جدیدیت کی دی ہوئی ایپسٹمالوجی علما کے لیے سب بڑا چیلنج
از مفتی قیام الدین قاسمی سیتامڑھی جدیدیت کی دی ہوئی ایپسٹمالوجی علما کے لیے سب بڑا چیلنج اب فلسفے اور اسلامی نظریات کاتقابلی مطالعہ ہر عالم کے لیے لازمی ہے
عصر حاضر میں علومِ عالیہ کے لیےضروری علوم آلیہ (instrumental science) میں سب سے اہم منطق فلسفہ، اور اس کی شاخ ایپسٹمالوجی ہے، کیوں کہ منطق اور لوجیکل ریزننگ ہمیں علوم عالیہ کے لیے ضروری طریقۂ معقولیت عطا کرتی ہے
اور فلسفہ ہمیں مسائل و علوم کو ایک الگ زاویے سے سمجھا کر ان کا خالص انسانی حل بتاتا اور سمجھاتا ہے پھر فلسفہ اور اسلام کے تقابلی مطالعے سے ہمیں اسلام کے اجزاء کی ایک الگ انداز سے تفہیم اور اسلامی نظام کی اہمیت و تفوق کا کما حقہ ادراک ہوتا ہے، البتہ ان مسائل کے حل کے لیے علم کے کون سے اصول اور معقولیت کی کون سی بنیاد ہم قبول کریں گے کون سی نہیں کریں گے یہ ہمیں ایپسٹمالوجی (اصولِ علم یا نظریۂ علم) بتاتا ہے
سچ کہوں تو فلسفہ گمراہ نہیں کرتا یہ ایپسٹمالوجی ہے جو ہمیں گمراہ کرتی ہے کیوں کہ ہم تعقل کی بھرمار کو دیکھ کر فلسفے کے دئیے گیے حل کو صحیح یا زیادہ بہتر سمجھ بیٹھتے ہیں
لیکن ایک بات پلو سے باندھ کر رکھ لینی چاہئے کہ دنیا کی گھٹیا سے گھٹیا، بالکل نان سینس اور غیر معقول عمل، عادت اور نظریے کے لیے بھی معقولیت گھڑی جاسکتی ہے، اگر ہم نے یہ طے کرلیا کہ قرآن و حدیث نے جو کہا ہے وہی ہماری ایپسٹمالوجی اور معقولیت کی بنیاد ہے، اب ہمیں اپنی ساری معقولیت اس اسلامی ایپسٹمالوجی کے ارد گرد گھمانی ہے تو کبھی ہم گمراہ نہیں ہوں گے
ان شاءاللہ، بل کہ اس کے بعد جو معقولیت پیدا ہوگی اور اس کے نتیجے میں جو یقین کی لذت محسوس کریں گے نا اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا
مثلاً اگر قرآن نے اجازت دی ہے کہ ناشزہ کو اولاً وعظ کے بعد ہجور فی المضاجع اور مارنے کی بھی اجازت ہے اور حضور نے ضرب کی تشریح کردی کہ اعضاء رئیسہ کے علاوہ پر ایسی ضرب جس سے بدن پر نشان نہ آئے
تو اب اگر ہمیں یہ ضرب غیر معقول لگتی ہے تو قرآن پر اعتراض کرنے اور اس حکم پر اپولوجیٹک اور معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے بجائے ہمیں ضرورت ہے کہ اپنی ایپسٹمالوجی پر شک کریں سوال اٹھائیں کہ یہ معقولیت میرے اندر کس نے پیدا کی؟
ہمیں لگتا ہے کہ یہ معقولیت تو فطری چیز ہے کہ بھائی تشدد نہیں ہونا چاہئے، اور قرآن تشدد کا حکم دے رہا ہے وہ بھی عورت ذات پر، لیکن ذرا غور کریں کہ یہ معقولیت فطری نہیں اس کے پیچھے جدیدیت کی دی ہوئی ایپسٹمالوجی ہے کہ ہر قسم کا تشدد غلط ہے، اور یہ ایپسٹمالوجی اس نے تہذیبی سطح پر ہمارے اندر جاگزیں کی ہے
اور تہذیب کی جڑیں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ اس کو کھودنکالنا سب کے بس کی بات نہیں، اور اسی ایپسٹمالوجی کی بناپر جدید ذہن اسلام پر اعتراضات کرتا ہے اور ایک غیر اسلامی ماحول میں پڑھا لکھا مسلمان اسلامی احکام سے متنفر ہوتا ہے
لیکن ہم اپنی ساری معقولیت اس ایپسٹمالوجی کے ارد گرد گھمائیں گے کہ قرآن نے اجازت دی ہے تو یہ صحیح ہے مثلاً یہ دلیل کہ طلاق تک نوبت آنے سے تو بہتر ہے کہ دو تین ضرب ہی لگادے تاکہ اس عورت اور اگر بچے ہوں تو بچوں کی زندگی خراب نہ ہو، بھاری دائمی اور ناقابل تلافی نقصان سے ہلکا عارضی نقصان بہتر ہے وغیرہ وغیرہ
آپ غور کریں کہ جب کفار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں تو بہت کم جگہوں پر وہ نان سینس اور غیر معقول باتیں کرتے ہیں اکثر جگہوں پر قرآن ان کی پیش کردہ دلیل کا تذکرہ کرتا ہے
لیکن مسئلہ یہ ہوتاہے کہ اس دلیل کی بنیادیں غلط ہوتی ہے مثلاً وہ کہتے ہیں انا وجدنا آباءنا علی امۃ و انا علی آثارھم لمقتدون تو یہ غیر معقول تو بالکل بھی نہیں کیوں کہ ہم بھی امام ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں اپنے والدین کی تقلید کرتے ان کی بات مانتے ہیں اور ان کی نقل کرتے ہیں لیکن قرآن اس معقولیت پر نہیں اس معقولیت کی بنیاد پر سوال اٹھاتا ہے اور کہتا ہے أولوکان آباءھم لا یعقلون؟
یعنی ٹھیک ہے تم نے اپنے اس غلط عمل کی دلیل آباء و اجداد کے عمل کو قرار دیا ہے لیکن کیا یہ دلیل خود صحیح معقولیت پر مبنی ہے؟ کیا خود تمہارے آباء نے صحیح کام کیا تھا؟
خود بھی تو غور کرو ذرا اپنی عقل سےبہرحال اتنا یاد رکھیں کہ ہم جو بھی معقولیت اپنے اندر رکھتے ہیں اس میں سب سے بڑا اثر ماحول اور رسوم و رواج کا ہوتا ہے اسی لیے اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہرزمانے کا تمدن و تہذیب اور سوسائٹی یا معاشرہ ہوتا ہے
تو جو ادارہ اسلامی ایپسٹمالوجی کو جاگزیں کرنے میں کام یاب ہوگیا وہ حقیقی اسلامی ادارہ ہے اب وہ مدرسہ ہو یا اسکول یا کالج یا یونیورسٹی، اور جو ادارہ اس اسلامی ایپسٹمالوجی کو اپنی نسلوں میں جاگزیں کرنے میں ناکام ہے وہ اسلامی ادارہ نہیں خواہ وہ مدرسہ ہی کیوں نہ ہواور چوں کہ غیر اسلامی ایپسٹمالوجی کا نفوذ ہمارے اندر تہذیبی سطح پر ہورہا ہے
اس لیے محض اسلام کو پڑھاکر، یا تہذیبی عوامل مثلاً مظاہری سطح، عملی سطح، سیاسی سطح، معاشرتی سطح، علمی سطح، ورلڈ ویو، آرٹ، ادب وغیرہ میں سے کسی ایک سطح پر اکتفا کرکے دور حاضر کے فتنوں سے نہیں نمٹا جاسکتا، اس کے لیے ہر سطح پر بیک وقت کام کرنا ضروری ہے، جس کے لیے مندرجہ ذیل مراحل میں کام کرنا ہوگا
1 تہذیبی عوامل کا احصاء
2 جدید ذہن کی ذہنی و نفسیاتی ڈیکوڈنگ
3 اسلامی احکام پر قدیم و جدید علماء کی ریزننگ کو جمع کرکے نئی ریزننگ یا قدیم ریزننگ کی نئے طرز پر تشکیل
4 فلسفیانہ نظریات سے کما حقہ واقفیت
5 اسلامی نظریات اور فلسفیانہ نظریات کا تقابلی مطالعہ اور ان کے درمیان وجہِ افتراق کے مرکزی نقطے کی تعیین
6 ذہنی اور زمینی سطح پر اسلامی نظریات و تہذیب کی تبدیلی کے لیے فیلڈ ورک
یہ ایک چیلنج ہے دور حاضر کے علما کے سامنے اور شاید تاریخِ اسلام میں علما کے سامنے آج تک کبھی اتنا گہرا اور وسیع چیلنج درپیش نہیں ہوا، اور سب سے بڑا ہیرو وہی ہوتا ہے جو سب سے بڑے چلینج کو قبول کرکے اس سے نمٹتا ہے
اس لیے آج کے علما اگر اس چیلنج کی سنگینی کو سمجھ کر اس کے ادراک کے لیے کمربستہ ہوں تو انسانی تاریخ اور آنے والی نسلیں انہیں سب سے بڑا ہیرو مانیں گی، تو کیا آپ کو یہ چیلنج قبول ہے؟
مفتی قیام الدین قاسمی سیتامڑھی
Pingback: مشن تقویت امت کا پہلا سوشل ورک فیسبکی احباب کا بے پناہ اعتماد و محبت ⋆ قیام الدی
Pingback: ہے کام یابی اصول و شعور سے مشروط ⋆ علیزے نجف