اب تو جلسوں کی بھی اصلاح ضروری ہے
اب تو جلسوں کی بھی اصلاح ضروری ہے
تحریر: جاوید اختر بھارتی
گستاخی معاف حد ہوگئی مغالطہ کی، حد ہوگئی مبالغہ کی، حد ہوگئی نذرانے کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی، حد ہوگئی پیری مریدی کو بڑھاوا دینے کی اور حد ہوگئی بزرگوں کے قصے کہانیاں سننے اور سنانے کی،، معاشرے کے اندر برائیاں بڑھتی جارہی ہیں، شادی بیاہ میں فضول خرچیاں بڑھتی جارہی ہیں، ناقص اور نئی نئی رسمیں بڑھتی جارہی ہیں،،
دین کے نام پر ہونے والے جلسے نام و نمود تک محدود، شہرت اور نمائش تک محدود، بس واہ واہ اور کھوکھلے نعروں تک محدود،، نعت خواں کو بھی داد اور دولت چاہئے، پیشہ ور خطیب کو بھی داد اور دولت چاہئے رات دس بجنے کے بعد جلسہ شروع ہوگا اور رات کے آخری حصے میں جلسہ ختم ہوگا۔
زیادہ سے زیادہ بھیڑ ہوجائے تو جلسہ کام یاب، زیادہ سے زیادہ نعرہ لگے تو جلسہ کام یاب ، جتنی دیر رات تک جلسہ چلے اتنا کامیاب، مہنگا سے مہنگا خطیب و شاعر ہو تو جلسہ کام یاب جتنی تڑک جھڑک کے ساتھ تقریریں ہوں جلسہ اتنا کامیاب غرضیکہ اب جلسے کی کام یابی کا معیار ریڈیمیڈ ہوگیا،، آج عام طور پر جلسے کا خرچ ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک ہوتا ہے جب کہ اسے میڈیم میں شمار کیا جاتا ہے
کیوں کہ مقررین کے بھی باقاعدہ ریٹ ہیں اکثر و بیشتر مقررین نے اپنا سکریٹری رکھا ہوا ہے اور انہیں کے ذریعے مقررین کی تاریخ ملتی ہے عام طور پر ایک مقرر اپنا چارج کم از کم بیس سے پچیس ہزار روپے رکھتا ہے اور نعت خواں تو ان سے بھی آگے ہیں حال یہ ہے کہ ایک مقرر اور ایک نعت خواں اور اسٹیج کو سجانے سنوارنے کا خرچ ساٹھ سے پچھتر ہزار روپے تک پہنچ جاتا ہے،،
جب نعت خواں مائک کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ کہو سبحان اللہ، کنارے والے بولو، بیچ والے بولو، پیچھے والے بولو، آگے والے بولو اور کبھی کبھی تو یہ کہتا ہے کہ جب تک سبحان اللہ نہیں کہوگے میں دوسرا شعر نہیں پڑھوں گا
اور جنت کا حوالہ تو ایسا دے گا بس لگتا ہے کہ کسی ایک ایسے سامان کا جنت نام ہے جو اپنے سوٹ کیس میں رکھا ہوا ہے داد دو جنت میں جاؤ اور بار بار حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حوالہ دے گا کہ ہم سنت حسان ادا کررہے ہیں جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کے زیادہ تر شعرا حضرت حسان کی توہین کررہے ہیں
اور ان کی روح کو تکلیف پہنچا رہے ہیں کیوں کہ حضرت حسان نے کبھی بھی اللہ کے رسول پاک سے یہ نہیں کہا کہ یا رسول اللہ آپ پیسہ دیں تب میں نعت پڑھوں گا،،
اور آج ایک شاعر نعت رسول پڑھنے کے لیے اپنا ریٹ مقرر کیا ہوا ہے ایک ایک رات میں چار چھ نعت پڑھنے کا پچیس، تیس، چالیس چالیس ہزار روپیہ لیتے ہیں اور مسلمانوں کا بھی وہی حال ہے کہ مہنگے سے مہنگا شاعر کو بلاکر فخر محسوس کرتے ہیں غرضیکہ آج کا جلسہ سننے اور سنانے اور عمل کرنے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ دیکھنے اور دیکھانے اور دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہوتا ہے
شادی بیاہ میں دو دود اور ڈھائی ڈھائی سو آدمیوں پر مشتمل لڑکی والوں کے گھر پر بارات جاتی ہے، جہیز کا مطالبہ بھی ہونے لگا، کھانے پینے کی فرمائش بھی ہونے لگی، امیر و غریب کی بنیاد پر دسترخوان پر لکیریں بھی کھینچی جانے لگیں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو مختلف کٹیگری میں بانٹا بھی جانے لگا
سیندور دیکھ کر لیلار پھوڑا جانے لگا،، لاک ڈاؤن کے وقت بڑے کم خرچ پر شادیاں ہوجاتی تھیں یہاں تک کہ امیر و دولت مند بھی بڑے ہلکے پھلکے انداز میں شادی بیاہ کی تقریبات کا انعقاد کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہی اسلامی طریقہ ہے
یہی شرعی حکم بھی ہے مگر جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوا پھر وہی نمائش کا سلسلہ شروع ہوگیا اب نہ اسلامی تعلیمات کی پرواہ ہے اور نہ شرعی احکام کا پاس و لحاظ ہے اور نہ ہی فرمان رسول کی پرواہ ہے اور جلسہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے ختم ہونے کے بعد پھر رفتار پکڑنے لگا علما کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے کہ جو خود کو وارث انبیاء بھی کہتے ہیں اور اپنی تقریر کا ریٹ بھی مقرر کئے ہوئے ہیں
سارے علماے کرام ایسے نہیں ہیں لیکن اکثریت ایسے ہی علماء کی ہے کہ وہ منہ کھول کر پیسہ مانگتے ہیں اور اتنا مانگتے ہیں کہ پیروں تلے زمین کھسکنے لگتی ہے،،
اور ان کی تقریریں بھی صرف پیر، ولی، امام، محدث اور بزرگوں کی کرامات پر منحصر ہوتی ہیں اور بے شمار ایسی کرامتیں بیان کرتے ہیں کہ اب تو غیر مسلم بھی سوال کھڑا کرنے لگے ہیں اور یہ جواب نہیں دے پاتے اس کی وجہ یہ ہے کہ پیشے ور خطیب، مقرر اور عالم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری تاریخ صرف ہم ہی پڑھتے ہیں
حالاں کہ یہ غلط فہمی کا شکار ہیں کیوں کہ ہر مذہب کی تعلیمات ہر مذہب کے ماننے والوں کے اندر پڑھنے والے موجود ہیں اسی وجہ سے تو نیوز چینلوں پر ڈیبیٹ میں یہ علماء لڑکھڑا جاتے ہیں،، یاد رہے کہ جلسے کا ماحول ہے کہ مقرر جو چاہے بول جائے کوئی روکتا نہیں کوئی ٹوکتا نہیں،،
غوثِ اعظم سیدنا عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی کرامات بیان کریں گے اور اپنے آپ کو ان کا مرید بھی کہیں گے مگر غوث اعظم کا مسلک کیا تھا
غوث اعظم کے نماز کا طریقہ کیا تھا یہ کبھی نہیں بتایا جاتا یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ اب سوال کرتے ہیں کہ کیا ایک مرید کو اپنے پیر کا مسلک ماننا ضروری نہیں ہے؟ کیوں کہ سوال کرنے والے کو معلوم ہے کہ غوث اعظم حنفی مسلک کے ماننے والے نہیں تھے، وہ رفع الیدین کے قائل تھے، وہ آمین بالجہر کے قائل تھے،،
اور یہ بات بھی یاد رکھیں کہ آپ کسی کی معتبر و غیر معتبر کرامتیں بیان کرکے اس بزرگ کا مقام و مرتبہ بڑھا نہیں سکتے بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اپنے برگزیدہ بندوں کے مقام و مرتبے کو بلند کیا ہے ہاں آپ البتہ جھوٹے واقعات اور جھوٹی کرامتیں بیان کریں گے تو گناہ گار ضرور ہوں گے
اور ان کی سیرت و تعلیمات پر عمل کریں گے تو کامیاب ہوں گے دنیا کا بڑے سے بڑا عالم و خطیب کیوں نہ ہو اسے ہرحال میں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ رب کے قرآن اور نبی کے فرمان میں کل جو تاثیر تھی وہی تاثیر آج بھی ہے بات دراصل یہ ہے کہ ہماری زبان میں تاثیر نہیں رہی اور نیک نیتی کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو نہ بتانے کا جذبہ رہا نہ سننے سنانے کا جذبہ رہا
اکثر لوگوں کی زبان سے یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ وہ فلاں مولانا بہت زبردست تقریر کرتے ہیں لیکن وہی مولانا تقریر کرتے ہیں تو اس کا بھی ہمارے اوپر کوئی اثر نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اب جلسہ اس لیے ہوتا ہی نہیں ہے کہ معاشرے سے برائی کا خاتمہ ہو اور پاکیزہ معاشرہ تشکیل پائے،،
لاکھوں لاکھ روپے جلسے میں خرچ ہوتے ہیں اور خرچ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مقررین کی بھی خوب فرمائش اور خواہش ہوتی ہے اور اپنی خواہشات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ آنے جانے کا ٹکٹ چاہئے، نذرانے کے طور پر موٹی رقم چاہئے، جلسہ گاہ تک جانے کے لیےکار چاہیے اور جب اسٹیج پر پہنچتے ہیں تو ایسا استقبال ہوتا ہے کہ چند لمحوں کے لیے سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے
ذرہ برابر اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم اسٹیج کو منبر رسول بھی کہتے ہیں اور جب مقرر کی آمد ہوتی ہے تو قرآن و حدیث، حمد باری تعالیٰ، نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم روک کر ہم مقرر کا استقبال کرتے ہیں تو ہم یہ گستاخی کرتے ہیں یا منبر رسول کی شان بڑھا تے ہیں؟
آج تک کسی فلمی شاعر نے یہ جرأت نہیں کی ہے کہ اس نے کسی مشہور نعت کی زمین میں کوئی گانا لکھا ہو اور نہ ہی کسی میوزک ڈائریکٹر نے یہ جسارت کی ہے کہ کسی مشہور نعت کی طرز پر کسی گانے کی دھن ترتیب دی ہو ۔ مگر غیر فلمی لوگ مشہور فلمی گانوں کے وزن میں نعتیں منقبت یا حمدیہ کلام تحریر کرتے ہیں اور پھر ان کو نوے فیصدی بھارتی فلمی گانوں کی طرز میں پڑھا جاتا ہے ۔
اور بر صغیر کے بہت سے معروف و غیر معروف نعتیہ شعراحضرات کا جو پہلے سے موجود ذخیرہء کلام ہے تو اس میں سے بھی اکثر کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا ہے ۔
اس سے ہوتا کیا ہے کہ جب ہم کوئی ایسی نعت یا منقبت وغیرہ سنتے ہیں تو اصل گانے کے بول دماغ میں گونجنے لگتے ہیں ۔
چند ایک بہت سینئر نعت خواں حضرات کو چھوڑ کر آج باقی کے جتنے بھی نعت خواں ہیں ان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے کسی فلمی گانے کی طرز پر نعت نہ پڑھی ہو بلکہ بعض کا تو اوڑھنا بچھونا ہی بھارتی گانوں کی دھنوں میں ترتیب دی گئی نعتیں پڑھنا ہے ۔
اور پھر ظاہر ہے کہ ہوبہو نقل بنانے کے لئے ان گانوں کو درجنوں بار سننا بھی پڑتا ہو گا اور ایسا کرنے والوں میں بہت بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں تو کیا یہ کوئی بہت اچھی بات ہے؟ کیا یہ نعت کی توہین نہیں ہے کہ اسے گانے کی طرز پہ پڑھا جائے؟
کیا عشق رسول میں اتنی محنت بھی نہیں کر سکتے کہ نعت کو اپنے انداز میں پڑھیں کہ اسے سن کر کسی فلمی گانے کی یاد نہ آئے اور حمد، نعت و منقبت کو گانے کی طرز میں پڑھنا تو بجائے خود کتنا بڑا المیہ ہے،، ۔
الغرض آج منعقدہ جلسوں پر غور کریں تو اسی بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اب جلسوں کی بھی اصلاح ضروری ہے ورنہ یہ جلسے میلے میں تبدیل ہو جائیں گے جس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اس لئے جلسوں کے تقدس کو باقی رکھنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔
جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
بھارت جوڑو یاترا سے کانگریس کو کتنا فائدہ
ہم نے آمد کی خوشی تو منالی لیکن
فکر لال بتی کی نہیں بس لال کارڈ کی ہے
معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
سیکورازم بچانا ہماری ذمہ داری ہے صاحب
حسد کی تباہ کاریاں اور ہمارا معاشرہ
Pingback: پاکیزہ معاشرے کے لیے صرف تقریر نہیں عمل کی ضرورت ہے ⋆ جاوید اختر بھارتی