رمیش بدھوری کی بے ہودگی
رمیش بدھوری کی بے ہودگی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
ہندوستان میں پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا وہ جگہ ہے جہاں کچھ بھی بے ہودگی کر لیجیے، بول دیجیے، دستور کی دفعہ (2) 105 کے تحت ہندوستان کی عدالت میں کوئی مقدمہ نہیں چل سکتا، ان بے ہودگیوں پر قابو پانے کے لیے سارا اختیار دفعہ 380کے تحت اسپیکر کے پاس ہے، وہ کبھی مارشل کے ذریعہ ارکان کو پارلیامنٹ سے باہر کرتے ہیں
کبھی معطل کرتے ہیں،کبھی اس کی رکنیت ختم کر دیتے ہیں، کبھی اجلاس کی کاروائی روک دیتے ہیں اور کبھی اگلے دن اور اگلی تاریخ تک اجلاس ملتوی کر دیتے ہیں۔
اسپیکر کی حیثیت غیر جانبدار کی ہوا کرتی ہے، وہ پارٹی کی جانب سے رکن ہونے کیے باوجود اسپیکر بننے کے بعد پارٹی سے اوپر اٹھ جاتا ہے، لیکن جس طرح بھاجپا حکومت میں دوسرے کاموں میں شفافیت نہیں ہے، جمہوری اقدار دن بدن رو بہ زوال ہے، ملک فاشسزم کی طرف بڑھ رہا ہے ، اس کے اثرات پارلیمان پر بھی پڑ رہے ہیں، اسپیکر فیصلہ لینے میں پارٹی تحفظ کا خیال رکھ رہے ہیں، جو غیر آئینی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی ۔
ایوان کی نئی عمارت میں چوتھے دن بھاجپا ارکان رمیش بِدھوری نے اس قدر بد زبانی اور بے ہودگی کی، جس کی کوئی نظیر پارلیامنٹ کی تاریخ میں نہیں ملتی، اس نے ایوان میں بہوجن سماج پارٹی کے رکن کنور دانش علی (جو امروہہ سے رکن پارلیمان ہیں) کو دہشت گرد ، کٹوا، ملا اور بھردا تک کہہ ڈالا ،
بِدھوڑی کے بغل میں بیٹھے سابق وزیر صحت ہرش وردھن اور سابق وزیر قانون روی شنکر ہنس ہنس کر اس کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ اور اس حوصلہ افزائی کے نتیجے میں بِدھوری نے اس واقعہ پر سات ٹوئٹ کیا اور کسی میں اس نے معافی نہیں مانگی، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا
لیکن معافی کے الفاظ ان کے پاس بھی نہیں تھے، سوشل میڈیا پر جب یہ ویڈیو وائرل ہوا تو تمام سیاسی پارٹیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور اسپیکر سے سخت کاروائی کی مانگ کی، جس کے نتیجے میں کاروائی سے وہ الفاظ ہٹا دیے گیے،
اسپیکر نے بِدھوری کو سخت تنبیہ کیا، بھاجپا نے پارٹی سطح پر اس کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرکے پندرہ دن میں جواب مانگا، لیکن اس کو پارلیمان کے لیے نا اہل قرار نہیں دیا گیا، اس کی معطلی نہیں ہوئی، جو اسپیکر اوم پرکاش برلا کو پہلے مرحلہ میں کرنا چاہیے تھا
اس سے کہیںچھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ ارکان کو باہر کا راستہ دکھاتے رہے ہیں، لیکن کیا کیجئے گا دونوں بھاجپا کے ہیں،اس لیے آقا کے چشم وابر و کے بغیر وہ سخت کاروائی نہیں کر سکتے، یہ روز روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے
آپ کو یاد ہوگا کہ راہل گاندھی پر کاروائی میں کس قدر عجلت برتی گئی تھی، بِدھوری کا یہ معاملہ اس قدر سنگین ہے کہ فوری طور پر اس کی رکنیت منسوخ کرنی چاہیے، لیکن سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘ والا معاملہ ہے
اس کے بر عکس کنور دانش علی کے خلاف بھاجپا کے بے لگام لوگ الزامات لگا رہے ہیں اور گودی میڈیا حسب سابق بھاجپا کے لوگوں کے سُر میں سُر ملانے کا کام کررہا ہے، پارلیامنٹ کی بحثیں عوامی طور پر بھی نشر ہوتی ہیں
ان الزامات کا جھوٹ ہونا سورج کی طرح روشن ہے، جو الزامات لگائے جا رہے ہیں، ان میں مودی کے خلاف غیر مہذب لفظ کا استعمال پارلیامنٹ میں رننگ کمنٹری کرنے اور بدھوری کو اُکسانے کی بات کہی جا رہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس گھیرا بندی میں کنور دانش کو ہی زد میں لے لیا جائے، مودی ہے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے کا نعرہ اندھ بھگت یوں ہی نہیں لگایا کرتے ہیں
خبر یہ بھی ہے کہ کنور دانش علی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں ایسے میں کنور دانش علی کے اس بیان کو غلط نہیں کہا جا سکتا کہ ایک لنچنگ ان کا پارلیامنٹ میں ہوا اور دوسرا لنچنگ سڑکوں پر ہوجائے گا
واقعہ یہ ہے کہ اسپیکر کو اس معاملہ میں جس قدر جلدممکن کاروائی کرنی چاہیے تھی، وہ دِکھ نہیں رہی ہے،کوئی تو ہے اس پردۂ زنگاری میں جس نے اسپیکر کو بھی بے دست وپا کر رکھا ہے۔
Pingback: انڈیا بھارت اور ہندوستان ⋆