استاذ العلما حضرت علامہ مفتی غلام یسین نوری کٹیہاری
مختصر احوال استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی غلام یسین نوری کٹیہاری دامت برکاتہم :
قابلِ تحسین شخصیات میں ایک نام استاذ العلماء، صوفی باصفا، پیکر زہد و تقویٰ، مبلغ، محی السنہ، اسلاف کرام کے کرادر کا چمکتا آئینہ، صاحب رشد وہدایت، پاسبان مسلک اعلیٰ حضرت، شاگرد حضور مفتی اعظم، استاذی الکریم حضرت علامہ مفتی الشاہ غلام یسین رضوی نوری کٹیہاری اطال اللہ عمرہ کی ذات بابرکات ہے۔آپ کی زندگی جد وجہد سے عبارت، اشاعتِ دین، تربیتِ مسلمین اور خدمتِ خلق میں گزری۔ اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔تاریخ ولادت:آپکی ولادت باسعادت ١٩٥٢ء میں اپنے آبائی وطن(موضع کڑھیلا سالماری) ضلع کٹیہار (بہار), میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت :
آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کے سایہ عاطفت میں ہوئی۔۔ بعدہ حضرت مولانا خلیل احمد رضوی، مولانا ادریس رضوی اور حضرت مولانا محبوب علی رضوی کے زیرِ سایہ رہ کر ناظرہ وابتدائی فارسی کتب پڑھیں۔۔۔اسکے بعد اعلٰی تعلیم کے لئے اہل خانہ سے کہے بغیر بریلی شریف کی جانب (۱۹۷۲ء میں) روانہ ہوئے اور جامعہ رضویہ منظر اسلام میں داخلہ لیا۔۔اور وہاں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تقریباً دو سال تک علمی فیضان سے مالا مال ہوئے۔۔ بعدہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لے کر مسلسل چھ برس تک آپنے وہاں تعلیم حاصل کیں۔۔اسی طرح بھاگلپور (جامعہ نظامیہ فیضیہ ایسی پور) میں (تقریباً ایک سال) معقولات کی تعلیم کے لئے امام و فن علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی وحضرت علامہ مفتی ایوب رضوی پورنوی کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کیں اور جب حضرت سے فون پر بات ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”حضور مفتی اعظم ہند کی قدم بوسی اور دعاء کے لیے دوبارہ بریلی شریف گیا اور جامعہ رضویہ منظر اسلام میں داخلہ لیا اور حضور مفتی اعظم ہند کے دست پاک سے دستار فضیلت حاصل کیا۔“
تربیت افتاء :
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ افتاء کا نظام پہلے زمانے میں باضابطہ طور پر کوئی مستقل شعبہ نہیں تھا۔۔ اس زمانے میں فضلیت کے ساتھ ساتھ افتاء کا کورس بھی کرا دیا جاتا تھا۔۔ چنانچہ اسکی وضاحت خود صاحب تذکرہ کی زبان میں ملاحظہ کریں: ”چوں کہ عہد حاضر میں علم کی زبوں حالی ابتر ہے بنابریں ارباب علم و دانش نے ضرورت زمانہ کو دیکھتے ہوئے اس شعبے کو تشکیل دیا، تاکہ اس فن کو(جو کہ علوم دینیہ میں عظیم ہے) فارغین میں خاص درک حاصل ہوں۔۔۔۔ بفضلہ تعالیٰ میں نے حضرت علامہ قاضی عبدالرحیم بستوی علیہ الرحمۃ کی زیر نگرانی میں فتویٰ نویسی سیکھیں۔“اساتذہ کرام:آپنے جن بزروگوں سے تعلیم حاصل کی وہ یہ ہیں:
(۱) مجدد ابن مجدد تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم ہند علامہ شاہ مصطفیٰ رضا قادری نوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(۲) شیخ طریقت جانشین سرکار مفتی اعظم تاج الشریعہ علامہ شاہ اختر رضا خاں قادری ازہری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(۳) صدرالعلماء امام النحو حضرت علامہ سید غلام جیلانی میڑھی علیہ الرحمہ
(۳) فقیہاجل متکلم ابجل حضرت علامہ شمس الدین احمد رضوی جعفری جونپوری علیہ الرحمۃ
(۴) محدث اعظم بہار حضرت علامہ شاہ احسان علی مظفر پوری علیہ الرحمۃ
(۵) فقیہ عصر حضرت علامہ قاضی عبدالرحیم بستوی علیہ الرحمۃ
(۶) امام علم و فن حضرت علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی علیہ الرحمۃ
(۷) امام النحو علامہ مفتی بلال احمد رضوی پورنوی علیہ الرحمۃ
(۸) حضرت علامہ مفتی ایوب رضوی پورنوی علیہ الرحمۃ
(۹) محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری اطال اللہ عمرہ
بیعت و ارادت :
اس زمانے میں سیدنا اعلٰی حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ کے بعد جن کو امام اور مقتدی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے وہ سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ القوی کی ذات ہے چناں چہ استاذ گرامی (مفتی غلام یاسین رضوی) زید شرفہ حُضور مفتی اعظم ہند کے دست حق پرست پر (١٩٧٤ء/١٩٧٣ میں) سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ نوریہ رضویہ میں داخل ہوئے۔
درس و تدریس:
آپ نے تقریباً ایک سال (پہلی تدریس گاہ) مظہر العلوم (فاروق آباد) میں تدریسی خدمات انجام دیں پھر سیدنا حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی عنایت پر (دوسری تدریسگاہ) جامعہ رضویہ منظر اسلام میں بطور مدرس مقرر ہوئے یہاں تقریباً ایک سال تدریسی فرائض سر انجام دیں، نیز سرکار مفتی اعظم ہند کی ایماء پر آپ نے (تیسری تدریس گاہ) الجامعۃ النظامیہ فیض العلوم دلکولہ ملکپور کی طرف (۱۹۸۳ء میں) رخت سفر باندھے۔ اور اس وقت سے لیکر تا ہنوز آپ وہاں ناظم اعلیٰ اور بطور مدرس معمور ہیں۔
وعظ وخطابت :
حضرت مفتی صاحب کوئی شعلہ بیاں مقرر نہیں مگر آپ خاموش ذات اچھے اچھے مقررین پر بھاری ہے۔۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ملکہ خطابت سے بھی نوازا ہے آپکی تقریر صوفیانہ سے لبریز اور خالصا علمی ہوتی ہے۔ آپ مجالس و محافل میں بہت کم جاتے ہیں بلکہ زیادہ تر طلباء کی تعلیم میں دھیان دیتے ہیں، ہاں بقدر ضرورت گاہے بگاہے شرکت بھی کرتے ہیں۔اخلاق واوصاف:آپ کی ذاتِ ستودہ صفات ہر قسم کے تصنع، تفاخر، تکلفات سے پاک اور علم و حلم و تواضع،زہد و اتقاء، سادگی اور اخلاقِ حسنہ سے آراستہ ہے۔۔۔۔سادگی میں تو سلفِ صالحین کے عکس جمیل نظر آتے ہیں، اور آپکی ایک عمدہ صفت میں یہ بھی ہے کہ طلباء سے آپنے اپنے لئے خدمت نہیں لیا کرتے ہیں ایک مرتبہ راقم حضرت کا کپڑا دھونے کے لیے گیا تو جیسے ہی حضرت نے دیکھا تو فرمایا : ”میں خود دھو لیتا ہوں“۔۔۔ چناں چہ “الأمر فوق الادب” کے تحت میں نے کپڑے دے دی اور پھر خود ہی آپ نے کپڑے صاف کر لی۔۔۔اسی طرح آپکی صفات میں ایک صفت مہمان نواز بھی ہے۔ چنانچہ برادر کبیر اور ناچیز آپکی بارگاہ میں جب پہلی دفعہ حاضر ہوا تو آپ نے خندہ پیشانی سے اس طرح گفتگو کی کہ محسوس ہوا کہ آپ پہلے ہی سے ہم لوگوں کو جانتے ہیں، اس اخلاق باکمال کا اثر آج تک میرے برادر کبیر یاد کیا کرتے ہیں۔
اجازت وخلافت :
بزرگان دین نے حضرت مفتی صاحب کو متعدد سندوں سے نوازا ہے۔مگر آپ کسر نفسی کی وجہ سے اس چیز کا اظہار کبھی نہیں کیا۔ چنانچہ راقم السطور نے جب متعدد بار اصرار کیا تو آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا “ہم نے اپنے آپ کو اس لائق سمجھا ہی نہیں” اور آخر میں فرمایا: ”ہاں حضرت علامہ توصیف رضا خان قادری (نبیرہ اعلیحضرت) دام ظلہ نے مجھے اجازت وخلافت دی ہے لیکن میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتا“ مذکورہ بالا جملوں سے چند مسائل ثابت ہوئے:
أولا :
پیری مریدی کرنا ہر ایک کا شعبہ نہیں ہے بلکہ جو جامع شریعت وطریقت روشن ضمیر ہو وہی اسکے مستحق ہیں۔
ثانیاً :
تواضع و انکساری کرنا بزرگوں کی شان ہے۔ ثالثاً: ریاکاری سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ بہر کیف! جب ہم ان جملوں کی روشنی میں حضرت مفتی صاحب کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو آپ ایک سچے صوفی، صاحب طریقت اور اسلاف کرام کے جیتی جاگتی تصویر ہیں۔حج وعمرہ:اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپکو عمرہ اور روضہ رسولﷺ کی حاضری کی سعادت بھی حاصل ہے۔چناں چہ آپ ربیع النور کے مقدس و بابرکت مہینے میں سن,٢٠١٧ء میں خلیفہ حضور تاج الشریعہ حضرت مولانا غلام ناصر مصباحی(جو آپ ہی کے تلمیذ رشید ہے) کے ہمراہ حجاز مقدس تشریف لے گئے اور عمرہ و زیارت روضۂ مقدسہ کی سعادت سے مشرف ہوئے۔
نوٹ :
الحمداللہ تعالیٰ مجھہ راقم کو یہ شرف حاصل ہے کہ جب آپ عمرہ کیلئے زیارت حرمین شریفین کی طرف روانہ ہوئے تو نعت رسول ﷺ گنگناتا ہوا آپ کو اسٹسیشن چھوڑنے گیا تھا اور ساتھ میں مدرسے کے مدرسین اور طلباء بھی تھے۔ ناچیز کو یہ اچھی طرح یاد ہے کہ ٹرین آنے کے دس مِنٹ قبل حضرت نے مجھ سے دو مرتبہ گلے لگایا اور کثیر دعاؤں سے نوازا نیز دو تین مرتبہ میں نے حضور والا سے عرض بھی کیا کہ اس ناچیز کیلئے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں ضرور دعاؤں میں یاد رکھیےگا۔۔۔تو حضرت نے مسکرا کر کہا ضرور دعاء کروں گا، تب سے اب تک فقیر پر حضرت کا بے پایاں کرم ہے، آج جو کچھ بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کر لیتا ہوں۔یہ بلاشبہ استاذ گرامی وقار کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔
دینی خدمات :
حضرتِ صوفی ملت کی خدمات ہمارے لئے مشعل راہ اور ناقابلِ فراموش ہیں أولا: تو آپکی زندگی کا سب سے مثالی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے ایک جنگل میں ایک دینی درسگاہ قائم کیا (جو الجامعۃ النظامیۃ فیض العلوم ملکپور کے نام سے معروف ہے) یہاں آپنے تقریباً ۳۹ سال کے زائد عرصے سے مسلسل دینی، علمی، سماجی، خدمات پر مصروف ہیں۔
ثانیاً :
آپ ہی کی تحریک پر مناظرہ کٹیہار دلکولہ معرضِ وجود میں آئیں اور ہزاروں لوگ دیوبندیت سے تائب ہو کر سنی صحیح العقیدہ بن گیے، نیز اس اثناء میں تاریخی کانفرنسوں میں بھی جاکر لوگوں کو دین وسنیت سے قریب کیا۔ ثالثاً: آپکی زندگی کا زریں باب یہ بھی ہے کہ آپ نے علاقے کے گرد و نواح میں جاکر مساجد ومکاتب کی بھی بنیاد ڈالی، اور لوگوں کو دینی تعلیم کی جانب راغب کیا،اسی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے کہ آج اس علاقے (ملکپور دلکولہ) میں تعلیمی ماحول عمدہ ہے۔
اسی طرح اگر آپکی دینی خدمات کو احصاء کیا جائے تو ایک دفتر درکار ہیں۔رب قدیر سے دعا ہے کہ آپکی دینی و علمی خدمات کو قبول عطاء فرمائے(آمین)تلامذہ:آپ سے فیضیاب ہونے والوں کی تعداد شمار سے باہر ہے، آپ کے تربیت یافتہ شاگرد ملک کے مختلف حصوں میں آپ کا نام روشن کر رہے ہیں، چند اہم تلامذہ کے نام یہ ہیں:
(۱) خلیفہ تاج الشریعہ حضرت مولانا غلام ناصر مصباحی (بانی مدرسہ کنزالایمان، ممبئی)
(۲) خلیفہ تاج الشریعہ حضرت مولانا غلام نبی مصباحی(بانی دارالعلوم قادریہ صابریہ برکات رضا، کلیر شریف)
(۳) حضرت علامہ جمشیدالقادری مصباحی
(۴) حضرت مولانا غلام جیلانی مصباحی
(۵) حضرت مولانا شاہد رضا مصباحی
(۶) حضرت مولانا قربان علی مصباحی
(۷) راقم الحروف محمد توصیف رضا علیمی کٹیہاری اللہ تعالیٰ حضرت کی عمر میں بے پناہ برکتیں عطا فرمائے اور آپ کا سایہ اہل سنت پر دراز فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
از قلم : محمد توصیف رضا قادری علیمی الغزالی اکیڈمی واعلیٰ حضرت مشن