورلکھا وہ قرآن واحادیث کی روشنی میں اور عشقِ رسول کی بنیاد پر ہے۔امام احمد رضا فاضل بریلوی نے معاشرے میں رائج بیہودہ مراسم اورغلط طریقے کاخاتمہ کیاہے۔ع رس اولیاء کے نام پر  جہال اور بے دین خدام نے اختلاط مردوزن کا جو بازار گرم کیا ہے یہ سراسر غلط اور حرام ہے۔عصر حاضر میں اکثر مزارات پراختلاط مردوزن کی بے حیائی اس قدر عام ہے کہ تقویٰ شعار لوگ شرکت سے محروم رہ جاتے ہیں۔میرے امام نے قبور مسلمین ومزارات اولیاء کی زیارت کو جانے والی عورتوں کو سختی سے منع فرمادیاہے۔ مگر آج مزارات پر مردوں سے زیادہ عورتوں کاازدحام دیکھ کرسرشرم سے جھک جاتاہے۔ا للہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور اپنی عورتوں کو پردہ میں رکھنے کی توفیق دے، ا پنے محبوبین کے فیوض وبرکات سے مستفیض فرمائے۔آمین۔ Stabrazalimi786@gmail.com (احکام شریعت،حصہ دوم،ص:۱۶۸) اسی طرح ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:’’ میں اس رخصت کوجو بحرالرائق میں لکھی ہے مان کرنظر بحالات نساء سوائے حاضری روضۂ انور کہ واجب یاقریب بواجب ہے، مزاراتِ اولیاء یا دیگر قبور کی زیارت کوعورتوں کا جانا باتباع غنیہ علامہ محقق ابراہیم حلبی ہرگز پسند نہیں کرتا، خصوصاً اس طوفانِ بے تمیزی رقص ومزامیرو سرودمیں جوآج کل جُہّال نے اعراسِ طیبہ میں برپا کررکھاہے اس کی شرکت تو میں عوام رجال کو بھی پسندنہیں رکھتا نہ کہ وہ جن کو انجشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حُدی خوانی بالحان خوش پرعورتوں کے سامنے ممانعت فرماکرانہیں نازک شیشیاں فرمایا‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ ،مخرجہ،ج،۹،ص۵۴۱/۵۴۲) امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’امام قاضی سے استفتاء ہواکہ عورتوں کامقابر کوجانا جائز ہے یانہیں؟ فرمایا: ایسی جگہ جواز وعدمِ جواز نہیں پوچھتے ، یہ پُوچھو کہ اس میں عورت پر کتنی لعنت پڑتی ہے؟ جب گھر سے قبور کی طرف چلنے کاارادہ کرتی ہے اللہ اور فرشتوں کی لعنت میں ہوتی ہے، جب گھر سے باہر نکلتی ہے سب طرفوں سے شیطان اسے گھیر لیتے ہیں، جب قبر تک پہنچتی ہے میت کی روح اس پر لعنت کرتی ہے، جب واپس آتی ہے اللہ کی لعنت میں ہوتی ہے‘‘۔(ایضاً ص:۵۵۷) قارئین ! ہمیں عدل وانصاف کی نگاہوں سے امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔مخالفین نے بغض و حسد کا چشمہ لگاکر دیکھا اورحق سے چشم پوشی کی اوربے بنیاد غلط باتیں عوام تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔جن لوگوں نے انصاف کی نظر سے میرے امام کو دیکھا تو وہ بولنے پر مجبور ہوگئے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جو کہااورلکھا وہ قرآن واحادیث کی روشنی میں اور عشقِ رسول کی بنیاد پر ہے۔امام احمد رضا فاضل بریلوی نے معاشرے میں رائج بیہودہ مراسم اورغلط طریقے کاخاتمہ کیاہے۔ع رس اولیاء کے نام پر  جہال اور بے دین خدام نے اختلاط مردوزن کا جو بازار گرم کیا ہے یہ سراسر غلط اور حرام ہے۔عصر حاضر میں اکثر مزارات پراختلاط مردوزن کی بے حیائی اس قدر عام ہے کہ تقویٰ شعار لوگ شرکت سے محروم رہ جاتے ہیں۔میرے امام نے قبور مسلمین ومزارات اولیاء کی زیارت کو جانے والی عورتوں کو سختی سے منع فرمادیاہے۔ مگر آج مزارات پر مردوں سے زیادہ عورتوں کاازدحام دیکھ کرسرشرم سے جھک جاتاہے۔ا للہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم سے نوازے اور اپنی عورتوں کو پردہ میں رکھنے کی توفیق دے، ا پنے محبوبین کے فیوض وبرکات سے مستفیض فرمائے۔آمین۔ Stabrazalimi786@gmail.com

One thought on “امام احمد رضا اورجلسہ وعرس میں عورتوں کی شرکت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *