رام کی نگـری سے بھی ہـوئے راندہ درگاہ
رام کی نگـری سے بھی ہـوئے راندہ درگاہ
ز: محمد عظیم فیض آبادی
جـامعہ محمـود للبحـوث والدراسـات الاسـلامـیہ دیـوبنـد
جودھیا فیض آباد لوک سبھا الیکشن میں نہ تو مودی یوگی لہر کچھ کام آئی ، نہ ہی مندر کا شہرہ کارگر ثابت ہوا ، رام کے نام پر سیاسی بازی گری کچھ فائدہ مند ثابت ہوئی ، نہ ہی یہ نعرہ کچھ مفید ثانت ہوا کہ ” جو رام کو لائے ہیں ہم ان کو لائیں گے” ۔
ملک کا ماحول تو چوں کہ بھاجپا کےلوگوں کو بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اب ان کے حق میں زیادہ سازگار نہیں ہے شاید اسی لیے ملک کے سیاسی ماحول کو اپنے چناوی مفاد کے پیش نظر گرمانے کے لیے آدھے ادھورے مندر کا انتہائی جلد بازی میں بہت سے سادھو سنتوں کی مرضی کے خلاف دھوم دھام سے گودی میڈیا کے شورغوغا انتہائی ہنگامے کے ساتھ وقت سے پہلے ہی کردیا گیا تھا ۔
لیکن پھر بھی رام اور اجودھیا دونوں نے ہی شاید دھرم کےاس سیاسی ناٹک کا خاتمہ ہی منظور کیا اور اس طرح “ملک میں کمـزور ہوئے آئی نہ وہ طـاقـت “”رام کی نگری سے بھی ہوئے راندہء درگاہ” ۔
اور اجودھیا نے بھی یہ ثابت کردیا کہ رام کا نام سیاسی مفاد کے لیے سیاست میں گھسیٹنا قطعا مناسب نہیں دھرم کے نام پر اقتدار حاصل کرنا اور نفرت کے لیے رام کا نام استعمال کرنا دھرم نہیں ادھرم ہے اور رام کو وہ لانے والے نہیں بلکہ وہ خود رام کے نام پر اپنا ووٹ بھنانے بار بار اجودھیا آیا کرتے تھے
رام کے نام پر مسجد توڑنا ،کسی ایک دھرم ومذہب کے پیروکاروں کو نشانہ بنانا ،ان کے خلاف نفرت کا موحول بنانا، مندر اور اس کی توسیع کے نام پر سیکڑوں لوگوں کے گھروں کو مسمار کر کے ان کو بے گھر کرنا اور مندر بنا کر پھر اس کی مارکٹنگ کرنا عوام کے پیسوں کا بے دریغ استعمال کر اپنی خود نمائی کرنا خود رام کو پسند نہیں نہ ہی رام کی تعلیمات اس کی اجازت دیتی ہیں اور نہ ہی یہ کسی مہذب سیاست دان کا شیوہ ہوسکتا ہے
اور نہ ہی یہ کسی مہذب سماج کے لیے یہ زیادہ دنوں تک قابل تحمل ہوسکتاہے اجودھیا فیض آباد کے لوگوں نے گودی میڈیا کو بھی اچھی طرح سمجھ لیا کہ یہ کوئی صحافت نہیں بلکہ صحافت کے نام پر ایک طرح کا دھندہ ہے جو کسی ایک پارٹی یا ایک مخصوص گروہ کی خوشنودی کا ذریعہ تو ہوسکتی ہے
مگر صحافت کا مقام اس سے حاصل نہیں کیا سکتا بلکہ حقیقی اور سچی صحافت وہ ہوگی جو عوامی مسائل کو اپنی نشریات کا حصہ بنائے گودی میڈیا نے اجودھیا میں ہونے والے ٹیم ٹام کو تو خوف دکھایا دن ورات اس کی چرچا کی اس پر گھنٹو گھنٹو ڈبیٹ کیےاپنے پرائم ٹائم کا حصہ بنایا
مگر اجودھیا فیض آبادی میں پھیل رہی بے روزگاری ، غریبی پانی بجلی تعلیم وصحت جیسے مسائل کو یکسر نظراندازکیا ترقیاتی کاموں کے نام پر لوگوں کے دکان ومکان کی بلا کسی معقول معاوضہ کے مسماری سے صرف نظر کیا کہ شاید مندر، جے شری رام کے نعروں کے بعد اب الیکشن جیتنے کےلیے انسانی زندگی اور اس کی ضروریات اور لوگوں کے جائز مطالبات اسکول کالج تعلیم نوکری ، صحت علاج ومعالجے کی کوئی ضرورت نہیں سب یوگی مودی کے جلوؤں کے نیچے دب کر رہ جائیں گے کیونکہ ان سب کا اصل مقصد الیکشن جیتنا اور اس کے لیے ماحول سازگار کرنا ہی تھا۔
لیکن یہاں کی عوام نے ان سب کو درکنار کر خاموشی سے یہ طے کرلیا تھا کہ ہمیں مندر مسجد کے جھگڑوں میں الجھا کر روٹی کپڑا مکان روزگار سے تعلیم مراکزِِ صحت سے محروم کرنا مہگا ثابت ہوسکتا جس کا نتیجہ اب ملک کے سامنے ہے کہ اجودھیا فیض آباد میں وزیراعلی تک کا پرچار بھی کارگر ثابت نہ ہوسکا
رام مندر کے ادگھاٹن کا ایک سو آٹھ گھنٹہ نشریات چلانے والا بلکہ رام مندر کے نام پر بھاجپا کا پرچار کرنے والا گودی میڈیا بھی آج حیران ہوگا اگر ضمیر زندہ ہوتا تو شاید شرمشار بھی ہوتا کہ اس نے بھاجپا کے پرچار کو ہی صحافت سمجھ کر اپنی پوری صحافتی توانائی کو مہینوں صرف کرتارہا
مگر ایک بار بھی فیض آباد اجودھیا کے آج کے فاتح سماجوادی پارٹی کے اودھیش پرساد کو اپنے چناوی کوریج میں ایک بار بھی نہیں دکھایا جبکہ وہ نو بار کے ایم ایل اے رہ چکے ہیں یہ بھی گودی میڈیا کی جانبداری ہے اور مخصوص ذہنیت کی نشاہی کرتاہے ۔
موجودہ الیکشن کا یہ نتیجہ اجودھیا سمیت فیض آباد منڈل کا پورے ملک کے لوگوں کو ایک خاموش پیغام بھی ہے کہ ہم مندر مسجد کو صرف پوجا اور عبادت تک محدود رکھتے ہیں اسے سیاست کا اکھاڑا، اور نفرت کی آماج گاہ نہیں بناتے
اس لیےمندر مسجد ، دھرم ومذہب ،ذات پات سے سیاست کو پاک رکھنا چاہیے ، یہ ہر شخص کا اپنا ذاتی معاملہ ہے سیاست اور الیکشن ہمیشہ ملک کے مفاد اس کی سالمیت اس کی معیشت کی مضبوطی ملک پر بڑھتے ہوئے قرض سے نجات اس کی ہر سو ترقی کو پیش نظر رکھ کر ہونا چاہیے
ہمیشہ ایسی پارٹی اور ایسے امیدوار کا انتخاب کرنا چاہیے جو علاقے کی ترقی مہگائی ، بے روزگاری ، تعلیم صحت ، غریبوں کی مسیحائی پانی بجلی مکان سڑکیں ، عوام الناس کی آزادی، عورتوں کی عزت وحرمت کی حفاظت اور قانون کی بالادستی قائم رکھے، تانا شاہی ، نفرت سماج کو آپس میں لڑاکر اقتدار کے حصول سے نہ ملک کا بھلا ہونے والا ہے اور نہ ہی ملک کے عوام کا۔
ز: محمد عظیم فیض آبادی
جـامعہ محمـود للبحـوث والدراسـات الاسـلامـیہ دیـوبنـد
9358163428