انتخاب سے قبل دکانیں لگیں سجنے
انتخاب سے قبل دکانیں لگیں سجنے
ہر ایک لمبی کرتا اور لمبی گاڑی والا ہاؤس میں پہنچنا چاہتا ہے۔ ان کے خواہشیں اتنے بلند ہیں کہ اگر بھاجپا بھی ٹکٹ دے دو تو چولا بدلتے دیر نہ ہوگی۔ یعنی مفاد پرست اپنی خواہشوں کو مکمل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں، کسی حد تک گر سکتے ہیں
محمد رفیع
پارلیمانی انتخاب 2024 کے اعلان کے قبل اس کی تیاریاں زوروشور سے شروع ہو گئی ہے۔ جہاں ایک طرف سیاسی جماعتیں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں مشغول ہیں وہیں ساماجک و ملی تنظیمیں بھی موقع کا فائدہ اٹھا لینا چاہتی ہیں۔ کبھی انا ہزارے اور رام دیو بابا نے بھاجپا کے مشن کو کامیابی کا جامہ پہنایا تھا لیکن انا ہزارے تو غائب ہو گئے اور بابا رام دیو نے اپنا وجود کھو دیا۔
اس لیے بھاجپا نے اب دھیریندر شاستری کو آگے کیا ہے۔ بھاجپا کا انتخابی مدہ مندر مسجد ہوتا تھا لیکن اب راشٹر واد اور ہندوراشٹر کے مدہ کو آگے بڑھایا جا رہا ہے اور اس کے لئے دھیریندر شاستری عرف باگیسور بابا کو مشن کی کامیابی کا ذمہ سونپا گیا ہے۔
باگیسور بابا سبھی سناتنی ہندوؤں کو ایک جٹ ہو جانے کو کہتا ہے کہ بھارت تو ہندو راشٹر ہے اور جسے ہندوستان میں رہنا ہے اسے سیا رام ہی کہنا ہوگا۔ جہاں ایک طرف حسینائیں ان پر جان نچھاور کرتی ہیں وہیں بھاجپا کے وزراء، ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ ان کے پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے اراکین بھاجپا کے ساتھ یعنی پورے دل بل کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔
بابا باگیسور اشتعال انگیز تقریر دینے کے لئے مشہور ہو چکے ہیں، وہ نفرت کی دکان چلاتے ہیں۔ اپنی تقریر میں صاف لفظوں میں کہتے ہیں ” میرا خون گرم ہے اس لیے کہ ہندو میرا دھرم ہے ” وہ مسلمان، سکھ اور عیسائی کو نشانہ بنا کر یہ بھی کہتے ہیں کہ ” کسی کو ٹوپی پہننے، کروس لٹکانے میں سنکوچ نہیں ہوتا ہے تو ہندو کو ٹیکا لگانے میں کیوں سنکوچ ہوتا ہے ” وہ سیکولر ہندوؤں کو جے چند بتاتے ہیں۔
حزب اختلاف میں مودی حکومت کو اکھاڑ پھینکنا ایک بڑا چیلنج ہے اس سمت میں کوششیں ہو رہی ہیں لیکن ترازو کے ایک پلرہ پر تمام میڈک کو تولنا ناممکن نہیں ہے تو مشکل ضرور ہے۔ حزب اختلاف کے اتحاد کے لئے اب تک جو کوششیں ہوئی ہیں اس میں بہار کے وزیر اعلی جناب نتیش کمار کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں۔ مرکز میں حکومت سازی میں اتر پردیش، بہار، بنگال، گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، پنجاب اور راجستھان کا اہم رول ہوتا ہے۔
ان آٹھ ریاستوں میں سے چار اتر پردیش، گجرات، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر میں بھاجپا یا ان کی حمایت والی حکومت ہے جبکہ باقی چار بہار، بنگال، پنجاب اور راجستھان میں حزب اختلاف کی حکومتیں ہیں۔ ان آٹھ کے علاوہ بچے ہوئے ریاستوں پر منحصر کرتا ہے کہ وہ کس کا ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ چھوٹی ریاستوں کو بھلے ہی ہم ترجیح نہ دیں لیکن ان میں وہ صلاحیت ہے کہ کچھ بھی گل کھلا سکتے ہیں۔
میں بتا دوں کل 15 ریاستوں میں این ڈی کی حکومت ہے ان میں چھ ریاستوں میں بھاجپا complete majority میں ہے۔ ادھر حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس چھتیس گڑھ، کرناٹک، ہماچل پردیش اور راجستھان میں ہے۔ باقی جگہ علاقائی پارٹیوں کا دبدبہ ہے۔
اگر ریاستوں کی حکومت کے اعتبار سے صرف مودی حمایتی اور مخالفین میں تقسیم کریں تو بھی مودی کو سبقت حاصل ہے، ہاں بھلے ہی یہ بڑھت بہت تھوڑی ہے۔
وہیں مخالفین قریب قریب اس حالت میں تو ضرور ہے کہ وہ ایک مضبوط مقابلہ دے سکے۔ حالاں کہ بھاجپا انگریزوں والی divide and rule کی پالیسی میں ماہر ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو لالچ دے کر، ڈرا کر یا پھر پیسہ کے بوتے اس کی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔ 2 فیصد اور 4 فیصد ووٹ حالات بدلنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تو حزب اختلاف کے اتحاد میں رخنہ ڈالنے سے بھی وہ بعض نہیں آئے گی۔
اس لیے حزب اختلاف کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں پر بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے مفاد میں فیصلہ لیں اور اپنی انا کو بیچ میں نہ آنے دیں۔ پورا ملک ہر ایک رہنما کی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔
نتیش کمار کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔ مودی کو جواب دینے کی ان میں صلاحیت ہے اور جس طرح ان کے ساتھ آنے میں کسی کو بھی اعتراض نہیں ہے وہ اچھی نشانی ہے۔
ذمہ داریوں سے آزاد کوئی نہیں ہے لیکن ہمیں بخوبی پتہ ہے کہ راہل گاندھی، نتیش کمار، اروند کیجریوال، اکھلیش یادو اور ممتا بنرجی ساتھ آتے ہیں تو آئین مخالف حکومت سے ملک کو آزاد کرانا ممکن ہوگا۔ لیکن اس میں ہر ایک کو وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے معقول بتایا جا رہا ہے، ایسی صورت ہوئی تو ان کا اتحاد نہیں بن پائے گا جو مودی کی بڑی جیت کا سبب ہوگا۔
یہ تو ایک حقیقت ہے، دوسری حقیقت ہے کہ ایسے نازک دور میں جب ملک کا آئن اور خود ملک ہی خطرے میں ہے، مسلمانوں کو بھی سیاست میں پوری حصہ داری چاہئے۔ جناب اسدالدین اویسی کی پارٹی کو بھاجپا کی بی ٹیم گردانہ جاتا ہے، اسے مسلمانوں کا حقیقی رہنما مانا جاتا ہے لیکن اتنا سے ہی چین نہیں ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی ملی و ساماجک تنظیمیں بھی حکومت میں پوری حصہ داری کے خواہاں ہیں۔
وہ وقتاً فوقتاً مقامی رہنماؤں، سیاسی جماعتوں اور سیدھے سیدھے حکومت پر دباؤ بناتے رہتے ہیں۔ ہر ایک لمبی کرتا اور لمبی گاڑی والا ہاؤس میں پہنچنا چاہتا ہے۔ ان کے خواہشیں اتنے بلند ہیں کہ اگر بھاجپا بھی ٹکٹ دے دو تو چولا بدلتے دیر نہ ہوگی۔ یعنی مفاد پرست اپنی خواہشوں کو مکمل کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں، کسی حد تک گر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں اپنے وجود کو بچانے کی اگر ہم بات نہ بھی کریں تو کیا ہم ملک کے آئین یعنی ملک کو بچا سکتے ہیں؟
جیسے جیسے سال 2024 قریب آتا جا رہا ہے طرح طرح کی دکانیں سجنے لگی ہیں، سب کا مقصد ایک ہے جو مخفی نہیں ہے۔
محمد رفیع
9931011524
rafimfp@gmail.com