میڈیکل کچرے سے فضائی آلودگی
میڈکل کچرے سے فضائی آلودگی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے عالمی پیمانے پر سیمینارو سمپوزیم کا انعقاد کیا جا رہا ہے ، سائنس داں فکر مند ہیں کہ آلودہ ماحول سے انسانی ، حیوانی اور نباتانی جانوں کی حفاظت کس طرح کی جائے ۔ایک دروازہ بند کیا جاتا ہے تو دوسرا کھل جاتا ہے ، سپریم کورٹ نے بارود اور پٹاخوں سے پھیلنے والی آلودگی کو روکنے کے لیے دیوالی میں اس کے استعمال پر روک لگا دی ، تو ایک دوسرا دروازہ میڈیکل کچرے سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کا کھل گیا، جو انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ جانوروں کی زندگی کے لیے بھی خطرہ پیدا کرتا ہے ۔بلکہ پانی اور ہوا کو بھی آلودہ کر دیتا ہے ۔میڈیکل کچرا یا میڈیکل ویسٹ کا مطلب ہے اسپتالوں یا لیبوریٹریز میں انسانوں یا جانوروں کے جسم سے متعلق بیکار چیزیں(waste)یا علاج یا جانچ میں استعمال کی چیزیں۔حکومت ہند اور میڈیکل کاؤنسل آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان بایو میڈیکل کچروں کی وجہ سے انفیکشن ، ایچ آئی وی ، وبائی بیماریاں اور ہیپٹائٹس جیسی سنگین بیماریوں کے ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ان کچروں میں پلاسٹک کی گلوکوز کی بوتلیں،انجیکشن اور سرنج دواؤں کی خالی بوتلیں،استعمال شدہ آئی وی سیٹ،دستانے ،بچی ہوئی یا خراب دوائیں، مریضوں کے فضلات اور جسم کے کٹے ہوئے حصے ، ریڈیم ، ایکسرے ، کوبالٹ، بیٹری یا لیب سے متعلق کیمیائی اشیاء شامل ہیں۔
ان بایو میڈیکل کچرہ کو ٹھکانہ لگانے کی واحد صورت ہے کہ خصوصی بجلی سے چلنے والی بھٹیوں میں جلا کر راکھ کر دیا جائے، جن کا درجہ حرارت1150ڈگری سیلسیس ہوتا ہے۔عام درجہ حرارت پر جلانے کے باجود ان بایو میڈیل کچروں سے لگاتار ڈایوکسن اور فیورانس جیسی خطرناک گیسیں نکلتی رہتی ہیں ،جن سے مختلف بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں حتی کہ کینسر جیسی سنگین بیماری کا بھی خطرہ رہتا ہے۔اس لیے قانونا اسپتالوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بایو میڈیکل ویسٹ ٹریٹ مینٹ اینڈ ڈپوزل پلانٹ کی مدد سے ایسے کچروں کو پابندی سے ٹھکانے لگا دیا کریں۔سنٹرل پالیوشن کنٹرول بورڈ کی واضح ہدایت ہے کہ بایو میڈیکل کچروں کو روزانہ ضائع کیا جانا لازمی ہے ۔ لیکن زیادہ تر اسپتال ایسا نہیں کرتے ہیں ، بہت سے اسپتال تو سیدھے ان کچروں کو ندی ، نالوں یا سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔
صرف بہار کی بات کریں تو یہاں اسپتالوں میں ایک لاکھ سے زیادہ مریضوں کے لیے بیڈ ہیں ، جن کے فضلات (کچرے) کو نمٹانے کے لیے کم از کم دس مراکز ہونے چاہئیں، لیکن یہ ابھی صرف چار ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسپتالوں سے نکلنے والے ساٹھ فیصد فضلات ماحول میں گھل کر ہماری صحت کو نقصان پہونچا رہے ہیں ۔ریاست بہار کی فضائی آلودگی کنٹرول کرنے والے ایک ادارہ نے 2021ء میں جو سروے کرایا تھا ، اس کے مطابق پوری ریاست میں چھبیس ہزار چار سو اٹھہتر(26478) اسپتال ہیں ، ان میں چھ ہزار چھ سو آٹھ (6608)اسپتال ایسے ہیں جہاں مریضوں کو ایڈمٹ کرنے کی سہولت نہیں ہے۔ دس ہزار چار سو انتالیس (10439) اسپتال ایسے ہیں جہاں مریضوں کو داخل کرنے کی سہولت ہے ۔ ان اسپتالوں میں داخل مریضوں کے میڈیکل فضلات (کچرے) کو ضائع کرنے کے لیے صرف پٹنہ ، گیا، بھاگل پور اور مظفر پور میں سہولت دستیاب ہے ۔مگر ابھی بھی کم از کم چھ مراکز ان فضلات کو ضائع کرنے کے لیے قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ کٹیہار اور کشن گنج میں نجی اسپتالوں میں فضلات کو ضائع کرنے کے مراکز ہیں لیکن وہ نا کافی ہیں ۔ایسے میں ضرورت ہے کہ بہار کا محکمہ صحت اس طرف خصوصی توجہ دے تاکہ انسانو ں اور جانوروں کی زندگی کو ان فضلات سے لاحق خطرات سے بچایا جا سکے۔اسپتالوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی لا پرواہی کے چکر میں عام لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ نہ کریں۔
Pingback: ڈاک کا دم توڑتا نظام ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی