مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو

Spread the love

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو

انٹرویو نگار:  علیزے نجف

کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں وہاں کی سیاست اور صحافت ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس کے ذریعے س اس ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے، اس کا اثر تقریبا ملک کے تمام شعبوں پہ پڑتا ہے، عوام اور حکومت کے درمیان پل بننے والے مہرے کو لیڈر یا قائد کہا جاتا ہے ۔

یہ وہ مہرا ہے جس کے ذریعے لیے گئے فیصلے عوام کے مستقبل کے تعین میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اگر یہ چاہیں تو عوام کو جذباتیت کی راہ پہ ڈال کر ان کو وقتی فائدے پہنچا کر اپنی ذمے داری سے پہلو تہی کرتے ہوئے عیش و عشرت میں ڈوبے رہیں اور اگر چاہیں تو اپنی قوم کے لوگوں کے دور رس نتیجہ خیز مستقبل کو نگاہ میں رکھ کر ایسے فیصلے کریں جو ان کے حقوق کو محفوظ کرنے میں معاون ہوں۔

ظفر سریش والا بھی ایک ایسی کڑی ہیں جو حکومت اور عوام کے درمیان موجود ہے عام مسلمان قائدین سے ہٹ کر انھوں نے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جس کی وجہ سے انھیں کافی لعن طعن کا سامنا کرنا پڑا ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم تصویر کو ہمیشہ ایک ہی رخ سے دیکھنے کی ضد کرتے ہیں بدلتے وقت کے تقاضوں کو آخری حد تک نظر انداز کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ ایک خوف ناک صورت میں ہمارے سامنے آ موجود ہوتا ہے

آپ کو کسی سے بھی اختلاف کا حق حاصل ہے لیکن اس اختیار کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اتفاق نہ کرنے کی صورت میں آپ محض اختلاف ہی نہ کریں بلکہ اس سے بہتر حل بھی تلاش کریں جو کہ آپ کے مستقبل کو تحفظ فراہم کر سکے۔

ظفر سریش والا کے نظریات سے بھی آپ اختلاف یا اتفاق کا حق رکھتے ہیں لیکن اخلاقی حدود کو پامال کرنا آپ کو کبھی زیب نہیں دیتا، اب ہم ایک ایسے موڑ اور دور میں آ چکے ہیں جہاں ہمیں اختلاف کے باوجود اتحاد بنائے رکھنے پہ خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ظفر سریش والا کا نام کسی کے لیے بھی محتاج تعارف نہیں ہندوستانی سیاست اور تعلیم سرگرمیوں سے دل چسپی رکھنے والا ہر انسان ان سے واقف ہوگا وہ مودی کے قریبی رفقاء میں سے ہیں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہ چکے ہیں وہ ایک کام یاب بزنس مین ہیں۔

ہندوستان کے نوجوانوں میں فائنانشیل لٹریسی، انٹرپرینیورشپ اویرنس کو بڑھاوا دینے کے لیے ورکشاپس کرتے رہتے ہیں، جس سے ہندوستان کے نوجوانوں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا، تعلیم، سیاست، مذہب ان تینوں ہی شعبوں پہ ان کی گہری نظر ہے، ان کے خیال کے مطابق مسلمانوں کو اس وقت اپنی اقتصادی اور تعلیمی حالت کو مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے، پھر سیاست کے گلیاروں کی تنگی خودبخود وسیع ہو جائے گی، اس طرح کے اور کئی منفرد خیالات کا اظہار انھوں نے اس انٹرویو میں کیا ہے جو ہم انھیں کے لفظوں میں جانیں گے

آئیے اب ہم سوالات کی طرف بڑھتے ہیں۔

علیزے نجف : ایک وقت تھا آپ مودی کے سب سے بڑے مخالفین میں سے تھے پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ آپ ان کی وکالت کرنے لگے؟

ظفر سریش والا : جیسا کہ سبھی جانتے ہیں کہ میرا تعلق گجرات سے ہے گجرات میں ہونے والے فسادات میں میرا گھر جل گیا میری آفس جل گئی میری بیوی کا بھی گھر جل گیا سب سے خطرناک فساد 1969 میں ہوا تھا اس میں بھی ہمارا سب کچھ جل گیا تھا اس کے 1985 ، 1992، 2002 میں ہونے والے فساد میں بھی میری جائداد کو غیر معمولی نقصان پہنچا تھا

اس زمانے میں میں انگلینڈ میں رہا کرتا تھا ، ہم وکٹم تھے اور ہیں ایسے میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہم کو اندازہ نہیں فسادات کا یا اس میں ہونے والے نقصانات کا تو شاید اس سے بڑا احمقانہ جھوٹ اور کوئی نہیں ہو سکتا، وکٹم ہوتے ہوئے بھی ہمارے خاندان کے لوگوں نے فسادات سے متاثرہ لوگوں کی زندگی کو پھر سے شروع کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا تھا ۔

الحمدللہ یہ اللہ کا کرم تھا کہ اس نے ہم سے یہ کام لیا، گجرات کے بار بار فسادات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو دیکھتے ہوئے میں نے مودی کے خلاف ایکشن لیا انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں ان کو لے کے گیا مودی کا ویزہ بھی میرے پٹیشن داخل کرنے کی وجہ سے ریجیکٹ ہوا تھا ایک طرف ہم نے مودی کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی

دوسری طرف ہم اس بات کا بھی جائزہ لے رہے تھے کہ جو کچھ ہم کررہے ہیں اس کے کیا نتائج نکل رہے ہیں یا نکلنے والے ہیں کیوں کہ ہمارا اصل مقصد بغاوت نہیں بلکہ مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنا تھا، کیوں کہ ہمیں ہندوستان میں ہی رہنا ہے۔ پس منظر یہ تھا کہ گجرات میں پچاس لاکھ سے زائد مسلمان ہیں مودی پھر سے اقتدار میں آ چکے تھے۔

مسلمانوں کے روزمرہ کے مسائل ہیں ان کو حل کرنے کی ایک راہ یہ بھی ہے کہ بات چیت کی جائے اس دوران نریندر مودی انگلینڈ آ رہے تھے تو ہم نے سوچا کہ اگر ملنا اور بات چیت کرنا ہی ہے تو کیوں نہ براہ راست مودی سے ہی بات کی جائے یہ بات چیت کرنے سے پہلے میں نے دو لوگوں سے مشورہ بھی کیا تھا ان میں سے ایک مہیش بھٹ صاحب تھے جو کہ مسلمانوں کے مسائل کے تحت کافی ایکٹو اور حساس تھے، یوپی کے وہ لوگ جو مجھ پہ نکتہ چیں رہے ہیں جب گجرات میں فساد ہوا تھا ان میں سے کوئی نہیں آیا سوائے چار لوگوں کے جس میں راج ببر، امر سنگھ، مجید میمن کے ساتھ مہیش بھٹ بھی شامل تھے، باقی اس کے سوا دوسرے لوگ زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلا رہے تھے

میں نے مہیش بھٹ صاحب سے پوچھا کہ کیا مجھے مودی صاحب سے ملنا چاہیے انھوں نے دیانت داری کے ساتھ جواب دیا کہ دیکھو ظفر ہماری لڑائی مودی سے قومی مفاد کے لیے ہے ذاتی مفاد کے لئے تو ہے نہیں اس وقت حکومت ان کی ہے ہمیں اپنے مساجد، مدارس، ہسپتال بنوانے ہیں جو گورنمنٹ کی مرضی کبےشک ہم اس کے لیے قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن اگر بات چیت بھی دوسرے آپشن کے طور پہ سامنے موجود ہے تو ہمیں اس راستے پہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ہمیں کبھی نہ کبھی مذاکرات کی ٹیبل پہ آنا ہی ہوگا خود مہیش بھٹ بھی مودی کے خلاف قانونی لڑ رہے تھے۔

انھوں نے بات چیت کی راہ ہموار کرنے کی وکالت کی میں نے اس مسئلے کو مولانا یعقوب قاسمی جو کہ ایک جید علماء اور اکابرین میں سے تھے اور ایک عیسی منصوری صاحب تھے یہ لوگ گجرات اور گجراتی مسلمانوں کے پس منظر سے پوری طرح واقف تھے میں نے ان سے بھی اس مسئلے پہ مشورہ کیا کہ مجھے قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ اگر مسلمانوں کے مسائل حل کرنے ہیں تو آپ کو ان سے ضرور ملنا چاہئے پھر مجھے کافی ہمت ملی اور میں نے غور کرنا شروع کیا کہ یہ ملاقات کیسے ممکن ہوگی۔

پھر میں نے اور مہیش بھٹ صاحب نے رجت شرما کے ذریعے اس ملاقات کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی رجت شرما مودی کے قریبی لوگوں میں سے تھے انھوں نے اس ملاقات کے لئے عملی اقدامات کئے، خیال رہے کہ میں نے ملاقات سے پہلے ہی بذریعہ خط مودی پہ یہ واضح کر دیا تھا کہ مجھے اپنے لئے گئے کسی ایکشن پہ کوئی شرمندگی نہیں، ہم ملاقات کو مسائل کے حل کے لئے دوسرے آپشن کے طور پہ دیکھ رہے ہیں۔

آپ گجرات کے وزیر اعلی ہیں ایسے میں ہم آپ کے علاوہ کسی اور سے نہیں ملنا چاہیں گے، نریندر مودی کی اس معاملہ فہمی کو ہمیں داد دینی چاہیے کہ انھوں نے اس ظفر سریش والا سے ملنے کی حامی بھری جو ان کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا جب کہ ان کے قریبی لوگوں نے انھیں اس سے باز بھی رکھنا چاہا لیکن وہ اس کے باوجود بھی ملنے کے لیے راضی ہوگیے میں نے یہ شرط رکھی کہ مجھے تنہائی میں آپ سے بات کرنی ہے وہ اس کے لیے بھی راضی ہوگئے 17 اگست 2003 کو لندن کے ایک ہوٹل میں ہماری ان سے ملاقات ہوئی ۔

میں اپنے ساتھ میں مولانا عیسی منصوری کو بھی ساتھ لے گیا اور کہا کہ مولانا صاحب وقت آگیا ہے کہ ممبر کے ساتھ دوسری ذمے داریاں بھی نبھائی جائیں اس لیے آپ کا بھی چلنا ضروری ہے پھر ہماری ملاقات نریندر مودی سے ہوئی میں نے ان سے سب سے پہلے یہی پوچھا کہ آپ ہمیں کتنا وقت دے سکتے ہیں انھوں نے کہا کہ تم جو کہنے آؤ سب آرام سے کہو کوئی ٹائم لمٹ نہیں ہم نے اس میں مسلمانوں کے تمام مسائل کو تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے رکھا۔

نریندر مودی اس دور میں اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ میرے پانچ کروڑ گجراتی میں نے ان سے کہا کہ سر جب آپ پانچ کروڑ گجراتیوں کی بات کرتے ہیں تو کیا اس میں ہم پچاس لاکھ مسلمان شامل ہوتے ہیں اس بات کے جواب میں انھوں نے برجستہ یہ بات کہی کہ تم میرے ہو اور اس حوالے سے انھوں کئی ساری باتیں کہیں۔

میں جب مودی سے ملنے جا رہا تھا اس سے کچھ دیر پہلے مہیش بھٹ نے مجھے فون کرکے کہا کہ اگر مودی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہہ سکتے ہو کہ انصاف کے بغیر امن ممکن نہیں تبھی جانا، اگر نہیں کہہ سکتے تو مت جاؤ، مودی سے بات چیت کرتے ہوئے میں نے نہایت پرآعتماد اور بے باک انداز میں ان سے کہا کہ مودی صاحب امن انصاف کے بغیر ممکن ہی نہیں انھوں نے اس کی تائید کی اور کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جن کے ساتھ غلط ہوا ہے ان کو انصاف دلاؤں گا اور جو برباد ہوا ہے ان کو میں ٹھیک کروں گا اور آئندہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

مولانا عیسی منصوری بھی کافی دیر تک بات کرتے رہے یہ ملاقات ڈھائی گھنٹے پہ مشتمل رہی آخر میں نریندر مودی نے کہا کہ تم مجھے بتاؤ کہ گجرات کے مسلمانوں کے مسئلے کیا ہیں؟ ۔

کسی کا مکان، دکان یا کارخانے کو خطرہ لاحق ہے تو بتاؤ میں نے کہا کہ سر ہم تو اس کی تفصیل لے کر نہیں آئے انھوں نے پھر اپنا نمبر دیا کہ یہ لو چوبیس گھنٹے میں اس پہ موجود ہوں تم جب چاہو مجھ سے رابطہ کر سکتے ہو، تم مسلمان لوگ مجھے بھلے ہی ووٹ مت دو لیکن تمھارا چیف منسٹر ہونے کے ناطے میں تم سب سے جڑا ہوں تم اپنے کام مجھ سے کرواؤ اور اپنے مسائل لے کر میرے پاس آؤ۔

اس ملاقات کی خبر جیسے عام ہوئی ایسے ایسے فتوے مجھ پہ لگائے گئے گویا مجھ سے بڑا کوئی کافر مجھ سے پہلے پیدا ہی نہیں ہوا تھا مجھے غداروں کی صف میں کھڑا کر دیا گیا، میر جعفر سے لے کر تمام القابات سے نوازا گیا، ہر پہلو سے مجھے متنازع بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن یہاں پہ میری بے باکی نے مجھے بہت سہارا دیا میں اندر سے مطمئن تھا کہ میں نے جو کیا ہے صحیح کیا ہے میرا اللہ میری سچائی اور نیک نیتی کو جانتا ہے

بیس سالوں کے بعد آج وہی لوگ جو مجھ پہ تنقید کر رہے تھے مودی سے ملنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے میں پوچھتا ہوں کہ یہ عقل اور سمجھ آج سے بیس سال پہلے کہاں تھی وہ لوگ جو پہ میر جعفر ہونے کا الزام لگا رہے تھے بعد میں وہ لوگ مجھ سے معافی مانگ رہے تھے میرا کہنا یہ ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو خواہ آپ کسی بھی پارٹی کو سپورٹ کریں الیکشن کے بعد جس کی بھی حکومت بنے ان سے تعلق کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔

علیزے نجف : آپ یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں عوام اور حکومت کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے اس حوالے سے آپ مسلم لیڈران کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟

ظفر سریش والا : میرا نریندر مودی سے جو تعلق رہا وہ جگ ظاہر ہے لیکن پچھلے بیس سالوں میں میں نے ان سے کوئی ذاتی کام نہیں کروایا اس وقت میں مسلم کمیونٹی سے یہی کہنا چاہتا ہوں کہ نریندر مودی صاحب اقتدار میں ہیں تو آپ ان سے نہیں تو پھر کن سے بات کریں گے جب تک وہ صرف گجرات کے چیف منسٹر رہے ہم ان کے پاس مسلمانوں کے سینکڑوں مسئلے لے کر گئے اور ان سے بات چیت کی ان کو حل بھی کروایا۔

اور اس وقت جب کہ وہ پرائم منسٹر ہیں تو ایسے میں حکومت ان کی ہے تو ان سے ٹکراؤ کر کے اب تک کیا حاصل ہوا ہے میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو کبھی یہ نہیں کہا ہے کہ آپ بی جے پی کو ووٹ دیں آپ کے نہ چاہتے ہوئے بھی اگر وہ حکومت میں ہیں تو ان سے بات چیت کا سلسلہ تو شروع کریں ان کے پاس پاور ہے وہ ان کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔

اگر مسلمان آج بھی ان سے بدظن ہیں تو یہ درحقیقت بےوقوفی ہے ہمیں اپنےبد گمانی کے بجائے اپنے کام کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے، جب میں نے 2003 میں نریندر مودی سے بات چیت کی اس وقت تو مجھے لوگوں نے خوب لعن طعن کیا ہر طرح کے برے القابات استعمال کئے۔

ایسے میں مجھے ایک واقعے نے بڑی تقویت دی، کچھ اس طرح کہ میرا ایک گہرا تعلق ہے ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے انھوں نے اپنی سوانح حیات کی چھٹی جلد میں میرے بارے میں ایک چیپٹر لکھا ہے، مجھے لوگ جب برا بھلا کہتے تو میں کبھی تھوڑا بہت پریشان بھی ہوجاتا تھا ایک مرتبہ میں علی میاں ندوی صاحب کی خدمت میں حاضر تھا اس وقت کئی سارے علما بھی موجود تھے میں ان سے اس بابت ذکر کیا انھوں نے میرے رنج و غم کو محسوس کرتے ہوئے کہا کہ جو کام تم کر رہے ہو کرتے رہو یہ کام مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کیا تھا تم کسی کی پرواہ مت کرو اس کے بعد میں نے اپنے اوپر تنقید کرنے والوں سے کہا کہ تم ہو کون اللہ کا ایک برگزیدہ بندہ میرے بارے میں اپنی سوانح حیات میں لکھ کر گیا ہے۔

مولانا نے مجھے اس بات کی بھی تلقین تھی کہ تم اپنی صفائی کبھی مت پیش کرنا، رہی بات مودی حکومت اور مسلم کمیونٹی کے درمیان ڈائیلاگ پراسس کی تو اس کے سوا مسلمانوں کے پا کوئی چارہ نہیں اب بہت سے لوگ اس بات محسوس کر چکے ہیں لیکن برملا ملنے سے پرہیز کرتے ہیں وہ درحقیقت چاپلوسی کرتے ہیں انھیں کس بات کا ڈر ہے وہ کیوں نہیں اس ڈائیلاگ پراسس کو آسان کرتے اور کھلے عام ملتے، اور یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے کبھی مجھے میر جعفر کہا تھا آج میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ایسی کیا تبدیلی ہوگئی تب اور اب میں میں بیس سالوں سے یہ بات کہتا آیا ہوں

تب اور اب میں یہ ایک بڑا فرق ہے کہ اگر آج سے بیس سال پہلے ملتے تو آپ مضبوط پوزیشن کے ساتھ ملتے لیکن آج آپ کمزور پوزیشن میں ہیں اب شاید انھیں آپ کی ضرورت بھی نہ ہو بےشک مسلمانوں نے بہت دیر کردی لیکن میرا ماننا ہے کہ ابھی بھی کچھ زیادہ بگڑا نہیں ہے حکومت کسی کی بھی ہو ان کے ساتھ ڈائیلاگ پراسس عوام کی ضرورت ہے، بی جے پی بھی اس زمرے میں شامل ہے ضروری نہیں کہ سارے ہی مسئلے حل ہو جائیں

لیکن اس سے کافی حد تک فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، میں نے نریندر مودی کو بہت قریب سے دیکھا ہے وزیر اعلی اور وزیر اعظم دونوں ہی عہدوں کے حوالے سے ان کے لئے کرسی پہ بیٹھنے کے بعد کوئی ہندو مسلم نہیں ہوتا ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حکومت کی کرسی پہ بیٹھنے کے بعد انھوں نے ہمارے ساتھ کوئی ناانصافی کی ہے میں نے اب تک ایسا کچھ غلط ہوتے نہیں پایا پارٹی کو چھوڑ دیجئے ان کے چھوٹے چھوٹے لیڈر کیا بکواس کرتے ہیں وہ ان سے الگ ہین ان پہ دھیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں، ہمیں مودی سے براہ راست مل کر اپنے قومی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

علیزے نجف : آپ نریندر مودی کی حکومت کو سپورٹ کررہے ہیں مودی حکومت کے نو سال ہو چکے ہیں اس دوران آپ نے عوام کے لئے کیا خدمات انجام دی ہیں حکومت کی طرف سے کس طرح کا سپورٹ حاصل رہا؟

ظفر سریش والا : میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں چانسلر تھا، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں مجموعی طور پہ پینتیس ہزار بچے پڑھتے ہیں گیارہ کیمپس ہیں ایک لاکھ چھبیس ہزار ان کے اسٹڈی سینٹر ہیں، میں جب وہاں پہ گیا تو ان کے بی اے اور ایم اے کے نہ جانے کتنے کورسز ریکگنائزڈ نہیں تھے وہاں پہ کوئی نظم نہیں تھا کوئی انٹرنیشنل سیمینار نہیں ہوتے تھے میں نے کوشش کر کے اس کو بہتر بنانے کی پوری کوشش کی سیمینارز منعقد کروائے۔

مودی کی حکومت نے پہلے سال 220 کروڑ دئیے یہ سارے کورسز میرے زمانے میں مکمل ہوئے اور وہ ریکگنائزڈ ہو گئے وہاں پہ 2012 میں یو پی ایس سی کی ٹریننگ کا وعدہ کیا تھا منموہن سنگھ نے 2015 میں میں لے کے آیا اس طرح کے میں نے کئی سارے کام کئے ایک دوسری مثال جب کوویڈ ہوا تھا اس میں ایک اسکالرشپ کے امتحان کی ڈیٹ 28 فروری تھی تاریخ نکل گئی امتحان ہوا نہیں بچے بے حد پریشان تھے۔

انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کچھ کیجیے میں نے نقوی صاحب سے بات کی پھر انھوں نے اس امتحان کی تاریخ بڑھا کر 31 مئی کردی اس طرح کے کئی سارے کام میں نے کئے، کئی کام نہیں بھی ہوئے کانگریس کی ہی حکومت میں کونسا ہمارے سارے کام ہو جایا کرتے تھے میں پچھلے آٹھ سالوں سے تعلیم و تربیت کا پروگرام کر رہا ہوں

جس میں میں اپنے نوجوان میں فائننشیل لٹریسی، کیپٹل مارکیٹ اور انٹرپرینیورشپ کے متعلق آگاہی پھیلاتا ہوں کس کی باقاعدہ ورکشاپ ہوتی ہے اب تک میں نے 61 شہروں میں پروگرام کئے آپ بتائیے کیا حکومت کی سپورٹ کے بغیر یہ ہو سکتا ہے جس میں مختلف شعبوں سے ہندو لوگ بھی آکر اس میں حصہ لیتے اور اویرنس کو پھیلاتے ہیں اگر انھیں ان سے کوئی مسئلہ ہوتا تو یہ پروگرام وہ ہونے ہی نہیں دیتے الحمدللہ ساری ورکشاپس کام یاب رہی ہیں۔

علیزے نجف: مسلم طبقہ مسائل کے جنجال میں الجھا ہوا ہے اس وقت اس کی قیادت ان مسائل کے حل کے لئے صحیح سمت میں سنجیدہ کوشش کر رہی ہے یا اب بھی جذباتی ہو کے اپنی بقا کی ناکام جنگ لڑ رہی ہے؟

ظفر سریش والا: میں ہمیشہ ایک بات کہا کرتا ہوں کہ ہمارے دو قسم کے مسئلے ہیں اس میں سے ایک وہ مسئلہ جسے ہم خود حل کر سکتے ہیں دوسرا وہ کہ جسے بغیر کسی کی مدد کے حل کرنا ممکن نہ ہو جیسے گھر میں شوہر کے بغیر ممکن نہیں والد کے بغیر نہیں بھائی کے بغیر نہیں ان کا تعاون ازحد ضروری ہوتا ہے۔

اب رہی بات مسلمانوں کی سیاسی مفلوک الحالی کی جس میں ہماری رپپرزینٹیشن پارلیمنٹ میں ہو اسمبلی میں ہو جہاں بھی ہو جب تک پارٹی آپ کو ٹکٹ نہیں دے گی آپ بھلا کیا کر سکتے ہو تو آپ ایسے میں ان کے بغیر کچھ کر ہی نہیں سکتے، ہمارا وہ کام جو کہ دوسروں کی مدد کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ہم اس پہ تو پوری زندگی لگا دیتے ہیں جب کہ یہ ہماری کج فہمی ہے کہ ہم اس سے نتائج پیدا ہونے کی امید رکھتے ہیں۔

آپ کتنی ہی زندگی لگا دو کانگریس نے یہ طئے کر لیا ہے کہ مسلمانوں کو بس اتنی ہی سیٹ دینی ہیں اس سے زیادہ نہیں، اہسے میں ہمیں اپنی ترجیحات پہلے طئے کرنی ہوں گی کہ ہمارے لئے ضروری چیزیں کیا ہیں میں ترجیحات کو طئے کرنے کا قائل ہوں سیاسی میدان میں مسلمانوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے

جب کہ تعلیمی میدان میں کوئی مزاحمت یا باؤنڈری نہیں ہے، اس لئے انھیں سیاسی میدان کے بجائے تعلیمی میدان میں زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اس راہ میں کوئی بھی سیاسی پارٹی آپ کے خلاف نہیں نہ ہی آر ایس ایس آپ پہ یہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ آپ ہو پی ایس سی کے اگزام میں نہ بیٹھیں یہ تو آپ کے اوپر منحصر ہے میں مسلمانوں سے یہ کہتا ہوں کہ تم تعلیم کی بنیاد پہ قابلیت پیدا کرو ایمانداری اور امانت داری کے ساتھ زندگی کے میدان میں آگے بڑھو یہ دو ایسے کمبینیشن ہیں نا کہ اگر ہماری قوم میں یہ دونوں چیزیں آگئیں تو جو لوگ ابھی آپ کو باہر رکھ رہے ہیں نا اس کے بعد یہ لوگ خود آپ کو آکر اپنے ساتھ لے جائیں گے۔

سیاست میں آپ کسی کے ساتھ اور تعاون کے محتاج ہیں جب کہ تعلیمی میدان میں آپ کلی مختار ہیں، یہودی قوم کی مثال لے لیجئے انگلینڈ اور امریکہ میں رہتے ہوئے میں نے ان کو بہت قریب سے دیکھا ہے انگلینڈ میں یہودی کی کل تعداد ڈھائی لاکھ کے برابر ہے آٹھ کروڑ کی آبادی میں ڈھائی لاکھ ہو کر بھی ہر بڑے عہدے پہ آپ یہودی کو پاؤ گے جج، وکیل،سائنٹسٹ، فلم ڈائریکٹر بزنس مین ہر جگہ وہ معتبر عہدوں پہ فائز ہیں۔

کیا ان پہ ظلم نہیں ہوا، بےشک ہوا ہے عیسائی ان کو سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں یہودیوں نے سالوں کی ذلت و خواری کے بعد خود کو ہر مخرب چیز سے دور کر کے تعمیری کاموں میں لگا دیا میرے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تم رات کا سناٹا بن جاؤ جو دھیرے دھیرے پھیلتا ہے اور پوری دنیا پہ چھا جاتا ہے، ایسا تعلیم کی بنیاد پہ قابلیت اور ایمان داری اور امانت داری سے ممکن ہے جس فیلڈ میں رہو اس کے امام بننے کی کوشش کرو یہیں سے ہی کام یابی کی راہیں کھلتی ہیں۔

علیزے نجف: تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی کارکردگی کیسی ہے کیا یہ بیداری ان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے کافی ہے؟

ظفر سریش والا: اس سوال کا جواب میں اپنے تعلیمی ورکشاپ کے پس منظر میں دینا چاہوں گا کہ مجھے مسلمان عوام کے اندر زبردست بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے میں نے یو پی کے کم سے کم تیرہ شہروں میں پروگرام کئے ہیں میرا تعلق چوں کہ تبلیغی جماعت سے رہا ہے جب بھی چھٹیاں ہوتی ہیں تو ہم جماعت میں جاتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسرے اغراض سے میں نے بہت سارے سفر ملک و بیرون ملک میں کئے میں نے اپنی زندگی کے سارے سفر میں اس بات کا مشاہدہ کیا کہ مسلمانوں میں تعلیم کے تئیں بہت بیداری پیدا ہو چکی ہے اگرچہ میڈیا اس کو زیادہ ہائی لائٹ نہیں کر رہا۔

مسلمان اندر ہی اندر اس حوالے سے کام کئے جا رہے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے ایسے بندے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو بنا شہرت اور مفاد کی لالچ کے اپنا فنڈ لگا کر اپنی قوم کے لوگوں کو تعلیم سے بہرہ ور کررہے ہیں میں بھی ورکشاپس کر رہا ہوں اللہ کے نام پہ اپنی استعداد کے مطابق جو بن پڑ رہا ہے کر رہا ہوں پتہ نہیں میں اس کے ثمرات دیکھ پاؤں یا نہیں کیوں کہ اس طرح کے کاموں کے نتائج دیکھنے کے لیے طویل وقت درکار ہوتا ہے۔

بعض اوقات دوسری نسل کو اس کا فیض ملنا شروع ہوتا ہے لیکن الحمدللہ میں اس بات سے خوش ہوں کہ یہ بیداری شروع ہو چکی ہے مجھے یقین ہے کہ اگلے پندرہ سالوں میں آپ زبردست مثبت اثرات دیکھیں گی اس دوران مسلمانوں کو تمام قسم کے سیاسی مسائل پہ جذباتیت سے دور رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سیاست کے نام پہ جو کچھ آج ہو رہا ہے وہ سب کچھ ہوتا رہے گا کبھی گیان واپی مسجد کے نام پہ کبھی حجاب کے نام پہ کبھی تین طلاق کے نام پہ ایسے میں مسلمانوں کو بس خاموشی سے تعمیری کام میں لگے رہنا ہوگا ۔

علیزے نجف: این آر سی اور سی اے اے کے تحت حکومت ہند کا اصل مؤقف کیا تھا اور مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ کیا تھی؟

ظفر سریش والا: دیکھئے مسلمانوں کے احتجاج کی جو بھی وجہ تھی میں نے ان مسلمانوں سے کہا جو احتجاج پہ بیٹھے تھے کہ تم ضرور احتجاج میں بیٹھو لیکن کہتے ہیں نا احتجاج بلائنڈ نہیں ہوتا احتجاج میں ایک اسکوپ ہوتا ہے نا کہ تم بیٹھ کے بات کرو شاہین باغ دہلی اور ممبئی میں جو لوگ احتجاج میں شامل تھے میں ان سے رابطے میں تھا میں نے ان سے بارہا کہا کہ اللہ کے بندو تمھاری احتجاجی فکر ٹھیک ہے آپ کے جذبات میں ابال آنا بہت ضروری ہے جیسے میں کہتا ہوں کہ غصہ آنا بہت ضروری ہے

اگر کسی کو غصہ نہ آئے تو وہ بےوقوف ہے ہمیں غصہ دبانے کے بجائے غصے کا صحیح استعمال کرنا ہے آپ احتجاج جو کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے لیکن اس میں جذبات کے ساتھ عقل بھی شامل ہونا چاہئے ایسا نہ ہو کہ لوگ تمھارے جذبات کا غلط استعمال کرنا شروع کردیں، آپ لوگوں کا اصل منصوبہ مسئلے کا حل ہونا چاہیے اس لیے احتجاج کے ساتھ بات چیت کے دروازے بھی کھلے رکھنے چاہئیں حکومت کے ذمےداران نے یہ کہا کہ سی اے اے اور این آر سی سے آپ مسلمانوں کو کیا مسئلہ ہے تو میں نے کہا کہ ہمیں سی اے اے سے کوئی مسئلہ نہیں آپ دوسرے ملکوں میں رہنے والے ہندوؤں کو شہریت دینا چاہتے ہیں

تو دیں ہمیں مسئلہ این آر سی سے ہے اس کے بعد پرائم منسٹر، ہوم منسٹر اور دیگر منسٹروں نے یہ کہا کہ ہم این آر سی سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے ہم اس کی ضمانت دیتے ہیں تو مجھے اطمینان ہوا کہ اگر ملک کا وزیر اعظم یہ یقین دہانی دلا رہا ہے تو ہمیں مان لینا چاہئے اور اگر خدانخواستہ کوئی مسئلہ ہوا تو پھر دیکھیں گے اس لئے مسلمانوں کو اپنا ہر قدم اٹھانے سے پہلے اس کے نتائج اور مسئلے کی حقیقت اور سنگینی پہ ضرور غور کرنا چاہیے ۔

علیزے نجف: ہندوستانی تہذیب جو کہ کثرت میں وحدت کی قائل ہے ایسے میں کامن سول کوڈ کے نفاذ کی بات کرنا کیا اس تہذیب پہ ضرب نہیں لگائے گا؟

ظفر سریش والا: میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں اس لئے نہیں ہے کہ اگر کامن سول کوڈ آتا ہے تو ہمارا کوئی بڑا مسئلہ نہیں سب سے بڑا مسئلہ تو ہندوؤں کا ہے پھر عیسائیوں، جینوں، پارسیوں کا ہے ہم کیوں اتنا پریشان ہو رہے ہیں، پہلے اس کا مسودہ تو تیار ہونے دیجیے، دیکھیے ہمیں ویسے بھی زیادہ مسئلہ نہیں ہوگا کیوں ؟

یہ میں بتاتا ہوں ان میں سے ایک مسئلہ طلاق، دوسرے ایک سے زیادہ نکاح اور تیسرے وراثت ، وراثت میں تو ایک بات بس یہ کہوں گا کہ سپریم کورٹ کے جسٹس ورما جو گذر چکے ہیں انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اسلام میں جو وراثت کا قانون ہے اتنا جامع اور مستحکم ہے کہ ہمیں اس سے سبق لینا چاہئے ہمارے یہاں ہر صورتحال کی روشنی میں قانون موجود ہے۔

ایک سے زیادہ نکاح میں ہمیں کیا پرابلم ہے یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن نے اس صورت میں شرائط رکھی ہیں قرآن نے ایک سے زائد شادی کی ترغیب یا حکم نہیں دیا ہے بلکہ رخصت دی ہے کہ تم کر سکتے ہو کرنے کی صورت میں شرائط لاگو کردی ہیں ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر شرائط پوری نہیں کر سکتے تو ایک سے زائد ححکرو ایسے میں ہمیں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ویسے بھی اس کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کیوں کہ اس کا مسودہ تیار کرنا قطعا آسان نہیں، خود ہندوؤں میں موجود مختلف فرقے کے رسوم و روایات اس کی زد میں آئیں گے۔

علیزے نجف: ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ایسے میں مقتدر طبقے کی طرف سے ہندو توا/ ہندو راشٹر کی بات کرنا ملک کی جمہوریت پہ کیسے اثرات مرتب کرے گا ؟

ظفر سریش والا: میں کہتا ہوں کہ جو آپ ہندو راشٹر کی بات کرتے ہیں اس کی صحیح تعریف کیا ہے اگر اس راشٹرواد کے تحت سب کے حقوق پورے کئے جا سکتے ہیں تو پھر لے آؤ اگر اس ان کی مراد رام راجیہ ہے تو بھی ہم کہتے ہیں لے آؤ یہ تو بہت اچھا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان سب چیزوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہمیں ابھی اپنے اصل زمینی مسائل پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

علیزے نجف: مسلمانوں میں آر ایس ایس جیسی کوئی تنظیم کیوں نہیں جو سیاست معیشت اور تعلیم کے ضمن میں ان کی نظریہ سازی کر سکے؟

ظفر سریش والا: مسلمانوں کو آر ایس ایس جیسی کسی تنظیم کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے درمیان انفرادیت کو بہت اہمیت حاصل ہے ہندوستان میں پہلے ہی سے دینی جماعتیں بہت ہیں جو اپنے اپنے کام کر رہی ہیں مجھے نہیں لگتا ہے کہ ہمیں کسی نئی جماعت کی ضرورت ہے ۔

بے شک ہمیں موجودہ دینی جماعتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے جماعت اسلامی ہند، تبلیغی جماعت، مسلم پرسنل لاء بورڈ ، ملی کونسل اس طرح کی دیگر قومی جماعتیں اپنی اپنی جگہ کام کر رہی ہیں مسلمانوں کو درپیش مسائل پہ ان کی گہری نظر بھی ہے وہ اس کو سلجھاتی بھی ہیں، اگر ہم کوئی نئی تنظیم بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو الجھ جانے کا اندیشہ ہے اس لیے ہمیں موجودہ جماعتوں میں ہی وقت کے تقاضوں کے تحت بہتری لا کر ان سے کام لینے کی ضرورت ہے مولانا یوسف رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ ایک مسلمان انسان کی زندگی میں دین نماز کے راستے سے داخل ہوتا ہے اور معاملات کے راستے سے نکل جاتا ہے۔

اب آپ خود ہی دیکھیے سب سے پہلے خرابی کہاں پیدا ہوتی ہے بےشک معاملات میں جب معاملاتِ بگڑیں گے تو معاشرت خراب ہوگی اس کے بعد اخلاقیات تباہ ہو جائے گی اور جب اخلاقیات ختم ہوگی عبادت اور روحانیت بھی ختم ہو جائے گی یہاں پہنچ کے انسان دین سے نکل جائے گا اب ان چاروں ہاتوں کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لیں کہ ہماری معاشرت کا کیا حال ہے ہمارے معاملات کیسے ہیں اخلاقیات کا عالم کیا ہے ۔ اس کی جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے اس لیے میں میرا ماننا یہ ہے کہ ہمیں انفرادی طور سے ان پہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

علیزے نجف: آپ کے خیال کے مطابق آزادی کے پچھتر سالوں میں مسلمانوں نے کیا کھویا ہے کیا پایا ہے ؟

ظفر سریش والا: میرا ماننا ہے کہ ہم نے قومی تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی ہے کوئی بھی قوم دنیا کی ضرورت اسی وقت بنتی ہے جب وہ تعلیم یافتہ ہوتی ہے اس کے بغیر اس قوم کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہم نے سب سے بڑی غلطی یہی کی کہ ہم نے تعلیم کو وہ اہمیت نہیں دی جو کہ دینی چاہیے تھی خیر اب بھی بہت زیادہ کچھ نہیں بگڑا ہے ہم اک سے اپنا ایک ہدف بنائیں الحمدللہ میں نے اس حوالے سے مسلمان قوم میں بہت پوٹینشیل کے ہونے کا تجربہ و مشاہدہ کیا ہے ۔

اور مسلمانوں میں یہ بیداری پیدا ہونی شروع ہو چکی ہے رہا سوال یہ کہ پچھلے پچھتر سالوں میں انھوں نے کیا پایا ہے تو میں نے ہندوستان کے تقریبا ہر اسٹیٹ کا سفر کیا ہے تو کہیں بھی ایسا میں نے نہیں پایا کہ مسلمان بہت غریب اور ہندو بہت امیر ہیں بےشک مسلمانوں میں امبانی، اڈانی، ٹاٹا، برلا نہیں ہیں لیکن ان کی معاشی حالت اتنی غیر مستحکم بھی نہیں کہ ان کا سروائیول خطرے میں پڑ جائے میں نے مسلمانوں کو خوشحال پایا ہے ان کے اقتصادی حالات ان پچھتر سالوں میں بہت بہتر ہوئے ہیں۔

علیزے نجف: کیا وجہ ہے کہ ایک مسلمان طبقہ اپنی بقاء کے لیے سیاسی استحکام کو ضروری خیال کر رہا ہے وہ تعلیم و اقتصادیات کے میدان کو ثانوی کیوں قرار دے رہا ہے اس کے نقصانات کیا رہے ہیں؟

ظفر سریش والا: ہم سیاست میں اپنی حیثیت بنانا چاہتے ہیں بغیر ان دو چیزوں کے یعنی تعلیم اور معاشی استحکام کے اگر ہم ان دو شعبوں میں اپنی حیثیت مضبوط کر لیتے ہیں تو سیاست کے دروازے خود بخود کھل جائیں گے، اور یہ دو چیزیں ہیں جو آپ خود کر سکتے ہیں آپ کو اس کے راستے میں کوئی دشمن نہیں کھڑا ملے گا اگر اس میں آپ کامیاب ہوجاتے ہی۔ تو کامیابی کے سارے دروازے آپ پہ کھل جائیں گے۔

علیزے نجف: آپ تعمیر و ترقی کے لیے گھوڑے کی عینک پہننے کی بات کرتے ہیں اس عینک کے عدسوں میں کیا صفات ہوتی ہیں؟

ظفر سریش والا: گھوڑا ہمیشہ ایک راستے پہ چلتا رہتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کہاں جانا ہے اس کی منزل اور ترجیحات دونوں طئے ہوتی ہیں اس کی اسی ترجیحاتی صلاحیت کو میں عینک سے تعبیر کرتا ہوں اور گھوڑے کی مثال میں اس لیے دیتا ہوں کہ اللہ نے گھوڑے کی بابت قرآن میں فرمایا ہے والعدیات ضبحا فالموریات قدحا فالمغیرات صبحا میدان کار زار میں معلوم ہے کہ تلواریں چل رہی ہیں۔

لیکن وہ وفاداری کرتا ہے اپنے مالک سے صرف اس بات پہ کہ اس نے کچھ چارہ و پانی دیا ہے، وہ کبھی جان بچا کے بھاگنے کی کوشش نہیں کرتا تو گھوڑے کی جو صفت ہے نا وہ زبردست ہے اس لیے میں کہتا ہوں کہ گھوڑے کے چشمے پہنو اپنی ترجیحات کو سیٹ کر کے اس کے مطابق زندگی کا سفر طئے کرو اس سے جلد یا بدیر آپ کا ایک روشن مستقبل ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے، آپ دوسروں کے رحم و کرم پہ جینے کے بجائے خود اپنے قوت بازو کے ساتھ جینے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

علیزے نجف: کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی رویہ احتجاج اور احساس مظلومیت کے گرداب میں الجھا ہوا ہے وہ اس سے نجات کیسے حاصل کریں؟

ظفر سریش والا : بلکل یہ احساس ہمیں نکالنا ہوگا کیوں کہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا آپ احتجاج کرتے رہو گے آپ جس کے سامنے احتجاج کرو گے وہ آپ کی کمزوری کا فائدہ اٹھائے گا عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اس احتجاجی رویے کو چھوڑ دیں اور حکمت سے کام لیں، میں نے بڑے بڑے تبلیغی جماعت میں بیان دئے ہیں میں تقریریں جب کرتا تو اللہ اکبر کے نعرے لگ جاتے ہیں کیوں کہ اس سے ان کے جذبات متحرک ہو جاتے ہیں، پھر مجھے بعد میں احساس ہوا کہ جذباتیت سے کچھ نہیں ہونے والا ہاں بےشک جذبات ہونا بہت ضروری ہے

