اسلامی تعلیمات اور ہمارا معاشرہ
از قلم : محمد ہاشم اعظمی مصباحی اسلامی تعلیمات اور ہمارا معاشرہ
اسلامی تعلیمات اور ہمارا معاشرہ
اسلامی معاشرہ قائم کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ شر کے خاتمے اور خیر کے فروغ کر یقینی بنایا جا سکے لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ہر فرد معاشرہ کو اپنی اپنی سطح پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ کیوں کہ اسلام انسانیت کی بقاء، فلاح و بہبود اور ارتقاء کے زریں اصولوں کا امین ہے۔ حق کی پاس داری، انسانی معاشرے میں باہمی حقوق کا احترام اور اعلیٰ اقدار کا قیام و فروغ اسلامی تعلیمات کی بنیادی روح ہے۔
اسلامی تعلیمات کا ایک مفید ترین پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے ہر فرد کو چاہے وہ غریب ہو یا امیر ، مفلس ہو یا نادار ، ایک سادہ زندگی بسر کر نے کی ترغیب دیتا ہے ۔ تاکہ زندگی کے پیچ وخم سے وہ آزاد رہیں۔
مثلا شادی یا نکاح کو اسلامی معاشرہ میں اس قدر سادگی و اختصارکے ساتھ انجام دیا جا نا چاہئے کہ اس میں والدین کا کچھ خرچ ہی نہ ہو، لیکن ہندوستانی مسلم معاشرہ میں شادی بیا ہ کے موقع پر اسلامی تعلیما ت کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور دوسرے سماج کی رسومات کو اپنا یا جا تا ہے۔ لڑکی کے نکاح کے لیے درجنوں قیمتی جوڑے، ہزاروں روپوں کے سونے چاندی کے زیوارات اور ہزاروں ،کبھی کبھی لاکھوں کا جہیز بھی دیا جاتا ہے۔
محلہ والوں کے کھانے کی دعوت اور سیکڑوں افراد پر مشتمل بارات کی خاطر و مدارت الگ کرنی پڑتی ہے۔ اس طرح سے لڑکی کے نکاح میں ہزاروں یا لاکھوں روپے خرچ ہونا عام بات ہے۔ لڑکے کی شادی میں بھی ان گنت رسومات رائج ہیں۔
بینڈ باجے کے ساتھ ایک لائو لشکر کی شکل میں بارات لے جائی جاتی ہے۔ زیور بھی چڑھایا جاتا ہے اور جوڑے بھی دیے جاتے ہیں۔ گویا کہ شریعت نے نکاح کو جس قدر آسان بنایا تھا، مسلم معاشرے نے اسے اسی قدر دشوار یا مہنگا بنادیا۔ ایک غریب و پسماندہ شخص کے لیے اپنے بچوں کا نکاح انتہائی بھاری پڑتا ہے۔
لڑکی والے کو اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز دینا ہوتا ہے، جس کے لیے اسے قرض لینا پڑتا ہے ۔ نہیں تو اس کی لڑکی گھر پر بیٹھی رہتی ہے ، مسلم سماج اسے قبول نہیں کرتا۔ یعنی وہ سماج جو اسلام کے ساتھ علی الاعلان اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے۔ اگرچہ مسلم معاشرہ سے اس برائی کے خاتمہ کے لیے علماء و دانش وران کی جانب سے ان گنت اقدامات اٹھائے جا چکے ہیں لیکن کام یابی ہنوز ندارد۔
اس لیے کہ بہت سے علماء حضرات بھی اس طرح کی بد عت میں ملوث ہیں ۔ ان میں اتنی سکت نہیںکہ وہ عملی طور پر کوئی ٹھوس قدم اٹھا سکیں۔ ڈھیر ساری ہندوانہ رسومات سے مسلم سماج کو پاک صاف کر نے کے لیے ذمہ داران حضرات کو سخت جد وجہد کر نی ہوگی۔
اس کے علاوہ انسانی قدروں و فطرت کے تقاضوں کی بھی آج کے مسلم معاشرے میں کوئی پرواہ نہیں کی جارہی ہے۔ جھوٹ ، وعدہ خلافی، عہد شکنی، مکاری ،دھوکا بازی اور بد عنوانی جسیی چیزوں کو مسلم معاشرے میںخوب پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔
لوگ کھلے عام جھوٹ بولتے ہیں، مگر ان پر نقد نہیں کی جاتی ، عہد و وعدہ کر کے اسے توڑتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی اثر نہیں لیا جاتا ، دھوکہ دیتے ہیں، لیکن یہ بھی کوئی عیب کی بات شمار نہیں کی جاتی ۔
ذرا ذرا سی بات پر مارپیٹ اور قتل عام تک نوبت آجاتی ہے مگر معاشرتی سطح پر ان کی سرزنش نہیں ہوتی ۔مسلم معاشر ہ کیا ہے؟
گویا کہ جھوٹ ، مکاری ، فحاشی، پیٹھ پیچھے برائی ، نا خواندگی ، مفلو ک الحالی ،بری رسومات و بدعات ، گندگی و انارکی کا ڈھیر ہے ۔جہاں ساری برائیاں ہیں وہاں اگر نہیں ہے تو انسانی و اسلامی معاشرت وتہذیب ۔
لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ مسلمانوں کی ملک میںڈھیر ساری مذہبی، ملی وسماجی جماعتیں ہیں، ان گنت مدارس ہیں، علما، حفاظ ہیں ،حجّاج ہیں، نمازیوں کی بھی کافی تعداد ہے ، اگر سب لوگ معاشرہ کے تئیں اپنی ذمہ داری کونبھائیں ،تو یقینی طور سے ان کے درمیان ایک معاشرتی و تہذیبی انقلاب بر پا ہو سکتا ہے
اسلامی معاشرے کا قیام صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ اسلام کے نظامِ قانون میں کوئی ایسی روش پروان نہ چڑھے جس سے افراد معاشرہ کے حقوق پر زد پڑے بلکہ تحفظِ حقوق کی روایت کو فروغ ملے
محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یوپی
Pingback: وارانسی عدالت کا فیصلہ افسوس ناک ہے ⋆ اردو دنیا ⋆ محمد ہاشم اعظمی مصباحی