انتخابات میں بیانیہ کی اہمیت اور اس کی سیاست 

Spread the love

انتخابات میں بیانیہ کی اہمیت اور اس کی سیاست 

غالب شمس قاسمی ✍️

ان دنوں نظریات کے بجائے بیانیہ کی سیاست کافی مقبول ہوئی ہے، اس میں الفاظ کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے

یہی الفاظ ان سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا ہتھیار اور سیاسی آلہ کار ہے۔ عوام کی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کے لیے انہی الفاظ کے استعمال سے پالیسیوں کے لیے بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے، اور چوں کہ سب کچھ جھوٹ اور فرضی حقائق پر مبنی ہوتا ہے جسے عرف عام میں پروپیگینڈا کہا جاتا ہے

اور جس کا بنیادی مقصد ہی عوام کو دھوکا دینا ، اور اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ اسی لئے چاہے وقتی طور پر مخصوص سیاسی اہداف حاصل ہوجائیں

لیکن بہت جلد حقیقت آشکار ہو جاتی ہے، اور پھر جھوٹے بیانیہ اور پروپیگنڈہ کی عمر دراز نہیں ہوتی، نتیجتاً جلد یا بدیر وقت کے ساتھ اپنی موت مرجاتا ہے، 

ہندوستان میں انتخابی عمل کا جب سے آغاز ہوا ہے، ہر جماعت اپنا بیانیہ طے کرنے میں مصروف ہے، یہ کشاکشی کا عمل، کرسی کی منتہائے سیاست سیاست دان اور پارٹی کو کس حد گرا سکتی ہے، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں، 2024 کا یہ انتخاب جس کا انتخابی عمل سات مرحلوں میں مکمل ہونا ہے

اور اب تک پانچ مرحلوں میں نصف سے زائد سیٹوں پر رائے شماری ہوچکی ہے، اس نے ملک کا سیاسی منظرنامہ بالکل بدل کر رکھ دیا ہے، ملک میں سب کچھ حکمراں جماعت کے مطابق چل رہا تھا، لیکن حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ جو کرسی و طاقت کے نشے میں چور تھے، ان کے قدم ڈگمگا گئے، دو مرحلے کے بعد ملک کی انتخابی سیاست نے ایک دل چسپ موڑ لے لیا، اور بر سرِ اقتدار پارٹی نے کرسی بچانے کے لیے مندر مسجد، منگل سوتر، ہندو مسلمان کا مذہبی کارڈ کھیلنا شروع کیا

حزب اختلاف کا کھل کر پلٹ وار، ان کی خود اعتمادی، اور اتحاد نے عوام کو بھی جوش وخروش اور امید سے بھردیا، یا کہہ لیں کہ اس بار عام آدمی پر رام مندر اور ” ہندو خطرے میں ہے “ کا سحر سامری اثر انداز نہیں ہوسکا، زعفرانی سیاست، اور قومی میڈیا کے دوغلا پن نے پورے ملک کے ماحول میں نفرت کا زہر گھول دیا تھا، دس سالوں میں ان کی ذہنی و فکری پستی اور عوام کے استحصال نے انہیں بیک فٹ پر لا کھڑا کیا، 

اسی لئے اس بار روزگار اور بڑھتی قیمتوں کے بجائے مذہبی برانگیختگی کو انتخابی موضوع بنایا اور مودی کو ایک اوتار اور بھگوان کے روپ میں پیش کرنا شروع کیا، کہ تقدس کی چادر اوڑھ کر لوگوں کی جان بھی لے لیں گے تو عام آدمی چپ رہ جائے گا،زعفرانی میڈیا کے ذریعے مودی کی گارنٹی کی خوب تشہیر کی گئی، گویا کہ    

ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کی گارنٹی تو ہے، لیکن ان کی زبان کی کوئیگ ارنٹی نہیں

کب کیا بول جائیں، رو پڑیں، کسی عظیم طاقت کے ہونے کا اشارہ دینے لگیں، وہ بھی نہیں جانتے، در اصل مودی اور ان کی پارٹی سیاسی بیانیہ سیٹ کرنے اور نیریٹو پھیلانے میں ماہر ہیں، اور اس میں بی جے پی کا کوئی مقابلہ نہیں ہے

اس سلسلے میں انڈیا اتحاد بہت پیچھے تھی، لیکن انتخابی دور شروع ہوتے ہی سب کچھ بدلنے لگا، ملکی آئین کی تبدیلی کی بات نے بی جے پی کو بیک فٹ پر لا کھڑا کیا، وہ چاہ کر بھی نئے بیانیہ کا اثر زائل نہیں کرسکی

اور صفائی دیتی رہی کہ وہ آئین میں کوئی تبدیلی نہیں کرےگی، اس انتخاب میں راہل گاندھی کے پلٹ وار، اور تیز و تند انداز نے عام آدمی کو بھی پر اعتماد کردیا کہ اگر انڈیا اتحاد جیتی تو حکومت ٹھیک ہی چلے گی، اگر ہار بھی گئی تو مضبوط اپوزیشن لیڈر تو ملے گا ہی۔

چناں چہ حالیہ دنوں میں کانگریس بھی بیانیہ طے کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے،سمجھوتوں کی سیاست سے کنارہ کش ہوگئی ہے، ذرا سا غور کرنے والا شخص یہ بات بآسانی سمجھ جائے گا کہ کہ متحدہ پارٹی ( این ڈی اے) اور انڈیا اتحاد کی سیاست میں واضح فرق ہے، بی جے پی منفی بیانیہ سیٹ کرنے میں ماہر ہے، وہ ڈر کا سیاست کرنا جانتی ہے، اب تک وہ اسی دم پر جیتتی آئی ہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہیں آئی تو ہندو خطرے میں آجائے گا، رام مندر پر بابری تالا لگ جائے گا, دلتوں کا حصہ چھین کر مسلمانوں کو دے دیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ، لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ڈر اور خوف کا ماحول زیادہ دنوں تک نہیں رہتا، اس کے مضبوط بیانیہ کے باوجود اب عام آدمی اور کٹر ہندو اور عقیدت مندوں کے درمیان سے بھی آوازیں بلند ہونی شروع ہوگئیں ہیں، کٹر وادی اور ہندوتوادی کو ان کے بیانیہ کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے اور سبز باغوں کا خواب بکھرنے سے مایوسی پھیل گئی ہے، ، 

وہ بھی سمجھ گئے ہیں کہ ان کا استحصال کیا گیا ، ان کے مذہبی عقائد اور جذبات کو سیاست کے بہانے پراگندہ کیا گیا، انہیں عبادت گاہ کے نام پر بے وقوف اور مذہب کے نام پر ہراساں کیا گیا ہے، اسی لئے گودی میڈیا اور بی جے پی آئی ٹی سیل کی لاکھ جتن کے باوجود مودی کا سحر ٹوٹتا نظر آرہا ہے،س ان کی سیاست اور طرز حکمرانی سے کافی بے چینی اور نا امیدی کا پہلو نمایاں نظر آرہا ہے، 

یہی وجہ ہے کہ حکومت اور عوام میں خلیج بڑھ گئی، این ڈی اے کو بھی اس بات کا شدت سے احساس ہے، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ ہر انتخابی تقریر میں پھسل رہے ہیں، خود کو جھوٹا ثابت کر رہے ہیں، ڈر کا ماحول بنانا چاہ رہے ہیں، مذہبی کارڈ بھی کھیل رہے ہیں، لیکن زمینی سطح پر خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پا رہی ہے، ان کی سب سے بڑی طاقت قومی میڈیا تھی، اس کو گودی میڈیا سے موسوم کرکے ان کی کمر توڑ دی ہے، انہیں حاشیہ پر لا کھڑا کیا ہے، وہ جماعت کہ لوگ اس کو جاوداں سمجھنے لگے تھے، اس کے بنائے ماحول میں دہشت کی زندگی میں گھٹ گھٹ کر جی رہے تھے، ایک جھونکے نے سب برابر کردیا، 

جس نے دعویٰ کیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں، عید کے موقع پر کھانا مسلم گھروں سے آتا تھا، جس نے کہا کہ اگر وہ ہندو مسلم سیاست کرے تو سمجھ جائیں کہ وہ ساروجنک جیون، (عام زندگی) نہیں جی رہا ہے، ماقبل کی تقاریر کو چھوڑئیے، اگلے ہی دن اپنی بات کو جھوٹا ثابت کردیا، ایسے میں کیا ہی دیر پا اثر ڈال پائیں گے، ان کے اندر کا خوف، اور پارٹی کا خلفشار صاف دکھائی دے رہا ہے، اور پھر منفی بیانیہ کی خاص بات یہ ہوتی ہے اس کے اثرات جلد یا بدیر لیکن ختم ہوتے ہی ہیں، اسی لئے آج نہیں تو کل ہونا تھا، اور اب ہو رہا ہے

مسلمان ان کی کشمکش سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، کرسی کی اس جنگ میں چاہے جو جیتے وہ تو بس مست تماشائی ہے، اور متحدہ صورت میں ووٹنگ کر رہا ہے، اور بیداری کا مظاہرہ کر رہا ہے جو اس کے خوش آئند مستقبل کی نوید ہے۔

اپوزیشن پارٹیاں خاص طور پر آر ایس ایس کے سلسلے میں چشم پوشی سے کام لیتی تھی، اس نے نرم ہندو توا ایجنڈا اپنانے کی بھرپور کوشش کی

کانگریس نے راشٹریہ سویم سیوک کے نظریات کو ہدف ملامت نہیں بنایا، لیکن اب وہ سمجھ گیا کہ دو طرفہ کھیل میں ہار یقینی ہے، ماقبل کے دونوں لوک سبھا انتخاب میں اس تذبذب اور منافقت نے کافی نقصان پہنچایا، اسی لئے انہوں نے اپنے انتخابی لائحہ عمل میں بڑی تبدیلی کی، نہرو کے نظریات کو ان دس سالوں میں خوب تنقید کا نشانہ بنایا گیا

بر سرِ اقتدار جماعت نے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ گاندھی اور نہرو کے سوشلزم اور سیکولر ازم نے ملک کو نقصان پہنچایا، اور اس بیانیہ کے پس پشت میں اپنی بے شمار خامیوں اور ناکامیوں کو چھپایا، اس سلسلے میں کانگریس گھبرا گئی، اور سپر انداز ہوگئی، لیکن اب سب کچھ بدل چکا ہے ، راہل گاندھی بے خوف آر ایس ایس پر نشانہ سادھ رہے ہیں

ان کی آئیڈیالوجی پر تنقید کر رہے ہیں، ملکا ارجن کھڑگے نے بھی آر ایس ایس پر کھلی تنقید کی، بلکہ اب تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے اندرون سے بھی سنگھ کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے۔

یہ سب کچھ اسلیے ممکن ہوا کہ عوام بلند حوصلہ رہی، حالات کے سامنے ڈٹ گئی، اور پروپیگنڈہ کے کھیل کو ناکام بنادیا، وہ سمجھ گئی کہ جمہوریت کو آر ایس ایس اور مودی سے خطرہ ہے، ان کے نزدیک طاقت ور اور صاحب ثروت اشرافیہ کے مفادات کی بس اہمیت ہے، خود انحصاری کے بجائے خیراتی قسم کے منصوبوں کی لالچ دی جا رہی ہے، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع چھینے جا رہے ہیں

انہیں جھوٹے بیانیہ کے جال میں پھنسایا گیا، لیکن اب ان بیانیہ کی مدت پوری ہوچکی ہے، اس کے بالمقابل انڈیا اتحاد نے متوازی بیانیہ متعارف کرایا، اور زمینی حقائق اور عوام کے مسائل و ضروریات کو اپنا مدعا بنایا، اور عزم و حوصلہ کے ساتھ مقابلے کے لیے ڈٹ گئے

کیوں کہ عزم و حوصلہ ہمیشہ بڑا کردار ادا کرتا ہے، آپ کا حوصلہ مند ہونا محال میں بھی امکان نکال لیتا ہے، اورڈر اور خوف بدیہیات اور یقینیات کو بھی متزلزل کردیتا ہے

بہر کیف: ملک کے انتخابی ماحول میں میں ہمارے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، اور ہمیں اس صاف فضا نے کافی پر امید اور حوصلہ مند بنادیا ہے، اور ان شاءاللہ یہی امید انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔

One thought on “انتخابات میں بیانیہ کی اہمیت اور اس کی سیاست 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *