عدم برداشت کے رویے اور اس کے اسباب
عدم برداشت کے رویے اور اس کے اسباب !
از قلم :محمد سلیم رضوی
ہمارے معاشرے میں صبر و تحمل اور برداشت کی روایات تیزی سے زوال کی جانب مائل ہیں۔
ہر شخص سیخ پا ہے۔۔۔ سب ملنگ بنے گھوم رہے ہیں۔۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گالیاں اور مار دھاڑ عام بات بن چکی ہے۔۔۔ بات بات پر گھر ٹوٹ رہے ہیں۔۔۔ دوستیاں اور تعلقات دم توڑ رہے ہیں۔۔۔ مروت و احساس، جیسے اعلی اوصاف دیکھنے کو بہت کم ہی ملتے ہیں۔۔۔
گھر میں، دفاتر میں، اسکول کالجز میں، گلیوں بازاروں میں الغرض ہر جگہ ایک طوفان بد تمیزی بپا ہے۔۔۔۔ کوئی کسی کی غلطی برداشت کرنے کو تیار نہیں بلکہ غلطی نہ بھی ہو تو محض غلط فہمی کی بنیاد پر لڑائی جھگڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔
عدم برداشت کے ان رویوں کے پیچھے بہت سے عوامل ہیں جن میں:
ملک میں جاری معاشی عدم استحکام، مہنگائی، بے روزگاری، سوشل میڈیا کو تقویت ملنے کے باعث سیاسی تفرقہ بازیوں کا عروج، اس پر ہونے والے فضول مباحثے، اپنے لیڈر کی بے جا طرف داریاں ، اخلاقی اقدار کا زوال، اور ہمارا منفی طرز زندگی۔۔۔۔شامل ہیں۔
سردست ہم اپنی بیان کردہ آخری وجہ پر کچھ کلام کریں گے۔
روز مرہ کی زندگی میں ہمارا سامنا اکثر ایسے لوگوں سے ہوجاتا ہے جو عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
مثلاً میں اپنے ایک دوست کے ساتھ چنگچی رکشے میں کریم آباد سے گرومندر کی طرف آرہا تھا۔ جب کرایہ دینے کا وقت آیا تو میرا دوست رکشے والے سے لڑ پڑا۔
میں حیران تھا کہ صرف پانچ روپے کرایہ زائد مانگنے پر (غالب امکان یہی تھا کہ کرائے میں اضافہ واقعی ہوا تھا کیوں کہ بقیہ سب لوگ بلا چون و چرا کرایہ ادا کر رہے تھے) وہ مرنے مارنے پر تل گیا تھا۔۔۔ ایک دم بھڑک اٹھا اور اچانک چیخنے لگا۔۔۔ “تم چور ہو، ظالم ہو تم، حرام کھاتے ہو” وغیرہ بہت مشکل سے اسے دھکیلتے ہوئے میں دور لے گیا ورنہ بات مار پیٹ تک پہنچنے میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی۔
ایسی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔۔۔ ہم برداشت کھوتے جارہے ہیں۔۔۔ راقم کی نظر میں اس کا ایک سبب ہمارا طرز زندگی بھی ہے۔
میں نے جتنے بھی عدم برداشت کے حامل لوگ دیکھے ہیں ان میں یہ قدر مشترک پائی ہے کہ وہ رات دیر تک جاگنے والے تھے۔۔۔ یا کم از کم نیند کی کمی کا شکار ضرور تھے۔
افسوس آج ہمارا نظام زندگی الٹا ہوچکا ہے۔۔۔ رات دیر تک جاگنا، صبح دیر تک سونا۔۔۔ ہوٹلوں کو دیکھ لیں رات گئے تک دن کا سماں پیش کرتے ہیں۔۔۔ صبح بازار کا سناٹا دیکھ لیں، ہمارے طرز زندگی پر کسی قسم کے کلام کی حاجت نہیں رہے گی۔
اس عمل یعنی نیند کی کمی کے طبی نقصانات اگر دیکھیں تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔۔۔ طبیب حضرات نیند کی کمی اور رات جاگنے کے باعث بیس سے زائد بیماریوں کی نشاندہی کرتے ہیں جو ایسے شخص کو لاحق ہوسکتی ہیں۔
جن میں چڑچڑا پن، ڈپریسن، قوت فیصلہ کی کمی ، پیٹ کی خرابی، جگر کی خرابی، مسلز کی کمزوری، ذیابیطس، دل کی بیماریاں، آنکھوں کے امراض اور بھی بہت سی بیماریاں شامل ہیں۔ خود میرا مشاہدہ و تجربہ ہے کہ رات دیر تک جاگنے والے کا دماغ خشک اور سُن ہوجاتا ہے۔۔۔۔ پورا دن جسم بھی تھکا تھکا رہتا ہے۔
تجربہ اس لیے کہ میں خود اس عادت بد کا شکار ہوں لیکن اب شدت سے احساس ہوتا ہے کہ رات کی نیند نہ لینا کتنا مضر ہے۔
جو کام آپ صبح کے اوقات میں انجام دے سکتے ہیں وہ کارکردگی آپ کبھی بھی رات جاگ کر نہیں دے سکتے۔۔۔ جب آپ کے دن کا آغاز ہی آدھا دن گزرنے کے بعد ہو تو پھر آپ کے معمولات فطرت سے بالکل الٹ چلتے ہیں۔
ناشتہ دوپہر میں، بعضوں کا تین بجے کے بعد ہوتا ہے۔۔۔ دوپہر کا کھانا عشاء کے بعد اور رات کا کھانا آدھی رات کو۔۔۔ ایک تعداد ہے جو ان معمولات کو اپنائے ہوئے ہے۔۔۔ خصوصا نوجوان طبقہ۔۔۔ دن اور شام کے اوقات میں وہ آپ کو بجھے بجھے اور رات کو چاک و چوبند ملیں گے۔۔۔ کاش ہم اپنی اس عادت بد کے چنگل سے نکلنے میں کام یاب ہوجائیں۔۔۔
ایک علامہ صاحب کہہ رہے تھے لوگ جوش جوانی میں خیال نہیں کرتے لیکن نیند کی کمی اور راتوں کو جاگنا، عمر سے پہلے انسان کو بوڑھا کردیتا ہے۔
بڑھاپے تک پہنچتے پہنچتے ہی بہت سی بیماریاں لاحق ہوچکی ہوتی ہیں۔۔۔۔ پھر انہوں نے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے کئی لوگوں کی مثالیں دیں جن کو انہوں نے یا ان کے بڑوں نے نصیحت کی تھی کہ نیند پوری لیں اور رات کو آرام بھی کریں لیکن انہوں نے عمل نہیں کیا تو آج وہ بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑے کئی طرح کی بیماریوں میں گھرے ہوئے ہیں
انہوں نے فرمایا: دین کے خادموں کو خصوصاً اپنی نیند کا خیال رکھنا چاہیے۔۔۔ تاکہ خدمت دین کے حوالے سے اچھے نتائج تسلسل سے دے سکیں
بہت سے لوگ بے مصرف و فضول کے رت جگوں کا جواز بزرگوں کی شب بیداری کے واقعات کو بناتے ہیں۔۔۔ اگر بنظر عمیق دیکھیں تو ہمارے جاگنے کے انداز اور پھر جاگ کر انجام دیے جانے والے معمولات کو ان کی شب بیداری سے کوئی نسبت نہیں
یہ سعادت مند لوگ عشاء کے بعد فورا یا کچھ گھنٹے بعد سو کر تہجد میں اٹھتے اور عبادت کرتے ہیں تو یوں رات میں کچھ گھنٹے نیند لازمی ہوجاتی ہے۔ پھر دن میں قیلولہ و آرام تو یوں نیند پوری ہوجاتی ہے
سب سے اہم بات یہ کہ اگر بظاہر نیند پوری نہ بھی ہو تب بھی اللہ کریم ان کے اوقات میں اتنی برکت رکھتا ہے کہ ان حضرات کا تھوڑی دیر سونا ہمارے پوری رات سونے سے زیادہ انہیں کفایت کرتا ہے۔۔۔ اسی طرح کم کھانا بھی۔
اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی سوانح حیات ملاحظہ کریں۔۔۔ نیند بھی دو ڈھائی گھنٹے اور خوراک بھی انتہائی قلیل اور ہمہ وقت دماغی کام میں انہماک جس میں توانائی کی اضافی حاجت درکار لیکن ماشاء اللہ کام کا معیار اور انداز زیست شان دار۔۔۔ یہ سب کرامت ہے۔
ہمیں اس کی ریس نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ اتنے ہی پانی میں قدم رکھنا چاہیے جس میں ہم ڈوب نہ جائیں۔۔۔
آخر میں یہ بھی عرض کروں گا جس طرح رات جاگنے کے مضر اثرات ہیں اسی طرح صبح جلدی بیدار ہونے کے بہت سے فوائد ہیں جن پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اسے کام یاب لوگوں کا شیوہ قرار دیا گیا ہے ہمیں چاہیے کہ (جن کے لیے ممکن ہوسکے) ہم بھی تہجد میں بیدار ہوکر اپنے معمولات کا آغاز کرکے اس کی برکات کا تجربہ کریں۔
اللہ کریم اشیاء کے دھوکے سے ہمیں محفوظ فرمائے۔ صحت و سلامتی کے ساتھ تقوی و پرہیزگاری والی زندگی نصیب کرے۔ اٰمین
پچیس لاکھ علماے کرام و حفاظ عظام کی ضرورت
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
سیکورازم بچانا ہماری ذمہ داری ہے صاحب