یونیورسٹی علما کے لیے سراب ہے
یونیورسٹی علما کے لیے سراب ہے
محمد شاہد علی مصباحی
یونیورسٹی پہنچ چکے اکثر فارغین مدارس بے بنیاد احساس کم تری کا شکار ہیں۔ اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ایسی چیز کی وجہ سے احساس کم تری کے شکار ہیں جس سے ان کا دور دور تک کوئی علاقہ ہی نہیں۔ مثلاً: انگریزی بولنے والوں، علم حساب کے ماہرین، علم جغرافیہ کے جاننے والوں سے احساس کمتری شکار ہو رہے ہیں۔
جبکہ یہ خود علم نحو، صرف، منطق، فلسفہ، فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث، مناظرہ، عربی فارسی، اردو وغیرہ علوم کے جاننے والے ہیں۔ اگر یہ ان کو ایک علم میں ماہر دیکھ احساس کم تری کا شکار ہو رہے ہیں تو اِنہیں اپنے متعدد علوم پر دسترس احساس برتری کے لیے کافی ہے۔
لیکن افسوس! یہ یونیورسٹی والوں کو دیکھ کر اپنے علوم بھول ہی جاتے ہیں اور اُن کے رنگ میں رنگ کر خود بھی احساس کمتری کے شکار ہوتے ہیں اور مدارس پہنچ کر وہاں کے طلباء کو بھی اسی ‘بے بنیاد احساس کمتری’ کا شکار بنانے کی انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔ جگہ جگہ تقریریں کرکے، وقتاً فوقتاً مضمون نویسی کرکے وہ ہر حال میں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ “ہم یونیورسٹی آکر سمجھے کہ دین کچھ نہیں ہے، اصل کامیابی تو یونیورسٹی کی زندگی اور پیسہ کمانا ہی ہے”۔
آپ کو بڑا عجیب لگ رہا ہوگا کہ آج مولانا کس طرح کی باتیں کرنے لگے! مگر آج اس بات کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ان خود ساختہ کامیاب لوگوں نے طلباء مدارس کے درمیان مادیت پرستی کا ایسا زہر گھولنا شروع کردیا ہے جس سے دینی حمیت کی روح کا قتل ہو رہا ہے اور ہم تماشائی بنے ہوے ہیں۔
وہ دینی قلعوں میں آکر طلبا کے سامنے دین بیزاری پر لیکچر دے رہے ہیں اور ہم تالیاں بجا رہے ہیں، وہ دینی تعلیم کے نصاب کو سرے سے خارج کرنے کی بات کر رہے ہیں اور بڑے بڑے دینی اداروں کے ذمہ داران ان کی تعریفوں کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔
اگر یہی حال رہا تو فرمان باری تعالیٰ: “وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴) ترجمہ: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو دین کی طرف بلائے، اچھی بات کا حکم دے، بری بات سے منع کرے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں”۔
کی پکار سن کر مدارس اسلامیہ کا رخ کرنے والوں اور دین کی خدمت و تبلیغ کا جذبہ لے کر مدارس اسلامیہ میں اپنی زندگی کے قیمتی دس بارہ سال دینے والوں کی زندگی کا مقصد ہی فوت ہو کر رہ جائے گا۔
تعجب ہوتا ہے ان کے فکری دیوالیہ پن پر کہ خود رب کائنات جن کی کامیابی کا “وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ” کے ذریعے ببانگ دہل اعلان فرما رہا ہے، یہ لوگ اس جماعت کو ناکام و نا مراد ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔
طالبان علوم نبویہ کو مادہ پرست بنانے کی کوشش :
طلبا یا فارغین مدارس کو مادّہ پرستی کی طرف لانا دین کو کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ایک پروگرام میں راقم خود موجود تھا، وہاں تقریریں کیا ہوئیں اور ان کا مثبت و منفی اثر کتنا ہوا اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ آج میں اس پروگرام کے بعد طلبا کے ساتھ ہوئی ایک میٹنگ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ایک طرف ایک بڑے ادارے کے کثیر طلبا (جن کی علمی لیاقت کا لوہا مانا جاتا ہے۔) بیٹھے ہوے تھے۔
دوسری طرف مدرسہ سے فارغ ہوکر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ایک خود ساختہ روشن خیال تشریف فرما تھے۔
اب سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا، اور رات کے پروگرام کا اتنا گہرا اثر ان طلباء پر ہوا ہوگا یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اکثر طلباء کے سوالات پیسے کے ارد گرد گھومتے نظر آئے۔
یونیورسٹی جا کر کتنے پیسے کما سکتے ہیں ؟ کس کورس میں کتنا پیسا ہے ؟ کیا کریں کہ کم از کم پچاس ہزار کما سکیں ؟
بس اسی کے ارد گرد سوالات کا دائرہ تھا، یہی کوئی کم بات نہ تھی کہ ایک پروگرام نے طلباء کو مادیت کا ایسا شیدائی بنادیا کہ جو دین کی خدمت کرنے آئے تھے وہ پیسے بنانے کی فکر میں لگ گئے۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟
کیا ان طلباء کو اپنا مقام و مرتبہ نہیں معلوم ؟
کیا ان طلباء کی تربیت نہیں ہو رہی ؟ کیا ان طلباء کو یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ تم قوم کی ٪100 آبادی میں سے صرف 00.5 فی صد یا اس سے بھی کم تعداد میں ہو جو عالم دین بنتے ہو۔
تمھارا مقصد پیسے کمانا نہیں! بلکہ تم فرمان خداوند قدوس: “وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ”۔ کے حاملین ہو اور حقیقی کامیابی کا سہرا تمھارے ہی سر ہے ؟
میرا ذہن انہیں سوالات کی آماجگاہ بناہوا تھا کہ اچانک ایک طالب علم کے سوال نے میرے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، یونیورسٹی کا خمار ایسا چڑھا کہ وہ طالب علم یہ سوال کر بیٹھا: “تخصص فی الفقہ کس یونیورسٹی میں کیا جا سکتا ہے؟”
یہ سوال میرے کانوں پر قیامت بن کر ٹوٹا اور مجھے حیران کرگیا کہ دنیا بھر کے انگلی میں گنے جانے والے فقیہ حضرات کی صحبت و معیت و شاگردی کا شرف رکھنے والے طلباء اس طرح کا سوال کر سکتے ہیں؟
اس پر یونیورسٹی میں پڑھنے والے کا جواب ایسا تھا کہ قوت برداشت جواب دے گئی اور میں کچھ مجبوریوں کا لحاظ کرتے ہوے وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ کیوں کہ ماسٹر فیاض صاحب کا جملہ یاد آگیا تھا : تاج محل دیکھو نہ دیکھو، مگر موقع محل ضرور دیکھو”.
جواب تھا: ” ویسے تو تخصص فی الفقہ کے اچھے اساتذہ یونیورسٹیز میں نہیں ہیں نہ حیدرآباد میں، نہ دہلی میں، نہ جامعہ میں، نہ اے ایم یو میں مگر پھر بھی آپ اگر تخصص فی الفقہ کرنا چاہیں تو اے ایم یو میں بہتر رہے گا”. وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اگر یونیورسٹی جاکر دماغ ایسا ماؤف ہو جاتا ہے تو میں طلباء کرام کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ میرے پیارو! دین حق کے پہرے دارو! کبھی یونیورسٹی کا رخ مت کرنا۔
اگر یونیورسٹی جا کر وہ فقیہ جن کی فقاہت کا دنیا اعتراف کرتی ہے وہ آپ کی نظر میں آپ کے قول کے مطابق کام چلاؤ کورس کرانے والے پروفیسر کے قد سے بونے نظر آنے لگتے ہیں تو معاف کیجئے گا آپ اپنے آپ کو عالم کہنا بند کردیں۔
ان سیدھے سادھے طلباء مدارس کو پیسا کمانے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور جب وہ دین کی بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے پہلے پیسہ کماؤ بعد میں دین کی تبلیغ کرنا۔ “یونیورسٹی جاکر پیسہ کما ہی لیں گے اس کی کیا گارنٹی ہے جبکہ بڑی تعداد میں یونیورسٹی والے خود بے روز گاری میں نوکری تلاش کرتے ہوے در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔
اگر پیسہ کما بھی لیا تب بھی یہ کہنا کہ یہ لوگ قوم اور دین بچائیں گے، یہ ایک کھلا فریب ہے۔ میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ایک سروے کرالیں کہ آپ اور آپ کے ہمنوا ڈاکٹرز، پروفیسرز، انجینئرز، وکلاء حضرات نے ڈھیر ساری دولت جمع کرنے والوں اور مدارس کے فارغ علماء میں سے کس نے دین و ملت کا کام زیادہ کیا ہے تو آپ کے دعوے ہوا میں غائب ہوتے نظر آئیں گے۔
اگر پروفیسر حضرات چاہتے تو اپنے اپنے علاقے کو اچھے اسکولوں سے آراستہ کردیتے۔
اگر ڈاکٹر حضرات چاہتے تو اپنے اپنے علاقوں کو میڈیکل کالجز سے سجا دیتے۔
اگر انجینیر حضرات چاہتے تو اپنے علاقے کو انجینیرنگ کالجز کی سوغات دیتے۔
اگر وکیل حضرات چاہتے تو اپنے علاقے کے طلباء کو لاء کالیجز کا تحفہ پیش کرتے۔
مگر خوب پیسا ہونے کے باوجود ہماری نظروں نے ایسا نہ دیکھا۔ اگر یہ لوگ اپنا صرف وہ پیسا لگا دیتے جو ٹیکس میں سے این جی اوز کو دینے کی حکومت اجازت دیتی ہے تو ان کی جیب سے بھی خرچ نہ ہوتا اور نہ جانے کتنے اسکول و کالیجز بن گئے ہوتے۔ مگر ان کو توفیق ہی نہ ہوئی۔ تو یہ کہنا کہ یونیورسٹی جاکر پروفیسر بن کر دین کی خدمت کر لوگے یہ کسی سراب سے کم نہیں۔
یہ تو خیر ! بڑی بات ہے ان میں پیسہ خرچ ہوتا ہے اگر یہ یونیورسٹی والے چاہتے تو اپنے اپنے علاقے کے اسکولی طلباء کی رہنمائی کے لیے ایک ایک سنیٹر کھول لیتے جہاں مستقبل میں دینا بھر میں پیدا ہونے والی ڈیمانڈ کے مطابق یہ لوگ بچوں کی تعلیمی رہنمائی کر دیتے تب بھی قوم اس حالت میں نہ ہوتی۔
مگر ان سے خود تو کچھ ہوتا نہیں، ساتھ میں جو فارغین مدارس قوم کے لیے کچھ کر رہے ہیں ان کو بھی راہ سے ہٹا کر اپنے ساتھ ملانے چلے ہیں۔
اللہ رحم فرمائے بڑا نازک دور ہے مدارس پر۔
آج کل ہر مدرسہ میں اتنی ہندی، انگریزی اور حساب کی تعلیم ہوتی ہے جتنی ایک عالم دین کو آج کے ماحول میں کام کرنے کے لیے ضروری ہے۔
جس طرح اہل مدارس نے اپنے نصاب میں ضروری ہندی، انگریزی اور حساب شامل کیا ہے، اسی طرح اگر ڈاکٹرز، پروفیسرز، انجینئرز، وکلاء اپنے اسکول و کالجز بنا کر ان میں دینیات شامل کرلیتے تو کیا ہی بہتر ہوتا۔
اس لیے ان لوگوں کو چاہیے کہ طالبان علوم نبویہ کو اپنے حال پر چھوڑ کر اپنے اپنے گاؤں اور شہر کے اسکولی نوجوانوں کو یونیورسٹی کے جانے کے لیے مضبوط پلان کریں۔
جنہیں اللہ عزوجل نے دین کی خدمت کے لیے چن لیا ہے ان کو دین ہی کا کام کرنے دیں ۔
مدارس کے اساتذہ سے بھی گزارش ہے کہ آپ طلباء کو دینی تعلیم کی اہمیت و افادیت سے بھی آگاہ فرمایا کریں تاکہ بھولے بھالے طلباء کرام کسی کے بہکاوے میں آکر پانے مقصد سے نہ ہٹیں۔
میرا واقعہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور سے دستار ہونے میں دو دن بچے تھے کہ ہمارے مشفق بڑے بھائی جیسے استاد محترم حضرت حضرت مولانا ہارون مصباحی صاحب نے اپنے روم میں بلایا، کئی اور فارغ ہونے والے طلبا تشریف رکھتے تھے۔ حضرت نے سوال فرمایا کہ فراغت کے بعد کیا کرنے کا ارادہ ہے ؟
میرا جواب تھا کہ کوئی کام کروں گا یا والد صاحب کے ساتھ کاشتکاری میں ہاتھ بٹاؤں گا۔ وہیں تشریف فرما حضرت مفتی فیاض صاحب (سانولا رنگ، گول چہرا اور صحت مند جسمانیت کے مالک۔ یہ اس لیے ذکر کر رہا ہوں کہ دوبارہ حضرت سے ملاقات نہ ہوسکی۔) جو ٹریننگ میں پڑھانے کے لیے آئے تھے بول پڑے کہ ایسا ہرگز نہ کریں۔ میں نے کہا کیوں؟
تو حضرت نے فرمایا کہ آپ کسان کے بیٹے ہیں اگر اللہ کو یہی منظور ہوتا کہ آپ کاشتکاری ہی کریں تو وہ آپ کو علم دین عطا نہ فرماتا بلکہ آپ کو ایگریکلچر کی تعلیم ملی ہوتی، اگر خالق کائنات نے آپ کو عالم دین بنایا ہے تو اس کی منشاء یہی ہے کہ آپ دین کی خدمت کریں اور آپ نے یہ حدیث پاک پڑھی: “مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ” اس بات کی تائید وہاں تشریف فرما حضرت مولانا ہارون مصباحی صاحب و حضرت مولانا محمود مصباحی صاحب نے بھی کی۔
ان اساتذہ کی بات سمجھ آگئی اور اسی وقت دین کی خدمت کا ارادہ کرلیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے دین کی جو خدمات کی ہیں ان کو دیکھتے ہوے متعدد ڈاکٹر، انجینیر، پروفیسر، پیر، علماء و عوام، خادم سے محبت سے پیش آتے ہیں۔ تو اساتذہ کو چاہیے کہ طلبا میں خود اعتمادی پیدا کریں ان شاءاللہ تعالیٰ یہ بڑے بڑے کام کرتے نظر آئیں گے۔
انہیں یونیورسٹی کے سراب سے محفوظ رکھیں۔ وہاں اکثر کو دین سے دور ہوتے دیکھا ہے۔ چند دن یونیورسٹی میں گزارنے والے عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے دیکھے جاتے ہیں تو کبھی فلمی اداکاروں کے لیے دعائے مغفرت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں یہی کہا سکتا ہے کہ
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پہ تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں۔
محمد شاہد علی مصباحی
روشن مستقبل دہلی
تحریک علماے بندیل کھنڈ