زکوۃ کے چند اہم مسائل

Spread the love

از: شیخ سیف اللہ پنگنوی ذیل میں آپ میں ان چیزوں کو پڑھیں گے جیسے شرائط زکوۃ   اموال زکوۃ : زکوۃ کی مقدار، نصاب دین سے فارغ ہو:حاجت اصلیہ :انشورنس کی رقم میں زکوۃ اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ  : زکوۃ کے چند اہم مسائل

زکوۃ کے چند اہم مسائل

اصطلاح فقہی میں زکوۃ کہتے ہیں : تملیک مال مخصوص لمستحقیہ بشرائط مخصوصۃ یعنی کہ مال کے بعض حصہ کا ، مخصوص شرائط کے پائے جانے پر اس کے مستحقین کو مالک بنانا۔

زکوۃ دو طرح کی ہے

ایک مال کی زکوۃ

اور دوسری نفس یعنی جان کی زکوۃ جس کو دوسرے الفاظ میں صدقہ فطر بھی کہا جاتا ہے۔

شرائط زکوۃ

زکوۃ کی شرطیں بنیادی طور پر دو طرح کی ہیں ۔ ایک اس شخص کے متعلق جس پر زکوۃ فرض ہوتی ہے۔ دوسرے مال زکوۃ کے متعلق ۔ ٭ زکوۃ ادا کرنے والے کے متعلق شرطیں:

1) مسلمان ہونا۔

2) عاقل ہونا: مجنون کے مال میں زکوۃ فرض نہیں ہوتی ہے۔ اگر دائمی جنون ہو تو وہ مالک نصاب ہونے کےباوجود اس کے مال میں زکوۃ فرض نہیں ہوگي

البتہ جنون اگر عارضی ہو تو مالک نصاب بننے کے بعد سال بھر میں کبھی ایک دفعہ بھی صحت یاب رہا ہو تو اس کے مال میں زکوۃ ادا کرنافرض ہوگا۔

3) بالغ ہونا۔

4) آزاد ہونا

٭ زکوۃ کے مال کے متعلق شرطیں

1) مال بقدر نصاب ہو۔

2) مال پر مکمل ملکیت حاصل ہو۔

3) نصاب دین سے فارغ ہو۔

4) نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو۔

5) مال نامی ہو۔

6) مال پر ایک سال گزرا ہو۔

٭ ان ہی شرائط کو ایک اور تقسیم کے اعتبار سے تین قسموں میں باٹا جاسکتا ہے۔

1) فرضیت زکوۃ کے شرائط: مسلمان ہونا، عاقل و بالغ ہونا ، آزاد ہونا، مال کا بقدر نصاب ہونا، مال پر ملک تام حاصل ہونا، نصاب کا حوائج اصلیہ سے فارغ ہونا، مال نامی ہونا۔

2) وجوب ادا کے شرائط: مال پر ایک قمری سال کا گزرنا، سال کے دونوں طرف میں کامل نصاب ہونا۔

3) صحت ادا کی شرطیں: زکوۃ کے مال کو علی حدہ کرتے وقت یا ادا کرتے وقت یا پھر دینے کے بعد اس مال کے خرچ ہونے سے پہلے نیت کا پایا جانا۔

شرائط زکوۃ کی تفصیل

٭ اموال زکوۃ :

بنیادی طور پر اموال زکوۃ تین ہیں

1) ثمن حقیقی (سونا ،چاندی)و اصطلاحی (نوٹ)

2) اموال تجارت

3) سائمہ جانور (وہ جانور جنہیں بذات خود چرنےکے لیے چھوڑ دیا گیا ہو)

٭ اس کے ساتھ ہی ایک اور قسم زمینی پیداور اور زمینی خزانوں کی بھی ہے ۔ جس میں عشر،یا نصف عشر واجب ہوتا ہے۔

٭ نصاب : مختصرا یہ تو معلوم ہوگيا کہ کن کن اموال میں زکو‏ۃ فرض ہوتی ہے ۔ مگر یہ سوال ابھی باقی ہے کہ مال کے کس حضہ میں زکوۃ فرض ہوتی ہے۔؟

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بابرکت ہے ۔ آپ نے حضرت علی رضي اللہ عنہ سے فرمایا :

“فإذا كانت لك مائتا درهم وحال عليها الحول ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء –يعني في الذهب- حتى تكون لك عشرون دينارا، فإذا كان لك عشرون دينارا وحال عليها الحول ففيها نصف دينار، فما زاد فبحساب ذلك. (سنن أبي داؤد: 1573)

یعنی کہ تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر سال بھی گزر جائے ، تو ان میں سے پانچ درہم زکوۃکا مال ہے ۔ اور سونا میں کچھ زکوۃنہیں جب تک کہ وہ بیس دینار کو نہ پہنچ جائے ، اور جب بیس دینار ہو جائیں تو ان میں آدھا دینار زکوۃ میں دو۔ پھر اس نصاب پر جتنا بڑھے اس کی مقدار زکوۃ بھی بڑھاؤ۔

اس سے معلوم ہوا کہ چاندی کا نصاب دو سو درہم ، اور سونا کا بیس دینار ہے۔ ان درہم و دینار کی مقدار آج کے اوزان کے مطابق 612.360 گرام (چاندی) اور 87.480 گرام (سونا) بالترتیب بنتی ہے۔ یعنی کسی شخص کے پاس اگر سونا 87.480 گرام یا چاندی 612.360 گرام ہو ، اور اس پر سال گزر جائے تو اس کاچالیسواں زکوۃ میں دینا اس شخص پر فرض ہوجائے گا۔

٭ اموال تجارت کا نصاب سونا یا چاندی کے مطابق ہے۔یعنی تمام مال تجارت کی قیمت لگائیں گے ، قیمت سونا یا چاندی میں سے کسی ایک کے نصاب کو پہنچتی ہو تو اس مال میں زکوۃ فرض ہوجائیگی ۔ مثلا کسی کے پاس تجارت کا اتنا مال تھا کہ جس کی قیمت سے بآسانی 612.360 گرام چاندی یا 87.470 گرام سونا خریدا جاسکتا ہےتو اس مال میں وہ شخص سال گزرنے پر زکوۃ نکالے۔ (الدر مع الرد: 229/3)

٭ زکوۃ کی مقدار:

اموال تجارت میں مقدار یہ ہے کہ کل مال کا چالیسواں حصہ زکوۃ میں نکالا جائے۔ مثلا کسی کے پاس ایک کروڑ کا مال تجارت ہو تو اس کا چالیسواں حصہ ڈھائی لاکھ ہے۔ اس رقم کو زکوۃ میں دے۔ زکوۃ کی رقم معلوم کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ مکمل مال کو چالیس سے تقسیم کردیا جائے ، جو نتیجہ نکلے گا وہی زکوۃ کی رقم ہوگی۔

٭ مال زکوۃ کی تیسری قسم ہے سائمہ جانور۔ یعنی وہ جانور جو بذات خود چرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے یہاں یہ صورت پائی نہیں جاتی ہے؛ لہذا ان مسائل کی تفصیلی بحث تو نہیں ہوگي ، مگر جانکاری کے لیے مختصر نوٹ پیش کی جاتی ہے۔

جانوروں کے نصاب کے بارے میں خود آقائے کریم سے کئی احادیث مروی ہیں ۔ آپ نے اس کی مکمل تفصیل خود املا فرمائي اور نجران کے گورنر کو روانہ فرمائی تھی۔ وہ جانور جن میں زکوۃ واجب ہے ، وہ تین ہیں ۔ اونٹ، گائے، بکری ۔ ان کے علاوہ دیگر جانوروں میں تجارت بنیاد ہے ۔ البتہ گھوڑے کے سلسلہ میں اختلاف ہے۔

٭ اونٹ کا نصاب:

پانچ سے کم اونٹوں میں زکوۃ نہیں ۔ 5 تا 9 ایک بکری ، اس طرح 25 تک ہر پانچ میں ایک ایک بکری۔

25 تا 35 ایک سالہ اونٹنی (بنت مخاض)

36 تا 45 دو سالہ اونٹنی (بنت لبون)

46 تا 60 تین سالہ اونٹنی (حقہ)

61 تا 75 چار سالہ اونٹنی (جذعہ)

76 تا 90 دو دو سالہ اونٹنیاں،

91 تا 120 دو تین سالہ اونٹنیاں

120 کے بعد دوبارہ اسی ترتیب کے مطابق ہر پانچ پر ایک بکری دس پر دو واجب ہوتی جائيں گي۔

٭ گائے کا نصاب :

گائے اور بیل وغیرہ میں نصاب تیس جانور ہیں ۔ 30 تا 39 تک ایک دو سالہ بچھڑا، 40 تا 59 تک ایک تین سالہ بچھڑی دیں۔ پھر ہر تیس میں ایک دو سالہ بچھڑا اور ہر چالیس میں ایک تین سالہ بچھڑی دیتے جائیں۔

٭ بکری کا نصاب:

40 سے کم بکریوں میں زکوۃ نہیں ہے۔ 40 سے 120 تک ایک بکری۔ پھر 121 سے 200 تک دو بکریاں دیں۔ آگے ہر سو پر ایک ایک بکری بڑھاتے جائیں۔

٭ زمینی پیداورکا نصاب:

سراج الفقہاء سیدنا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں زمینی پیداوار میں کوئی نصاب متعین نہیں ہے۔ کم و بیش تمام پیداوار میں عشر واجب ہے۔ البتہ اگر خودکھیتی کو سیراب کرتا ہو تو اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ دینا واجب ہے۔ اور اگر قدرتی ذرائع سے فصل کو پانی پہنچتا ہومثلا : بارش ، ندی وغیرہ تو اس میں دسواں حصہ دیں۔

٭ اب یہاں یہ سوال قابل غور ہے کہ کیا تمام پیداوار میں عشر دے؟ ۔ نہیں ؛ بلکہ ان تمام پیداواروں میں عشر دے ، جن کو بالقصد اگایا گيا ہو۔ گھاس، بانس اور لکڑی وغیرہ چونکہ عام طور پر نہیں اگائے گئے ہوں تو ان میں عشر واجب نہیں۔ ہاں، اگر باضابطہ ان کی کاشت کی جائے تو ان میں بھی عشر واجب ہوگا۔

٭ یہاں پراس فرق کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ زکات کی تمام شرطیں عشر کے لئے بھی شرط نہیں ہیں۔ مثلا : زکوۃ میں مال پر ایک سال گزرنے کے بعد زکوۃ کی ادائیگي واجب ہوتی ہے؛ جبکہ عشر میں ہر ہر فصل میں عشر دینا واجب ہے۔نیز زکوۃ عاقل، بالغ ہی کے مال میں فرض ہوتی ہے، مگر عشر میں یہ شرط نہیں۔

٭ زمین کی پیداوار میں مسلمان بہت سستی برتتے ہیں ۔ دیگر اموال کی زکوۃ کی طرح اس کی ادائیگي بھی فرض ہے۔ یہ صرف مالداروں کی کھیتیوں میں نہیں ؛بلکہ ہر ہر پیداوار چاہےکرایہ پر لی ہوئی زمین ہی کیوں نہ ہو ، عشر واجب ہے۔

٭ معدنیات و دفینوں کا حکم: حقیقتا معدنیات و دفینوں کا تعلق زکوۃ کے باب سے نہیں ہے ، مگر چونکہ فقہاء نے ان کے مسائل اسی ضمن میں ذکر فرمایا ہے ؛ لہذا مختصر تفصیل یہاں بھی مذکور ہے۔

٭ معدنیات تین طرح کےہوتے ہیں۔ ایک وہ جامد چیز جس کو پگھلا کر دوسری شکل و صورت میں ڈھالا جاسکتا ہو۔جیسے سونا ، چاندی ، لوہا ،پیتل وغیرہ ۔ دوسرا وہ جامد چیز جس کو مختلف ڈھانچوں میں نہ ڈھالا جاسکے۔ مثلا: نمک، پتھر ، سرمہ وغیرہ۔ تیسرا سیال چیز ، مثلا : پانی ، تیل وغیرہ۔

٭ ان تینوں کا حکم یہ ہے کہ پہلی قسم میں بیت المال کو نکالی گئي چیز کا پانچواں حصہ دے۔ اس سے قطع نظر کہ زمیں سرکاری ہے یا نجی۔ البتہ دوسری اور تیسری صورتوں میں زمیں سے نکلی چیزوں کا مکمل استحقاق اس شخص کو ہوگا ، جو انہیں کھوجا ہو۔

٭ مال پر مکمل ملکیت حاصل ہو: اس شرط کو فقہی اصطلاح میں “ملک ید و رقبہ ” کہتے ہیں ۔ یعنی مال، مالک کی ملکیت میں بھی ہو اور اس کے قبضہ بھی ۔ قبضہ سے مراد یہ ہے کہ وہ اس مال میں تصرف کر سکتا ہو۔ اب جو مال ضائع ہوگيا ہو یا کوئی ہڑپ لیا ہو اور مالک کے پاس گواہ بھی موجود نہ ہوں ، تو اس طرح کے اموال میں زکو‏ۃ نہیں ہے ۔ نہ اب فرض ہے اور نہ ہی وہ مال کسی طرح مل جانے پر گزشتہ سالوں کی۔

نیز گروی رکھی ہوئي چیز میں بھی زکو‏ۃ فرض نہیں ہوتی، نہ ہی اصل مالک پر (کیونکہ اب وہ مال اس کے قبضہ میں نہیں ہے) اور نہ ہی اس شخص پر جس کے پاس چیز رکھی گئی ہو(کیونکہ اس پر قبضہ ہے مگر ملکیت نہیں)؛ چنانچہ رد المحتار میں ہے: ولا في مرهون أي لا على المرتهن لعدم ملك الرقبة، ولا على الراهن لعدم اليد، وإذا استرده الراهن لا يزكي عن السنين الماضية. (رد المحتار: 3/180)

٭ نصاب دین سے فارغ ہو:

دین دو طرح کا ہے ۔ ایک وہ جس کے وصول ہونے کی توقع ہو۔ دوسرا وہ دین جو نا قابل وصول ہو۔

٭ نا قابل وصول دین میں زکوۃ فرض نہیں ہے، نیز اگر زہے نصیبی سے وصول ہوجائے تو اب سے ایک سال گزرنے پر زگوۃ ادا کرنا ہوگا۔

جس دین کے وصول ہونے کی توقع ہو اس کی فقہاء کے یہاں تین اقسام ہیں ۔

1) دین قوی: یہ وہ دین جو بہ طور قرض دیا گيا ہو، یا سامان تجارت کی عوض ہو؛ چنانچہ در مختار میں لکھا ہواہے:” الدين القوي كقرض وبدل مال تجارة” (الدر مع الرد: 3/237)

حكم: نصاب کا پانچواں حصہ حاصل ہونے کے ساتھ ہی زکوۃ ادا کرنا لازم ہوجائیگا۔ مثلا: کسی نے کسی کو دو سو درہم (جوکہ چاندی میں نصاب ہے) قرض دیا ۔ چالیس درہم وصول ہوئے ہوں تو ان چالیس کی زکوۃ ادا کرنا فرض ہے۔

2) دین متوسط: یہ وہ دین ہے جو غیر تجارتی اموال کی قیمت ہو، مثلا : کسی اجیر کا اجرت، رہائشی مکان و دکان کا کرایہ وغیرہ۔ من بدل مال لغیر تجارۃ وہو المتوسط کثمن سائمۃ

حکم: مکمل نصاب (یعنی 200 درہم کے بقدر ) وصول ہونے پر زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔ نصاب سے کم ادا کیا جائے تو اس میں نصاب مکمل ہونے تک زکوۃ کی ادائیگي واجب نہیں ہوگی۔

٭ دین قوی اور دین متوسط میں فرق صرف اتنا ہے کہ قوی میں پانچواں حصہ حاصل ہونے پر زکوۃ ادا کرنا ہوگا، جبکہ متوسط میں مکمل نصاب کے حصول پر۔

3) دین ضعیف: یہ وہ دین ہے جو کسی مال کے بدلہ نہ ہو ، خواہ اس میں اس کے عمل کو دخل ہو ، جیسے: مہر اور خلع یا میراث و وصیت وغیرہ۔

حکم: اس کا حکم یہ ہے کہ قبضہ پر سال گزر جانے کے بعد زکوۃ کی ادائیگي واجب ہوگی۔ نیز اس مال میں گزشتہ سالوں کی زکوۃ نہیں ہے۔

مسئلہ : اگر مال دار خود کسی کو قرض دینا ہو تو دیکھا جائیگا کہ اس کے قرض کے بقدر مال کو منہا کردیا جائے تو نصاب باقی ہوگا یا نہیں ۔ اگر نصاب باقی رہتا ہے تو بقیہ مال میں زکوۃ ہے وگرنہ نہیں۔

مسئلہ: اسی طرح قرض اگر ‎زکوۃ فرض ہونے سے پہلے کا ہو تو وجوب زکوۃ میں موثر ہے ، فرضيت کےبعد کا قرض کا اعتبار نہیں ہوگا۔

مسئلہ: قرض سے مراد یہاں وہ قرض ہے جو بندوں سے متعلق ہو ۔ وہ قرض جو حقوق اللہ کے قبیل سے ہو ، مثلا: حج فرض ہو، کفارہ ادا کرنا ہو، گزشتہ سال کی زکوۃ یا صدقہ فطر ذمہ میں ہو وغیرہ صورتوں میں زکوۃ کے وجوب پر کوئي اثر نہیں پڑے گا۔ نیز ان کو زکوۃ کے مال سے منہا نہیں کیا جائیگا؛ چناں چہ بدائع الصنائع میں لکھا ہوا ہے : وأما الديون التي لا مطالب لها من جهة العبادات كالنذور والكفارات، وصدقة الفطر ووجوب الحج ونحوها لا يمنع وجوب الزكاة. (بدائع الصنائع: 2/86)

٭ حاجت اصلیہ :

اس کی تعریف میں امام علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ یوں رقمطراز ہیں:

وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب…..الخ (رد المحتار: 3/178)

بالجملہ حوائج اصلیہ سے مراد ضروری اور استعمالی چیزیں جیسے: رہائشی مکان، استعمالی کپڑے، سواری کی گاڑی، حفاظت کے ہتھیار، استعمال کے برتن، کام کے اوزاروغیرہ ہیں۔ ان چیزوں میں زکوۃ فرض نہیں ہے۔

مسئلہ: دھیان دینےکی بات ہےکہ یہ چیز یں اگر موجود ہوں تو ان میں زکوۃ نہیں ہے؛ البتہ اگر نہ ہو ں تو اس کا معنی یہ نہیں کہ یہ ساری چیزیں خریدنے تک زکوۃ ادا کرنے کی حاجت نہیں ۔ بعض لوگ یہ سمجھ کر کے کرایہ کے گھر میں رہتے ہیں ۔ بقدر نصاب مال پر سال گزرنے کے باوجود زکوۃ ادا نہیں کرتے۔ جو کہ بالکل جائز نہیں ہے۔

٭ مال نامی ہونا :

يعنی بڑھنے والا مال ہو ۔ اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک حقیقی یا خلقی یعنی وہ مال اسی لئے پیدا کیا گیا ہو کہ ان سے چیزیں خریدیں ۔ جیسے: سونا ، چاندی ۔ دوسرا فعلی : یعنی کہ اس کا حقیقی مقصد خرید وفروخت تو نہیں مگر ان سے یہ بھی حاصل ہوتا ہو۔ جیسے تجارت کا سامان، سائمہ جانور وغیرہ۔

مسئلہ:پہلی قسم میں تجارت کرے یا نہ کرے زکوۃ واجب ہے ۔ جبکہ دوسری صورت میں نیت تجارت ہی سے زکوۃ واجب ہوتی ہے۔

مسئلہ: تجارت کی نیت کبھی صراحتا ہوتی ہے ۔ مثلا کوئی چیز خرید تے وقت ہی تجارت کی نیت کرلی ہو۔ یا کبھی دلالۃ ، جیسے: کسی چیزکو مال تجارت کے بدلےخریدا ہو،کسی سے کوئی چیز تجارت کے لئے قرض لی ہووغیرہ ۔ ان دونوں صورتوں میں مال نصاب کے بقدر ہونے پر کوۃ واجب ہوتی ہے۔

مسئلہ: اگر کوئی چیز کا عقد کے بغیر مالک ہوا ہو، مثلا: کوئی زمین وراثت میں ملی ہو، یا ہبہ میں ، یاوصیت میں تو اس چیز میں جب تک عملا تجارت نہیں کی جاتی ، نیت تجارت صحیح نہیں ہوتی ،اور زکوۃ واجب نہیں ہوتی۔

مسئلہ: کسی کی ملکیت میں کئی ایکڑ زمیں یا کئی سارےگھر ہوںمگر ان میں تجارت کی نیت نہ ہو تو زکوۃ واجب نہیں ؛ البتہ اگر کرایہ پر دیا ہوتو کرایہ میں زکوۃ ہے نفس چیز میں نہیں۔

٭ مال پر ایک سال کا گزرنا: مالک نصاب ہونے کے بعدزکوۃ کا ادا کرنا اسی وقت فرض ہوگا جب اس مال پر ایک سال گزر جائے ؛ چنانچہ حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتی ہیں : “لا زکاۃ فی مال حتی یحول علیہ الحول”(سنن ابن ماجہ:1792) یعنی کہ کسی بھی مال میں زکوۃ اس وقت تک فرض نہیں جب تک کہ سال نہ گزر جائے۔

مسئلہ: یہاں سال سے مراد قمری سال ہے۔ نیز نصاب کا اول اور آخر سال میں پورا رہنا ضروری ہے ؛اگرچہ کہ درمیان سال نصاب گھٹ جائے۔

مسئلہ: مالک نصاب ہونے کے بعد درمیان سال جتنا مال کا اضافہ ہوگا ، سال کے آخر میں ان سب کو جوڑ کر زکوۃ نکالیں ۔ مثلا : کسی کے پاس سال کے شروع میں پانچ لاکھ روپیہ تھا ، درمیان میں اضافہ ہوتا رہا حتی کہ سال کے ختم ہونے پر چھ لاکھ ہوگيا , تو اب مکمل چھ لاکھ کی زکوۃ نکالے۔

 

مصارف زکوۃ:

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :

أنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل فريضة من الله والله عليم حكيم (التوبة: 60)

یعنی کہ “زکوۃ تو غریبوں ، حاجت مندوں، صدقہ وصول کرنے پر متعین کارکنوں ، وہ لوگ جن کی دل جوئي مقصود ہو، غلاموں ، مقروضوں ، اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں اور مسافروں کا حق ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور اللہ خوب جاننے والے اور حکمت والے ہیں ۔

فقیر: وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہو مگر اتنا بھی نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔

مسکین: یہ وہ شخص ہے جس کے پاس بنیادی ضروریات تک میسر نہ ہوں۔

عامل: یہ وہ شخص ہے جس کو بادشاہ اسلام نے زکوۃ یا عشر وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو۔

رقاب: اس سے مراد مکاتب غلام ہے ۔

غارم: قرض میں ڈوبا ہوا شخص۔

فی سبیل اللہ: غریب مجاہدین یا وہ شخص جو حج کو گيا ہو اوردرمیان میں مال ختم ہوگيا ہو۔

ابن سبیل: وہ مسافر جس کا مال راہ میں ختم ہوچکا ہو۔

مسئلہ: قرآن میں آٹھ مستحقین کا ذکر آیا ہے ۔ جن میں سے مولفۃ قلوب کو باجماع امت ساقط کردیا گیاہے۔

مسئلہ: ان مذکورہ لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی اگر زکوۃ کی رقم دے دی جائے ، زکوۃ ادا ہوجائیگي؛ البتہ ایک ہی شخص کو بقدر نصاب زکوۃ دینا مکروہ ہے۔

مسئلہ: زکوۃ کا مال کسی رفاہی کاموں میں، مسجد کی تعمیر یا دیگر کاموں میں استعمال نہیں کرسکتے۔

مسئلہ: مذکورہ لوگوں میں کوئي صحیح تندرست ہو ؛ اگرچہ کمانے پر قادر ہو ، زکوۃ دینا جائز ہے۔

٭ کن لوگوں کو زکوۃ نہیں دے سکتے؟

آیت میں مذکور لوگوں کے علاوہ کسی اور کو زکوۃ دینے سے زکوۃادا نہیں ہوگي ۔ نیز مذکور لوگوں میں بھی مندرجہ ذیل لوگوں کوزکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔

1) اپنی اصل یعنی ماں ،باپ ، دادا ، دادی ، نانااور نانی اوپر تک سارے۔

2) اپنی فرع یعنی بیٹا،بیٹی، پوتا ، پوتی، نواسا اور نواسی نیچے تک سارے۔

3) زوجین آپس میں یعنی بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو نہیں دے سکتے۔

4) کافر کو

5) مالدار کو ، نیز مالدار کے نابالغ اولاد کو بھی نہیں دے سکتے۔

6) بنو ہاشم یعنی حضرت علی ، حضرت عقیل،حضرت جعفر، حضرت عباس اور حضرت حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم کی اولاد کو ۔

مسئلہ: اپنے بھائی ،بہن یا انکے بچوں کو زکوۃ دینے میں دگنا ثواب ہے ۔ ایک صلہ رحمی کا دوسرا صدقہ کا ۔

٭ نیت: تمام عبادات کی درستگی کے لئے نیت شرط ہے ۔زکوۃ کی ادائیگي صحیح ہونے کے لئے نیت شرط ہے۔ البتہ اگر بغیر نیت کے دے دے اور بعد میں نیت کرنے کی صورت میں ، دیکھا جائیگا کہ وہ مال ابھی جس کو دیا ہے اس کے پاس موجود ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو نیت صحیح ہوگی وگرنہ زکوۃ ادا نہ ہوئی۔

٭تملیک: زکوۃ کی ایک شخص تملیک بھی ہے یعنی مال کا مالک بنانا ۔ اگر کوئي شخص زکوۃ کے مال سے غریبوں کی دعوت کرادے تو اس سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی۔ہاں، البتہ اگر اناج تقسیم کردیتا ہے تو اس سے ادا ہوجائے گي۔

اسی طرح قرض دار کو قرض معاف کرنے سے بھی زکوۃ ادا نہیں ہوتی ؛ بلکہ اس کی صورت یہ ہے کہ بقدر زکوۃ رقم پہلے اس شخص کو دے پھر اس میں سے اپنا قرض وصول کرلے۔

چند جدید مسائل

٭ سونے اور چاندی کے مصنوعی اعضاء پرزکوۃ اس وقت فرض ہوگی جب ان کو اس طرح سے فٹ کیا گيا ہو کہ بآسانی نکالا جاسکے ۔ اگر مستقل طور پر لگا دیا گیا ہو تو انسانی جسم کا عضو شمار کیا جائیگا اور اس میں زکوۃ نہیں ہوگي۔

٭فیکٹری وغیرہ کی مشینیں: فقہاء نے حوائج اصلیہ میں کام کے اوزار کو بھی شامل کیا ہے؛ لہذا فیکٹری کی مشینوں پر زکوۃ نہیں ہے، البتہ وہ اوزار جو کام لینے کے لئے نہیں بلکہ تجارت کی غرض سے ہوں تو ان میں زکوۃ فرض ہے ۔

٭ باونڈز کی زکوۃ:

باؤنڈز کی حیثیت دین قوی کی ہے۔ جس کا حکم یہ ہے کہ قرض حاصل ہونے کے بعد گزشتہ سالوں کی زکوۃ بھی ادا کرے۔ اس میں سود کی شکل میں جو رقم حاصل ہوتی ہے وہ حرام ہے ، اس کا مکمل مکمل صدقہ کرنا واجب ہے۔

٭ شیئرز کی زکو‏ۃ:

شیئرز خریدنے میں خریدار کی نیت اگر شیئرز کو مناسب قیمت پر فروخت کرنے کی ہو تو اسکی حیثیت مال تجارت کی ہے۔مارکٹ ریٹ کے حساب سے اس کی زکوۃ ادا کرے۔ اور اگر شیئر سے سالانہ نفع حاصل کرنا مقصود ہوتو کمپنی کی نوعیت دیکھی جائے گی،

کمپنی کا جتنا اثاثہ پر زکوۃ فرض ہوتی ہو اپنے ‎شیئرز میں اسی تناسب سے زکو‏ۃ ادا کرے۔ مثلا: کمپنی دوائی تیار کرتی ہو تو تیار کرنے والے آلات ،جگہ ، عمارت پر تو زکوۃ نہیں مگر فروخت کے لئے جتنی دوائی ہوگی اس پر زکوۃ ہوگی ، سو اس کے مطابق شیئر ہولڈر زکوۃ کی رقم اداکرے۔

٭ پراویڈنٹ فنڈ (PF) : پی۔ ایف اگر اجباری ہو جیسے عام طور پر سرکاری افسران کی تنحواہ سے حکومت کاٹ لیتی ہے ، اس کی شکل دین ضعیف کی ہے ؛ کیوں کہ یہ رقم قرض یا سامان تجارت کا بد لہ نہیں ہے۔ دین ہونی کی وجہ سے اس میں زکوۃ تو فرض ہوگی مگر اس وقت جب یہ رقم حاصل ہوجائے اور اس پر ایک سال گزر جائے۔ دوسری صورت وہ ہے جس میں ملازم کے اختیار سے کاٹ لی جاتی ہے ۔ اس صورت میں اس پر گزشتہ سالوں کی زکوۃ بھی ادا کرنی ہوگي۔ نیز چونکہ یہ ملازم کے ارادہ سے تھا سو اس پر ملنے والا زائد مال سود ہوگا، جس کو مکمل صدقہ کردینا لازم ہے۔

٭ انشورنس کی رقم میں زکوۃ:

لائف انشورنس جس کی اکثر صورتوں میں ایک معینہ مدت کے بعد رقم کچھ زائد اضافہ کے ساتھ واپس کردی جاتی ہے، میں ہر سال زکو‏ۃ ادا کرنی ہوگی۔

دوسری صورت اس انشورنس کی ہے جس میں ہولڈر کو رقم واپس نہیں ملتی ہے ، اس رقم پر زکوۃ واجب نہیں۔