تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

Spread the love

تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے ؟

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

ہمارے ایک فیس بکی دوست ہیں ڈاکٹر عارف الاسلام، موصوف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاذ ہیں۔غیر منقسم ہندوستان اور تقسیم وطن کی تاریخ پر تحقیق وتجزیہ کا اچھا شعور رکھتے ہیں۔موصوف نے کچھ وقت پہلے اپنی وال پر اپنے کسی دوست قمر نقیب خان کی ایک تحریر شئیر کی تھی۔جس میں صاحب تحریر نے امام جلال الدین سیوطی کی کتاب الحاوی للفتاوی کے اس اقتباس پر اعتراض کیا ہے جس میں آپ نے قبر رسول ﷺ سے سلام کا جواب آنے کا ذکر کیا ہے۔

کسی بھی عالم/مصنف کی کتاب پر تنقید ہرگز معیوب نہیں لیکن انداز تنقید بہرحال شائستہ اور مہذب ہونا چاہیے لیکن عصری اداروں سے وابستہ دانش وروں کا انداز گفتگو دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی، موصوف کا پہلا پیراگراف کچھ اس طرح ہے:

“جلال الدین سیوطی بھی اپنے زمانے کا جھوٹا مولوی تھا۔”

بعد میں ذکر کردہ روایت پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“رسول اللہ کی قبر پر کوئی سلام کرے تو جواب کی آواز نہیں آ سکتی جب تک قبر کے اندر ایمپلی فائر سپیکر سسٹم نہ لگا ہو۔ویسے بھی یہ بات دین اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے۔”

آگے لکھتے ہیں:

“اس وقت موجودہ فرقے رسول اللہ ﷺ کو قبر میں اسی طرح زندہ مانتے ہیں جیسے وہ مرنے سے پہلے زندہ تھے۔”

اختتامی تبصرہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں: “اس کے باوجود اگر کوئی شخص بضد ہو تو ساری دنیا کے علما و مشائخ جمع کرکے قبر رسول پر لے جائے، بین الاقوامی میڈیا کو بھی جمع کرلے اور قبر سے آواز نکال کر دکھائے۔

اس پوسٹ پر خود کو دانش ور سمجھنے والے دیگر کئی افراد نے بھی تبصرے کئے ہیں۔پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ساجد علی تبصرہ کرتے ہیں:

“سیوطی کافی بڑا لپاٹیہ تھا۔”

ڈاکٹر عارف الاسلام نے تبصرہ کیا: “بخاری کو جھوٹا نہیں بل کہ سازشی کہا ہے۔”

جمشید پور کے رہائشی اور اے ایم یو ہی کے فارغ التحصیل مشتاق خان لکھتے ہیں:

“مابعد خلفاے راشدین تواریخ، واقعات ، تصوّف، کرامت، خرق عادت، تعبیر ، تشریح جیسی ذاتی فطور کو تقدّسی ہالہ پہنا کر باضابطہ داخل به اسلام کیا گیا یہاں سے اسلام کی تضحیک شروع ہوئی۔اس کے نتیجے میں کُچھ اور نئی ہستیاں شامل ہوئیں جس سے شخصیت پرستی کو اور وُسعت حاصل ہوئی۔نئے نئے دیر و حرم کی تعمیر ہوئی ،اُن کا طواف مثل کعبہ قرار دیا گیا ، اور اُن کی پُوجا عبادت خداوندی کے مماثل قرار پائی۔”

اس کے علاوہ مختلف دانش وروں نے اپنی اپنی آرا کا اظہار کرتے ہوئے جس لب ولہجے کو اختیار کیا ہے وہ نہایت سوقیانہ ہے۔

قلمی آوارگی

زیر بحث تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ ناقد سماع موتیٰ کو درست نہیں مانتا۔حالانکہ یہ اعتراض کوئی نیا نہیں ہے بل کہ سماع موتیٰ پر زمانہ ماضی سے اختلاف چلا آیا ہے لیکن جس ہلکے انداز اور گھٹیا اسلوب میں قمر نقیب صاحب نے اعتراض کیا ہے وہ ان کی ذہنی ساخت اور فکری تربیت کا پتا دیتا ہے۔اگر موصوف کو سماع موتی یا اس روایت پر اعتراض ہی مقصود تھا تو مذکورہ روایت کی تردید پر کچھ آیات وروایات پیش کر دیتے، لیکن آنجناب نہایت سستا تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

“رسول اللہ کی قبر پر کوئی سلام کرے تو جواب کی آواز نہیں آ سکتی جب تک قبر کے اندر ایمپلی فائر سپیکر سسٹم نہ لگا ہو۔”

پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے دیگر دانش وروں نے علامہ سیوطی اور امام بخاری پر “لپاٹیہ اور سازشی” جیسے نہایت بھدے جملے کسے، اور احترام علما کو پوجا پاٹ قرار دیا۔

قمر نقیب صاحب کی قلمی آوارگی کا یہ نمونہ بھی دیکھیں، لکھتے ہیں: “اس وقت موجودہ فرقے رسول اللہ ﷺ کو قبر میں اسی طرح زندہ مانتے ہیں جیسے وہ مرنے سے پہلے زندہ تھے۔”

ہم قمر نقیب سے پوچھتے ہیں کہ کیا رسول اللہ ﷺ کی جناب میں استعمال کرنے کو “جیسے وہ مرنے سے پہلے زندہ تھے” جیسا عامیانہ جملہ ہی رہ گیا تھا؟ کیا اسی مفہوم کو زیادہ بہتر لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا تھا؟

مہذب معاشرے میں تو عام لوگوں کے لیے بھی “مر گیے، مردہ ہیں، لاش میں بدل گیے، مرنے کے بعد” جیسے الفاظ کی جگہ “انتقال کر گیے، گزر گیے، انتقال کے بعد، چلے جانے کے بعد” جیسے مہذب الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں لیکن یہ دیکھ کر بے حد افسوس ہوا کہ جو لوگ خود کو زبان وتہذیب کا ٹھیکے دار سمجھتے ہیں ان کے پاس علما تو ایک طرف اپنے پیغمبر کی ذات کے لیے بھی الفاظ کی قحط سالی اور محتاجی پائی جاتی ہے۔

خالی الذہن ہوکر سوچیے! مذکورہ اعتراض اور اس پر ان “دانش وروں” کے تبصرے کسی بھی جہت سے پڑھے لکھے لوگوں کے لگتے ہیں؟

اب تک اس انداز کے لیے لکھنؤ کے بھٹیارے ہی بدنام تھے، خیر سے اب انہیں ٹکر دینے کے لیے یونیورسٹی کے فیض یافتگان آگے آئے ہیں امید ہے یہی روش برقرار رہی تو جیت بھی جائیں گے۔

خلاف عقل چیزوں کا ثبوت

ویسے تو سماع موتیٰ پر ہمارے اکابرین نے اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ مزید کی ضرورت نہیں، اور اس تحریر کا مقصد اول بھی سماع موتی کا اثبات نہیں بل کہ نام نہاد دانش وروں کی فکری بے لگامی کو دکھانا مقصود ہے۔لیکن اگر ناقد اور ہم نواؤں کو لگتا ہے کہ امام سیوطی کی مذکورہ روایت اس لیے قبول نہیں ہے کہ وفات یافتہ انسان کا کلام کرنا خلاف عقل ہے تو انہیں مشورہ ہے کہ سورہ بقرہ آیت نمبر 60، سورہ اعراف آیت نمبر 107، پڑھیں اور بتائیں کہ کیا لکڑی کے بے جان ڈنڈے کا زندہ اژدہا بن جانا، دریا میں راستہ بنا دینا عقلاً ممکن ہے؟ سورہ صافات کی آیت نمبر 142 پڑھیں اور بتائیں کہ کیا مچھلی کے پیٹ میں جاکر انسان کا زندہ رہ پانا ممکن ہے؟ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 49 پڑھیں پھر بتائیں کہ مٹی کی مورت کو پھونک مار زندہ پرندہ بنانا اور مُردوں کو زندہ کرنا، کیا یہ امور عقلاً ممکن ہیں؟

سورہ یوسف کی آیت نمبر 94 پڑھیں اور بتائیں کہ کیا انسان سیکڑوں میل دور سے کسی کے لباس کی خوشبو سونگھ سکتا ہے؟ اسی سورہ کی آیت نمبر 95 پڑھیں اور اپنے بند دماغ سے سوال کریں پھر بتائیں کہ صرف کرتا چہرے پر ڈال دینے سے آنکھوں کی روشنی واپس آسکتی ہے؟

اس طرح ایک نہیں درجنوں مثالیں قرآن پاک میں موجود ہیں، اگر احادیث طیبہ کو بھی شامل کرلیں تو تعداد سیکڑوں میں پہنچ جائے۔جب بحکم خداوندی انبیاے کرام کی لاٹھی، زندہ مخلوق بن سکتی ہے، پھونک مار کر مٹی کو پرندہ بنایا جا سکتا ہے، کرتا چہرے پر ڈال دینے سے بینائی آ سکتی ہے تو رسولوں کے سردار تاج دار کائنات ﷺ نے بعد وفات کلام کر لیا تو حیرت وتعجب کیا ہے؟

رہا یہ سطحی سوال کہ دنیا بھر کی میڈیا جمع کر کے روضہ رسول پر جمع کی جائے اور پھر کوئی قبر رسول سے آواز نکال کر دکھائے! اس پر افسوس کے ساتھ یہی کہا جائے گا کہ معترض کو اتنا بھی شعور نہیں کہ قبر رسول سے آواز کا آنا باہر والوں کی مرضی پر نہیں ہے بل کہ یہ تو حکم الٰہی سے مرضی رسول پر موقوف ہے۔ہاں اگر موصوف کو لگتا ہے کہ جو کام عقلاً ممکن نہیں ہے اس کا ثبوت/وجود پایا ہی نہیں جاسکتا تو اتر پردیش کے امروہہ شہر میں واقع شاہ ولایت کی درگاہ پر دنیا کے زہریلے سے زہریلے بچھو کو لے جائے، درگاہ احاطے میں پہنچتے ہی بچھو ڈنک مارنا بند کر دیتا ہے، اور جیسے ہی درگاہ احاطے سے باہر نکلتا ہے ڈنک مارنا شروع کر دیتا ہے۔بچھو کا چھیڑنے کے باوجود ڈنک نہ مارنا عقلاً ممکن نہیں ہے لیکن مذکورہ آستانے پر یہ ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے۔اس واقعہ کا تجربہ انٹرنیشنل میڈیا سالوں پہلے کر چکی ہے اور اب بھی جس کا دل چاہے اس کا تجربہ کر سکتا ہے۔جب محمد عربی ﷺ کے غلاموں کے آستانوں کا یہ حال ہے تو خود اس ہادی اعظم کا مقام ومرتبہ کیا ہوگا؟

افسوس صد افسوس !

درس گاہوں میں بیٹھ کر نقد وتبصرہ کے آداب و انداز پڑھانے والے، مختلف فورموں پر سنجیدہ اسلوب نگارش کی بات کرنے والے دانش ور دوسروں کی ہلکی پھلکی تنقید کو بھی شدت پسندی اور جہالت سے تعبیر کرتے ہیں لیکن جب خود کسی پر تنقید کرتے ہیں تو شرافت و شائستگی کا بنیادی سبق بھی بھول جاتے ہیں اور وہ انداز اختیار کرتے ہیں جسے پڑھ/سن کر لکھنوی بھٹیارے بھی شرما جائیں۔احساس برتری کے خمار میں مخمور اس طبقے کو چاہیے کہ پہلے بات کرنے کا سلیقہ وشعور سیکھے پھر اہل علم کے کلام پر نقد کرے۔

کون سی بات کہاں، کیسے کہی جاتی ہے

یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے 

 

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *