معرکہ کربلا تاریخ کے تناظر میں
معرکہ کربلا تاریخ کے تناظر میں !
مکرمی!نواسئہ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے لخت جگر حضر امام حسین اورآپ کے جاں نثار ساتھیوں کی 10محر م الحرام کو (کربلا کے میدان میں)شہادت واقع ہو ئی ہے اوریہ واقعہ تاریخ اسلام میں قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہے کیوں کہ آپ کی یہ جنگ حق اور باطل کے درمیان رسول اللہ کے لائے ہوئے دین مبین کی بقاء کی خاطر تھی ۔
اللہ نے آپ کے ذریعہ اس دین مبین کو ایسی بقاء عطافرمائی کہ آج تک نہ کوئی اس دین حق کو مٹا سکا ہے اور نہ کوئی صبح قیامت تک اس دین کو مٹانے کی جرأت کر سکتا ہے کیوں کہ اس دین حق کا حامی و ناصر اللہ رب العزت خود ہے ۔اپنے دونوں نواسوں حسنین کریمین کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے تاج دار کائنات حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حسن اور حسین دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں تھے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ داخل ہوئے میں نے دروازے سے دیکھا کی کہ حسین آپ کے سینے پر چڑھے ہوئے کھیل رہے تھے ۔حضور علیہ السلام کے دست مبارک میں مٹی کا ایک ٹکڑا تھااور آپ کے آنسوں جاری تھے جب حسین رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے،تو میں اندر داخل ہوئی اور میں نے عرض کی یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ قربان ہوں ۔میں نے دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں مٹی کاایک ٹکڑا ہے اور آپ رو رہے ہیں ۔
یہ سن کر آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جب میرے سینے پر حسین کھیل رہے تھے تو میں خوش تھا ۔اتنے میں حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے وہاں کی مٹی دی جہاں حسین کو شہید کیا جائیگامیں اس لئے رو رہا تھا۔بہرحال امیر معاویہ کی وفات کے بعد رجب 60ھ ۔680ء میں یزید بن معاویہ خلیفہ مقرر ہوا اس کی عمر 24 سال تھی ۔حضرت امیر معاویہ یزید کی خلافت کیلئے اپنی حیات میں ہی سب سے بیعت لے چکے تھے سوائے مکہ اور مدینے کے مقتدر حضرات جن میں حضرت امام حسین، عبد اللہ بن زبیر ،عبد اللہ بن عمر ،عبد اللہ بن عباس ،اور عبد الرحمان بن ابی بکر نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا تھا ۔ باپ کے بعدجب یزید تخت نشین ہواتو یزید کو تخت نشین ہوتے ہی سب سے پہلے ان حضرات سے بیعت لینے کی فکر ہوئی۔
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- مسلم نوجوانوں پر نصیحتوں کا پہاڑ
یزید نے مدینہ کے حاکم ولید بن عقبہ کو خط لکھاکہ امیر معاویہ کی موت اور میرے تخت نشیں ہونے کا کسی کو علم ہو اس سے پہلے تم حسین بن علی اور عبد اللہ بن زبیر سے جس طرح بھی ممکن ہو میری بیعت حاصل کر لو !اس فرمان کے حاصل ہوتے ہی ولید بن عقبہ نے حضرت امام حسین اور عبد اللہ بن زبیر کو اپنے پاس بلایا ۔یہ دونوں حضرات اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ولید کے پاس پہنچے ،ولیدنے امیر معاویہ کی وفات کی ان حضرات کو خبر دی اور یزید کے حق میں بیعت کی خواہش ظاہر کی ۔
یہ سن کر حضرت امام حسین نے فرمایا مجھ جیسے لوگ چھپ کر بیعت نہیں کیاکرتے سب کو جمع کرو اور مجمع عام بیعت لوولید امن پسند حاکم تھا یہ جواب سن کر خاموش ہوگیا اور حضرت امام حسین وہاں سے رخصت ہونے لگے تو مروان نے ولید سے کہا کہ اگر تم نے ان سے آج بیعت نہیں لی توپھر کبھی موقع نہیں مل سکے گا یا تو ان سے زبر دستی بیعت لو یا پھر بیعت نہ کرنے کا ان سے انتقام لو!مروان کے یہ جملے سن کر حضرت امام حسین نے پیچھے کو پلٹ کر کہا دوسروں کو بزدلانہ مشورہ کیوں دیتے ہو اگر ہمت ہے تو خود ہی مقابلہ پر آجائویہ حسینی جذبات سن کر مروان گھبرا گیا اور حضرت امام حسین کی خوشامد کر نے لگا بہر حال حضرت امام حسین اور عبد اللہ بن زبیروہاں سے واپس آگئے اور حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے مع متعلقین مکہ کوجانے کی تیاری شروع کردی
حضرت عبد اللہ بن زبیر اسی رات ہی مدینہ سے مکہ کو روانہ ہوگئے مگر حضرت امام حسین ایک یا دو دن کے بعد روانہ ہوئے،روانگی سے قبل حضرت امام حسین مع اہل و عیال اپنے نانا جان تاجدار کائنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضئہ مبارک پر حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا اور مدینہ سے جدائی کا غم لیکر اہل بیت کا یہ چھوٹا سا مقدس قافلہ مدینہ سے مکہ کیلئے روانہ ہو گیا۔
کوفیوں کی طرف سے خطوط کا ملنا:-
عراقیوں کی حالت بہت عجیب تھی یہ ایک طرف امیر معاویہ کے بہت بڑے مخالف اور دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سچا عاشق بن کر دکھا تے تھے لیکن جب امیر معاویہ سے مقابلہ کا وقت آتا تو یہ میدان سے بھاگتے ہوئے نظر آتے ،لیکن جب بھی ان کو موقع ملتا تو یہ عاشقان اہل بیت بن کر میدان میں ضرور آجایا کرتے تھے خواہ ان کو میدان چھوڑنا ہی کیوں نہ پڑے ۔
یزید کی تخت نشینی کے بعد یہ عاشقان علی ایک بارپھر میدان میں آگئے اور انہوں نے حضرت امام حسین کے مکہ پہنچنے کے بعد سینکڑوں خطوط بھیج کر حضرت امام حسین سے درخواست کی سارا عراق آپ کے ساتھ ہے کوفہ آکر ہم سب مسلمانوں کو یزید کی ناپاک حکومت سے بچا لیجئے ،اور کوفیوں کا ایک وفد بھی اپنا معروضہ لیکر امام حسین کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اہل کوفہ اور پورا عراق آپ کے ساتھ ہے آپ ہمارے ساتھ چل کر حکومت سنبھال لیجئے۔حضرت امام حسین نے ان کا یہ جوش وجذبہ دیکھ کر خود جانے کے بجائے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ مسلم بن عقیل وہاں کا معائنہ کرکے صحیح حالات سے مطلع کریں۔
ہزارہا کوفیوں کابیعت کرنا:-
مسلم بن عقیل نے کوفہ پہنچ کر مختار بن عبید ثقفی کے یہاں قیام کیا اور کوفی گروہ در گروہ مسلم بن عقیل کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور مسلم بن عقیل کو یقین دلایا کہ ہم حضرت امام حسین پر اپنا جان و مال سب کچھ قربان کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں اُس وقت کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر تھے ان کو معلوم ہوا کہ یزید کی حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے مختار بن عبید کے گھر پر مسلم بن عقیل کے ذریعہ سازشیں ہورہی ہیں ، تو نعمان حاکم نے مختار اور دوسرے لوگوں کو آگاہ کیا کہ وہ اس فتنہ پردازی سے باز آجائیں لیکن انہوں نے کوئی سخت قدم نہیں اُٹھا یا ۔نعمان کی اس تنبیہ کے بعد مسلم بن عقیل ہانی بن عروہ کے مکان پر منتقل ہو گئے اور یہاں اٹھارہ ہزار کوفیوں نے مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر حضرت امام حسین کی خلافت کیلئے بیعت کر لی ،یہ عقیدت و محبت دیکھ کر مسلم بن عقیل نے امام حسین کوخط لکھاکہ یہاں ہر طرح سے حالات ساز گار ہیں اٹھارہ ہزارکوفیوں نے میرے ہاتھ پر آپ کے حق میں بیعت کرلی ہے آپ تشریف لے آیئے۔
مسلم بن عقیل اور کوفہ کے حاکم کا مقابلہ :-
ہزار ہا کوفیوں کا امام حسین کے حق میں بیعت کر نا بہت نازک مسئلہ تھا کوفہ کے جاسوسوں نے ایک دم یہ خبر یزید کو دے دی یہ خبر ملتے ہی یزید گھبرا گیا اور یزید نے بصرہ کے حاکم عبید اللہ بن زیاد کو حکم دیا کہ فوراً کوفہ پہنچ کر اس فتنہ کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور مسلم بن عقیل کو یا تو کوفہ سے نکال دو یا قتل کر و!عبیداللہ بن زیاد بہت ہی ظالم و جابر شخص تھا اس نے کوفہ آکر اعلان کر دیا کہ جو بھی مسلم بن عقیل کو اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو پناہ دیگا اس کو سولی پرلٹکا دیا جائیگااور اس نے مسلم بن عقیل کو تلاش کرنا شروع کردیا یہ خبر ملتے ہی ہانی بن عروہ نے مسلم بن عقیل کو دوسری جگہ منتقل کر دیاابن زیاد کو معلوم ہوا کہ مسلم کو پناہ دینے میں ہانی کا ہاتھ ہے تو ابن زیاد نے ہانی بن عروہ کو گرفتار کرالیا
اور کہا کہ مسلم کو ہمارے حوالہ کرو ہانی نے ابن زیاد سے منع کردیا کہ وہ کسی بھی حالت میں اپنے مہمان کو آپ کے حوالہ نہیں کریں گے یہ الفاظ سن تے ہی ابن زیاد نے غصہ میں آکر ہانی کو بری طرح مار پیٹ کر زخمی کیا اور ان کو قید کر دیا۔ہانی بری طرح پٹائی سے زخمی ہو چکے تھے یہ خبر کوفہ میں چاروں طرف پھیل گئی کہ ہانی کو مار مار کر ابن زیاد نے ہلاک کر دیا ہے جب یہ خبر مسلم بن عقیل کو ملی کہ ان کے میزبان کو ان کی وجہ سے ابن زیاد نے قتل کرا دیا ہے اور ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے خاندان اہل بیت کے ایک فرد کو پناہ دی ہے یہ سن تے ہی مسلم بن عقیل کی غیرت ایمانی جوش میں آگئی اور اپنے ساتھ اٹھارہ ہزار کوفیوں کو لیکر میدا ن میں آگئے اور عبیداللہ بن زیاد کو قصرِ امارت میں گھیر لیا ۔
مسلم بن عقیل کی شہادت اور کوفیوں کی غداری :-
عبیداللہ بن زیاد کیلئے یہ بہت ہی دشوار وقت تھا اس کے پاس صرف پچاس آدمی تھے اور حفاظتی انتظامات بھی مکمل نہیں تھے ابن زیاد نے کوفہ کے سرکردہ حضرات پر زور دیا کہ وہ اپنے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو واپس بلائیں اور اعلان کریں کہ جو شخص امیر کی اطاعت کریگا اسے انعام سے نوازہ جائیگا اورجو مخالفت کریگا اس کو سخت سزادی جا ئیگی،اس اعلان کو سن تے ہی تمام عاشقان اہل بیت جو امام حسین کے حق میں مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے ان کا جوش و جذبہ ٹھنڈا ہو گیا اور مسلم بن عقیل کے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد ابن زیاد کی دھمکی سے ڈر کر مسلم بن عقیل سے الگ ہوگئی
اور کچھ لوگوں نے سرکردہ حضرات کے کہنے پر انعام کے لالچ میں آکر مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا غرض کہ اٹھارہ ہزارکے مجمع میں سے صرف تیس آدمی اُن کے ساتھ باقی بچے ،اس طرح کوفیوں نے غداری کر کے اپنی قدیم روایت کو زندہ کیا ،مسلم بن عقیل نے جب کوفیوں کی غداری دیکھی تو پہلے آپ نے ایک مکان میں پناہ لی لیکن غداروں نے اس مکان بھی پتہ بتا دیا اورابن زیاد کی فوج نے اس مکان کوچاروں طرف سے گھیر لیا
آپ نے اپنے آپ کو گھرا ہوا دیکھ کر جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فوج سے مقابلہ شروع کردیا تیس آدمی جو آپ کے ساتھ باقی رہ گئے تھے وہ بھی فرار ہوگئے اور آپ اکیلے لڑتے رہے یہاں تک آپ زخموں سے چور ہوکر گر پڑے اورآپ کو گرفتارکر کے ابن زیاد کے سامنے لایا گیا توابن زیاد نے آپ کو قتل کرا دیا ۔آپ نے شہادت سے قبل عمربن سعدجو ان کا قریبی عزیز اور اموی حکام میں سے تھا اس کو یہ وصیت کی امام حسین کویہاں کے تمام حالات و واقعات سے آگاہ کردیں اور ان کو راستہ سے ہی واپس کر دینا۔
امام حسین کی کوفہ کو روانگی :-
کوفہ میں قیامت برپا ہوچکی تھی اور حضرت امام حسین مکہ سے کوفہ کی طرف سفر کی تیاری میں مصروف تھے مسلم بن عقیل کا وہ خط کہ جس میں اٹھارہ ہزار کوفیوں کی بیعت کی خبر تھی اس نے امام حسین کو شک میں ڈال دیا تھا حضرت امام حسین سے محبت کرنے والے لوگ جن میں خاص طور سے عمربن عبد الرحمان ،عبد اللہ بن عباس،عبد اللہ بن زبیر ان سب ہی لوگوں نے آپ کے اس فیصلہ کی مخالفت کی اور آپ کو گذشتہ غداریوں اور دھوکہ دہی کے واقعات یاد دلائے لیکن آپ اپنے ارادے پر قائم رہے ۔
عبداللہ بن عباس نے دیکھا کہ آپ ماننے کو تیار نہیں ہیں اور کوفہ جاکر ہی رہیں گے تو انہوں نے آپ سے گزارش کی کہ اہل عیال کو ساتھ لیکر نہ جاؤ، لیکن اللہ کا حکم کچھ اور تھا ساری کوششیں و تدابیر ناکام ہو گئیں اور حضرت امام حسین کے ارادے میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی بلکہ بعض مئورخوں کا بیان ہے کہ چاہنے والوں نے جب آپ کو کوفہ جانے سے روکنے کی زیادہ کوشش کی تو امام حسین نے فرمایا کہ نانا جان نے مجھے بذریعہ خواب یہی حکم دیا ہے کہ میں اس کو پورا کروں!اورمیرا سر جائے یا رہے۔
بہرحال آپ اپنے چاہنے والے عزیزوں اور رشتہ داروں کو روتا ہوا چھوڑ کر اہل بیت کے مختصر قافلہ کو لیکرذی الحجہ60ھ کو کوفہ کیلئے روانہ ہوئے۔
حضرت امام حسین اور یزیدی فوج :-
امام حسین راستہ میں ہی تھے کہ کوفہ سے آنے والے لوگوں نے مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر دی یہ خبر سن کر آپ کو بے حد رنج وغم ہوا اور ساتھ میں چلنے والوں نے مشورہ دیا کہ یہیں سے کوفہ جانے کا ارادا ملتوی کر دیا جائے لیکن مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے کہا کہ ہم واپس نہیں ہوں گے یاتو ہم اپنے بھائی کا بدلہ لیں گے یاہم بھی اپنی جانیں قربان کردیں گے اور سفر جاری رہااس قافلہ کو آگے چل کر عمربن سعد کا بھیجا ہوا قاصد ملا جو مسلم بن عقیل کی وصیت کے مطابق امام حسین کو کوفہ جانے سے روکنے کیلئے آرہا تھا
آپ نے اس سے حالات معلوم کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مسلم بن عقیل اور ہمدرد ساتھیوں کو شہید کردیا گیا ہے کوفیوں نے اپنا وعدہ توڑ دیا ہے حالات نازک ہیں تم میں سے جو بھی واپس جانا چاہے جا سکتا ہے آپ کے اس فرمان کے بعد جو لوگ راستہ میں سے شامل ہوئے تھے واپس ہوگئے۔ابن زیاد کو مکہ سے امام حسین کی روانگی کی خبر ہوچکی تھی اس نے حُر بن تمیمی کو ایک ہزار کا لشکر لیکر امام حسین کے مقابلہ کے لیے روانہ کیااور حکم دیا کہ امام حسین اور ان کے ساتھیوں کو گھیر کر میرے پاس لے آئو!۔
حُر کے دل میں امام حسین کی بہت زیادہ محبت وعظمت تھی حُر نے امام حسین کے قافلہ کو گھیر کر ان کوموقع دیا کہ وہ رات کے وقت کسی اور طرف نکل جائیں لیکن امام حسین نے کسی اور طرف جانا گوارہ نہیں کیا اور یہ قافلہ آگے کو بڑھتا رہااور یہ مقدس قافلہ 2محرم الحرام 61ھ کوکربلا کے میدان میں خیمہ زن ہو گیا۔3محرم کو عمربن سعد بھی چار ہزار کا لشکر لیکرامام حسین سے مقابلہ کیلئے کربلا کے میدان میں پہنچ گیا ،یہ امام حسین کا عزیز تھا مگر اس کو رَئے کی حکومت کا لالچ دیکر بھیجا گیا تھا ۔
عمر بن سعد کیلئے یہ امتحان کا وقت تھاسوچنے لگا کہ اگر امام حسین اور انکا قافلہ اس کے ہاتھ سے مارا جاتا ہے تو وہ قیامت تک کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہیگا اور اگر جنگ سے بھاگتا ہے تو رَئے کی حکومت ہاتھوں سے جاتی رہے گی۔عمر بن سعد نے سوچا کہ کسی بھی طرح آپس میں سمجھوتا کر ادیا جائے لیکن اس کی یہ تمام کوششیں ناکام ہوئیں اور 7محرم کو ابن زیاد کی طرف سے اسے حکم ملا کہ دریا پرپہرا لگا دو تاکہ اہل بیت کو پانی بھی میسر نہ ہو سکے ،لیکن پہرے کے باوجود بھی امام حسین کے سوتیلے بھائی عباس بن علی لڑجھگڑکر پانی لے ہی آتے تھے ۔
شمر سے مقابلہ :-
ابن زیاد کو عمر بن سعد پر شک ہو گیا کہ یہ امام حسین سے ملا ہوا ہے اس لئے ابن زیاد نے شمر ذی الجوشن کو امام حسین کے مقابلہ کیلئے بھیجااور عمر بن سعد کو لکھا کہ تم نے حسین سے مصالحت کیلئے کئی دن برباد کر دئے ہیں میرے اس حکم کے ملتے ہی یاتو حسین سے بیعت لیکر میرے پاس لے آؤ یا پھرجنگ شروع کردو۔
عمر بن سعد کو 9محرم کو جب یہ حکم ملا تو اس کے دل کی حالت بھی بدل گئی اور دنیا دین پر غالب آگئی۔اور رَئے کی حکومت کے لالچ میں سعد نے امام حسین اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا شروع کردیا حضرت امام حسین پر زور دیا گیا کہ وہ یزید کی خلافت قبول کرلیں اور اس کیلئے آپ کے گھر والوں کو طرح طرح سے ستایا گیا ،معصوم بچوں کو پانی سے تڑپایا گیا ، عورتوں کے خیموں کو آگ لگانے کی ناپاک کوشش کی گئی مگر حضرت امام حسین کے ارادے ذرہ برابر َسرد نہ ہوسکے اور آپ اپنی بات پر پتھر کی چٹان کی طرح قائم ر ہے۔نہ سختیاں آپ کے قدم پیچھے کو ہٹا سکیں اور نہ دنیوی عیش وآرام آپ کے قدم ڈگمگا سکا آپ برابر یزید کی بیعت سے انکار کرتے رہے۔
امام حسین کی شہادت :-
آخر 10محرم الحرام 61ھ کو حق وباطل کی وہ جنگ چھڑ ہی گئی جس پر انسانیت قیامت تک آنسو بہاکر شرمسار ہوتی رہے گی جنگ شروع ہونے قبل امام حسین نے اپنے بھائیوں ،بیٹوں،بھتیجوں اور ساتھیوں سے کہا کہ میرے ساتھ اپنی جانوں کو قربان نہ کرو لیکن مردوں ،عورتوں اور بچوں نے آپ کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا ۔آپ کی بہن حضرت زینب نے جب بھائی اور پورے خاندان کو جنگ کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو رونیں لگیں آپ نے انکو تسلی دی اور صبرسے رہنے کو کہا ،جنگ شروع ہوگئی
ایک طرف حضرت امام حسین کے قافلہ میں 72 افرادجن میں 22اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین،اور غلام چھوٹے اور بڑے تین روز سے بھوکے پیاسےشامل تھے اور دوسری طرف چار ہزار پر مشتمل یزیدی لشکر تھا یزیدی لشکر جب ان معصوموں کی جانب بڑھنے لگا تو تو یزیدی فوج کے ایک نیک دل سردار حُر نے اسے روکناچاہا لیکن لشکر نہیں رکا تو حُر اور اس کے چند ساتھی امام حسین کی حمایت میں لڑنے لگے اور لڑکر جان دیدی ۔
امام حسین کے قافلہ میں اگر چہ گنے چنے آدمی تھے وہ بھی تین دن کے پیاسے تھے لیکن ان میں سے ہر ایک نے جرأت و بہادری کی ایسی مثال پیش کی جسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جاسکتا ان میں سے ایک ایک یا دودو مجاہد آگے کو بڑھتے اور یزیدی لشکر کو چیر تے ہوئے آگے کو بڑھتے چلے جاتے جب حسینی قافلہ کے اکثر لوگ شہید ہوگئے تو حضرت امام حسین کے صاحبزادے حضرت علی اکبر،عبداللہ بن مسلم اور جعفرطیار کے پوتے عدی میدان کار زار میں آئے اور یہ بھی شہید ہوگئے ۔
ان کے بعد عبد الرحمان بن عقیل حضرت امام حسن کے صاحبزادے قاسم اورابو بکر نے جام شہادت نوش فرمایا ۔آخرمیں حضرت امام حسین خود میدان عمل میں آئے تو یزیدیوں نے چاروں طرف سے تیروں کی برسات شروع کردی ۔حضرت امام حسین زخموں کی کثرت کی وجہ سے نڈھال ہو چکے تھے کہ اُسی وقت ایک بد بخت نے ایسا تیر مارا کہ آپ کا چہرہ بھی لہو لہان ہوگیا اور آپ کے جسم مبارک میں زیادہ طاقت باقی نہ رہی ساتھ ہی یزیدیوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ کی گردن پر کئی وار کرکے اور زخمی کر دیا اور آپ زخموں کی تاب نہ لاکر گِر پڑے آپ کے گِرنے کے بعد خولی نے سر اقدس جسم مبارک سے جدا کر دیا اس طرح حق وباطل کی یہ جنگ اس دردناک سانحہ پر ختم ہو گئی ۔شہادت کے دوسرے دن شہداء کی لاشیں دفن کی گئیں
حضرت امام حسین کا سر مبارک ابن زیاد کے پاس کوفہ روانہ کر دیا گیا تھا اس لئے آپ کے جسم مبارک کو بغیر سر کے ہی دفن کیا گیا ۔الغرض ان کے ناناجان کا لایا ہوا دین آج بھی باقی ہےاورصبح قیامت تک اس دین کے اسی طرح چرچے ہوتے رہیں گےاورجو بھی اس دین کی پناہ میں آجایے گا ۔
اللہ رب العزت اس کو بھی دارین کی عزتیں عطافرمایئگا۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمارے اندر بھی حسین جیسا جذبہ ایمانی پیدا فرمائے تاکہ ہمارا ظاہر وباطن ہر طرح کے لہو لعب و فسق وفجور سے پاک وصاف ہو ،حسینی اخلاق و روح ہمارے اپر غالب آجائے اور یزیدیت جیسے نفس کا خاتمہ ہو جائے ۔مسلمانوں کو چاہئےکہ دس محرم الحرام کواہل بیت و شہدائے کربلاکی بار گاہ میں خراج عقیدت پیش کرکے دارین کی سعادتیں حاصل کریں۔آمین
از۔۔۔۔۔محمد محفوظ قادری
رام پور یو۔پی 9759824259
Pingback: نانا کا کلمہ پڑھنے والوں نے نواسے کو شہید کیا ⋆ اردو دنیا تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: فکر اسلامی کی تشکیل اور پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ ⋆ تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
Pingback: واقعۂ کربلا کا درسِ زرّیں ⋆ افکار رضا غلام مصطفٰی رضوی
Pingback: محرم کی بے جا رسمیں اور ان کا شرعی حکم ⋆ از قلم : محمد دانش رضا منظری
Pingback: معرکہ کربلا مسلمانوں کے لیے درس عبرت ہے ⋆ اردو دنیا محمد مقصود عالم قادری
Pingback: راہِ خدا میں گھر کو لٹایا حسین نے ⋆ اردو دنیا مفتی نورمحمدقادری حسنی
Pingback: دین خدا کی شان بڑھائی حسین نے ⋆ اردو دنیا تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: محرم الحرام اور حالات حاضرہ ⋆ افکار رضا از قلم: محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی
Pingback: فضائل اہل بیت اطہار،قرآن وحدیث کی روشنی میں ⋆ اردو دنیا محمد محفوظ قادری
Pingback: امام عالی مقام مختصر سیرت و کردار ⋆ اردو دنیا از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
Pingback: حضور مفتی اعظم ہند اور خدمتِ خلق ⋆ افکار رضا افتخار احمد قادری برکاتی
Pingback: حضور مفتئ اعظم ہند علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات ⋆ افکار رضا آصف جمیل امجدی
Pingback: جمعہ کی فضیلتیں ⋆ افکار رضا ⋆ تحریر: فہیم جیلانی مصباحی
Pingback: حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر ⋆ از قلم: مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی
Pingback: حضرت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمۃ غلام مصطفیٰ رضوی
Pingback: تارک جمعہ کادردناک انجام ⋆ افکار رضا ⋆ محمد شمس تبریز علیمی
Pingback: مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ چند درخشاں پہلو ابوہریرہ رضوی مصباحی
Pingback: شارح بخاری اور مشائخ مارہرہ مطہرہ ⋆ افکار رضا از قلم : شیخ منتصر احسنی
Pingback: شارح بخاری اور مشائخ مارہرہ مطہرہ ⋆ اردو دنیا از قلم : شیخ منتصر احسنی
Pingback: اعلیٰ حضرت اور حضور اشرفی میاں مراسم و تعلقات کے آئینے میں غلام مصطفیٰ رضوی
Pingback: رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی کچھ یادیں کچھ باتیں محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی
Pingback: فروغ رضویات میں حضرت علامہ ارشد القادری کا کردار محمد ابوہریرہ رضوی مصباحی
Pingback: سفر کے اسلامی آداب اور احتیاطیں افکار رضا ⋆ از : محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
Pingback: اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ احوال و آثار ⋆ افکار رضا ازقلم :محمدابوہریرہ رضوی مصباحی
Pingback: اعلی حضرت اور نظریہ حرکت زمین ⋆ افکار رضا تحریر: سلیم رضا عطاری
Pingback: امام احمد رضا خان اور فن شاعری ⋆ افکار رضا از قلم : محمد جنید رضا
Pingback: صورتِ خورشید تاباں میرا مارہرہ رہے ⋆ افکار رضا شکر گزار : شاداب امجدی برکاتی
Pingback: محسن انسانیت مصطیٰﷺ جان رحمت از: محمد مقتدر اشرف فریدی
Pingback: عید میلاد النبی ﷺ اس طرح منائیں ⋆ افکار رضا ⋆ از : ڈاکٹر محمد رضا المصطفی
Pingback: نور محمدی کی آمد اور برکتوں کا ظہور ⋆ افکار رضا
Pingback: مختصر حالات امام مسلم نیشاپوری قدس سرہ العزیز ⋆ توصٰف رضا قادری
Pingback: ساری مخلوقات کی اجتماعی عید ⋆ افکار رضا تحریر: مفتی محمدشمس تبریزقادری علیمی
Pingback: پیغمر اسلام ﷺ اور حقوق انسانی کا تحفظ ⋆ افکار رضا از : سید اکرام الحق مصباحی
Pingback: مختصر تعارف مدقق العصر علامہ امام قاضی بیضاوی رحمۃ اللّٰہ علیہ ⋆
Pingback: عید میلاد منانا قسمت میں لکھا ہے ⋆ افکار رضا شاداب امجدی برکاتی
Pingback: احترام سادات،حیات اعلیٰ حضرت کا درخشندہ پہلو ⋆ از:محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
Pingback: مطلع حجاز پر آفتاب رسالت ﷺ کی جلوہ گری ⋆ افکار رضا علامہ قمرالزماں خان اعظمی
Pingback: محسن انسانیت اور حقوق حیوان ⋆ افکار رضا از : حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
Pingback: حافظ ملت تعلیمی ماحول میں ⋆ افکار رضا ⋆ علامہ محمد احمد مصباحی
Pingback: ایک غلط فہمی کا ازالہ معذور کون ⋆ افکار رضا محمد رضوان احمد مصباحی
Pingback: مرتد ہوتی اسلامی بہنوں کا ذمہ دار کون ⋆ محمد توصیف رضا قادری علیمی
Pingback: مختصر احوال استاذ العلما حضرت علامہ مفتی غلام یسین نوری ⋆ توصیف رضا قادری
Pingback: روز جمعہ ایک عظیم نعمت ہے،اس کی قدر کریں ⋆ ہاشمی رضا مصباحی
Pingback: مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی خدمات ⋆ مفتی محمدشمس تبریز علیمی