علم الاعداد اور اسلام

Spread the love

علم الاعداد اور اسلام

از: ضیاء رومانی ایم اے

علم سماجیات کا طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اپنے معاشرے کو جاننے اورسمجھنے کا حق حاصل ہے۔لہذا میں اپنے معاشرے کا بغور مطالعہ کرتا رہاہوں۔ میں نے جب پریشان حال لوگوں کو ان نجومیوں ، باباؤں اور جادوگروں کے آستانوں کے چکر لگاتے دیکھا تو مجھ میں علم سماجیات کی ان شاخوں کامطالعہ کرنے کا تجسس بیدار ہوا کہ دیکھوں کے ”علم دست شناسی”، ”ہپناٹیزم”،”علم نجوم”، ”جادو گری”اور ”علم الاعداد“میں کیا ایسی تاثیر پوشیدہ ہے؟

جو مصیبت زدہ لوگوں کے مسائل حل کرسکتی ہے۔ تب میں نے ان علوم کے مختلف ذرایعے کھوج نکالے اور ان کا مطالعہ شروع کیا۔

دوران تفتیش مجھے یہ پتہ چلا کہ ” علم الاعداد”اوردیگر پراسرار علوم معاشرے میں متنازیہ موضوعات ہیں جن کے متعلق ہمارے قابل احترام سماجی کارکن ،علما اور مفکرین میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے تو میرا تجسس اور بڑ ھ گیا کہ اس تنازیہ کے وجوہات کو جان سکوں۔اپنی اس کھوج سے میں نے بہت ساری معلومات حاصل کیں۔

ان میں سے ایک علم ”علم الاعداد” کے متعلق جو کچھ جانکاری مجھے ملی میں اسے یہاں اپنے محبان اُردوکی نذرکررہا ہوں اس سے میرامقصد اس کی حمایت یا مخالفت بالکل نہیں ہے۔

میں اپنی تفتیش کا ماحصل اس مضمون میں آپ قارئین کی نذر کررہا ہوں وہ اس کے بغور مطالعہ سے خود اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ کیا صحیح اور کیا غلط ہے اورزندگی میں اس علم کا استعمال کس حد تک جائزہے۔یہ فیصلہ اب آپ پر چھوڑتاہوں۔

ان پراسرار علوم کے مطالعہ سے میرے ذہن میں یہ خیال پید ہوا کہ ہمارے محترم علما اورمفکرین انسانیت نے شایدایسے چند علوم کے حصول کو منع اس وجہ سے کرتے آرہے ہیں کہ چند مادیت پسند ،خود غرض ،سنگ دل اورظالم لوگوں نے ان علوم کے استعمال سے معصوم انسانیت کے استحصال کا ناجائر راستہ اختیارکرلیا ہے۔

زمانے قدیم سے ہی یہ کچھ پیچیدہ علوم ہماری کم ظرف عوام کی پہنچ سے دو رمعاشرے کے ایک خاص طبقہ کے ذہنوں تک محدود رہے اور ان میں چند خود غرض ومطلبی لوگوں نے اپنی محنت و لگن سے ان پر دست رس حاصل کرلیا اور ا ن علوم کو اپنی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا اس طرح وہ معصوم عوام میں بدگمانی پیداکرکے انہیں مزید خوف زدہ کرنے لگے اور ان پر قابض مصیبتوں سے چھٹکارادلانے کاجھوٹایقین دلا کر ان مصیبت زرہ لوگوں کی محنت کی کمائی لوٹ کر انہیں اورپریشان کرنے لگے۔یہ ان کا انسانیت پر ایک سنگین ظلم ثابت ہوتاہے جو کہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔

مگر موجودہ زمانے میں یہ جرم ماہرین علم نجوم تو کیا سبھی عصری عالموں میں عام ہونے لگا ہے۔ سرکاری نوکروں میں رشوت خوری،سرکاری مدارس میں اپنی ذمہ داروی سے لاپروائی،سیاست دانوں میں سرکاری سہولیات کی مفت خوری، ڈاکٹروں اورحکیموں میں معصوم مریضوں کے استحصال کا رحجان پھیلنے لگا ہے۔

جو ایک معمولی مرض کو موزی مرض قراردے کر،انہیں ودیسی آلات کے قیمتی ٹسٹ لکھ دیتے ہیں اور انہیں ٹسٹنگ لیب والے انعام کے طور پر کمیشن بھی عنایت کرتے ہیں۔

ظاہر ہے ہر زمانے میں لوگ ماحول کی تبدیلی یا اپنی روز مرہ زندگی کی بداحتیاطی کے سبب بیمار پڑتے اور ایک زمانے سے ہمدرد و رحم دل دیسی حکیم مریض کی نبص ٹٹول کر،دل کی دھڑکوں کی رفتار جانچ کر، زبان،آنکھوں کے رنگ،جسم کی حرارت اور اس کی بول چال کا بغور مشاہدہ کر کے محض اپنے تجربات کی بنیاد پر مرض کے اصل اسباب کے پیش نظر مرض کی تشخیص کرلیتے ،اپنے علاج کے پہلے مرحلے کے طور پر مریض میں خود اعتمادی اور خدا کی مدد کا بھروسہ پیداکرتے اور چند دوائیاں تجویز کرکے ان کا موثر علاج کر دیتے۔

بیماریاں یوں آتیں اور یوں رفوچکر ہوجاتیں۔الغرض میں اس تفصیلی مدلل مباحثے سے یہ ثابت کرنا چاہتاہوں کہ ادھر چند بے ایمان لوگ عوام کو حقیقی علوم سے دور رکھ کر ان کا استحصال کرناچاہتے ہیں۔اُدھر اللہ تعالی نے اپنے پیارے بندے کواپنی مقدس کتابوں میں بار بار ہدایت دی ہے کہ تم علم حاصل کرو۔

یہ علوم ہم کو اللہ کی تخلیق کردہ کائنات میں کچھ نظرآنے والی اورکچھ اوجھل اشیاء کی شکل صورت، فطرت ، قابلیت وغیرہ سے روشناس کراتے ہیں۔ خدا نے انسان کو ہدایت دی ہے کہ وہ اگر اپنے ارد گرد اس کی تخلیق کردہ چیزوں کا بغورمطالعہ کرے گا تو اس کی قدرت پر یقین ہوگا اوروہ ان کے صحیح اور جائزاستعمال سے فیض یاب ہوگا۔

اس لحاظ سے کسی علم کا حصول برا نہیں، اگرکسی علم کااستعمال بری نیت سے کیاجائے تو یہ عمل برا ہے۔ علم کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کا ہر بندے کو حق ہے۔

ہر بندہ اپنی ضرورت کے مطابق علم حاصل کرکے اپنے نجی گھریلو مسائل خود حل کرلے تو کیا قباحت ہے؟

علم کے ہر میدان میں آج ہمیں انسانیت کے بے لوث خادم بہت کم ہی نظر آتے ہیں۔جبکہ خواندہ لوگوں کی ایک مادیت پرست اکثریت دولت کے نشے میں اتنی چور ہے کہ وہ بھول گئی ہے کہ وہ اس قدرتی نظام میں ایک ذرّہ ہے۔ اس سے کڑوڑوں گنابڑی قوت اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

البتہ ہر میدان میں اچھے اور برے لوگ موجود ہیں۔میری اس بحث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس علم الاعداد کے میدان میں سارے کے سارے ماہر خود غرض اور مکارہیں۔یہاں میں نے کچھ معتقدین روحانیت خدمت خلق کے نیک جذبہ سے مامور ماہرین کو یہ کہتے ہوئے سنا اور دیکھا ہے کہ”اگر ہم میں علم سلیم ہو،قدرت اورخداکی عطا کردہ صلاحیتوں پر بھروسہ ہو تو یہ ایمان ہماری زندگی کی کامیابی کے لیے کافی ہے۔

یہ علم محض اپنی معلومات کے لیے جانیں کسی پر اس کا اعتقاد لازمی نہیں۔ اپنی خداداد صلاحیات پر اعتماد رہے۔ خیالات پاک ہوں۔ بلند سوچ وسمجھ کا مادہ ہو۔ کاہلی چھوڑمحنت سے کام لیں،آپس میں انسانیت، ہمدردی، ا پنائیت، چاہت اوردوستانہ فضا قائم رکھنے کی صلاحیت بنائے رکھیں تواللہ کی عطاکردہ روحانی و جسمانی اور ذہن استطاعت زندگی کے ہر امتحان میں سبھی کو کام یابی میسرہوگی۔

یہ چند مثبت اوصاف جس زندگی میں تقویت پالیں وہ زندگی خوش گوار ہوگی۔انہیں کسی تانترک، ماہرہ نجوم کے آگے ناک رگڑنے کی قطعی ضرورت پیش نہیں آئے ہوگی۔

ان علوم کی جانکاری ہوتو وہ خوداپنی چھٹی حس کی مدد سے اپنے سبھی سماجی و معاشی مسائل کا مناسب حل نکال سکیں گے اس علم کے مطالعہ کے دوران مجھے یہ احساس ضرور ہوا کہ اسکے ماہرین نے اس علم کو دلچسپ، پُرکشش اور قابل فہم بنانے کی خاطر اپنے مخصوص مذہبی عقائد اورچند غیر منطقی تصورات کو شامل کرلیا ہے۔ جو سائنسی رو سے بھی ہضم نہیں ہوتے اور انہیں دینی اعتبار سے بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ مثلا ًسیادروں کے اقسام اور ان کی قوت کا تعین، ان کے انسانوں کی زندگی پر اثرات کا یقین۔

یہاں تک تو مانا جاسکتا ہے کہ خالق کائنات نے اپنی ہر تخلیق (زمین، آسمان،چاند، سورج، ہوا،پانی، آگ وغیرہ)میں کچھ صلاحیات رکھی ہیں۔اسی طرح ہر زی روح کی زندگی کی بقا و نشوو نماکے مقصد سے اس کو بھی چند صلاحیات عطاکی ہیں۔ انسان کو وقت ضرورت ان کو پہچان کرانہیں بروئے کار لانا لازمی ہے۔

معاشرے میں ایک انسان کا دوسرے سے سابقہ پڑتا ہے اسے ایک دوسرے سے دوستانہ تعلقا ت کی خاطر ایک دوسرے کو سمجھنااور سمجھانابھی لازمی ہے۔یہ سلیقہ وہ اپنے تجربہ،مشاہدہ اورچھٹی حس سے بھی پا سکتاہے۔اگر ہر انسان علم الاعداد کی حقیقت اور اہمیت سمجھ لے تو اس ضمن میں علم الاعداد ایک حد تک ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے میں معاون تو ثابت ہوسکتاہے۔

اس میں وارد چند اندھے عقائد کا لحاظ ایک روشن ضمیرانسان کے لئے لازمی تونہیں ہے۔یہ علم الاعداد ہمیں اعدادکی مقررہ خصوصیات کے پیش نظر ہماری خوبیوں اور خامیوں سے روشناس کراتاہے جن سے ہمارا نفسیاتی علاج ممکن ہوتاہے اوریہ علم ہم میں خود اعتمادی پیدا کرتاہے۔ مگرچند خود غرض ماہرین کی جانب سے بھولی بھالی عوام پرخالق کائنات کی تخلیق شدہ اشیا کا خوف طاری کرنا،سائنسی اور منطقی اعتبارسے ایک نامناسب اور طفلانہ عمل ہی تصور کیا جائے ہوگا جو اسلام کی رو سے بھی شرک قرار دیا جاتاہے۔

اس کے چند کوتاہ بین ماہرین کے اس رویہ سید دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں اس علم کی قدر گھٹی ہے۔ جس کے دل میں خوف خدا ہو وہ کسی اور سے خوف نہیں کھاتا۔اگر زندگی میں کچھ مسائل پیداہوں تو ہم اپنی خدادادحکمت اور صلاحیات سے ان کا حل نکال کر اپنی زندگی خوش حال بناسکتے ہیں۔ آپسی تعلقات میں کچھ رنجشیں ہوں تو آپسی صلاح صفائی سے اسے رفع کرسکتے ہیں۔

ایسے معاملے میں کسی عامل کامل کی مدد لینا گویا دو کے جھگڑے میں تیسرے کا داخلہ مشکوک بھی ہوسکتاہے۔ایک بندرکی انصاف کا قصہ ہمیں یہ سبق دیتاہے۔ مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہم اپنے مسائل کے حل کے لئے کسی اور کی مدد ہی نہ لیں،بلکہ وقت ضرورت بڑی سوچ سمجھ سے ایک نیک اوربے لوث خادمِ انسانیت کا انتخاب کریں۔

آج بھی چند بے لوث خدمت خلق کے نیک جذبہ سے مامور ماہرین علم ہمیں خداکی قدرت پر ایمان لانے اپنے اندرمثبت خیالات قائم رکھنے اورمنفی سوچ سے پرہیز کرکے زندگی کو خوشگوار بنالینے کی انمول صلاح دیتے ہیں۔مگرہم میں چند بھولے بھالے ناخواندہ لوگ اپنے ایمان میں کمزور،اپنی خداداد صلاحیتوں سے غافل ان پیشہ ورخود غرض عاملوں ،باباؤں اور نجومیوں کے بھروسے ان کی چوکٹھوں پر سجدہ ریز ہیں، وہی سجدہ وہ جائے نماز پرکرلیتے تورب العزت کی خوش نودی حاصل ہوجاتی اور بلاکسی خرچے کے ساری مصیبتیں ٹل جاتیں۔

لاکھ باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ہم میں یہ ایمان ہو کہ ہم سب کاخالق ہمیشہ ہم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔جو کہ ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس حقیقت کو سمجھیں، اُ س کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں توان شاہء اللہ وہ وقت ضرورت ہمیں نیک توفیق عنایت فرمائے گا۔

اس نے یہ تو کہہ چھوڑاہے کہ تم مجھ سے جوتوقع رکھتے ہو میں تمہاری وہ توقع پوری کروں گا۔ مگرہم میں اتناصبر نہیں کہ اس کی حکمت اور رحمت کا کچھ دیر انتظار کرلیں۔

اس کے معتقدین کا قول ہے کہ اگر ہمیں کچھ مخصوص موقع و حالات میں تبدیلی کے سبب چندمشکلات کا سامنا درپیش ہو تو اس رب العزت سے گڑ گڑا کر دعاکریں اورمدد مانگیں تو وہ ہمارے لیے دنیاکی کل کائنا ت کو موافق بنادیتاہے۔

اس خالق کائنات نے انسان کو ایک خوبصورت جسم کے ساتھ ایک قوی ذہین بھی عطاکیا ہے زمین پر مختلف غذائی اجناس کو پیداکرکے ہمارے جسم کی نشو ونماکا ذریعہ عطاکیا ہے جس کے حصول کے لیے محنت شرط ہے۔۔

وہ جسم کی غذا ہے تو علم ذہن کی غذا ہے۔ دین و دنیا کے علوم کو اپنی جانکاری کی خاطرحاصل کریں اور ایمان اللہ پر ہو۔مانوکہ وہ بڑاکار ساز ہے! ٭٭٭

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *