بھارت میں اسلامی حکومت ہوتی تو آبادی کا تناسب مختلف ہوتا

Spread the love

بھارت میں اسلامی حکومت ہوتی تو آبادی کا تناسب مختلف ہوتا

از : مشرف شمسی

بھارت میں مسلم حکمران تقریبآ ساڑھے چھ سو سال حکومت میں رہے ۔ 1192 میں تراین کی دوسری لڑائی میں پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر محمد غوری تو غور چلا گیا لیکن بھارت میں اسکے چھوڑے غلام قطب الدین ایبک نے 1206 میں غلام خاندان کی حکومت قائم کی ۔

لیکن بھارت میں مسلمانوں کی حکومت کبھی بھی اسلامی حکومت نہیں تھی ۔حالانکہ غیر مسلموں سے کئی مسلم حکمران جزیہ جیسے ٹیکس لیا کرتے تھے جو اسلامی حکومت میں رائج ہوا کرتا تھا لیکن اسلام کے فروغ کا کام حکومتی سطح پر نہ غلام خاندان کے دور حکومت میں ہوا نہ خلجی،نہ تغلق ،نہ لودھی ،نہ افغان اور نہ مغلوں کے دور عہد میں ہوا ۔

بلکہ جس جس مسلم خاندان نے بھارت میں حکومت کی انکا صرف واحد مقصد تھا کہ بھارت میں انکا اقتدار زیادہ وسیع اور طویل چلے۔دلّی اور آگرہ سے حکمرانی چلانے والے مسلم حکمرانوں میں التتمش اور اورنگزیب جیسے حکمران نے اپنی ذاتی زندگی میں پوری طرح مذہبی رہے

لیکن حکومت میں رہتے ہوئے کسی طرح کا بھید بھاؤ اپنی رعایا کے ساتھ نہیں کیا۔حالانکہ اورنگزیب پر کچھ تواریخ داں ہندو مندروں کو توڑنے کا الزام لگاتے ہیں لیکن اورنگزیب کی حکومت کے وزراء میں کئی ہندو وزیر اور فوج میں ہندو سپاہ سالار موجود تھے ۔

اورنگزیب کے بارے میں تاریخ داں لکھتے ہیں کہ وہ اپنا ذاتی خرچ خود سے ٹوپی کی سلائی کر پورا کرتے تھے ۔مغلوں میں اکبر اعظم بھی تھا جس نے ہندو مسلم اتحاد قائم کرنے کے لیے اور اُن کی حکومت میں انتشار پیدا نہ ہو اس کے لیے ایک نیا مذہب دین الٰہی شروع کیا تھا۔کہنے کا مطلب صاف ہے

کہ بھارت میں مسلم حکمران صرف حکومت کرنے آئے اور زیادہ تر مسلم حکمراں اسی ملک کا ہو کر رہ گئے اور اسی مٹی میں دفن ہو گئے۔ اگر یہ مسلم حکمراں اسلامی حکومت قائم کرنے کے مقصد سے بھارت میں قدم رکھتے تو بھارت میں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہوتی۔تقسیم ہند کے وقت بھارت میں مسلمان تیس فیصدی تھے ۔یعنی ساڑھے چھ سو سال حکومت کرنے کے باوجود بھارت میں دوسرے مذاھب کے لوگوں کی آبادی ستتر فیصدی تھی۔

 

 

جیسا کہ ہندوتوا وادی طاقتوں کی جانب سے الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلم حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں ہندوؤں کے ساتھ زور زبردستی اور بے پناہ ظلم کیے ۔ایسے لوگوں کو بھارت کے مغرب اور شمال کے ممالک کو دیکھنا چاہیے ۔ایران سے لے کر یورپ کے ماریطانیہ تک جہاں جہاں اسلامی فوج پہنچی اُن تمام ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں ۔

شمال افریقہ اور وسطی ایشیاء میں اسلامی فوج پہنچی اور اُن ممالک کی تواریخ کو دیکھ لیں۔ایشیا ،افریقہ اور یورپ میں واحد بھارت ملک ہے جہاں ساڑھے چھ سو سال مسلم حکومت کے قیام کے باوجود بھارت کی آبادی مسلم اکثریت نہیں ہوئی۔

حالانکہ 761 میں محمد بن قاسم نے سندھ کو جب جیتا تھا تو اس کا مقصد اسلامی حکومت کا قیام عمل تھا۔لیکن محمد بن قاسم کو حجاج بن یوسف نے واپس بلا لیا اور پھر محمد بن قاسم کا قتل ہو گیا ۔اس طرح سندھ سے اسلامی فوج آگے نہیں بڑھ سکی۔

لیکن سندھ پر حملھ سے پہلے عرب کے مسلمان کیرل کی ساحل پر تجارت کرنے آ چکے تھے ۔اسلئے بھارت میں بننے والی پہلی مسجد کیرل میں موجود ہے ۔دراصل بھارت میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ عرب سے آئے لوگوں کے حسن اخلاق ،ایمان داری اور اسلام میں برابری اور مساوات کو دیکھ کر ہوا۔

اس وقت کے بھارتیہ سماج میں چھوا چھوٹ ،شوہر کے مرنے پر بیوی کو ساتھ جلا دیا جانا غرض کہ غیر برابری پر منقسم سماج میں مذہب اسلام نے ایک نئی جوت جگانے کا کام کیا اور جو غیر برابری کے شکار تھے زیادہ تر وہ لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے ۔بھارت میں کسی مسلم حکمراں نے غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کرنے کے لیے کوئی مہم چلائی ہو ایسی کوئی تواریخ نہیں ہے

لیکن بودھ مذہب پوری دنیا میں بھارت سے پھیلا کیوں کہ بھارت میں گوتم بودھ کو گیان حاصل ہوا اور اشوک اور دوسرے راجاؤں نے برما،سری لنکا ،تبت اور نیپال تک بودھ مذہب کو پھیلایا ۔پھر یہ مذہب بھارت میں قلیل تعداد میں کیسے آ گئی۔اتنا ہی نہیں نیپال جو کبھی بودھ اکثریتی ملک تھا وہ ہندو اکثریتی کیسے ہو گیا ۔ذرا اس کی بھی تاریخ پڑھ لیں ۔

ہاں لارڈ مکالے نے بھارت کی تاریخ کو جن تین حصوں میں منقسم کیا ہے اس سے بھارت کا سماج بھی تقسیم ہوا ہے ۔لارڈ مکالے نے ancient history کو ہندو تاریخ بتا کر بودھوں کے ساتھ زیادتی کی ہے جب کہ مڈل عہد کو اسلامی عہد کہہ کر مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نبھائی گئی ہے ۔کرسچن تاریخ کو modern history کہہ کر انگریزوں کے ظلم کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے ۔

غرض کہ بھارت میں مسلم حکمرانوں نے اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش نہیں کی ۔اگر بھارت کو اسلامی حکومت کے نظریے سے چلانے کی تھوڑی بھی کوشش ہوتی تو بھارت سو سال کے اندر مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہوتا ۔

از : مشرف شمسی

میرا روڈ ،ممبئی

9322674787

One thought on “بھارت میں اسلامی حکومت ہوتی تو آبادی کا تناسب مختلف ہوتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *