زندہ و جاوید لاش
زندہ و جاوید لاش
( اسلام میں سب سے پہلے سولی کی سزا پانے والے صحابی رسول ﷺ )
حضور رحمت عالم ﷺ اپنے عاشقوں کے جھرمٹ میں موجود تھے۔ اچانک حضور کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:
” و علیکم السلام و رحمة اللہ“۔
صحابہ کرام نے بڑی حیرانی سے پوچھا:
یا رسول اللہ ﷺ ! یہاں نہ کوئی آیا ہے نہ گیا ہے، پھر آپ نے کسے اتنی بلند آواز سے سلام کا جواب عنایت فرمایا ؟
حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میراحبیب اور تمھارا بھائی خبیب ابن عدی کو ابھی ابھی دشمنوں نے سولی پہ لٹکا دیا ہے۔ شہید ہونے سے پہلے اس نے اس طرح سلام پیش کی تھی: ”اے میرے رب! یہاں تیرے سوا کوئی ایسا نہیں، جو میرا آخری سلام تیرے رسول ﷺ تک پہنچا دے۔ میرے مولی ! میرا سلام تو ہی اپنے حبیب تک پہنچا دے“۔ (کرامات صحابہ: ص ، 122)
حضرت خبیب انصاری (رضی اللہ تعالی عنہ) کے مختصر حالات اور واقعہ شہادت:
آپ مدینہ منورہ کے قبیلہ اوس کے انصاری صحابی ہیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے۔ خبیب بن عدی بن مالک بن عامر بن مجدعہ بن جحجبی ( جح جبی) بن عوف بن کلفہ بن عوف بن عمرو بن عوف بن مالک بن الاوس الانصاری الاوسی ۔
(اسد الغابہ فی معرفة لاصحابة متعلقہ حرف الخاء)
حضرت خبیب ابن عدی انصاری سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے دوستوں میں سے تھے۔ شہادت کا مختصر پس منظر یہ ہے ۔
انھوں نے جنگ بدر میں دل کھول کر داد شجاعت دی تھی۔ مشہور سردار قریش ”حارث بن عامر” حضرت خبیب ہی کی تلوار سے تہ تیغ ہوا تھا۔
سنہ 4 ہجری میں مکہ اور عسفان کے بیچ کہیں پر کافروں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔ گرفتار کرنے والوں نے حضرت عاصم بن ثابت اور کئی دوسرے صحابہ سمیت آپ کو مکہ میں فروخت کر دیا۔ حضرت خبیب انصاری کو اسی حارث بن عامر کے بیٹوں نے خرید لیا۔ گھر لا کر آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دی ، ریت پر لٹایا ، کوڑے مارے گئے
آخر کار زنجیروں میں جکڑ کر بھوکے پیاسے اندھیری کوٹھری میں ڈال دی۔ ایک عرصہ بعد جب دشمنوں نے قید سے باہر نکالا تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ آپ پہلے سے زیادہ تر و تازہ تھے۔
قید خانے میں عمدہ موسمی اور غیر موسمی پھلوں کے خوشے ، چھلکے اور بیج پڑے تھے۔
حارث بن عامر کی ایک بیٹی مسلمان ہو گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں:
“لقد و جدته يوما ياكل قطفا من عنب في ىده. و انه لمؤثق في الحديد. و ما بمكة من تمرة“.
ترجمہ : میں نے ایک دن خبیب کے ہاتھ میں تازہ انگور دیکھا ، حالاں کہ وہ بھاری بھرکم زبجیروں سے جکڑے تھے اور نہ ہی اس وقت پورے عرب میں کہیں انگور دست یاب تھا۔
(مسند احمد: 2 ، 295)
نماز عشق ادا ہوتی ہے۔۔۔۔:
حارث بن عامر کے بیٹوں نے حضرت خبیب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کو مکہ سے باہر ”تنعیم “ نامی جگہ پر سولی پر لٹکانے کا فیصلہ کیا۔ جب سولی کی طرف لے جایا جا رہا تھا ، اس وقت عاشق رسول ﷺ کی دلیری کا بڑا دل چسپ اور ایمان افروز واقعہ پیش آیا۔
ہوا یہ کہ آپ رضی اللہ عنہ سے آخری خواہش پوچھی گئی۔
حضرت خبیب انصاری نے دو رکعت نماز کی فرمایش کی۔ جب مہلت مل گئی تو انھوں نے اعتدال سے نماز پڑھی اور خود ہی سولی کی طرف چل پڑے۔ کسی نے آواز لگائی، اتنی جلدی نماز مکمل کر لی ؟
اس موقع پر حضرت خبیب ابن عدی انصاری نے جو تاریخی جملہ کہا تھا ، وہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ حضرت خبیب نے کہا تھا:
”اے گروہ کفار ! اس نماز میں چاشنی تو اتنی تھی کہ میں چاہتا تھا ایک ہی سجدے کو قیامت تک لمبا کر دوں ؛ لیکن اس خوف سے جلدی نماز مکمل کردی ، کہیں تم یہ نہ سوچ لو کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا چاہنے والا ڈر پوک ہے اوموت سے ڈر کر نماز لمبی کر رہا ہے“۔
(اسد الغابہ : حرف الخاء ، ص ، 339)
سولی پر چڑھنے سے عین پہلے عاشق رسول ﷺ حضرت خبیب نے ان فصیح الفاظ میں دعا کی :
” اللهم احصِھم عددا ، و اقتلھم بددا ، و لا تبقهم احدا “
ترجمہ : اے اللہ ! ان سب کو گن گن کر ہلاک کر، کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑنا!
(مسند احمد: 2 / 294)
مورخین لکھتے ہیں، اس دعا کا یہ اثر ہوا کہ سال بھر بھی نہ بیت پایا تھا کہ سب کے سب ہلاک ہو گئے۔
زندہ و جاوید لاش:
دشمنوں نے سولی پہ چڑھا کر لاش کو یوں ہی لٹکتا چھوڑ دیا۔ شہادت کے بعد حضرت خبیب انصاری کی لاش سے خون کے قطرے ٹپکتے رہے ، دن ڈھلتے رہے ، راتیں گزرتی رہیں۔
ایک دن حضور رحمت عالم ﷺ نے مدینہ میں صحابہ کرام کو جمع کر کے فرمایا:
مقام تنعیم پر میرے خبیب کی لاش سولی پر لٹک رہی ہے۔ جو مسلمان اس کی لاش اتار لائے گا ، میں اس کے لیے جنت کا وعدہ کرتا ہوں۔ ؎
جہاں بانی عطا کر دیں ، بھری جنت ہبہ کر دیں
نبی ﷺ مختار کل ہیں ، جس کو جو چاہیں عطا کر دیں
یہ مژدئہ جاں فزا سن کر حضرت زبیر بن عوام اور حضرت مقداد ابن اسود (رضی اللہ تعالی عنھما) تیز گھوڑوں پر روانہ ہوئے۔ راتوں کو سفر کرکے جب اس مقام پر پہنچے تو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ چالیس دن کا عرصہ گزر چکا تھا؛ لاش اب بھی تر و تازہ تھی ، زخموں سے تازہ خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ دونوں صحابہ کرام نے حضرت خبیب بن عدی کی لاش کو سولی سے اتارا اور آگے بڑھے۔
حارث بن عامر کے بیٹوں کو اس بات کی خبر لگ گئی۔ انھوں نے 70 ساتھیوں کے ساتھ پیچھا کیا۔ حضرت زبیر اور حضرت مقداد نے دیکھا کہ دشمن بہت قریب آ چکے ہیں۔
خدا نخواستہ دشمن کے نرغے میں پھنس گئے تو وہ خبیب کی لاش کے ساتھ بڑی بے حرمتی کریں گے ؛ دونوں نے لاش مبارک کو زمین کے ایک گوشے میں رکھ دینے کا فیصلہ کیا ۔ پر وردگار عالم کی نرالی شان دیکھیے کہ زمین ایک دم پھٹ گئی اور قبر نما گڈھا نمودار ہوا۔ حضرت خبیب کی لاش رکھتے ہی زمین بالکل ہموار ہو گئی اور شگاف کا نشان تک باقی نہ رہا۔
نبی کریم ﷺ کے سامنے اس عجیب و غریب واقعہ کا ذکر کیا گیا تو آپ کی چشمان مبارک تر ہو گئیں۔ حضور ﷺ نے حضرت خبیب کے لئے رو رو کر دعائیں کی اور انھیں ”بلیع الارض “ کا خطاب دیا۔
(رضی اللہ تعالی عنھم )
🖊️ انصار احمد مصباحی
دار العلوم رضاے مصطفٰی، اورنگ آباد
aarmisbahi@gmail.com/9860664476