عیدالاضحٰی اورقربانی کے فضائل ومسائل
عیدالاضحٰی اورقربانی کے فضائل ومسائل از قلم : افتخاراحمد قادری برکاتی
عیدالاضحٰی اورقربانی کے فضائل ومسائل
عیدالاضحٰی اورقربانی کے فضائل ومسائل قربانی کے معنیٰ ہیں وہ چیز جو دوری کو ختم کردے،اور کسی دوسری چیز کے قریب کردے- قربانی کو قربانی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ انسان کو اس کے مقصد کے قریب تر کردیتی ہے-
یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جس قدر قربانی کی صورتیں پائی جاتی ہیں سب میں تقرب کے معنیٰ ملحوظ ہیں- قربانی کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب رونما ہوئے سب نے کسی نہ کسی شکل وصورت میں اس کی تعلیم دی۔
درحقیقت مذاہبِ عالم کی تاریخ ان کے ماننے والوں کے جذبہ قربانی کی رہین منت ہے- مذہبِ اسلام سے پہلے قربانی کا تصور : جب ہم دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے اس خیال کی مزید تائید ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ایران، ہندوستان، روم، عرب، یونان، افریقہ، امریکہ میں قربانی کا عام رواج تھا- بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ قربانی کی رسم کا آغاز دنیا سے رائج ہے تو غلط نہ ہوگا-
البتہ اس سلسلے میں یہ بات خاص طور سے قابلِ لحاظ ہے کہ اس خاص مسئلہ میں قوموں اور ملتوں کا انداز فکر اور ان کا زاویہ نظر ہمیشہ جدا گانہ رہا ہے- جو ان کی توہم پرستانہ ذہنیت کی پوری عکاسی کرتا ہے-
قربانی کی شرعی حیثیت :
مذہبِ اسلام میں قربانی ایک قابلِ فخر اور قابلِ تقلید تاریخی واقعہ کی بہترین یادگار ہے اس سلسلہ میں قرآن مجید نے بتایا کہ: اے میرے رب مجھ کو ایک نیک فرزند دے تو ہم نے ان کو ایک حلیم المزاج فرزند کی بشارت دی-
تو جب وہ لڑکا اپنی عمر کو پہنچا کہ ابرہیم ( علیہم الصلاۃ والسلام) کے ساتھ چلنے پھرنے لگا تو ابراہیم ( علیہم الصلاۃ والسلام) نے فرمایا کہ اے برخوردار! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو باامر الٰہی ذبح کر رہا ہوں، پس تم بھی سوچ لوں کہ تمہاری کیا رائے ہے- وہ بولے کہ ابا جان آپ کو جو حکم ہوا آپ بلاتامل اس کو کیجئے آپ انشاء الله تعالیٰ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے-
غرض دونوں نے خدا کے حکم کو تسلیم کرلیا، اور باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے کروٹ پر لٹایا ( اور چاہتے تھے کہ گلا کاٹ ڈالیں) ہم نے ان کو آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے خواب کو خوب سچ کر دکھایا وہ وقت بھی عجیب تھا ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں حقیقت میں یہ تھا بھی بڑا امتحان اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لئے رہنے دی کہ ابراہیم پر سلام ہو-( مفہوم قرآن)
حدیثِ پاک میں ہے کہ حضراتِ صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہ اجمعین نے بارگاہ رسالت مآب صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم میں سوال کیا: کہ یارسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم یہ قربانی کیا ہے؟
آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے-
مسائلِ قربانی:
قربانی ایک مالی عبادت ہے جو مسلمان، مقیم، مالک نصاب، آزاد پر واجب ہے، جس طرح قربانی مرد پر واجب ہے اسی طرح عورت پربھی واجب ہے، مسافر پر قربانی واجب نہیں اگر نفل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا- (درمختار وغیرہ) مالک نصاب ہونے سے مراد اتنا مال ہونا ہے جتنا مال ہونے سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے-
یعنی حاجت اصلیہ کے علاوہ دوسو درہم ( ساڑھے باون تولہ چاندی) یا بیس دینار ( ساڑھے سات تولہ سونا) کا مالک ہو ( درمختار و عالمگیری وغیرہ)
جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو تو وہ غنی ہے اس پر قربانی واجب ہے- (عالمگیری وغیرہ)
جس پر قربانی صدقہ فطر واجب ہو اس پر بقر عید کے دنوں میں قربانی بھی واجب ہے- اگر وہ صاحب نصاب نہیں اور اس پر صدقہ فطر واجب نہ ہو تو قربانی بھی واجب نہ ہوگی-
تاہم اگر کوئی قربانی کرے گا تو اس کا بہت اجر ملے گا- مسافر، صدقہ دار اور غریب پر قربانی واجب نہیں-
ذی الحجہ کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک قربانی کا وقت ہے- مگر جس قدر جلدی قربانی کی جائے اسی قدر اس کا اجر زیادہ ملے گا-
قربانی کا مالک خود اپنا جانور ذبح کرے اگر خود ذبح نہیں کرسکتا تو اپنے سامنے ذبح کرائے پاس کھڑا رہے- ذبح کرنے سے پہلے چھری کو اچھی طرح تیز کر لینا چاہیے لیکن جانور کے سامنے نہیں-
قربانی صرف اپنی طرف سے ہی واجب ہے اولاد کی طرف سے اس پر واجب نہیں خواہ مال دار ہی کیوں نہ ہو تاہم اگر کوئی اپنی اولاد یا کسی دوسرے شخص کی طرف سے قربانی کرے تو وہ قربانی نفلی ہوگی-
اگر جانور مشترک ہے تو گوشت تول کر تقسیم کیا جائے، اٹکل سے نہ باٹیں کہ اگر کسی کو زیادہ پہنچ گیا تو دوسرے کے معاف کرنے سے بھی جائز نہ ہوگا کہ حق شرع ہے- ( رد المحتار،وبہار)
اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کے گوشت کابھی یہی حکم ہے البتہ اگر میت نے کہا تھا کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس صورت میں کل گوشت صدقہ کردے-
قربانی اگر میت کی ہے تو اس کا گوشت نہ خود کھا سکتا ہے نہ غنی کو کھلا سکتا ہے بلکہ اس کو صدقہ کردینا واجب ہے-( زیلعی، وبہار) قربانی کرنے والا بقر عید کے دن سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے یہ-مستحب ہے- ( بحر الرائق)
قربانی کا گوشت کافر کو نہ دے کہ یہاں کے کفار حربی ہیں- چمڑا، جھول، رسی، ہار سب صدقہ کردے، چمڑے کو خود اپنے کام میں بھی لاسکتا ہے مثلاً جانماز، بچھونا وغیرہ بنا سکتا ہے لیکن بیچ کر قیمت اپنے کام میں لانا جائز نہیں، اگر بیچ دیا تو اس کی قیمت کو صدقہ کردینا واجب ہے- ( درمختار و ردالمحتار)
آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدارس میں دیا کرتے ہیں یہ جائز ہے- اگر مدرسہ میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر اس کی قیمت مدرسے میں دے دیں تو یہ بھی جائز ہے- ( عالمگیری و بہار)
قربانی کا گوشت یا چمڑا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا، ہاں اگر دوستوں کی طرح ہدیتہ حصہ دیا تو دے سکتا ہے جبکہ اسے اجرت میں شمار نہ کرے- (ہدایہ وغیرہ) بعض جگہ قربانی کا چمڑا مسجد کے امام صاحب کو دیتے ہیں اگر تنخواہ میں نہ دیا جائے بلکہ بطورِ مدد کے دیں تو حرج نہیں-( بہار شریعت)
قربانی سے متعلق چند احادیثِ مبارکہ :
قربانی حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی ہے اور نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو قربانی کا حکم دیا گیا
اور ارشاد فرمایا: ،،فصل لربك وانحر ،، اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو- اس کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں ملاحظہ فرمائیں: حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ یوم النحر، دسویں ذی الحجہ میں ابنِ آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے ( قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں ہے-
اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اپنے بال اور اپنے کھروں کے ساتھ آئےگا- اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے- لہٰذا اس کو خوش دلی سے کرو- (مشکوٰۃ شریف،صفحہ نمبر، 128)
ام سلمہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے تو جب تک قربانی نہ کرے بال اور ناخون سے نہ لے ( یعنی نہ ترشوائے) (مشکوٰۃ شریف، صفحہ نمبر،127) حضرتِ علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم سے راوی کہ رسولِ کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم جانوروں کے کان اور آنکھیں غور سے دیکھ لیں- اور اس کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا اگلا حصہ کٹا ہو اور نہ اس کی جس کے کان کا پچھلا حصہ کٹا ہو- اور نہ اس کی جس کا کان پھٹا ہو- یا جس کے کان میں سوراخ ہو-( مشکوٰۃ شریف، صفحہ نمبر،128)
زید بن ارقم رضی الله تعالیٰ عنہ نے روایت کی: صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا کہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے
لوگوں نے عرض کی یارسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا :کہ ہر بال کے مقابل نیکی ہے عرض کی اون( بھیڑ) کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ اون(بھیڑ) کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ہے-( ابنِ ماجہ)
حضرتِ ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے راوی ہے کہ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے-( ابنِ ماجہ)
قربانی کا مقصد :
مذہبِ اسلام میں قربانی کا مقصد گوشت اور خون نہیں ہے بلکہ سیرت انسان کی تکمیل ہے- اور اس کی قبولیت کا دار و مدار تقوی و پرہیز گاری کی بنیاد پر ہے
الله رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ،،لن ينال الله لحومها ولا دمائها ولكن يناله التقوى منكم،، ترجمہ: الله کے پاس نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون لیکن اس کے پاس تمہارا تقوی پہنچتا ہے
قربانی کی مقبولیت بارگاہِ خداوندی میں :
حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ الله رب العزت کو بنی آدم کا کوئی عمل بقر عید کے دن خون بہانے سے زیادہ مقبول نہیں- اور قیامت کے روز قربانی کا جانور اپنے سینگو،بالوں اور کھروں سمیت آئے گا- نیز حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی جنابِ الٰہی میں مقبول ہوجاتا ہے- پس قربانی کے ساتھ اپنا دل خوش کرو- ( ترمذی شریف)
ایک حدیثِ پاک میں ہے کہ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے فاطمہ!( رضی الله تعالیٰ عنہا) اپنی قربانی کے پاس رہو کیونکہ اس کا عوض تیرے لیے یہ ہے کہ اس کے خون سے جو اول قطرہ ٹپکے گا اس کے ساتھ تیرے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں –
حضرتِ فاطمہ( رضی الله تعالیٰ عنہا) نے عرض کیا یارسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم! یہ ثواب صرف ہم اہل بیت کے لئے خاص ہے یا اور سب مسلمانوں کے لیے؟
آپ صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہمارے اور سب مسلمانوں کے لیے-( ترغیب)
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت : عشرہ ذی الحجہ کی حدیث پاک میں بڑی فضیلت آئی، حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ کوئی دن عشرہ ذی الحجہ کے علاوہ ایسے نہیں ہیں جن میں عبادت کرنا الله رب العزت کو زیادہ پسند ہو-
اس عشرہ میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزے کے برابر ہے اور اس کی ہر رات میں جاگنا شب قدر میں جاگنے کے برابر ہے- (ترمذی شریف)
درمنثور کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ الله رب العزت کے نزدیک کوئی دن عشرہ ذی الحجہ سے افضل نہیں-اور نہ کسی دن میں عمل کرنا اس میں عمل کرنے سے افضل ہے-
پس خصوصیت سے ان دنوں میں ،،لا الہ الااللہ،، اور ،،الله اکبر،، کی کثرت رکھو کیونکہ تکبیر و تہلیل اور ذکر الله کے یہ دن ہیں- صوم عرفہ کی فضیلت: ذی الحجہ کی نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے-
حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ میں الله رب العزت سے امید کرتا ہوں کہ عرفہ کا روزہ ایک سال گزشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا-( مسلم) اور ارشاد فرمایا: کہ جس نے عرفہ کا روزہ رکھا اس کے پے در پے دوسال کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں- ایک روایت میں ہے کہ عرفہ کا روزہ ہزاروں کے برابر ہے- ( الترغیب)
تکبیر تشریق :
تکبیر تشریق نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض جماعت کے بعد باآواز بلند کہنا چاہیے- حضرتِ علی المرتضیٰ کرم الله تعالیٰ وجہ الکریم کا یہی دستور تھا-
حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور حضراتِ صحابہ کرام اس کی بڑی پابندی کرتے تھے- اس کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ یہ حضرتِ ابراہیم حضرتِ اسماعیل اور حضرتِ جبرئیل علیہ السلام کے کلمات کا مجموعہ ہے-
منقول ہے کہ جب حضرتِ ابراہیم علیہ السلام نے حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کو زمین پر لٹاکر ان کے گلے پر چھری پھیرنے کا ارادہ کیا تو الله رب العزت نے حضرتِ جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ جنت سے حضرتِ اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ لے کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں تاکہ وہ اپنے بیٹے کی جگہ اس کی قربانی کریں-
جب حضرتِ جبرئیل علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو لٹا چکے ہیں اور چھری پھیرنے ہی والے ہیں تو انہوں نے بآواز بلند ،، الله اکبر الله اکبر،، کہا تاکہ ان کی توجہ ادھر ہوجائے-
ترک قربانی پر وعید:
جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے ایسے شخص کے لیے حدیثِ پاک میں بڑی سخت وعید آئی ہے- جسے پڑھ کر یا سن کر ایک مسلمان کا دل لرز جاتا ہے چناں چہ حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے وسعت رکھتے ہوئے قربانی نہیں کی پس وہ ہمارے میں نہ آئے دور ہی رہے-
کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت، مغربی اتر پردیش
رابطہ: 8954728623
iftikharahmadquadri@gmail.com
Pingback: قربانی کی فضیلت واہمیت اورمسائل و احکام ⋆ اردو دنیا ⋆ از: محمد محفوظ قادری
Pingback: قربانی ہم کیوں کریں ⋆ قمر انجم فیضی
Pingback: عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت اور مسلمانوں کی غفلت ⋆ اردو دنیا
Pingback: حج کے بعد کی زندگی کیسے گزاریں ⋆ محمد توحیدرضاعلیمی