لیکن اپنے جذبات کا صحیح استعمال کرنا بھی ضروری ہے، میں بس مسلمانوں سے کہنا چاہوں گا کہ اپنا جائزہ لیں اور خاموشی کے ساتھ اس کی اصلاح کریں اور اپنے مقاصد کی تعیین کے بعد رات کے سناٹے کی طرح پھیلتے چلے جائیں یہاں تک کہ ہر سو آپ ہی آپ ہو دوسروں کے ہاتھوں کا مہرہ مت بنیں خور اپنی چال چلیں قرآن خود تدبر و تفکر کی تلقین کرتا ہے اور اجتماعی معاملات کو مشاورت کے ساتھ حل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

علیزے نجف : آپ حکومت اور مسلم کمیونٹی کے درمیان مکالمے کو جاری رکھنے پہ ہمیشہ سے زور دیتے رہے ہیں مسلم قیادت حکومت سے مکالمہ کرنے سے کیوں برگشتہ ہے اور اگر وہ ملتے ہیں تو چھپ کر ملتے ہیں جس کی نتیجہ خیزی مشکوک ہوتی ہے آپ کی نظر میں ایسا کیوں ہے؟

ظفر سریش والا: درمیان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلمانوں کے مجمع میں مودی کو گالیاں دیتے ہیں پرائیوٹ میں ملتے ہیں یہ منافق لوگ ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مودی سے مل کر قوم کے مسئلے حل کرنے کی بات نہیں کرتے بلکہ اپنے مسئلے لے کر جاتے ہیں اگر ان کے اندر کوئی ڈر ہے لعن طعن کا تو پھر لیڈر ہونے کا مطلب کیا ہے کیوں کہ لیڈر ہمیشہ اپنی قوم کا بھلا چاہتا ہے۔

اس کے لیے وہ ہرطرح کے فیصلے لینے کی جرات رکھتا ہے اس لئے میں ان لوگوں کو لیڈر نہیں مانتا میں نے جب مودی سے ملاقات کی تو میں نے یہ طئے کر لیا تھا کہ جس کو جو کہنا ہے کہے مجھے اس کی مطلق پرواہ نہیں میں پچھلے بیس سالوں میں کبھی چھپ کے نہیں ملا میرا بس یہی کہنا ہے کہ اگر دیگر لیڈران کو ملنا ہی ہے تو کھل کے ملیں نا چھپ کے ۔

کیوں ملتے ہیں وزیر اعظم سے مل رہے ہو ڈر کیسا حکومت کسی کی بھی ہو ملنے اور بات چیت کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے بےشک بی جے پی کی حکومت ہے جسے آپ پسند نہیں کرتے لیکن اگر یہ اقتدار میں ہیں تو پھر ان کے علاوہ آپ کس سے ملنا چاہیں گے۔

علیزے نجف : وشو گرو یعنی عالمی قیادت کا مطلب ہے سیاسی، سماجی، معاشی اور دانشورانہ حاکمیت انسان اس کا دعویدار ہے ایسے میں ملک کے ارباب حکومت کا اپنے ہی عوام کے خلاف جارحانہ اقدامات اور پڑوسی ملکوں سے دشمنی کے بعد اس دعوے کی کیا حقیقت ہے؟

ظفر سریش والا : کچھ چیزوں میں تو ہندوستان کی اپنی ایک مستحکم پوزیشن ہے میں نے دوسرے ملکوں میں اس کے اثرات دیکھے ہیں پچھلے پچیس سالوں میں باہر کے ممالک میں ہندوستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بالخصوص عرب ممالک میں ایسا نہیں ہے کہ یہ محض مودی کے دور میں ہوا ہے اس سے پہلے بھی جو حکومتیں رہی ہیں انھوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے آزادی کے بعد ہندوستان میں تعلیم پہ جو توجہ دی گئی ہے اس نے بھی اس شبیہ کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ابتدائی دور کے لیڈروں نے اس کے لئے جو قابل قدر کوششیں اس کا یہ نتیجہ ہے۔

اس وقت دنیا میں بہت سارے شعبوں میں ہندوستانی امامت کررہے ہیں اس وقت اگر آپ امریکہ میں جائیں گے اس کی جو ٹاپ ٹین کمپنیز ہیں اس میں سے تین چار ہندوستانیوں کی ہیں ہر جگہ ہندوستانی پائے جاتے ہیں، ہاں یہ بھی سچ ہے کہ کچھ کمیاں بھی ہیں رہی پڑوسی ممالک سے جڑے مسئلوں کا تو ایسا نہیں ہے کہ وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہوں گے کچھ نہ کچھ کر ہی رہے ہیں ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس کی مکمل جانکاری نہیں۔

علیزے نجف: ارباب اقتدار کی مسلم دشمنی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں کیا آپ اس کی کوئی نفسیاتی وجہ بیان فرمائیں گے؟

ظفر سریش والا : ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان میں سب کچھ مسلمانوں کے خلاف ہے پورے ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے لوگ سفر کرتے رہتے ہیں چند ایک واقعات کو چھوڑ کر انھیں کہیں بھی کسی طرح کی روک ٹوک کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے آپ ریلوے بسوں سڑکوں کہیں پہ بھی سفر کرو ایسا کہیں کوئی مسئلہ نہیں بے شک بی جے پی کے چھوٹے لیڈران بھڑکاؤ بھاشن کے ذریعے تخریبی اقدامات کرتے رہتے ہیں

لیکن مجموعی طور پہ کہیں بھی مسلمانوں کو انڈراسٹیمیٹ نہیں کیا جا رہا ہفتے میں دو تین دن میں بھی سفر کرتا ہوں میرا بھی تجربہ الحمدللہ اچھا رہا ہے اب تک میرے یا میرے جاننے والوں کے ساتھ ایسا کوئی حادثہ نہیں پیش آیا، بےشک میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس طرح کے واقعات ہوتے ہی نہیں کچھ واقعات تو ہوتے ہیں جنھیں اس قدر جنرلائز کر دیا جاتا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ملک میں ہر طرف یہی کچھ ہو رہا ہے حالاں کہ ایسا نہیں۔

اس ملک میں مسلمانوں کے لیے بھی وہی مواقع موجود ہیں جو کہ ہندوؤں کے لیے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ مسلمان اقلیت میں ہیں مفسد عناصر انھیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں کب کہ ملک کا انتظامیہ سب کے لیے یکساں اصول رکھتا ہے۔

5 thoughts on “مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو

Leave a reply

  • Default Comments (5)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *