جامع مسجد گیان واپی کی تاریخی حیثیت

Spread the love

جامع مسجد گیان واپی کی تاریخی حیثیت

مسلمانوں کے دو بڑے دشمن ہیں۔ ایک ابلیس لعین جو روز ازل ہی سے ہے۔ اور اس کی دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں، بلکہ قرآن نے صاف صاف اعلان کردیا : “ان الشیطان للانسان عدو مبین”خود شیطان نے متعدد قسمیں کھائی، کبھی کہا: “میں سب کو گمراہ کردوں گا سواے تیرے مخصوص بندوں کے۔

“کبھی کہا: “میں اولاد آدم کو پیس ڈالوں گا مگر تھوڑے بچیں گے”۔ کبھی بولا: انھیں بھلاوے دوں گا، قسم ہے انھیں آرزوئیں دلاؤں گا انھیں حکم دوں کہ جانوروں کے کان چیریں، انھیں حکم دوں گا کہ اللہ کی بنائی ہوئی چیز کو بدل ڈالیں وغیرہ۔ شیطان نے جتنی قسمیں کھائی ہم بادل ناخواستہ ان کو پورا کررہے ہیں اور اس کے مشن میں پورا ساتھ دے رہے ہیں۔

دوسرا بڑا دشمن ہے انسان۔ پھر اس کی بھی دو قسمیں ہیں جن میں پہلی قسم یہودی کی دشمنی ہے جو بہت سخت ہے۔

دوسری قسم مشرکین ہیں۔ جب کہ عیسائیوں کو مسلمانوں سے باعتبار محبت قریب بتایا گیا، یہی وجہ ہے کہ سب سے بڑی قوم آبادی کے لحاظ سے عیسائیوں کی ہے لیکن ان سے ایذا رسانی کی شکایت سننے میں نادر ہے۔جب کہ یہودیوں سے پوری دنیا پریشان ہے۔ اور کیوں نہ ہو ؟ جب ان کا مشن و عہد یہ ہے: “لیس علینا فی الامیین سبیل” کہ ان پڑھوں کے بارے میں ہم پر کوئی راہ نہیں۔

مشرکین کی دشمنی پر قرآن کی بھی مہر ثبت ہے لہذا یہ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک عزیز ہندوستان میں ہنود بے بہبود کی جانب سے مسلمانوں پر پہ در پہ حملے ہوتے رہتے ہیں۔ خصوصا جب سے آر۔ ایس۔ ایس۔ سمرتھک حزب اقتدار بی۔ جے۔ پی۔ برسر اقتدار ہوئی مسلمانوں کو روز بروز زوال پزیر اور انحطاط پزیر کرنے کے لیے نت نئے منصوبے بنتے رہتے ہیں۔

کرناٹک میں اسکول کی طالبات کے حجاب پر قدغن کا معاملہ ہو یا ریاست کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ کے نفاذ کی منسوخی کا اعلام۔ اسی طرح ایک مجلس میں تین طلاق غیر آئینی قرار دینا ہو یا این۔ آر۔ سی۔، سی۔ اے۔ اے۔ کے نفاذ کا معاملہ۔

لاؤڈ اسپیکر کا استعمال ممنوع یا براے نام رکھنا ہو یا مذبوحہ گوشت پر پابندی عائد اور مسجدوں پر مندروں کو تعمیر کرکے مسلمانوں کو کمزور کرنا اور ان کے املاک کثیر پر بے ایمانی سے دست درازی کرنا ہو، یہ سب اس سرکار کا عام شیوہ بن چکا ہے۔

بابری مسجد شہید کرکے اس پر رام مندر کی غیر آئینی طریقے سے تعمیر کرکے جس طرح ان کے عزائم پختہ ہوۓ ہیں وہ کسی پر مخفی نہیں۔ بھگوا دھاریوں نے اب تو پورے ملک میں ایک تحریک چلارکھی ہے اور باقاعدہ ان کا ایک ٹارگیٹ ہے کہ ہمیں یہاں کی مساجد منہدم کرکے مندر بنانے ہیں۔ بلکہ ان کا خبث باطن یہ ہے کہ ہند کے تمام مساجد منہدم کرکے وہاں مندر تعمیر کرنے ہیں۔

اور اس کے لیے انھوں نےحقائق سے چشم پوشی کرکے خود ساختہ واقعات وروایات بیان کرنا شروع کر دیے ہیں اس پر تمام نیوز چینلز ان کا ساتھ بھی دیتے ہیں جس سے انھیں حکومت کا مالی اور سیاسی تحفظ/پروٹیکشن فراہم ہو جاتا ہے بلکہ یہ تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ ہندو مسلم منافرت باقی رہے اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہیں۔

وزارت ہند کی عدالتیں بھی اب غیر جانب دارانہ نہ رہیں کہ ان کی چارہ جوئی کی جاۓ۔ حالیہ دنوں شہر بنارس میں شاہی مسجد گیان واپی کا مسئلہ ملک کے طول وعرض میں موضوع بحث بنا ہوا ہے جس کے متعلق غیر مسلم اور کچھ شرپسندوں کا دعوی یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت کے عظیم شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے سفاکیت سے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کاشی وشوناتھ مندر کے کھنڈر پر یہ مسجد تعمیر کرائی ہے۔ لہذا تاریخی نقطۂ نظر سے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

گیان واپی مسجد اکبر بادشاہ کے زمانے میں بھی موجود تھی۔

مغلیہ سلطنت کے ایک بادشاہ جلال الدین اکبر کے زمانے میں بھی یہ مسجد موجود تھی۔ جس کا دور سلطنت از 963ھ مطابق 1556ء تا 1014ھ مطابق 1605ء رہا۔ اس زمانے میں بھی یہ مسجد جامع موجود تھی اور باضابطہ اس میں نماز ہوتی تھی۔

اس کا تاریخی ثبوت یہ بھی ہے کہ ان دنوں ایک اللہ کے برگزیدہ بندے مخدوم شاہ طیب بنارسی قطب وقت ولی کامل مدفون منڈو اڈیہا بنارس بالاستمرار اس مسجد میں نماز جمعہ ادا فرماتے تھے۔ ایک روز آپ کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ آپ جامع مسجد گیان واپی بنارس میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے آۓ، نماز جمعہ میں امام صاحب نے دوران خطبہ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کا نام لے لیا

اس پر حضرت مخدوم شاہ طیب بنارسی قطب بنارس کو بہت ناگواری کا احساس ہوا؛ نماز جمعہ کے بعد امام صاحب کو تنبیہ کرنا چاہا، لیکن مسجد میں موجود حضرت خواجہ کلاں اور ان کے رفقا نے ایسا کرنے سے آپ کو منع کردیا اور کہا کہ آئندہ نماز منڈوا اڈیہا میں ادا کرلیں گے اگر بادشاہ جلال الدین اکبر کو پتا چل گیا تو ہمارے مکانوں کو تاراج کردے گا۔لہذا اسی میں بھلائی ہے کہ خطیب صاحب سے کچھ نہ کہا جاۓ ۔

یہ واقعہ “گنج ارشدی” نامی کتاب میں مذکور ہے۔ (جامع مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینے میں، ص:٤)

 

نویں صدی ہجری کی تعمیر ہے گیان واپی مسجد !

کثرت سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے ہندوستان میں اپنے دور اقتدار میں مندروں کو منہدم کرکے مسجدیں تعمیر کرائیں۔ اور اس کی ایک کڑی بنارس میں گیان واپی مسجد کا معاملہ ہے۔ جو کاشی وشوناتھ مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گیان واپی مسجد مندر توڑ کر بنوانے کا الزام اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ پر بے بنیاد ہے اس لیے کہ گیان واپی مسجد کی تاریخ بہت قدیم ہے ۔

“جامع مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینے میں” نامی کتاب کے مصنف مولانا عبد الباطن نعمانی اس مسجد کی عہد تاسیس کے بابت لکھتے ہیں: “جونپور کے صدر الصدور قاضی صدر جہاں اور ان کے ایک متمول شاگرد شیخ سلیمان محدث نے نویں صدی ہجری میں اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ کے جد امجد ہمایوں بادشاہ کے دنیا میں آنے سے بھی قبل بنوائی ہے۔

جامع مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینے میں ” کے مصنف اور گیان واپی مسجد بنارس کے امام صاحب مولانا عبد المبین نعمانی بحوالہ تذکرۃ المتقین رقم طراز ہیں۔ ملاحظہ ہو: قاضی صدر جہان کے شاگردوں میں ایک شیخ سلیمان محدث پایۂ کے محدث ہیں۔

جنھوں نے اکثر شہروں میں بڑی بڑی جامع مسجدیں تعمیر کرائیں، چناں چہ ان کی تعمیر کردہ ایک جامع مسجد شہر بنارس میں اب تک موجود ہے جس میں آج تک نماز جمعہ ادا ہوتی ہے۔ (جامع مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینے میں بحوالۂ تذکرۃ المتقین ، ص:٥)۔

قارئین! آپ نے ملاحظہ کیا کہ گیان واپی مسجد کی تعمیر نویں صدی ہجری میں اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے جد امجد ہمایوں کے عالم وجود میں آنے سے بھی پہلے کی ہے۔ جو شیخ سلیمان محدث نے کرائی تھی۔ پھر یہ کہنا کہ اورنگ زیب عالمگیر نے کاشی وشوناتھ مندر توڑ کر اس کے ملبے پر یہ مسجد تعمیر کرائی تھی، بربناے تعصب و تنگ نظری ہی ہوسکتا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر گیان واہی مسجد کے معمار ثانوی ہیں۔

ایک جھوٹ لوگوں میں یہ پھیلایا جاتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ نے کی ہے جس کا ازالہ از حد ضروری ہے حضرت اورنگ زیب عالمگیر نے اس مسجد کا سنگ بنیاد نہیں رکھا تھا، نہ وہ اس کے معمار اول ہیں، بلکہ آپ نے اس کی مرمت کرائی تھی، دراص اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے گیان واپی مسجد کے تعمیر اول کرانے کا شبہ اس بنا پر ہوتا کہ اس مسجد سے ایک سنگی کتبہ برآمد ہوا جس میں یہ عبارت مکتوب تھی: اول بحکم والا در ٢ از جلوس حضرت عالمگیر خلد مکاں ایں جامع مسجد تعمیر شدہ بعدہ در ١٢٠٧ء سید میراث علی متولی موروثی مسجد موصوفہ مرمت وغیرہ نمود۔ (جامع مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینے میں) ۔

ظاہر ہے کہ یہ کتبہ ١٢٠٧ء میں مسجد میں نصب کیا گیا جس وقت سید میراث علی موروثی جامع مسجد گیان واپی کے متولی تھے اور یہ زمانہ انگریزوں کے ملک ہند پر قبضہ و تسلط کا تھا لیکن اس میں لاعلمی یاغلطی سے یہ درج ہوگیا کہ حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے تخت نشین ہونے کے دوسرے سال آپ نے ہی اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کی تعمیر نو کرائی۔

جب کہ آپ نے اس کی تعمیر اول نہیں کرائی تھی۔ کیوں کہ یہ ثابت ہوچکا کہ یہ مسجد جلال الدین اکبر بادشاہ کے زمانے میں بھی موجود تھی۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ نے اس کی مرمت اور اس کو از سر نو پہلی بنیادوں پر ہی تعمیر کرایا تھا۔

لہذا شرپسندوں، بھگوادھاریوں، نیوز اینکروں، اور ہندو مسلم دشمنی کو ہوا دینے والوں کا یہ کہنا کہ کاشی وشوناتھ مندر کو منہدم کرکے یہ مسجد بنائی گئی ہے حقائق سے چشم پوشی کرنا، مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا اور آر۔ ایس۔ ایس۔ کا مسلمانوں کی یادگاروں، ان کے شعائر کو محو کرکے ہندو راشٹریہ کی طرف دیدہ ودانستہ غیر مناسب اقدام اور ناپاک ارادوں کا اظہار ہے۔

قضیہ جامع مسجد

اورنگ زیب عالمگیر پر ہمیشہ سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ آپ نے مندروں کو مسمار کرکے مسجدیں تعمیر کرائیں۔ جب کہ یہ دعوی سرے سے ہی خارج ہے کیوں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے مسجد کسی مقبوضہ یا مغصوبہ زمین پر تعمیر کرانا ناجائز وحرام ہے، لہذا اورنگ زیب عالمگیر سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ آپ نے مندروں کو مسمار کراکے مسجدیں تعمیر کرائی ہوں گی؟

علامہ شبلی نعمانی نے بڑی پیاری بات کہی:

ع

تمھیں لے دے کےساری داستاں میں یاد ہے اتنا

اورنگ زیب ہندو کش تھا، ظالم تھا ، ستمگر تھا

دراصل انگریزوں کی سازش برطانوی ہند کے دور میں یہ رہی کہ لڑاؤ، اور حکومت کرو، اور کوئی بھی ایسا مضبوط ترین تاریخی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے کاشی وشوناتھ مندر توڑ کر مسجد بنائی ہو۔

لیکن برطانوی دور میں لکھی گئی کچھ کتابوں میں اس کا تذکرہ ہے جو درحقیقت صیہونی طاقتوں کی ایک منظم سازش کے تحت کیا گیا اور باقاعدہ مصنوعی اور گڑھی داستانوں پر مشتمل کتابیں تیار کی گئیں اور ہندو مسلم کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی گئی کہ جب تک یہ دونوں ایک نہ ہوں گے ہم بآسانی حکومت کرتے رہیں گے۔

اس طرح بےشمار مساجد کو تنازعات کے گھیرے میں لاکھڑا کردیا گیا۔ یوں تو جامع مسجد گیان واپی پر ہندو برادری کا دعوی مندر وشوناتھ کا معاملہ بابری مسجد سے بھی پہلا ہے لیکن بابری مسجد پر جانب دارانہ فیصلہ اور شرپسندوں کی اس میں کامیابی کے بعد ان کے عزائم اور ناپاک منصوبے بہت بلند ہوگئے اور اب علی الاعلان میدان میں اتر آۓ۔

غیر مستند روایات اور فرضی کہانیوں کا دائرہ اس قدر وسیع ہوگیا ہے کہ اب تو محکمۂ سیاحت نے بھی بیرون ممالک سے آۓ سیاحوں کو بانٹنے کے لیے جو کتابچے تیار کراۓ ہیں ان میں یہ مندرج کرادیا ہے کہ جامع مسجد گیان واپی وشوناتھ کے مندر کو توڑکر بنائی ہے۔ جو سراسر غلط ہے۔ (ملخصا: از جامع مسجد گیان واپی تاریخ کے آئینے میں)

گیان واپی مسجد کا وشوناتھ مندر کی جگہ نہ ہونے کا غیروں کو بھی اعتراف !

جامع مسجد گیان واپی کے کاشی وشوناتھ مندر کی جگہ ہونے کی جس طرح مسلمان تردید کرتے ہیں اسی طرح کچھ حقائق پسند غیر مسلم بھی اس کا برملا انکار کرتے ہیں اور ہنود بے بہبود کے جامع مسجد ہی کو مندر سمجھ بیٹھنے پر اظہار تأسف کرتے ہیں۔

جیسا کہ بابو شری کرشن ورما نے اپنی کتاب “کاشی اور وشوناتھ کا تذکرہ ” میں مشہور کتاب “کاشی کھنڈ” کے متعدد حوالوں سے اپنے اس دعوے کو مبرہن کیا ہے کہ موجودہ گیان واپی مسجد کاشی وشوناتھ مندر کی جگہ پر نہیں ہے۔ لکھتے ہیں: اگر یہ مسجد قدیم کاشی وشوناتھ مندر کی جگہ ہے تو کاشی کھنڈ سچی کتاب نہیں ہے اور اگر یہ سچی کتاب ہے تو پھر یہ مسجد قدیم وشوناتھ مندر کی جگہ پر نہیں ہے۔ (مرقع بنارس ص: ١٧٠)

گیان واپی مسجد کو مندر سمجھنا محض ایک غلط فہمی

غیر مسلموں کا جامع مسجد گیان واپی کو وشوناتھ مندر سمجھنا غلط فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس پر بے شمار دلائل شاہد عدل ہیں، اور یہ بات خود انھیں بھی تسلیم ہے لیکن پھر بھی مندر مندر کا شور مچانا صرف اس لیے ہے کہ لوگوں کا ملک کی معیشت کے بحران سے ذہن ہٹا یا الجھا رہے۔ چودھرہ نبی احمد سندھیلوی نے خود اپنی مایۂ ناز کتاب “مرقع بنارس” میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ گیان واپی مسجد وشوناتھ مندر کی جگہ نہیں ہے۔ خود لکھتے ہیں :

ہم ہندؤوں کے یہاں پوران گرنتھ سب سے قدیم تاریخ ہے اور ان پورانوں میں اسکندرپوران سب سے پرانی اور سچی تاریخ ہے لیکن افسوس! کہ اس پرانی تاریخ کے ہوتے ہوئے ہمیں مندر کا پتا نہیں چل سکا اور ہم گیان واپی کو ہی مندر سمجھ بیٹھے۔ (مرقع بنارس ، ص: ٢٨٦)

غیر مسلموں کی سازش طشت از بام!

غیر مسلموں کے جامع مسجد گیان واپی کے کاشی وشوناتھ ناتھ مندر کی جگہ ہونے پر منجملہ دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ مسجد کے مغربی جانب جو محرابی نشان ہے وہ مندر ہونے کی علامت اور اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں مندر تھا اور اس کو توڑ کر مسجد بنایا گیا۔ جب کہ اس روایت میں ہنود بھی مختلف ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اورنگ زیب عالمگیر مندر توڑ کر مسجد بنواتے تو اس علامتی نشان کو کیوں چھوڑ دیتے؟

پھر جب مندر منہدم کرکے مسجد تعمیر کی گئی تھی جوکہ بے بنیاد الزام ہے۔ تو انہدامی کاروائی کے بعد تو بنیادوں سے نو تعمیر کی جاتی ہے تو پھر وہ علامتی نشان کیسے رہ گیا؟

بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہی مسجد تھی لیکن غیر مسلموں نے اس کے مغربی کچھ حصہ پر ناجائز طریقے سے قبضہ کرکے مندر بنایا تھا پھر جب مسلمانوں کو اس میں قانونی چارہ جوئی کے بعد کام یابی ملی تو اس مندر کو قانون کے دائرے میں رہ کر اور قانون کا سہارا لے کر گرایا گیا تھا لیکن چوں کہ مغربی دیوار مسجد سے متصل تھی تو اسے گرانے میں مسجد کے زمیں بوس ہونے کا خدشہ تھا۔

لہذا اسے جوں کا توں باقی رکھا گیا اسی وجہ سے وہ مندر جیسا لگتا ہے لیکن جو حضرات تاریخ سے نابلد ہیں وہ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ مندر گراکر مسجد بنوائی گئی بلکہ بعض ناخواندہ مسلمانوں کو ہم نے بھی یہ کہتے سنا کہ یہ ہمارے مسلم حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی ہے جب مندر توڑ کر مسجد بنوائی تھی تو علامتیں کیوں چھوڑدیں؟

حالاں کہ روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ نہ وشوناتھ مندر وہاں کبھی تھا، نہ مسمار کیا گیا، بلکہ انگریزوں کی سازش فرضی کہانیاں گڑھی گئی اور ہندو مسلم کے مابین باہمی نفرت کا بیج بویا گیا۔

ارشاد ہوتا ہے : اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں کو اس کا نام لیے جانے سے روکے یا اس کی تخریب کاری میں کوشش کرے۔۔۔

دنیا میں ان کے لیے رسوائی ہےاور آخرت میں بڑا عذاب اللہ تعالی اپنے گھروں کی حفاظت فرماۓ اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچاۓ۔

آمین بجاہ النبی الکریم علیہ افضل الصلوات واکرم التسلیم۔

از: مفتی محمد ایوب مصباحی

پرنسپل دار العلوم گلشن مصطفی بہادرگنج

سلطان پور، ٹھاکردوارہ، مراداباد، یو۔ پی۔ انڈیا۔

رابطہ:8279422079

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *