ہندوتوا اور سناتن پر مولانا محمود مدنی کا افسوس ناک موقف

Spread the love

ہندوتوا اور سناتن پر مولانا محمود مدنی کا افسوسناک موقف :

“میں حقیقی ہندوتوا کی مخالفت نہیں کرتا ہوں”

✍: سمیع اللہ خان

تازہ ترین موصولہ ویڈیو کے مطابق جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم مولانا محمود مدنی صاحب نے پہلے تو صاف لفظوں میں ” حقیقی ہندوتوا ” کی حمایت کی اور پھر کہا کہ: ” سناتن دھرم کے نظام میں مسلمان اتنے مزے میں ہوں گے جتنے کسی اسلامی ریاست میں بھی نہیں ہوسکتے ”

محترم مولانا محمود مدنی صاحب کا یہ بیان شرعی، عقلی، نظریاتی، تاریخی اور واقعاتی ہر تناظر میں نہایت غلط ہے، اس سے رجوع کرنا بہت ضروری ہے، آج اتراکھنڈ کے مسلمانوں کو ہندوتوا شورش کے دباؤ میں، کرائے دار بتاتے ہوئے وہاں سے ہجرت کرنے کا مشورہ دینے والے مولانا ارشد مدنی صاحب کے بیان پر مسلمان تکلیف میں تھے ہی کہ اچانک مولانا محمود مدنی صاحب کا یہ بیان سامنے آگیا جو انتہائی حیرت انگیز، غیرشرعی اور انتہائی غیرعلمی بنیادوں پر قائم ہے۔

حقیقی اور غیرحقیقی ہندوتوا کچھ نہیں ہوتا، ہندوتوا کا مائی باپ آر ایس ایس ہے، اور اس کا زہر گولوالکر کی کتاب Bunch of thoughts اور ساورکر کی کتاب Hindutva سے پھوٹا ہے، اور ان کی روشنی میں یہ بالکل صاف ہے کہ ہندوتوا ایک فاشسٹ نسل پرستانہ سوچ ہے جو ماضی کے نازیوں اور ہٹلروں سے متاثر تھی اور آج وہ اسرائیلی یہودیوں کو پسند کرتی ہے، ہندوتوا کا حقیقی ورژن یہ ہے کہ وہ انسانوں میں ذات کی بنیادوں پر تفریق قائم کرتا ہے اور دنیا کی حکمرانی کو ایک مخصوص برہمنی نسل کا اختیار سمجھتا ہے، ہندوتوا کا حقیقی ورژن یہ ہے کہ اُس مخصوص برہمنی نسل کےعلاوہ سب انسان ان کی غلامی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، ہندوتوا کا حقیقی ورژن ہندوستان میں مسلمانوں کو دلت طرز کا غلام ہندو بنانا چاہتا ہے یا تو یہاں سے ان کا صفایا کرنا چاہتا ہے، براہ کرم تفصیل سے ہندوتوا نظریات کو پڑھ لیں۔ رہی بات یہ کہ سناتن دھرم کا نظام مسلمانوں کے لیے اسلامی اسٹیٹ سے بہتر ثابت ہوگا یہ غیرشرعی اور غیراسلامی بات ہے اسلام کےعلاوہ کسی بھی دوسرے نظام میں کوئی خیر ہو ہی نہیں سکتی یہ ہر مومن کا عقیدہ ہے نہیں بلکہ ہونا چاہیے۔

مجھے نہیں پتا کہ محترم مولانا مدنی صاحبان اس طرح کے بیانات کیوں دے رہے ہیں جس سے ہندوتوا کے ظالمانہ اور مسلم دشمنی کی پیاس میں لت پت سوچ کو تقویت ملے اور مسلمان ملکی اور نظریاتی ہر دو سطح پر کمزور ہورہے ہیں، مسلمانوں کا ان بیانوں سے جو نقصان ہورہا ہے اور ہندوتوا لابی ان بیانات کے ذریعے جس قدر خوش ہورہی ہے وہ بہت اذیت ناک ہے، لیکن اس سے زیادہ شرمناک یہ ہے کہ کچھ مسلمان ہی محض عقیدت اور رجحانی تعصب کی وجہ سے ایسے صریح غیراسلامی بیانیوں کی تاویل و تائید میں لگ جاتے ہیں اور ایسی ہی اندھی حمایتیں اس طرح کے مزید بیانات کو جنم دیتی ہیں، البتہ ہم ایسے صریح ایمانی تحریفات اور فکری انحرافات کو خاموشی سے برداشت نہیں کرسکتے ہیں جوکہ مسلمانوں کو ہندوانہ مسلمان بنانے کی طرف لے جائیں، ائے کاش کے شخصیات کی خوشنودی اور ان کی سربلندی سے زیادہ اسلامی نظریے کی سربلندی اور ایمان کے قرآنی پیغام کی بالادستی کا سودا بھارتی مسلمانوں کے دل میں سمایا ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی ۔:

کون ہے تارکِ آئینِ رسُولِ مختارؐ؟

مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟

ہوگئی کس کی نِگہ طرزِ سلَف سے بیزار؟

قلب میں سوز نہیں، رُوح میں احساس نہیں کچھ بھی پیغامِ محمّدؐ کا تمھیں پاس نہیں

samiullahkhanofficial97@gmail.com

One thought on “ہندوتوا اور سناتن پر مولانا محمود مدنی کا افسوس ناک موقف

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *