انجمن مولود مصطفیٰ نے عظیم الشان نعتیہ پروگرام انعقاد کیا
انجمن مولود مصطفیٰ نے عظیم الشان نعتیہ پروگرام انعقاد کیا
انس مسرورانصاری کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں انجمن مولود مصطفیٰ کی طرف سے اعزاز پیش کیا گیا محمد اکمل امام مسجد مولابابا۔ اوردیگرمعززین شہر۔
ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر) (یو، پی) یہاں محلہ سکراول۔ اردوبازارمیں مولابابا مسجد کے پاس زیرسرپرستی حضرت علامہ مولانا شمشاد علی منظری ایک عظیم الشان نعتیہ مظاہرے کا اہتمام انجمن۔۔ مولود مصطفیٰ کی طرف سے کیاگیا۔
جس کی صدارت عالی جناب الحاج حافظ محمد مزمل نے فرمائی۔ نظامت کے فرائض اکرم جلا ل پوری نے انجام دئیے۔
مہمانان خصوصی کی حیثیت سے معروف بزرگ شاعراور ادیب (کثیر التصانیف)
انس مسرورانصاری اور اکرم جون پوری نے شرکت فرمائی۔
اس موقع پر چودہ انجمنوں نے مختلف شعراء کے نعتیہ کلام کا مظاہرہ کیا۔انس مسرورانصاری معیار کلام کے فیصل ہوئے۔
انجمن مولود مصطفی کے بچوں نے مہمانوں کی گل پوشی کی ۔ انھیں شال اڑھاکرعزت افزائی کی۔ اس پرنوروپربہار موقع پرانھیں اعزازات سے نوازہ گیا۔
اس کام یاب ترین نعتیہ مظاہرہ کے اختتام پر عوام وخواص کی فرمائش پر قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن کے بانی و صدر انس مسرورانصاری نےاپنے اختتامی خطبہ میں کہا:
۔۔ شاعری،مصوری اور موسیقی ، تینوں آرٹ کہلاتے ہیں۔
شاعری لفظوں کی جادوگری ہے۔ مصوری رنگوں کی دل پزیری اور جذبوں کا اظہارہے۔ موسیقی میں سحر طرازی ہے۔ لیکن شاعری وہ علم اورفن ہے جسے سب پر تفوق حاصل ہے۔ اس میں موسیقی اور مصوری دونوں لازمی اجزاء ہیں۔ شاعری چار علوم۔ موسیقی، مصوری، الفاظ اور وجدان سے مرکب ہے۔
شاعری کوبظاہر آسان علم خیال کیاجاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ بہت مشکل فن ہے۔ نعتیہ شاعری اس سے بھی کہیں زیادہ دشوارترہےکہ اس میں مذہبی جذبات اور عقائد کو تمام تر فنی لوازمات ومطلوبات کے ساتھ شعرکہنے ہوتے ہیں۔ یہ بہت مشکل فن ہے۔ ڈھیروں علم کے ساتھ خون جگربھی جلانا ہوتا ہے۔
صنف نعت کی نزاکت اوراس کی دشواریوں کے بیان میں عرفی شیرازی کہتا ہے:
عرفی ماشتاب ایں رہ نعت نہ صحراست
آ ہستہ۔ کہ رہ برد م تیغ ا ست قد م را
مذہبی تقدس کے باوجود صنف غزل کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ غزل نے کروٹ بدلی تواس صنف نے بھی اپنے اسلوب۔ اپنے اندازکوبدلا۔ ہمارے نعت گو شعراء نے بہت شاندارجدیداسلوب میں نعتیں کہیں۔ ان میں مظفروارثی کانام بہت نمایاں ہے۔ ان بزرگوں نے صنف نعت کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ افسوس کہ نعت گو شعراء کی نئ نسل نے سہل پسندی اختیارکی اوراس صنف کے تقاضوں کونظراندازکیا۔
نتیجہ کے طورپر اس کے مضامین محدود ہوگئے۔ شاعری کے اعلا ترین فن سے اس کارشتہ کمزور پڑگیا اور یہ صنف حصول خیروبرکت کا ایک ذریعہ بن کر رہ گئی۔
انھوں نے مزید کہاکہ نعتیہ شاعری میں بڑے امکانات ہیں جن سے صرف نظر کیاجاتا ہے۔ کیوں کہ وہ فکر طلب، غورطلب اور مشقت طلب ہیں اور ہمارے شعرا سہل پسند۔
بات کیسے بنے۔،،انہوں نے کہا کہ ۔ نعتیہ شاعری ایک مستقل فن ہے۔ اسے محض حصول خیروبرکت کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اپنی کم سنی کے باوجود اردو زبان کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے دامن میں دیگرزبانوں بشمول عربی اورفارسی ، نعت رسول کے بڑے ذخائرہیں جن میں مستقل اور مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ہمارے شعراءکو چاہئے کہ وہ صنف نعت میں مزید امکانات کو تلاش کریں۔
یہ صنف محض اظہار عقیدت کا ذریعہ ہی بن کر نہ رہ جائے بلکہ تمام شعری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے علم وفن کا آئینہ بن جائے۔ صنف نعت جس قدر دشوار ہے، اس کی فضا اتنی ہی وسیع ہے۔
انس مسرورانصاری کے اس اختتامی خطبہ کے بعد انعامات تقسیم ہوئے۔ اور صلاۃ وسلام کے بعد جلسہ کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔ چار بجے صبح تک حمدونعت کے سلسلے جاری رہے۔
ضیا کاملی
شاداب اختر
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
سکراول، اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر
(یو، پی)
رابطہ/9453347784