تراویح کے دوران دو جگہوں پر حملہ
تراویح کے دوران دو جہگوں پر حملہ
تحریر:جمال اختر صدف گونڈوی
تراویح کی نماز گھروں میں قائم کرنے والے حضرات کیا علمائے کرام سے مشورہ کئے تھے؟
مذہب اسلام میں مشورے کو خاص اہمیت حاصل ہے، غیب دان پیغمبر خود کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے،
دنیا کے تمام مسلمانوں کا اس بات سے کلی طور پر اتفاق ہے کہ اللہ کے بعد سب سے زیادہ بزرگ و برتر اگر کوئی ذات ہے تو وہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اس کے بعد بھی مشورہ اپنے چھوٹوں کے ساتھ یقیناً یہ تعلیم امت کے لیے تھا،
مگر مسلمانوں کی اکثریت علما سے بیزاری کا ثبوت دے رہی ہے، بلکہ اب تو دینی معاملات میں بھی خود فیصلے کرنے لگی ہے، حالیہ دنوں میں مرادآباد ہلدوانی میں جس طرح گھروں میں تراویح کو لےکر ہنگامہ ہوا اور مسلمانوں پر یکطرفہ پولیسیہ کارروائی ہوئی جو کہ بہت افسوس ناک ہے،
اسلام میں مصلحت و دور اندیشی کا بڑا دخل ہے،
یہ مصلحت ہی کا نتیجہ تھا کہ کفار کے حملے کا جب خطرہ بڑھ جاتا تو صحابہ چھپ چھپ کر نماز پڑھتے تھے
دعوتِ حق کا آغاز:
مدینہ تاریخ اسلام کا عظیم ورق ہے۔ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے چھوٹے بھائی عمیر بھی اپنے بھائی کے ساتھ چھوٹی عمر میں ہی ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔
ہجرت کے وقت ان کی عمر بمشکل چودہ پندرہ سال تھی۔ الاستیعاب کے مطابق جنگ بدر میں شرکت کا شوق تھا، مگر آنحضورﷺنے منع فرمایا کہ تم بہت چھوٹے ہو۔
جب حضرت سعد نے ان کے جذبۂ جہاد کو دیکھا تو حضورﷺسے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! میرے بھائی کو جہاد پر جانے کی اجازت دے دیجیے۔ چنانچہ بدر کے میدان میں شریک ہوئے اور دشمن سے خوب لڑے۔ سولہ سال کی عمر میں شہادت پالی۔ انھیں قریش کے طاقت ور ترین جنگ جو عمرو بن عبدِودّ نے شہید کیا تھا۔
نبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین کو نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا تو آغاز میں کافروں کی اذیت کے خوف سے مسلمان نمازیں چھپ چھپ کر پڑھتے تھے۔
پہاڑوں کی گھاٹیوں میں جا کر نماز پڑھنا بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین کا معمول تھا۔
ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہاڑ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے، کچھ مشرکین مکہ وہاں آنکلے انھوں نے مسلمانوں اور ان کے دین کو گالیاں دینا شروع کردی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بری طرح مذاق اڑایا۔
جب حضرت سعد نماز سے فارغ ہوئے تو ان کافروں کو للکارا۔ اس وقت ان کے ہاتھ میں مرے ہوئے اونٹ کے شانے کی ایک بڑی ہڈی تھی۔
انھوں نے جب ان کافروں پر حملہ کیا تو یہ وہاں سے کھسک گئے تاہم عبداللہ بن خطل لعنتی کے سر پہ انھوں نے ضرب لگائی تو وہ زخمی ہوگیا
مگر ان لوگوں میں ہمت نہیں ہوئی کہ واپس پلٹ کر سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقابلہ کریں۔ یہ تاریخ اسلام میں کفار کا پہلا خون تھا جو کسی مسلمان کے ہاتھ سے بہایا گیا تھا۔ ۔ جب حضور نبی کریم ﷺکو اس واقعہ کا پتا چلا تو آپ ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا کہ اے سعد! اللہ نے ہمیں ہاتھ روکے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پس آیندہ ہاتھ نہ اٹھانا۔
عوام کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی کام جو دین سے منصوب ہو اجتماعی طور پر کرنے سے پہلے علما سے مشورہ ضرور کر لیں، یہ من مانی اور جلد تراویح ختم کرنے کا نتیجہ تھا کہ دو دو بڑے حادثے پیش آئے ہیں،
اس وقت ہمارا مخالف ہماری غلطیوں کا شدت سے انتظار کر رہا ہے ، ہمارے عمل کے بعد ان کا رد عمل بہت بھیانک اور تخریب کارانہ ہوتا ہے،
پھر ہم چلا چلا کر کہتے ہیں ہم پر ظلم ہوا ہے ہمیں انصاف چاہئے، جو قوم اپنے اسلاف کی سیرت بھلا دیتی وہ ایسے ہی خسارے و بربادی کا شکار ہو جاتی ہے،
تیس دن کی تراویح کو کم کرنے اور جلد چھٹکارا پانے کے لئے جس طرح پانچ دن دس دن کی تراویح کا انتظام کارخانوں میں، گراؤنڈ میں،حال میں، اور گھروں میں کیا جانے لگا ہے اس سے علما متفق نہیں ہیں،
جمعہ کی نماز چاہے جتنی بھیڑ کے ساتھ آپ مسجد میں پڑھیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن تراویح کو لےکر سیاسی اعتراض کسی بڑے خطرے کا دستک دے رہی ہے،
یہ تو بس شروعات ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، اگر اب بھی ہم ہوش کے ناخن نہیں لیں گے تو ملک بھر میں بڑے جانی مالی نقصان کے لئے ہمیں تیار رہنا ہوگا،
بہار میں مدرسے کو جلا دیا گیا وہاں سیکولر حکومت ہے لیکن سب خاموش ہیں،
کیونکہ انہیں صرف آپکے ووٹ سے مطلب ہے نہ کی آپ کی حفاظت سے، دوسری طرف ہماری قیادتیں بھی کچھ کم نہیں ہیں، مذہبی قیادت تو کہیں نظر نہیں آ رہی ہے سیاسی قیادت ایسے ہاتھوں میں ہے جہاں صرف دنیا داری ہے دین داری کا کوئی تصور نہیں،
عوام نے علما کو بہت پہلے سیاست سے الگ کر دیا ہے اور صاف کہ دیا ہے کہ علما امامت کریں مدرسے میں بچوں کو پڑھائیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں،
سیاست وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں اسلام کی سیاست کا کچھ پتہ تک نہیں،
اسلام کے دو بازو ہیں ایک کا نام مذہب ہے دوسرے بازو کا نام سیاست ہے،
ایک بازو پر علما کام کر رہے ہیں لیکن دوسرے بازو کو نا اہلوں نے اپاہج بنا دیا ہے،
ایسے میں تمام خانقاہوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے وہ خود متحد ہوں اس کے بعد بنام مسلمان تمام فرقوں کے ساتھ ملت کی تحفظ کے لئے اتحاد کریں
اسکے بعد عوامی سطح پر اتحاد پر کام شروع کیا جائے ، اگر یہ کام کرنے میں ہم کامیاب ہو گئے تو یقیناً مذہب و سیاست دونوں میں ہم مضبوط ہوں گے،
دعوت کے طریقوں میں ہمیں نرمی برتنی ہوگی اور سماجی طور پر اسلام کی خوب صورتی کو عملی طور پر پیش کرنا ہوگا، قوم کے اہل ثروت حضرات کو کچھ عصری ادارے بنانے چاہییے جہاں قوم کے بچے تعلیم حاصل کرکے اعلی عہدوں پر فائز ہو سکیں،
ایک جائزے کے مطابق پچاسی فیصد مسلمان صرف مالی بحران کی وجہ کے اعلی تعلیم نہیں حاصل کر پا رہے ہیں اور وہ بیچ میں تعلیم روک کر مزدوری کرنے لگتے ہیں،
جب تک تعلیم کو فروغ نہیں دیا جائے گا لوگ اپنے حقوق اور دین کو نہیں سمجھ پائیں گے،
اسلام میں علم کی بڑی اہمت ہے چناں چہ علم حاصل کرنے کے لیے چین جانا پڑے تو وہاں بھی جاؤ،
آج ہمارے بچے گھروں سے نکل کر مسجد و مدرسے تک جانے کے لیے تیار نہیں ہیں،
کچھ مغربی مزاج مسلمان اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں تعلیم دلا رہے ہیں تو انہیں بچوں کو دینی تعلیم سے دور بھی کر رہے ہیں
کیونکہ ان بچوں پر اسکول کی طرف سے اتنا زیادہ کام دے دیا جاتا ہے کہ انہیں دوسرے کاموں کی فرصت ہی نہیں مل پاتی، اگر ہمارے پاس اس طرح ادارے ہوں جہاں ہندی ،انگریزی ، عربی، وغیرہ سب ایک ساتھ پڑھائ جائے تو بچوں کے لئے بہت آسانی ہو جائے گی،
سوشل میڈیا پر مسلم نوجوانوں کو بہت سوچ سمجھ کر لکھنا چاہئیے کیونکہ انکی ایک پوسٹ نہ جانے کتنوں کے لیے نفرت کا سبب بنتی ہے اور اسی پوسٹ کو دکھاکر جاہل بے روزگار لڑکوں کو جنونی بناکر ہمارا مخالف ہمارے گھروں پہ مسجدوں مدرسے پہ حملہ کروا سکتا ہے،
نوجوانوں کو صرف دینی پوسٹ ہی کرنی چاہیے اور اپنے منصوبے سفر کی تفصیلات کب کہاں آنا جانا ہے یہ سب بالکل پوسٹ نہیں کرنی چاہیے
مذہبی معاملات کو سوشل میڈیا پر ہرگز بحث کا حصہ نہ بنائیں
نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں