جامعہ حسینیہ برنتھ بربادی کے دہانے پر

Spread the love

جامعہ حسینیہ ہرنتھ،بربادی کے دہانے پر !

✒️سرفرازاحمدقاسمی،حیدرآباد

1857 کے خونی انقلاب کے بعد، ظلم وضلالت کے تند وتیز طوفانوں اور الحاد ودہریت کے امنڈتے سیلابوں سے مقابلے کے لیے بچے کھچے چند علما کی ٹیم نے اس بات پر غور وفکر شروع کیا کہ اب ملک میں مسلمانوں کی بقاء، انکے دلوں سے خوف وہراس اور احساس کمتری کو دور کرنے کی کیاصورت ہوسکتی ہے؟۔

چناں چہ اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوں اور درویشوں کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ مسلمانوں کے دلوں کو از سرنو اسلامی روایات کا حامل و پاسدار بنایاجائے اور اس کے لیے جگہ، جگہ،شہر در شہر، گاؤں،گاؤں دینی ادارے اور اسلامی مراکز قائم کئے جائیں، اس طرح بہتر طریقے سے مسلمانوں کو اصل مقصد کی جانب رہنمائی کی جاسکتی ہے،چنانچہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے 30/مئی 1866 عیسوی میں اسلامی مرکز کے طورپر، دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی،اسطرح’ تحریک مدارس’کا باضابطہ آغاز کردیا گیا

اور پھررفتہ رفتہ ملک بھرمیں دینی اداروں کا جال بچھنے لگا، چپے چپے میں دینی ادارے اور دینی مدارس قائم ہونے لگے،تقریباً 27 سال بعد “تحریک مدارس” کا یہ سلسلہ ریاست بہار کے ایک قدیم اور صنعتی شہر”بھاگل پور” بھی پہونچا اور پھر یکے بعد دیگرے یہاں مذہبی اداروں کا قیام عمل میں آتا رہا،1893 میں ‘مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر’ اور”مدرسہ نعمانیہ پورینی” قائم کیا گیا،ان دونوں اداروں کا قیام ایک ہی سال عمل میں آیا ۔

اس کے بعد پھر شہر اور مضافات شہر میں وقفے وقفے سے مختلف ادارے قائم ہوتے رہے،1907 میں ‘مدرسہ اشرفیہ نظامیہ فتح پور’،سبور،1915 میں ‘مدرسہ محمودیہ سمریا’،1929 میں’مدرسہ سلیمانیہ سنہولہ ہاٹ’اور ‘مدرسہ عربیہ احیاء العلوم ناتھ نگر’،1931 میں یتیم خانہ اسلامیہ قاضی ولی چک، 1935 میں مدرسہ اعزازیہ پتھنہ،1944 میں دارالیتامی چمپانگر،1950 میں مدرسہ اشرفیہ اظہارالعلوم ماچھی پور،جبکہ 1953 میں “جامعہ حسینیہ ہرنتھ”قائم کیا گیا(ماخوذتاریخ بھاگل پور) اسکے بعد تو یہاں دینی اداروں کے قیام کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اور اب تو پورے ضلع میں چھوٹے، بڑے درجنوں مدارس قائم ہیں

حالانکہ بھاگلپور میں دینی مدارس پہلے سے ہی قائم تھے، یعنی دینی اداروں کا قیام، مسلم عہد حکومت میں ہی ہوگیا تھا،”سلطان العارفین” نامی کتاب کے مصنف ایک جگہ لکھتے ہیں کہ”مسلم عہد حکومت میں ریاست بہار میں علم کا ایک اہم مرکز شہر بھاگلپور تھا،سبھی مدرسوں میں سب سے مشہور مدرسہ، بادشاہ جہانگیر کے دور میں حضرت مولانا شہباز محمدؒ کا قائم کردہ مدرسہ تھا”

چند سطروں کے بعد آگے لکھتے ہیں کہ”حضرت مولانا شہباز محمدؒ کا مدرسہ بہار کے پانچ اہم مدارس میں سے ایک تھا”(دیکھئے سلطان العارفین صفحہ 62) ایک جگہ اور لکھتے ہیں”جہانگیر کے زمانے میں بہار کے مشہور عالم مولانا شہباز محمدؒ نے بھاگل پور شہر میں بہت بڑا مدرسہ قائم کیا،اس مدرسے کی بہت شہرت تھی اور اس میں ہندو طلباء بھی پڑھتے تھے”ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ”حضرت مولانا محمد شہبازؒ جو ایک بہت بڑے عالم وفاضل اور مسلم شریعت و روایت پر سند مانے جاتے تھے

انھوں نے بھاگلپور میں ایک مدرسہ 1576 عیسوی میں بادشاہ اکبر کے عہد میں قائم کیا یہ مدرسہ اور مولانا شہبازؒ کی عبادت گاہ اب بھی مسجد کے نزدیک موجود ہے،جو (بھاگلپور) ریلوے اسٹیشن کے دکھن جانب واقع ہے”(ص 61) اوپر کے اقتباس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ شہر بھاگلپور میں تعلیم وتعلم کا سلسلہ بہت پہلے سے جاری تھا

انگریزوں کی آمد کے بعد یہ سرگرمیاں ٹھپ کردی گئیں،پھر جب انقلاب آیا اور یوپی کے ایک معمولی قصبہ “دیوبند” سے اٹھنے والی مدارس کی یہ عظیم الشان اور عالمگیر تحریک کچھ عرصے کے بعد ریشمی شہر “بھاگلپور” بھی پہونچی،حالانکہ انگریز بہادر کے بھارت آنے سے قبل ہی یہاں مدارس اور خانقاہیں موجود تھیں،لیکن انگریزوں نے اقتدار پرقبضہ کرنے کے بعد مسلم اداروں پر شب خون مارا اور وقف کے نظام کو پوری طرح تہس نہس کرکے رکھ دیا،مسلم عہد حکومت میں مدارس و خانقاہوں کا نظام اوقافی جائداد اور انکی آمدنی سے چلتا تھا

انگریز بہادر نے یہاں آنے کے بعد، انتہائی چالاکی سے اقتدار پرقبضہ کیا اور ملک کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے، مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی اوراسکو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہرطرح کی جدوجہد کی جانے لگیں،ہزاروں لاکھوں علماء کو شہید کیا گیا،مساجد ومدارس کو مسمارکیا گیا،قرآن کریم کے لاکھوں نسخے نذرآتش کئے گئے، ایسے میں ضرورت تھی کہ پھر سے مسلمانوں کا تحفظ کیاجائے،انھیں حوصلہ دیاجائے اور انکی مذہبی شناخت کو باقی رکھنے کے لئے کوئی تدبیر نکالی جائے

چنانچہ مدارس اسلامیہ کے قیام کی یہ تحریک شروع کی گئیں۔ “جامعہ حسینیہ ہرنتھ” بھی اسی تحریک کا اہم حصہ ہے،جو آج سے تقریباً 70 سال قبل شہر سے دور مغرب کیجانب”ہرنتھ”نامی ایک گاؤں میں قائم کیا گیا،شہر بھاگل پور سے 20/22 کیلو میٹر کے فاصلے پر یہ گاؤں آباد ہے

تقریباً 300 گھر کی مسلم آبادی والے اس گاؤں میں یہ ادارہ قائم ہے،اس گاؤں کے چاروں جانب بڑی بڑی مسلم بستیاں ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں، مسلم علاقہ ہونے کے باوجود اس علاقے میں ناخواندگی کافی حدتک ہے،جسکی وجہ سے آج بھی یہ علاقہ پسماندہ کہلاتا ہے،”مدرسہ حسینیہ” کی شروعات ایک مکتب سے ہوئی،پہلے یہ مکتب گاؤں کی جامع مسجد میں ہی کئی سال تک چلتارہا،ابتداء میں یہاں صرف تعلیم کا نظم تھا،طلبہ کی تعداد جب بڑھنے لگی تو مسجد میں ہی مطبخ کا نظام قائم کردیا گیا

مدرسے کی شہرت ہونے لگی اور تعلیمی معیار بلند ہونے لگا تو طلبہ کی تعداد بھی روز بہ روز بڑھنے لگی اور مسجد کی جگہ ناکافی ہوگئی تو” ہرنتھ” کے لوگ متفکر ہوگئے اور مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیاجائے؟ کئی ہفتوں تک گفت وشنید کا یہ سلسلہ چلتارہا جسکے نتیجے میں “ہرنتھ” کے بعض لوگ، گاؤں سے کچھ فاصلے پر مدرسے کے لیے زمین وقف کرنے کے لیے تیار ہوگئے،جہاں ابھی مدرسہ ہے، وہ زمین “ہرنتھ” کے لوگوں کی ہی فراہم کردہ ہے،مدرسے کےلئے زمین وقف کرنےکے بعد، وہاں مدرسے کی بنیاد رکھ دی گئی،علاقے کے دسیوں گاؤں اور ان سے منسلک افراد کو مدرسے سے جوڑا گیا، لوگوں نے مدرسے کا تعاون کرنا شروع کردیا

اس کے بعد وہاں کچے مکان کی تعمیر ہوئی،اسطرح پڑھنے،پڑھانے اور تعلیم وتربیت کا سفر شروع ہوگیا،جب مدرسے کی بنیاد رکھی جارہی تھی اسوقت علاقے میں دور دور تک نہ کوئی عالم تھا اور نہ ہی کوئی دینی مدرسہ ،اس مدرسے کا تعارف کراتے ہوئے، قاری عبدالستار قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ”علاقے کی ناخواندگی، رسم ورواج کے سیلاب میں ڈوبا معاشرہ،جہالت وگمراہی میں بھٹکتی انسانیت،بدعقیدگی اورجہالت کا یہ عالم کہ عیدالاضحی کے موقع پر جانور ذبح کرنے والا بھی کوئی میسر نہ آتا تھا تو دور دراز کے کسی گاؤں سے کوئی پیر صاحب ایک چھری(چاقو) پھونک کر دے دیتے پھر پورے علاقے والے اسی چاقو سے اپنے اپنے جانور ذبح کرتے،انسانیت سوز حرکتیں،شراب اورجوا وغیرہ کا ماحول عام تھا

ایسے پرآشوب سماج میں دور دور تک کوئی دینی مدرسہ بھی موجود نہ تھا”(دیکھئے مختصر تاریخ بھاگل پور) مولانا محمد یعقوب صاحب قاسمیؒ(فاضل مدرسہ شاہی مرادآباد ) اور مولانا عبدالرحمن صاحب قاسمیؒ(فاضل دارالعلوم دیوبند) پورے علاقے میں اسوقت یہی دو عالم موجود تھے اور دونوں کا تعلق”کرنپور”نامی گاؤں سے تھا، ان دونوں حضرات نے مدرسے کی بنیاد رکھنے اور اسکو پروان چڑھانے میں اہم کردار اداکیا، تادم حیات دونوں بزرگوں کا تعلق مدرسے سے رہا،مولانا یعقوب صاحبؒ تو برسوں مدرسے کے پہلے سکریٹری بنائے گئے اور مولانا عبدالرحمن صاحبؒ 1953 سے مسلسل 1995 تک یعنی 40/سال سے زائد مسندِ اہتمام پر فائز رہے اور مہتمم اول کہلائے،”جامعہ حسینیہ ہرنتھ” یہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی جانب منسوب ہے

اس ادارے کا قدیم نام ‘مدرسہ اسلامیہ ہرنتھ’ تھا،بعد میں اسے جامعہ حسینیہ ہرنتھ میں تبدیل کردیا گیا،یہ تبدیلی کب ہوئی؟ مجھے اسکا علم نہیں ہوسکا، تاریخ بھاگلپور کے مصنف مدرسہ کے شاندار ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”مدرسہ حسینیہ کا قیام جب عمل میں آیا تو اس سے علاقے میں خوب فیض پہونچا،اس علاقے کے اکثر علماء اسی مدرسے کے خوشہ چیں ہیں،یہ ادارہ اپنے علاقے میں علم وعرفان کا ایک روشن مینار ثابت ہوا اور علاقے کی جہالت وبدعات بہت حدتک کم ہوئیں”( دیکھئے صفہ 168) اوپر لکھ چکا ہوں کہ معیارتعلیم بلند ہونے کی وجہ سے مدرسے کی شہرت دور دراز علاقے تک پہونچنے لگی

اور ہر چہار جانب سے طالبان حق پروانہ وار اس شمع ہدایت کی طرف چل پڑے،دیکھتے دیکھتے یہ ویران کدہ علم وآگہی کا ایک اہم مرکز بن گیا،یہاں سے قرآن وحدیث کی صدائیں بلند ہونے لگیں اور توحید ورسالت کے نغموں سے پوری فضاء معطر ہونے لگی،اس مدرسے کے قیام سے قبل اس علاقے میں کوئی دوسرا دینی ادارہ نہیں تھا،تعلیم بھی عام نہیں تھی،ناخواندگی اور جہالت کا غلبہ تھا

عوام میں فرسودہ رسومات اور بدعات کی کثرت تھی،غیراسلامی معاشرہ اور لہب ولعب لوگوں کا محبوب مشغلہ تھا،کھیتی باڑی تک انکی دنیا محدود تھی،غربت بھی حصول تعلیم میں بڑی رکاوٹ تھی ،”مدرسہ حسینیہ” کے قیام نے علم ودانش کا ایسا صور پھونکا کہ ہردل میں حصول علم کی امنگیں انگڑائیاں لینے لگیں،پورے علاقے کے لیے یہ ادارہ مرکزِ عقیدت بن گیا،اس ادارے نے اشاعت علم میں وسعت قلبی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ امیر و غریب،یتیم ونادار سبھی اس مادرِ علمی کی آغوش میں آکر پناہ لینے لگے اور اپنی علمی پیاس بجھانے لگے

اس ماحول کے پروردہ نونہالان چمن جب اپنے اپنے علاقوں میں گئے تو وہاں کے ماحول میں زبردست تبدیلی پیدا کردی،معاشرے میں ایک انقلاب برپا ہوگیا،ہرگھر میں علم کی شمع روشن ہوئی اور جہالت کی تاریکی دور ہونے لگی،”مدرسہ حسینیہ” علم کا ایسا منارہ ثابت ہواکہ پورا علاقہ علم وعرفاں سے منور ہوگیا،یہاں سے کسب فیض کرنے والے طلبہ اعلی تعلیم کے لئے براہ راست دارالعلوم دیوبند،مظاہر علوم سہارنپور،مدرسہ شاہی مرادآباد اور ملک کے دیگر بڑے اداروں کا رخ کرنے لگے،اس ادارے کی وجہ سے علاقے میں جو جہالت وگمراہی کا غلبہ تھا وہ مغلوب ہوگیا،غلط رسومات کی جگہ دینی شعائر کی سربلندی ہونے لگی، مجھے یہ لکھنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ علاقے کا شاید ہی کوئی گاؤں ایسا ہوگا جہاں “مدرسہ حسینیہ” کے فیض یافتہ نہ ہوں

اس وقت مسلکی اختلافات کی اتنی شدت نہیں تھی جتنی اب ہے اسی لئے ہرمسلک کے طلباء یہاں پڑھتے تھے،ضلع بھاگلپور کے علاوہ،مونگیر،پورنیہ،صاحب گنج،گڈا ،بانکا ،دیوگھر،سنتھال پرگنہ کے دیگرعلاقے اور بنگال کے مالدہ تک کے طلباء یہاں زیرِ تعلیم رہے ہیں،مدرسے کا ماحول بڑا خوشگوار ہوتا تھا،ہر عمر کے طلبہ سے مدرسہ بھرا پڑا رہتا تھا،صبح سے دیر رات تک یہاں علم کی صدائیں بلند ہوتی تھی،میں نے بھی اپنے علمی سفر کا آغاز اسی مدرسے سے کیاہے،کبھی میں بھی اسی ادارے کا طالب علم ہوا کرتا تھا،میرے جیسے ہزاروں لوگوں نے یہاں سے استفادہ کیا ہے

آج علاقے میں جو دینی بیداری، لوگوں کے سروں پر ٹوپی،چہرے پر داڑھی اور گاؤں گاؤں جوشعور بیداری نظر آرہی ہے یہ سب اسی مدرسے کی مرہونِ منت ہے،اس ادارے نے علاقے میں جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں اسکا موازنہ علاقے کے کسی دوسرے ادارے سے نہیں کیاجاسکتا، اسکی مثالی خدمات کی وجہ سے اس کو اپنے علاقے کا”ام المدارس”کہاجاتاہے

آج علاقے میں جتنے ادارے قائم ہیں یہ سب بالواسطہ یا بلاواسطہ اسکی شاخیں ہیں،”مدرسہ حسینیہ ہرنتھ” کا معیارِ تعلیم کیسا تھا؟اسکا مقام کیا تھا؟ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حضرت شیخ اکرام علیؒ جیسے باکمال اساتذہ یہاں مدرس ہوئے، آئیے علامہ شیخ اکرام علی صاحبؒ کی زبانی مدرسے کا تذکرہ سنتے ہیں،حضرت شیخ کے تذکرہ نگار، مولوی شہزاد اورنگ آبادی لکھتے ہیں کہ”بہارکے جن مدارس سے ابتدائی درجات کے طلبہ تیار ہوکر بعد میں دارالعلوم(دیوبند) وغیرہ جایا کرتے تھے

ان ہی مدارس میں سے ایک”مدرسہ حسینیہ” بھی ہے جو حضرت شیخ کے وطن(گھر) سے بالکل قریب موضع ہرنتھ،ضلع بھاگلپور میں واقع ہے،اس مدرسے کی بنیاد حضرت شیخ الحدیث کے مرشد ومربی اور مشیرخاص حضرت مولانا عبدالرحمن صاحبؒ نے رکھی تھی،اس مدرسے کو اللہ پاک نے ضلع کے تمام مدارس نظامیہ میں سب سے فائق مقام عطا کررکھا تھا،چنانچہ حضرت جب سیوہارہ سے گھر آئے تو کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت الاستاذ کے اصرار پر ؁1379ھج مطابق 1959 شوال کے مہینے میں،”مدرسہ حسینیہ” کی دعوت پر لبیک کہنا پڑا

جب آپ نے دعوت قبول کرلی تو فنون کی بنیادی اور اہم کتابیں آپ کے حوالے کی گئیں،سال اول میں جو کتاب آپ کے ذمہ آئیں اس میں شرح جامی سرفہرست ہے،پھر تدریس کے دوسرے سال مختصرالمعانی،شرح وقایہ اور آثارالسنن جیسی اہم اہم کتب آپ کے حوالے کی گئیں، آپ نے پوری دلجمعی اور ذوق وشوق سے ان مفوضہ کتابوں کی تدریس انجام دی،”مدرسہ حسینیہ” کے طلبہ آپ کی تدریس سے ہرطرح مطمئن تھے،طلباء کے اس اطمینان کو دیکھتے ہوئے حضرت شیخ کی طبیعت بھی وہاں جم گئی تھی،چنانچہ ایک طرف حضرت شیخ نے یہ طے کرلیا تھا کہ اب طلباء کو موقوف علیہ تک تعلیم دیکر ازہر ہند دارالعلوم دیوبند روانہ کرناچاہئے مگر دوسری طرف کسی خاص مصلحت کے پیش نظر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحبؒ، درجات بڑھانے کے لئے تیارنہ ہوئے اورآئندہ بھی اپنی بات پر مضبوط ومستحکم رہے

آخرکار شیخ نے مزید ایک سال تدریسی خدمات انجام دی اورپھر تعلیمی ترقی نہ ہونے کے سبب استعفی دیکر مدرسہ حسینیہ سے علیحدہ ہوگئے”(ملاحظہ ہو تذکرہ علامہ شیخ اکرام علیؒ) مدرسہ کے اولین دور کے مدرسین میں مجاہدآزادی مولانا تفضل حسین قاسمیؒ پورینی ،مولانا عبدالوہابؒ پورینی،حافظ عبدالرحمنؒ کوروڈیہ،مولاناعبدالرزاق صاحبؒ سنہولی وغیرہ شامل ہیں،مولانا عبدالرحمن صاحبؒ(پیدائش 1918وفات 1995) جب مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر میں برسرِ خدمت تھے اسی دوران مدرسہ حسینیہ ہرنتھ کی بنیاد رکھی گئی،وہ اصلاح المسلمین میں کتنے سال رہے؟وہاں انکی تقرری کب ہوئی؟ اور کب وہاں سے سبکدوش ہوئے؟

یہ معلوم نہ ہوسکا،اصلاح المسلمین میں ہی ان سے بھاگلپور کے جید اور بڑے بڑے علماء نے استفادہ کیا، جن لوگوں نے انکے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے،ان میں سے چند یہ ہیں۔ علامہ شیخ اکرام علی صاحبؒ، سابق شیخ الحدیث ڈابھیل(پیدائش 1936 وفات 2008) مفتی محمد شعیب قاسمیؒ(پیدائش 1934وفات 2015) مولانامحمدانصار قاسمی صاحب دامت برکاتہم شیخ الحدیث دارالعلوم حیدرآباد،(پیدائش 1939) مولانا نیازالدین قاسمیؒ،سابق امام جامع مسجد چمپانگر(پیدائش 1932 وفات 2005) مولاناعبدالواحد نعمانیؒ

سابق استاذ مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر(پیدائش 1932 وفات 2020) مولانا انیس الرحمن قاسمی (پیدائش 1936) مولانا قمرالزماں قاسمیؒ،سابق ناظم مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر(پیدائش 1938 وفات 2005)وغیرہ قابل ذکرہیں،(ماخوذ تذکرہ علمائے نوشاخ) “جامعہ حسینیہ ہرنتھ” نے علاقے میں تعلیم کی جو شمع روشن کی اورہمہ گیر خدمات انجام دی،اسکی خدمات کو ملک بھر کے مشاہیر اوراکابر علماء نے بھی سراہا ہے

فدائے ملت حضرت مولانا سیداسعد مدنی صاحبؒ رقم طراز ہیں کہ”1947 کے بعد آزاد ہندوستان میں اسلامی تہذیب وثقافت کے تحفظ کے لیے اربابِ حل وعقد کی چلائی گئی دینی تعلیمی تحریک کی بنیادوں پر 1953 سے اس علاقے میں تعلیم وتربیت اور تبلیغ دین کی اہم خدمات انجام دے رہاہے،جامعہ حسینیہ ہرنتھ صرف ایک دینی درسگاہ ہی نہیں بلکہ ایک مثالی اسلامی کیمپ اور تربیت گاہ بھی ہے،جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ایثار اور خدمت خلق کی عملی توانائی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،بھاگلپور میں 24/اکتوبر 1989 کے ہونے والے فساد نے جو مدرسہ سے ملحقہ دیہات،مسلم علاقے اور پوری پوری بستیوں کو تباہ و برباد اور جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا تھا،جہاں گلیوں اور کوچوں سے آج بھی وحشت و ویرانی ٹپکتی ہے،یہی ادارہ ہے جو فساد سے متاثر افراد،مرد ،عورت ،بچے،مظلومین اور جلے پٹے بے سہارا مسلمانوں کے لئے پناہ کے کام آیا

اس کے تمام اساتذہ و طلباء نے پوری چابکدستی اور تندہی کے ساتھ اپنے بے پناہ مظلوم بھائی،بہنوں کی راحت رسانی ومہمان نوازی کا مخلصانہ فریضہ انجام دیا اور اپنے دیہی علاقوں کے 7 تھانوں(بلاک) پر مشتمل اجڑے ہوئے بے گھر بھائیوں کے درمیان جمعیة علمائے ہند و دیگر ہمدردان قوم کی ریلیف کے سامان وغیرہ کو ہر کیمپ میں پہونچایا اور پھر بازآبادکاری کی مہم میں مصروف عمل ہوا”(احوال وتعارف جامعہ حسینیہ) جنید وقت عارف باللہ حضرت قاری صدیق احمد صاحب باندویؒ رجسٹر معائنہ جات میں تحریر فرماتے ہیں کہ”جامعہ اکابر کے مشورے سے قائم ہوا

انھیں کی سرپرستی میں چل رہاہے اور اس علاقے میں دینی و تبلیغی جدوجہد میں مصروف ہے،بیرونی طلبہ کے طعام و قیام کا انتظام مدرسہ کی جانب سے ہوتاہے،تعلیم و تربیت کا ماشاءاللہ بہتر انتظام ہے،جسکی وجہ سے دور دراز مقامات سے طلباء مدرسے میں آتے ہیں،تعمیری سلسلہ بھی جاری ہے،مقامی اور اطراف کے حضرات اپنی حیثیت کے مطابق حصہ لیتے ہیں،لیکن اس قسم کے ادارے تنہا مقامی حضرات کے تعاون سے نہیں چلاکرتے،میں مدرسہ میں حاضر ہوا اور تمام حالات کا جائزہ لیا،الحمدللہ ہر چیز خصوصاً مدرسہ کے آمد وخرچ پر اطمینان ہوا”(احوال وتعارف جامعہ حسینیہ)

انکے علاوہ بھی ملک بھر کے کئی مشاہیر علماء کی تحریریں اور انکی تصدیقات موجود ہیں جس میں ادارے کی مثالی کارکردگی کا اعتراف کیا گیا ہے،حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب،مفتی نظام الدین صاحبؒ سابق امیر شریعت بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈ،مولانا اسرارالحق قاسمی صاحبؒ سابق جنرل سکریٹری جمعیة علمائے ہند،امیرالہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب،محبوب العلماء حضرت مولانا قمرالزماں الہ آبادی صاحب،شیخ الحدیث حضرت علامہ اکرام علی صاحبؒ،حضرت مفتی سید سلمان منصورپوری صاحب،شیخ القراء حضرت مولانا قاری احمد اللہ صاحب ان اکابرین و بزرگانِ دین کے علاوہ دیگر بہت سے اکابرعلماء کی تحریریں موجود ہیں جو یہاں تشریف لاچکے ہیں اور مدرسے کا جائزہ لینے کے بعد اپنے تاثرات کو رجسٹر میں قلمبند فرمایا ہے، کہتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتاہے، پھل دیکھکر اندازہ کرلیاجاتا ہے کہ یہ پھل کس درخت کا ہے؟ ادارے سے فیض حاصل کرنے والے لوگ کس معیار کے ہیں؟اور کیاخدمات انجام دے رہےہیں؟ ان پر ایک نظر ڈالنے سے ادارے کے مقام ومرتبے کا اندازہ کوئی مشکل نہیں ہے، علاقے کے جتنے ممتاز علماء نے یہاں سے کسب فیض کیا ہے ان سب کی تفصیلات تو میرے پاس نہیں، لیکن ایک اچٹتی نظر دوڑانے کے بعد یہ فہرست میرے سامنے ہے، آئیے اس پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ یہاں سے استفادہ کرنے والے کون لوگ ہیں؟

فخر بہار، شیخ القراء جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل حضرت مولانا قاری احمداللہ قاسمی صاحب،رئیس جامعہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور(پیدائش1944) پیرطریقت حضرت مولانا مطیع الرحمن قاسمی صاحب، صدرجمعیة علماء ضلع بھاگلپور(پیدائش 1946) و خلیفہ فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ۔ مولانا رفیع اللہ قاسمی صاحبؒ (کرنپور) مولانا عطاءالرحمن قاسمی صاحب (ہرنتھ)(پیدائش 1947) مولانا عبدالطیف قاسمی صاحب،سابق امام و خطیب جامع مسجد (ہرنتھ) مولانا محمد احمد قاسمی (ہرنتھ) مولانا سیف اللہ (عمادپور) مولانا کمال الدین قاسمی (عمادپور) مولانا اخترحسین قاسمی(قصبہ) مولانا معین الدین قاسمی (سنہولی)استاذِ حدیث مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر(پیدائش1942) مولانا شفاعت حسین قاسمیؒ (سنہولی) مولانا واعظ الحق قاسمی(سنہولی) مولانا مسعود قاسمی (سنہولی) مولانا محمد داؤد قاسمیؒ (سنہولی) سابق صدر جمیة علماء ضلع بھاگلپور۔ مولانا نظام الدین قاسمی (ڈھمرا) مولانا نصیرالدین حسینی (ڈھمرا) مولانا شفیق احمد قاسمی (صاحب گنج) مفتی اشفاق عالم قاسمی (ہرنتھ) مولانا قمرالہدی حسامی (ہرنتھ) مولانا رئیس عالم قاسمی(سلیم پور) مولانا عبدالحفیظ قاسمی(مالدہ) مفتی محمد یونس قاسمی(پیدائش1953)استاذ مدرسہ اصلاح المسلمین چمپانگر مولانا فضل الرحمن قاسمی(چمپانگر) یہ چند وہ لوگ ہیں جنھوں نے اسی مدرسے سے استفادہ کیا

اور آج مختلف شہروں اور علاقوں میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں،یہ تو ان لوگوں کی فہرست ہے جنھوں نے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پڑھنے،پڑھانے اور تعلیم و تعلم کو ہی اپنا مشغلہ بنایا،اسکے علاوہ ایک لمبی فہرست ان لوگوں کی بھی ہے جنھوں نے اعلی تعلیم تو حاصل کی لیکن اب وہ تجارت اور کاروبار وغیرہ سے وابستہ ہیں، یہ ہے اس مدرسے کی شاندار کارکردگی اوراس کے چند افراد کاتذکرہ

آج یہ ادارہ اپنے 70 سالہ طویل سفر کو مکمل کررہاہے،اس لمبے عرصے میں وہاں جو ہمہ گیر ترقی ہونی چاہئے وہ بالکل نہیں ہوسکی، تعمیری اعتبار سے تو کوئی خاطر خواہ ترقی بہر حال نہیں ہوئی،لیکن تعلیمی معیار میں بھی اضافہ نہیں کیا جاسکا،وہاں جاکر اور اسے دیکھ کر یہ فیصلہ آسانی سے کیاجاسکتا ہے کہ اسکی عمر شاید اب پوری ہوچکی ہے، ممکن ہے 70 سال کےلئے ہی یہ ادارہ قائم ہوا ہو

علاقے کے دوسرے کئی ادارے جو اس کے بہت بعد میں قائم ہوئے ان اداروں نے ہر اعتبار سے ترقی کے منازل طے کئے،لیکن مدرسہ مذکورہ کی تعمیر وترقی میں کیا چیز رکاوٹ بنی؟ہمارے زمانے میں مدرسہ کے طلباء واساتذہ کی رہائش وتعلیم کے لیے صرف 8 کمروں پر مشتمل ایک پکی عمارت اور شمال کی جانب چھپر کی ایک چھوٹی سی کچی عمارت تھی، جس میں باورچی خانہ اور سامان رکھنے کے لئے ایک کمرہ (گودام) تھا یہی مدرسے کی کل کائنات تھی، آج وہ کچی عمارت تو نہیں ہے اور پکی عمارت 11 کمروں پر مشتمل ہے

اس کے علاوہ مسجد تعمیر کی گئی ہے،حالانکہ مدرسے کو زمین کی کوئی کمی نہیں ہے،5 بیگھے سے زائد زمین مدرسے کے احاطے میں موجود ہے، بعض اراضی کھیتی کی بھی ہیں،ساری زمینیں ملاکر دس گیارہ بیگھہ اراضی ہوگی،لیکن اسکے باوجود کوئی خاطرخواہ ترقی نہیں ہوسکی،قیام مدرسہ کے کئی سال بعد جب مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کو اصلاح المسلمین چمپانگر سے مستقل طورپر یہاں بلا لیا گیا اور مدرسے کی باگ ڈور انکے حوالے کردی گئی تو انھوں نے اپنی مرضی سے جیسے چاہا ادارے کو چلایا،نہ ڈھنگ کی کوئی کمیٹی تشکیل دی اور نہ ہی اسکےلئے کوئی جامع دستور مرتب کیا گیا،دستورالعمل کے نام سے انھوں نے ایک “فرسودہ” دستور بنارکھاہے،حالانکہ اس میں دسیوں خامیاں ہیں،اورکسی بھی اعتبار سے وہ دستور قابل عمل نہیں ہے

خود انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی اس پرعمل نہیں کیا،انکے بعد بھی اس پرعمل نہیں کیاگیا،اگر اس دستور پر بھی عمل کیا جاتا تو آج مدرسے کی یہ حالت نہ ہوتی،مولانا چونکہ جمعیة علماء ضلع بھاگلپور سے منسلک تھے اور ضلع صدر بھی تھے، اس زمانے میں بھاگل پور کی جمعیة بہت متحرک و فعال سمجھی جاتی تھی، مجھے ایسا لگتاہے کہ مولانا،جمعیة کی مصروفیات کی وجہ سے مدرسے کی تعمیر و ترقی پر کوئی توجہ نہیں دے سکے

وہ چاہتے تو ضرور مدرسہ کی ہمہ گیر ترقی ہوتی،انھوں نے مدرسے کے اخراجات کا انحصار بھی علاقے سے ہونے والے چندے پرکررکھا تھا،علاقے سے ہونے والی محدود آمدنی چند من دھان اور سو دوسو چمڑے سے مدرسہ نہیں چل سکتا،ریاست میں جتنے ادارے ہیں ان میں ایک بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جو صرف مقامی لوگوں کے تعاون سے چلتا ہو،سب جگہوں میں ملک و بیرون ملک کے مختلف شہروں اور ریاستوں کے مسلمانوں کا تعاون شامل ہے،پھر یہ مدرسہ صرف مقامی اور علاقائی تعاون سے کیسے چل سکتا اور ترقی کرسکتا ہے؟مولانا عبدالرحمن صاحبؒ نے یہ کیوں نہیں سوچا؟اوپر آپ نے حضرت باندویؒ کی تحریر پڑھی کہ” اس قسم کے ادارے صرف علاقائی لوگوں کے تعاون سے نہیں چل سکتے” ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں وسائل کی قلت ہے،غربت زیادہ ہے،کھیتی باڑی کے علاوہ لوگوں کا اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے،ایسے میں اسطرح کے ادارے صرف مقامی لوگوں کے تعاون سے کیسے چل سکتےہیں؟ 21 دسمبر 1995 کو جب مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کا انتقال ہوا اور وہ داغ مفارقت دے گئے تو جانشین کے طور پر لوگوں نے انکے چھوٹے فرزند مفتی ہلال احمد قاسمیؒ کو مدرسے کی باگ ڈور سپرد کردی۔

اور انھیں ان کی جگہ مہتمم بنادیا،مفتی ہلال مرحوم نے بھی اپنے والد کے نقش قدم پر ادارے کو اسی طرح جیسے تیسے چلایا اور کوئی اصلاح نہیں کی،وہ چاہتے تو ایک اچھا نظام مرتب کرسکتے تھے،اور دیگر اداروں کی طرح بہترین انداز میں اسکو چلاسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا،شورائی نظام کو ختم کرکے اپنا “شخصی”نظام نافذ کیااوراکثر ایسے فیصلے کئے جسے من مانی کہاجاتاہے

ان کے والدؒ نے مدرسے کی تعمیر وترقی کے لیے علاقے کے مؤقر لوگوں پر مشتمل جو کمیٹی(شوری)بنائی تھی اسے ختم کردیا،برسوں پہلے میٹنگ بلانا ہی بند کردیا،پندرہ،سولہ سال سے انھوں نے کوئی میٹنگ نہیں بلائی، اس عرصے میں کمیٹی کے جتنے اہم اراکین تھے، بشمول صدر،سکریٹری اورخازن سمیت اکثر اراکین ایک ایک کرکے اس دارفانی سے چل بسے،مفتی ہلال صاحبؒ نے آخر ایسا کیوں کیا؟

ان کے ساتھ کیا مجبوری تھی؟ کیا انھیں اپنے والد کے منتخب کردہ اراکین کمیٹی پربھروسہ نہیں تھا؟ یا پھر کچھ اور وجہ تھی؟اب ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟حالانکہ مولانا عبدالرحمن صاحبؒ نے اپنے زمانے میں جو مجلس شوریٰ اور منتظمہ بنائی تھی وہ برائے نام ہی تھی، ان کمیٹیوں کو کوئی اختیارات حاصل نہیں تھے،سارے فیصلے وہ خود ہی کرتےتھے

البتہ منتظمہ،اور شوری کا اجلاس سال میں کم ازکم ایک دوبار ضروربلاتے تھے،حالانکہ اس اجلاس کی حقیقت خانہ پری سے زیادہ نہیں تھی،شوری کے اجلاس میں غیر اراکین کو بھی دعوت نامہ جاری کرکے مدعو کیاجاتا تھا،اور،نشستن، خوردن،برخاستن پر جاکر معاملہ ختم ہوجاتا تھا،لیکن مفتی ہلال صاحب نے اس کو بھی باقی رکھنا مناسب نہیں سمجھا، اوراسے بالکل ختم کردیا، یہاں تک کہ غنڈوں اور بدمعاشوں کا سہارا لیکر 14/15 سال قبل 2008 میں ایک میٹنگ کے موقع پر اراکین شوری کے ساتھ بدتمیزی کروائی اور انھیں دھمکیاں دلوائی گئی،یہ سب کھیل ایک دینی ادارے اور دانش گاہ میں کھیلاگیا

کیا کوئی دینی ادارہ اسی طرح چلتا،پھلتا،پھولتا اورترقی کرتا ہے؟ اس وقت ادارے کی موجودہ حالت کیاہے؟ یہ مدرسہ کس حال میں ہے؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ہرگذرتا دن، اس ادارے کی تنزلی،بدحالی اور خستہ حالی کا پیغام لیکر آیا، اسکی بدحالی اور بدنظمی یہاں تک پہونچ چکی ہے کہ اپنی شاندار تاریخ رکھنے اور افراد سازی کا غیر معمولی کارنامہ انجام دینے والا یہ عظیم ادارہ آج جانکنی کے عالم میں پہونچ چکا ہے،اپنی آخری سانسیں گن رہاہے اور اپنی عظمت رفتہ پرآنسو بہارہا ہے

جس ادارے سے علاقے کی تاریخ وابستہ ہے،اسکی حالت ایک چھوٹے مکتب سے بھی بدتر ہوچکی ہے،آپ مدرسہ چلے جائیں تو آپ کو یہ بالکل محسوس نہیں ہوگا کہ ہم اسوقت کسی عظیم ادارے میں ہیں،عجیب طرح کا ماحول ہے، ہرطرف ویرانی کا عالم، اجنبیت اور غیر مانوسیت کا ماحول، مدرسے کے احاطے میں بانس بلی بے ترتیب بکھرے پڑے ہیں،دس بیس طلباء بھی شاید آپ کو وہاں نہ مل سکیں، صفائی ستھرائی سے کسی کو کوئی سروکار نہیں، پانچ 6 اسٹاف آپکو وہاں ضرور مل جائیں گے اور اساتذہ بھی ایسے کہ “ماشاءاللہ” ان میں کوئی ایک بھی قرآن صحیح طریقے سے نہیں پڑھ سکتا،نہ انکے اندر شعور وسلیقہ نام کی کوئی چیز ہے نہ کوئی طور طریقہ

انھیں نماز روزے سے بھی کوئی مطلب نہیں،فجر کی نماز تو شاید ہی کوئی اسٹاف پڑھتا ہو،کھانا بنانے کے لئے ایک باورچی موجود ہے،جو اسٹاف کے لئے وقت پر کھانا اور ناشتہ ضرور تیار کرتاہے،جب مدرسے میں تعلیم نہیں ہورہی ہے،بچے نہیں ہیں تو پھر یہ 5/6 اسٹاف مدرسے میں کیا کررہے ہیں؟اور کیا ان جگہوں میں زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی،کیا ایسی جگہوں میں زکوٰۃ دینا درست ہے؟

اس جیسے دیگر سوالات جواب طلب ہیں، لاکھوں روپے خرچ کر کے مدرسے میں مسجد کی تعمیر تو کی گئی لیکن وہ مسجد بھی مہینوں سے بند پڑی ہے،مسجد میں کتے بلی اور دیگر جانور پیشاب پاخانہ کے ذریعے گندگی پھیلارہے ہیں،ذرا تصور کیجئے کہ پھر ایسی جگہ میں آپ کو نورانیت اور روحانیت کا احساس کیونکر ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ آخر اس مدرسے کی حالت اتنی بری کیوں ہوئی؟اسقدر بدحالی کا شکار یہ ادارہ کیوں ہوا؟اسکا ذمہ دار کون ہے؟

اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ لاک ڈاؤن اور کورونا کی وجہ سے درجنوں ادارے پیدل ہوگئے،اچھے خاصے اور بڑے بڑے مدارس ابھی تک اسکے اثر سے باہر نہیں نکل سکے،لیکن لاک ڈاؤن سے قبل بھی اس مدرسے کی حالت اچھی نہیں تھی،برسوں سے بدنظمی اور بدحالی کا شکار ہے،اس ادارے کا قیام جس مقصد کے تحت عمل میں آیا، جسکے لئے بڑی قربانیاں دی گئیں،زمینیں وقف کی گئیں اور اسے پروان چڑھایا گیا، کیا اس طرح کی صورتحال سے ادارے کے قیام کامقصد اور وقف کا منشاء پورا ہورہاہے؟آخر آج یہ ادارہ بربادی کے دہانے پر کیوں ہے؟ میں نے جہاں تک غورکیا تو یہ سمجھ میں آیا کہ اس مدرسے کو ایک تعلیم گاہ اور دانش گاہ سے زیادہ سیاست کا اڈہ بناکر رکھا گیا

مدرسے کی آڑ میں سیاست کی روٹی سینکی گئیں اور مختلف مواقع پر گندی سیاست کے لئے اس دینی و تعلیمی ادارے کا استعمال کرکے اسکا روشن مستقبل تباہ کیا گیا،ذمہ داران حضرات، ادارے کی تعمیر وترقی کے لیے مخلص نہیں رہے، انھوں نے اس بات کی جانب کبھی توجہ نہیں کی کہ کبھی سنجیدہ ہوکر ادارے کی ترقی کے لیے سوچا جائے اورکام کیاجائے،جن اساتذہ کی بحالی پڑھنے پڑھانے،طلبہ کی زندگیاں بنانے اور انکی تعلیم و تربیت کے لئے ہوتی رہی وہ لوگ بھی پڑھنے پڑھانے پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی اکھاڑے میں شامل ہوتے گئے

اسی میں دل چسپی لینے لگے،پڑھنا،پڑھانا اور تعلیم وتعلم ان کے نزدیک دوسرے نمبر کی چیز کہلانےلگی،کبھی مہتمم کے خلاف سیاست،کبھی کسی گاؤں والے کے خلاف سیاست،کبھی کسی استاذ کےخلاف سیاست،توکبھی طلبا کے خلاف سیاست ہوتی رہی

یہی وہاں کے اساتذہ و عملہ کا پسندیدہ مشغلہ رہا،اساتذہ تعلیمی اوقات میں غیرضروری چیزوں میں دلچسپی لیتے رہے،خبر یہ بھی ہے کہ بعض اساتذہ نے دس دس بارہ بارہ سال سے ایک لفظ بھی طلبہ کو نہیں پڑھایا،چوبیس گھنٹے مدرسے میں رہ کر مدرسے کا کھا پی کرصرف تعویذ غنڈے کےذریعے اپنی جیب بھرتے رہے اورمدرسے کو اپنی جاگیر سمجھتے رہے،ادھر کچھ برسوں سے مدرسے میں پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ تو تقریباً ختم ہوچکاہے

بعض کا مشغلہ توصرف تعویذ لکھنا ہی رہ گیاہے چاہے کوئی بھی وقت ہو، کسی بھی اسٹاف کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ہے،تعلیم کے اوقات میں غیر ضروری چپزوں میں دلچسپی کی وجہ سے لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ”اب یہ کوئی مدرسہ نہیں ہے بلکہ تعویذ گنڈہ اور عیاشی کا اڈہ بن گیا ہے”تعویذ گنڈے کو مشغلہ بنانے میں قاری ارشد بھی سرفہرست ہیں،ایک دوسرے صاحب ان کے بہنوئی اور مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کے داماد ہیں،ایسے ‘امانت دار’لوگ جب کسی مدرسے میں ہوں تو مدرسہ اسی طرح “ترقی” کے منازل طےکرتاہے،مدرسہ کی جو موجودہ حالت ہے۔

اس میں مولانا کے داماد”موصوف” نے اہم کردار اداکیاہے،بے غیرتی اور بے شرمی کی ساری حدیں پار کردی ہیں،ذمہ داران اگر چاہتے تو آج یہ ادارہ علاقے کا ایک بڑا مرکز ہوتا،مالی بدنیتی اور بے ضابطگی کا عالم یہ ہے کہ برسوں سے جواسٹاف جتنا چندہ کرتا ہے وہ اپنے پاس ہی رکھ لیتاہے،کسی کو کوئی حساب،کتاب نہیں دینا ہے اور نہ کوئی پوچھنے والا ہے،گویا چندہ کرو،لاؤ، پکاؤ اور کھاؤ والا معاملہ چل رہاہے۔

گذشتہ 26/ اپریل 2021 کو کورونا اورلاک ڈاؤن کے ایام میں مفتی ہلال صاحبؒ راہی عدم ہوگئے اور اس دارفانی کو الوداع کہہ گئے،مفتی ہلال صاحب تو چلے گئے لیکن وہ اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ گئے،انکے تعلق سے لوگوں کے درمیان الزام تراشی کا بازار گرم ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ برسوں سے جب انھوں نے میٹنگ نہیں بلائی تو اب مدرسے کے حساب وکتاب کا کیا ہوگا؟

انتقال کے دو دن بعد انکے متعلقین مدرسہ آئے اور کسی سے پوچھے بغیر دفتر کھولا اور پتہ نہیں کیا کیا لےگئے؟دفتر کھولتے وقت کسی کو گواہ تک نہیں بنایاگیا اور نہ یہ اطلاع کسی کودی گئی،ایسی کیا جلد بازی تھی؟

الزام یہ بھی ہے کہ 2012 میں مفتی ہلال صاحبؒ نے پراسرار طریقے سے مدرسے کا رجسٹریشن کرایا،جس کا رجسٹریشن نمبر 756 ہے،اس سلسلے میں گاؤں یا علاقے کے کسی بھی رکن سے کوئی مشورہ نہیں لیا،اس کے لیے وہ کسی سے کیوں مشورہ لیتے؟

جب کہ برسوں پہلے انھوں نے کمیٹی ہی ختم کردی تھی،کمیٹی کے صدر،سکریٹری اورخزانچی کو یکسر نظر انداز کرکے، بطورِ سکریٹری اپنا نام،صدرکے طورپر قاری ارشدؒ کا نام اورخزانچی کے طورپر حافظ شکیل مرحوم کا نام داخل کرایا،اسطرح تین بھائیوں پر مشتمل ایک فرضی اور خود ساختہ کمیٹی بنالی گئی، اساتذہ کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ ڈیڑھ،دو دوسال سے ہماری تنخواہیں نہیں ملی ہیں،اسکا ذمہ دار کون ہے؟ مدرسے کے اسٹاف یہ بھی کہتے ہیں کہ مفتی ہلال صاحب جب باحیات تھے تب سے ہی ہماری تنخواہیں نہیں ملی ہیں

سوال یہ ہے کہ جب اساتذہ کی تنخواہیں نہیں مل رہی تھیں تو پھر ان لوگوں نے خاموشی کیوں اختیار کی؟ علاقے کے لوگوں سے ملاقات کیوں نہیں کی؟

لوگوں کو بتایا کیوں نہیں کہ ہماری تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں،مہتمم صاحب کے اوپر دباؤ کیوں نہیں بنایا کہ شوری و عاملہ کی میٹنگ بلائیے تاکہ ہمارا مسئلہ حل ہو،مفتی ہلال صاحب کے انتقال کے بعد مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کے دوسرے صاحب زادے قاری ارشد مرحوم جو مدرسے کے شعبہ حفظ کے استاذ تھے ان سے لوگ مسلسل کہتے رہے کہ مہتمم کا انتقال ہوگیا

اب جبکہ مدرسے میں ذمہ دار نہیں ہے، کمیٹی کے صدر،سکریٹری اورخزانچی سب کا انتقال ہوگیا، تو آپ ہی میٹنگ بلائیے،حالانکہ وہ بیمار بھی چل رہے تھے

لیکن لوگوں کی باتوں کو انھوں نے ان سنی کردی اوراس پر کوئی توجہ نہیں دی،خود میں بھی مسلسل ان کو وقفے وقفے سے توجہ دلاتا رہا کہ میٹنگ بلائیے،حالانکہ میری کوئی حیثیت نہیں ہے،مگر مدرسے کی حالت بد سے بدتر ہورہی ہے،تاکہ مسئلے کا کوئی حل نکلے،لیکن وہ ہاں ہاں کرکے ہمیشہ ٹالتے رہے اور ایک بار بھی کوئی میٹنگ نہیں بلائی،پھر خود ساختہ طور پر اپنے آپ مہتمم بھی بن بیٹھے اور اہتمام پر قبضہ کرلیا،پورے ایک سال،ایک مہینے وہ اہتمام پر مسلط رہے،اس دوران انھوں نے کیا کچھ خرد برد کیا اسکا جواب کون دےگا؟ پہلے سے ہی ان پر بعض سنگین اور گھناؤنا الزام لگتا رہا لیکن کبھی انھوں نے اس الزام کو غلط ثابت کرنے کی کوئی ادنی کوشش بھی نہیں کی

قاری ارشد مرحوم نے رمضان و بقرعید کے کارڈ وغیرہ پر اپنے نام کے ساتھ”مہتمم جامعہ حسینیہ ہرنتھ”بھی لکھوا اور چھپوادیا،جیسے وہ مہتمم بننے کا انتظار ہی کررہے تھے،ایک بڑا “کارنامہ” انھوں نے اور بھی انجام دیا جولوگوں کے درمیان موضوع بحث بنا ہوا ہے جو انکے انتقال کے دن ہی شروع ہوگئی تھی

وہ یہ کہ ان کے نام سے جتنی انکی ذاتی زمین تھی، پوری زمین انھوں نے اپنے ایک رشتے دار کے نام کرڈالی،بیوی تک کو انکے حق سے محروم کردیا، انکے حیات ہی میں انکے خلاف بیوی نے مدرسے میں رمضان سے قبل پنچائیت بلائی تھی،پنچائیت میں شامل مکھیا اور سرپینچ وغیرہ نے جب ان سے سوال کیا تو وہ پنچایت کے لوگوں کو کوئی معقول جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر کی بات کرنے لگے اورکوئی جواب نہ دےسکے،جسکے نتیجے میں کوئی فیصلہ کئے بغیر پنچایت کے لوگ مدرسے سے واپس ہوگئے

حالانکہ وہ اولاد جیسی عظیم نعمت سے بھی محروم تھے،ایسے میں اگر وہ اپنی زمین کسی کو نہ لکھتے تو دیگر اور بہت سے رشتے دار بھی انکی جائداد کے وارث ہوتے،آخر انھوں نے بیوی سمیت دیگر رشتہ داروں کی حق تلفی کیوں کی؟

جب انھوں نے اپنی ذاتی ملکیت میں ہیر پھیر کیا توکیا یہ ممکن ہے کہ مدرسے کے مال میں وہ خرد برد سے محفوظ رہے ہوں اورامانت میں خیانت نہ کی ہو؟ 28/مئی،سنیچر 2022 کو جب قاری ارشدؒ کا انتقال ہوا تو ابھی تدفین بھی نہیں ہوئی تھی،جنازہ قبرستان میں ہی رکھا ہوا ہے اور لوگوں کو انکے تعلق سے مختلف موضوع پر گفتگو اور سرگوشی کرتے ہوئے دیکھا گیا،انتقال کو چوبیس گھنٹے بھی نہیں گذرے تھے کہ فجر کے بعد صبح صبح انکے وہ رشتے دار جنکو انھوں نے اپنی پوری زمین لکھ دی یہی لوگ انکے کمرے کی چابی لیکر مدرسہ آئے اور وہی کیا جو مفتی ہلال صاحبؒ کے متعلقین نے کیا تھا

یعنی کسی کو پوچھے اوربتائے بغیر انکا کمرہ کھولا اورکسی کوگواہ تک نہیں بنایا،جب کہ مدرسے میں کئی اسٹاف اسوقت موجود تھے،مرحوم کا جو سامان مدرسے میں تھا اسے کون کیا کررہا تھا؟پھر ایسی بھی کیا جلدی تھی کہ انتقال کے بعد چوبیس گھنٹے بھی انتظار نہیں کیاجاسکا،اورانکا خزانہ لینے دوڑ پڑے،اسی دوران کسی نے گاؤں کے کچھ لوگوں کوخبر کردی،گاؤں کے کچھ لوگ آئے اورقاری ارشد کے متعلقین کو سمجا بجھاکر،مرحوم کے کھانے پینے کا کچھ سامان وغیرہ دیکر واپس بھیج دیا اور کمرے کو تالا لگاکر چابی اپنے ساتھ لےگئے۔

مدارس ہو یا مساجد یہ وقف کی پراپرٹی ہوتی ہے اور وقف کردہ چیزیں قوم وملت کی امانت ہوتی ہیں، یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہوتی،جو یہاں میراث چلے، اسلئے اسکا تحفظ ہرشخص کی بنیادی ذمہ داری ہے،مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کی اولاد کے بارے میں مختلف باتیں اب لوگوں کے درمیان زیربحث ہیں،جو یقیناً افسوسناک ہے،لوگوں کا یہ بھی الزام ہے کہ مولانا کی اولاد نے اس مدرسے کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ لیا،مدرسے کی زمین کو اپنے نام سے رجسٹری کرانے کا بھی الزام عائد کیا جارہا ہے،میں اس طرح کے الزامات کی تصدیق نہیں کرتا،خدا نہ کرے ایسا ہوا ہو

لیکن اگر ایسا کیا گیا ہے تو یہ بہرحال غلط ہے،اور یہ امانت میں کھلی خیانت ہے،اس سے لوگوں میں غلط پیغام جائے گا،مولانا عبدالرحمن صاحبؒ نے برسوں اپنے آپ کو کھپانے،مٹانے، پوری زندگی اور پوری صلاحیت صرف کرنے کے بعد جونیک نامی حاصل کی تھی اور علاقے میں جو مقام حاصل کیا تھا،ان چیزوں کی وجہ سے اب لوگ ان پر انگلی اٹھائیں گے اور ان کی شخصیت کو داغدار کریں گے،جو بہرحال غیر مناسب ہے،اسے کسی بھی طرح سے مناسب نہیں کہا جاسکتا۔ قاری ارشد کے انتقال کے بعد لوگوں کے درمیان یہ چہ می گوئیاں ہونے لگی کہ اب مدرسے کا کیا ہوگا؟ کیونکہ جیسے بھی تھا یہ مدرسہ چل رہا تھا

لوگوں نے اس لیے نظر انداز کیا اور علاقے والوں نے مدرسے کے ذمہ داروں سے کچھ نہیں پوچھا وجہ اس کی یہ رہی کہ مفتی ہلال اور قاری ارشد دونوں برادران مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کے فرزند تھے،لوگوں نے یہ سوچا کہ جیسے چلارہے ہیں چلانے دو مولانا کے لڑکے ہی تو ہیں،پھر جب قاری ارشد بھی رخصت ہوگئے تو سوال اٹھنا فطری تھا کہ اب مدرسے کا کیا ہوگا؟۔

 

کچھ لوگ مدرسے کے بارےمیں متحرک اورفکرمند ہوئے کہ کیسے کیا کیا جائے؟برسوں سے مدرسے میں کوئی میٹنگ نہیں ہوئی، اس دوران کمیٹی کے صدر،سکریٹری اور خزانچی سمیت اکثر اراکین انتقال کرگئے،اب میٹنگ کون بلائے؟ جبکہ مہتمم بھی نہیں ہیں، بہرحال یہ طے ہوا کہ کمیٹی کے جو چند ارکین موجود ہیں ان سے ہی ملاقات کی جائے اور مدرسے کے احوال سے انھیں واقف کرایا جائے،حالانکہ جو اراکین ابھی باحیات ہیں انکی تعداد بھی بہت زیادہ نہیں ہے، اکثر ان میں ضعیف اور بیمار ہیں

طے شدہ پروگرام کے مطابق جو اراکین ابھی موجود ہیں ان سے ملاجائے کیونکہ یہ لوگ مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کے زمانے سے ہی شوریٰ کے رکن ہیں، یہ کیا مشورہ دیتے ہیں پھر اس پر آگے قدم بڑھایا جائے، مدرسے کے اسٹاف سے کہا گیا کہ آپ لوگ قدیم اراکین کمیٹی سے ملاقات کیجئے، پھر وہ جو مشورہ دیں گے اس پر عمل کیا جائے گا

کئی دن گذر جانے کے بعد اسٹاف نے بعض اراکین سے ملاقات کی اور بعض سے نہیں، پھر ہرنتھ کے لوگوں نے پہل کی اور یہ مشورہ کیا کہ برسوں سے جب کمیٹی کی میٹنگ نہیں ہوئی ہے تو اب یہ کیسے معلوم ہوگا کہ کون کون لوگ کمیٹی کے رکن تھے؟ ان میں اب کتنے باقی ہیں؟ پہلے یہ معلوم کیاجائے، پھر یہ طے ہوا کہ اسکے لئے مدرسے میں جو رجسٹر ہے اسے دیکھاجائے۔

اور باحیات لوگوں کی نشاندہی کرکے انھیں اطلاع کردی جائے،تاکہ یہ اراکین کسی تاریخ کو مدرسے میں حاضر ہوجائیں اور غور وفکر کرسکیں،چنانچہ رجسٹر دیکھنے کے لئے محلے کے کچھ لوگ 4 جون 2022 کو نماز فجر کی ادائیگی کے بعد مدرسہ گئے،وہاں معلوم ہوا کہ کرنپور سے قاری احمداللہ صاحب بھی آرہے ہیں

ان کا انتظار کیاگیا،کچھ ہی دیر میں انکی گاڑی مدرسے میں داخل ہوگئی،انھوں نے پہلے مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کی قبر پر فاتحہ خوانی کی،مولانا کی قبر مدرسے کے احاطے میں ہی ہے،قاری صاحب جب فاتحہ وغیرہ سے فارغ ہوئے تو ایک نظر مدرسے کا جائزہ لیا،اسٹاف سے کچھ سوالات کے بعد انھوں نے مدرسے کا حال دیکھکر افسوس کا اظہار کیا،کیونکہ قاری احمداللہ صاحب تقریباً پندرہ برسوں کے بعد مدرسہ حاضر ہوئے تھے،حالانکہ وہ شوریٰ کے معزز رکن ہیں لیکن جب کمیٹی کی میٹنگ ہی نہیں ہوئی تو وہ مدرسہ کیونکر آتے؟۔

وہاں موجود محلے کے لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ گذشتہ کل شام مدرسے کے اسٹاف میرے پاس آئے تھے ان سے مدرسے کے بارے میں گفتگو ہوئی تو میں نے اسٹاف سے کہا تھاکہ میں کل صبح مدرسہ دیکھنے کےلیے اور مولانا کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے مقصد سے حاضر ہوں گا،اسی وجہ سے ابھی آنا ہوا،گاؤں کے لوگوں نے قاری صاحب سے کہا کہ ہم لوگ رجسٹر دیکھنے کےلئے آئے ہیں،یہاں آنے کے بعد معلوم ہوا کہ آپ بھی تشریف لارہے ہیں تو ہم لوگ آپ کا انتظار کررہے تھے، قاری صاحب نے کہا کہ بہتر ہے رجسٹر دیکھ لی جائے

اور موجودہ اراکین کو اطلاع کردی جائے۔ چنانچہ اسی وقت دفتر کھول کر رجسٹر نکالی گئی اور جو اراکین موجود ہیں انکی نشاندہی کی گئی،قاری احمد اللہ صاحب(کرن پور)،مولانا مطیع الرحمن صاحب،حافظ اظہار الحق صاحب(ہرنتھ)الحاج ماسٹر عباس صاحب(جواکھر)حاجی طیب چودھری صاحب(دریاپور)محمد طیب صاحب (کرن پور) رجسٹر دیکھ کر ان چھ لوگوں کی نشان دہی کی گئی اور اسی وقت یہ طے کرلیا گیا کہ ان اراکین کو اطلاع کردی جائے کہ کل بتاریخ 5 جون 2022 بروز اتوار صبح نو بجے آپ حضرات مدرسے میں تشریف لائیں، یہ سب اراکین مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کے منتخب کردہ ہیں،مفتی ہلال صاحبؒ 25/26 سال مہتمم رہے لیکن انھوں نے کسی کو رکن نہیں بنایا،گویا یہ لوگ مولانا کے معتمد ہیں، 6 اراکین میں سے دو یعنی حافظ اظہار صاحب اور قاری احمداللہ صاحب تو وہاں موجود ہی تھے

باقی چار لوگوں کو اطلاع کرنا تھا، اساتذہ سے کہا گیا کہ ان چاروں اراکین کو آج اطلاع دے دیں،بہر حال یہ کہہ کر قاری صاحب کرن پور کےلیے روانہ ہوگئے،اس کے ساتھ ہی گاؤں کے دس بارہ لوگ جو وہاں موجود تھے وہ بھی اپنے اپنے گھروں کو چلےگئے،سب لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف ہوگئے، لوگ مطمئن ہوگئے کہ کل آئندہ اراکین کمیٹی کا مشورہ ہوگا اور احوالِ مدرسہ کا جائزہ لیاجائے گا،اسی دن کچھ گھنٹے کے بعد یعنی ظہر کے بعد ہم لوگوں کو یہ خبر ملی کہ کل اراکین کمیٹی کی جو مشاورت ہونے والی تھی وہ کینسل کردی گئی ہے،مدرسے کے اسٹاف نے اراکین کو فون کرکے اطلاع دی ہے

پہلے تو اراکین کو یہ اطلاع کی گئی کہ کل آپ حضرات مدرسے میں تشریف لائیں پھر کچھ دیر بعد انہی اساتذہ نے یہ خبر دی کہ کل اراکین کا مشورہ نہیں ہوگا یہ پروگرام رد کردیا گیا ہے،اس خبر کے بعد بہت سے سوالات پیدا ہونے لگے کہ اراکین کا مشورہ کیوں کینسل کیا گیا ؟

کس نے کینسل کیا؟

اس کی وجہ کیا ہے؟

اراکین کی میٹنگ رد کرنے کا اختیار کس کو ہے؟

اس مشورے سے مدرسہ کا کیا نقصان ہوتا؟ وغیرہ وغیرہ

بعض اراکین تجسس میں پڑگئے کہ آخر یہ مشورہ کیوں کیسنل کیا گیا، یہ سب کیا چل رہاہے؟ اب سوال یہ تھاکہ اب کیا کیاجائے؟ مشورہ ہو تو کوئی حل نکلے لیکن یہاں تو مشورہ ہی کینسل ہوگیا،بہرحال پھر ہرنتھ کے کچھ لوگ غور وفکر کرنے کے لیے بیٹھے اور تازہ صورتحال کو سامنے رکھ کر تبادلہ خیال کیا گیا، اس میں یہ طے ہوا کہ کل اراکین کا مشورہ تو کیسنل کردیا گیا ہے

لیکن گاؤں کے لوگ کل صبح ہرحال میں مدرسہ چلیں اور وہاں چل کر مدرسے میں موجود عملہ سے یہ پوچھا جائے کہ اراکین کی بیٹھک جب آج طے تھی تو اسے کینسل کس نے کیا؟

پروگرام کینسل ہونےکی وجہ کیا ہے؟ اراکین کی میٹنگ بلانے اور کینسل کرنے کا اختیار کس کو ہے اور اگر میٹنگ کینسل ہوگئی تو مدرسے کا کیا ہوگا، یہ مدرسہ کیسے چلےگا؟چنانچہ طے شدہ پروگرام کے مطابق 5 جون صبح نو بجے گاؤں کے لوگ مدرسہ پہونچے،ہرنتھ کے ساتھ مختلف گاؤں کے افراد بھی مدرسے میں جمع ہوگئے،کچھ لوگوں نے آنے کے ساتھ ہی ہنگامہ آرائی شروع کردی،جیسے یہ پہلے سے مزاج اور پلان بناکرآئے تھے،کچھ دیر تو ہنگامے کی نذر ہوگیا

اس کے بعد جب لوگ سنجیدہ ہوئے اورگفتگو شروع ہوئی تو تقریبآ ڈیڑھ سو لوگ وہاں جمع تھے، پھر بات نکلی تو معلوم ہوا کہ یہ سب ایک استاذ کی کارستانی ہے اور انھوں نے ہی یہ میٹنگ کینسل کی ہے، کینسل کی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ اتنے سالوں سے مدرسے میں جب میٹنگ نہیں ہوئی تو اب کمیٹی کیسے باقی ہے؟۔

کمیٹی ختم ہوگئی اس لیے اراکین کی کوئی میٹنگ ویٹنگ نہیں ہوگی، مدرسے کے اس اسٹاف کو لوگوں کے سامنے بلاکر پوچھا گیا کہ آپ نے کس کے کہنے پر یہ میٹنگ کینسل کرائی؟تو اسکا کوئی اطمینان بخش جواب مذکورہ اسٹاف کے پاس نہیں تھا پھر انھوں نے مجمع میں معذرت خواہی کی اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا

مجمع میں موجود کچھ لوگوں نے کہا کہ جوکچھ ہوگیا اسے ختم کرکے اب آگے کیا کرناہے اس پر غور کیا جائے،مدرسہ کیسے چلے؟ نئی کمیٹی بنے یا کیا کیا جائے؟ بحث و مباحثہ کے بعد پورے مجمعے کی طرف سے ایک تحریر تیار ہوئی جسکو پہلے پڑھکر سنایا گیا اور پھر بطورِ تائید شرکاء نے اس پر دستخط بھی کئے۔ وہ تحریر یہ ہے”آج مورخہ ۴ ذی قعدہ ۱۴۴۳؁ھج مطابق 5 جون 2022 بروز اتوار صبح دس بجے”جامعہ حسینیہ ہرنتھ” میں ایک عوامی میٹنگ منعقد ہوئی،جس میں ہرنتھ،عمادپور اور خیرا سمیت دیگر گاؤں کے لوگ شریک ہوئے

اس میٹنگ کی صدارت محترم حسین اختر مکھیا ہرنتھ پنچایت نے کی،میٹنگ کے شرکاء نے متفق ہوکر یہ طے کیا کہ جامعہ حسینیہ ہرنتھ کی حالت دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے،ایک عرصے سے یہاں شوریٰ کی میٹنگ نہیں ہوئی ہے، اسلئے اب جامعہ حسینیہ ہرنتھ کے اصل ذمہ داران اراکین شوری ہی ہیں،اسلئے ہم لوگ اراکین شوریٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ حضرات مدرسے میں تشریف لائیں،اور مدرسہ ہذا کی فلاح و بہبود اور اسکی تعمیر وترقی کے لئے لائحہ عمل تیار کریں،امید کہ ہماری درخواست قبول فرماکر ممنون و مشکور ہونگے”

یہ تحریر پورے مجمع کی جانب سے لکھی گئی اور شرکاء نے دستخط بھی کئے،اسی وقت وہاں یہ بھی طے کیا گیا کہ اس تحریر کی ایک ایک کاپی سارے ممبران کی خدمت میں بھیج دیئے جائیں،تحریر پہنچانے کے لیے ایک چھ رکنی ٹیم کو متعین کیا گیا،میٹنگ ختم ہوتے ہی، بغیرکسی تاخیر کے متعینہ افراد کا وفد تحریر لے کر اراکین کی خدمت میں روانہ ہوا

اور اسی دن شام تک سارے اراکین کو یہ تحریر پہونچادی گئی،اکثر اراکین نے تحریر دیکھکر مسرت کا اظہار کیا،کیونکہ اس میٹنگ میں کوئی رکن شریک نہیں تھا صرف عوام تھی،یہ تحریر کسی ایک گاؤں کے لوگوں کی جانب سے بھی نہیں تھی، تحریر پہونچنے کے بعد اراکین نے 6 جون، پیر کے دن مدرسے آنے اور بیٹھنے کا فیصلہ کیا

چناں چہ 6 جون 2022 کو مدرسے میں صبح نو بجے اراکین مدرسہ کی بیٹھک ہوئی،جن میں چار اراکین حاضر ہوئے اور دو کسی عذر کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکے، اس مشورے میں مدرسے کے احوال پر غور و فکر کیا گیا،مدرسے سے متعلق مختلف امور پر تبادلہ خیال کے بعد تین تجاویز پاس کی گئیں،تجویز1 آج کی اس مجلس میں یہ بات طے پائی کہ موجودہ اراکین شوری،جامعہ کے دستور کے مطابق بقیہ اراکین کا انتخاب کریں گے

تجویز 2 تمام رجسٹرجات اور ضروری کاغذات و رسیدات وغیرہ ایک الماری میں بند کرکے رکھی جارہی ہے جس کی چابی حافظ محمد اظہار الحق صاحب(رکن شوری) کے پاس رہے گی بوقت ضرورت جن کاغذات کی ضرورت پڑے گی حافظ اظہار صاحب اپنی نگرانی میں اسے نکال کر دیں گے

تجویز3 جناب مولانا مطیع الرحمٰن صاحب،حافظ محمد اظہارالحق صاحب اور جناب طیب چودھری صاحب(اراکینِ شوری) کو مذکورہ اراکین نے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً مدرسہ تشریف لاکر احوالِ مدرسہ کا معائنہ کریں اور حسب ضرورت، حضرات اساتذہ کرام کو ہدایت فرمائیں۔

اس پروگرام کے بعد ایک ڈیڑھ ماہ تک اراکین کا کوئی دوسرا مشورہ نہیں ہوسکا،حالاں کہ دس پندرہ دن کے بعد وہ لوگ پھر بیٹھتے اور مدرسے کےلئے لائحہ عمل طے کرتے،درمیان میں بقرعید بھی آگئی، اراکین کی اپنی مصروفیات بھی رہیں اسلئے معاملہ سست رفتاری کا شکار رہا، تاخیر سے ہی سہی معاملہ ٹھیک ٹھاک ہی چل رہاتھا اور امید تھی کہ اسطرح سے مدرسے کا معاملہ حل کرلیاجائے گا،لیکن 20 جولائی بروز اتوار 2022 کی تاریخ جب اراکینِ شوریٰ نے میٹنگ بلانے کا فیصلہ کیا،تاریخ طے کردی،اوراراکین شوریٰ کے علاوہ مخصوص لوگوں کو دعوت نامہ بھی جاری کردیا گیا تاکہ مدرسے کے بارے میں کوئی لائحہ عمل طے کیا جاسکے

یہ اطلاع پاتے ہی کچھ سرپھرے اور بے روزگار قسم کے لوگ سرگرم ہوگئے،جیسے جوتیوں میں دال بٹ رہی ہو

عوام کو گمراہ کرکے ماحول میں زہر گھولنے لگے،لوگوں کو ورغلایا اور جھوٹ و فراڈ کے ذریعے یہ باور کرانے لگے کہ سونے کا خزانہ لٹ رہاہے اور کچھ لوگ اس پر قبضہ کرنےکی کوشش میں ہیں،منفی انداز میں لوگوں کی اسطرح ذہن سازی کی گئی،فون کے ذریعے دھمکیاں دی جانے لگیں ،گروپ بندی شروع کردی گئی اور مدرسے کے اسٹاف کو استعمال کرتے ہوئے،اسٹاف کے ذریعے عام لوگوں کو ایک دوسرا دعوت نامہ اسی دن اور اسی تاریخ کا جاری کروادیا،اسٹاف کے ذریعے جو ایجنڈا اور دعوت نامہ عام لوگوں کو جاری کیا گیا، اس کا مضمون آپ بھی ملاحظہ فرمائیں

“محترم زیدت معالیکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد سلام عرض ایں کہ جامعہ حسینیہ ہرنتھ کے یکے بعد دیگرے دونوں مہتمم کے انتقال کے بعد جامعہ ہذا کے نظام چلانے اور کمیٹی کی تشکیل نو کی سخت ضرورت ہے،اسکے لیے جامعہ حسینیہ کے جملہ امور کے متعلق غور وفکر اور مضبوط لائحہ عمل مرتب کرنے کےلئے مورخہ 20 جولائی 2022 مطابق 20 ذی الحجہ 1443؁ ھج دن بدھ بوقت 8 بجے صبح جامعہ ہذا میں ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی گئی

جس میں آپ کی شرکت لازمی وضروری ہے” تین اسٹاف کی دستخط سے جاری ہونے والے اس دعوت نامے میں کتنی لفظی غلطیاں ہیں اسکی نشاندہی اوراس پر کوئی تبصرہ میں نہیں کروں گا،لیکن سوال یہ ہے کہ جب اراکین شوریٰ نے تاریخ طے کردی،دعوت نامہ کے ذریعے اطلاع کردی اورکام جاری تھا تو پھر اسٹاف کو دعوت نامہ جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

مدرسے کے اسٹاف کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ میٹنگ بلائیں یا کینسل کریں؟آخر اسٹاف نے یہ سب کس کے کہنے پر کیا؟پردے کے پیچھے کون لوگ ہیں؟کیا ایسے اسٹاف مدرسے کے خیرخواہ اور ہمدرد ہوسکتے ہیں؟کیا ان اساتذہ کو اب ایک منٹ بھی مدرسے میں رہنے کا کوئی حق ہے؟ایسے اسٹاف سے مدرسے کی ترقی ممکن ہے؟ اوپر میں نے لکھا ہے کہ اسی اسٹاف نے 5 جون کی اراکین شوریٰ کی بیٹھک کینسل کرائی تھی،اور بھرے مجمع میں معافی مانگی تھی

اسٹاف کے ایجنڈا جاری کرنے کے بعد جب دو دو دعوت نامے لوگوں کے پاس پہونچے تو لوگوں میں بھی تشویش پیدا ہوئی اور پھر 20 جولائی کو وقت مقررہ پر پانچ سو سے زائد لوگ مدرسے میں جمع ہوگئے،پروگرام شروع تو ہوا لیکن ایک منصوبے کے تحت اسے ناکام بنانے کی کوشش کی جانے لگی،جسکی وجہ سے ٹکراؤ کی کیفیت بھی پیدا ہوگئی،ماحول گرم ہوگیا،ہاتھا پائی کی نوبت بھی آگئی،ظاہر ہے اتنے بڑے مجمعے میں کوئی فیصلہ یا کام کی بات تو نہیں ہوسکتی البتہ تماشا ضرور ہوسکتاہے اور وہی ہوا،حالات کو خراب ہوتے ہوئے دیکھکر بعض اراکین شوریٰ نے واپسی کی راہ لی اور اسکے ساتھ ہی شرکاء کی ایک بڑی تعداد مدرسے سے واپس ہوگئی

اب ایسے حالات کا ذمہ دار کون ہے؟

سوال یہ بھی ہے کہ مذہبی اداروں میں فیصلہ بھیڑ کرے گی یاکمیٹی کرے گی؟

لوگوں کی اتنی بڑی تعداد اور یہ بھیڑ کیوں جمع ہوئی تھی؟

ان کا مقصد کیا تھا؟

یہ تو معلوم نہیں ہوسکا لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایک طبقہ یہ چاہتاہے کہ بھیڑ کے ذریعے وہ اپنے من کے مطابق فیصلہ کرالے،جب کہ کثرت اور بھیڑ کی بنیاد پر ہونے والا فیصلہ اسلامی نہیں ہوسکتا،اسلامی اور مذہبی اداروں میں فیصلے تو اسلامی طریقے سے ہی ہونگے نہ کہ جمہوری طریقے سے؟

اس طرح ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کرنے اور ماحول کو ناسازگار بنانے میں کچھ ایسے”سفیدپوش” لوگ پیش پیش ہیں،جنکا دامن خود پہلے سے داغدار ہے

کچھ تو وہ لوگ ہیں جو مدرسے کے نام اپنی”دکان”چلارہے ہیں،انکے مدرسے میں کوئی کمیٹی ہے نا کوئی شوریٰ،نا کوئی حساب و کتاب کا نظام لیکن عہدہ ومنصب کے پجاری اورخواہش مند ایسے لوگ بھی میٹنگ میں شریک ہوئے اور پروگرام کو ہائی جیک کرنے کی ناپاک کوشش کی،کچھ وہ لوگ ہیں جنھوں نے چندے کو دھندا بنا رکھا ہے اور یہی انکا “بزنس” ہے،مدرسے کے نام پر چندہ کرتے ہیں اور پھر اس رقم سے بیوی کے نام سے زمین خرید رہے ہیں،اس میں کچھ چور چنڈال قسم کے لوگ بھی ہیں جنکو کسی مدرسے کی ذمہ داری دی گئی کچھ ماہ بعد جب کمیٹی نے ان سے حساب کتاب پوچھا تو یہ صاف مکر گئے اور کسی طرح کا کوئی حساب کتاب دینے سے انکار کردیا

نتیجہ یہ ہوا کہ اس ادارے میں لوگوں نے تالا لگادیا اوراسے بند کردیا،کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو”جامعہ حسینیہ” کے نام سے جعلی رسید چھپاکر گجرات وغیرہ میں چندہ کرتے رہے اور پھر پکڑے گئے،کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو صدر کے عہدے کے خواہشمند ہیں،کسی کی نظر سکریٹری کے عہدے پر ہے توکسی کی اور دوسرے عہدے پر،اکثریت کی نظر مسند اہتمام پر ہے،یعنی جتنے لوگ اس میں شامل ہیں سب مفادپرستی،خودغرضی اور جاہ پرستی کا شکار ہیں،کیا ایسے لوگ ادارے کو تباہ وبرباد ہونے سے بچاسکتے ہیں؟کیا اسطرح کے رویے سے یہ ادارہ محفوظ اور باقی رہے گا؟ مفتی ہلال صاحبؒ کو منتخب کرتے وقت بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

اراکین شوریٰ جو فیصلہ لیناچاہتے تھے وہ نہ لے سکے اور انھیں بھیڑ کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑا،عوام کی بھیڑ دیکھ کر بعض اراکین انتہائی افسردہ ہوگئے تھے ،حضرت مولانا شیخ اکرام علی صاحبؒ جو اس وقت کمیٹی کے صدر تھے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے مدرسے سے واپس چلے گئے تھے،کیا ہمیشہ اس مدرسے میں اسی طرح ہوتا رہےگا اور بھیڑ فیصلہ کرتی رہے گی؟۔

حضرت قاری صدیق صاحب باندویؒ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ”عوام کی بے جا دخل اندازی اور علماء کی ناقدری کے بعد کوئی مدرسہ نہیں چل سکتا اور نہ ترقی کرسکتا ہے،مدرسہ چلانا اہل علم کا کام ہے عوام کا نہیں”(تحفہ مدارس)مدرسے کی ابھی جوحالت ہے۔

اس کی بربادی کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو،جس کی وجہ سے کوئی خاص ترقی یہاں نہیں ہوسکی،ابھی جو حالت یہاں کی ہے اگر اسے اسی حال میں چھوڑدیا جائے تو یہ خود بہ خود سال دوسال میں بند ہوجائے گا، بند کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی،مولانا عبدالرحمن صاحبؒ نے مدرسے کے لیے ایک ایسا دستور بنایا تھا جسکا علم انکے بعض اراکین کو بھی نہیں تھا،مولانا کا بنایا ہوا ایک ادھورا اورناقابل عمل دستور کیا ہے؟ ۔

اس کا جائزہ ہم کسی دوسری تحریر میں پیش کریں گے،یہ تحریر میں ختم کرناچاہ رہا ہوں لیکن قلم نہیں رک رہاہے،وہ چلتا چلا جارہاہے،جب لکھنے بیٹھا تو ارادہ تھا کہ تحریر زیادہ لمبی نہیں ہوگی لیکن قلم بڑا سیال نکلا،ایک آخری بات علاقے کے تمام لوگوں کی خدمت میں عرض کررہاہوں کہ خدا کے واسطے اپنے مفاد کےلئے،عہدے کےلئے اور اپنی انا کی تسکین کےلئے ادارے کو برباد نہ کرو،علاقے کے سنجیدہ اور باشعور لوگوں کو سامنے آکر اس سنگین اور پیچیدہ مسئلے کو حل کرنا چاہئے،اس قدیم ادارے کی بقاء وتحفظ کے لئے مناسب تدبیر اختیار کرکے نئے سرے سے مدرسے کا نظام مرتب کرناچاہئے،یہ ادارہ کیسے پھلے پھولے اور کیسے ہراعتبار سے ترقی کرے اسکی فکر ہر ایک کو اپنے مفاد سے بالاتر ہوکر کرنا ہوگا۔

یہی بانیانِ مدرسہ مولانا یعقوب صاحب اور مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کو بہترین خراج ہوگا،ورنہ ملک بھر کے جو موجودہ حالات ہیں ایسے میں حکومت کو اس طرح کے معاملات کی تلاش رہتی ہے،آسام اور یوپی سمیت ملک کی دیگر ریاستوں میں مدارس و مساجد کے ساتھ جو کچھ حکومت کررہی ہے، اس سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے۔

آسام حکومت نے اب تک 800 سے زائد مدرسوں کو بند کردیا ہے،اورتین مدرسوں کی عمارت کوایک مہینے کے اندر بلڈوزر کے ذریعے زمیں بوس کردیاگیا،یوپی حکومت نے ریاست کے ہزاروں مدارس کے سروے کا تازه حکم جاری کردیا ہے اس سے قبل کان پور اور اعظم گڑھ کے ایک ایک مدرسے کو بلڈوزر کے ذریعے منہدم کردیا گیا،بہار میں بی جے پی کے بعض لیڈروں نے بھی مدرسوں کے تعلق سے آواز اٹھانا شروع کردیا ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ” مدرسہ حسینیہ ہرنتھ” کی وجہ سے علاقے کے لوگ اختلاف وانتشار کا شکار ہوکر اس سے محروم ہوجائیں۔

اور یہ اداره حکومت کی تحويل میں چلاجائے،ملک میں مسلمانوں اور انکے مذہبی اداروں خطرات کے بادل منڈلا رہےہیں ایسے میں ہمیں حکمتِ عملی اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اپنے اداروں کی حفاظت کرنی ہوگی،علاقے کے بڑے اور اثرورسوخ رکھنے والے حضرات کے سپرد اس معاملے کو کردیاجائے،تاکہ وہ لوگ سنجیدہ ہوکر کوئی حل نکال سکیں۔

اپنے آپ کو بڑا بننے اور سمجھنے کے بجائے بڑے لوگوں کی خدمت میں اس مسئلے کو رکھدیا جائے،رکاوٹ، انتشار اور گروپ بندی کا ماحول پیدا کرکے آپ مدرسے کا ہرگز کوئی بھلا نہیں کرسکتے، ملکی حالات کا تقاضا یہ ہے کہ ہرقسم کے اختلاف وانتشار سے دامن بچاتے ہوئے ہم اپنے معاملات اور مسائل کوحل کریں اورمتحد ہوکر اپنے مذہبی اداروں کا تحفظ کریں،وہ تمام لوگ جو مدرسے کونقصان پہونچانے اوراسکی اینٹ سے اینٹ بجانے کے ددپے ہیں ایسے لوگ”نادان دوست” ہیں۔

اس طرح کی ماحول سازی کرکے نہ اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہونچاسکتے ہیں اورنہ ہی ادارے کو،امید کہ جس فکر اور دردمندی کے ساتھ یہ تحریر لکھی گئی ہے وہ صدابصحراء ثابت نہ ہوگی، قتیل شفائی کے اس کلام کے ساتھ اپنی بات ختم کرتاہوں کہ رشتۂ دیوار و در، تیرا بھی ہے،میرا بھی ہے۔ مت گرا اس کو یہ گھر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے۔ تیرے میرے دم سے ہی قائم ہیں اس کی رونقیں۔ میرے بھائی یہ نگر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے۔ کیوں لڑیں آپس میں ہم ایک ایک سنگِ میل پر۔ اس میں نقصانِ سفر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے۔ شاخ شاخ اس کی ہمیشہ بازوئے شفقت بنی۔ سایہ سایہ یہ شجر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے۔

کھا گئی کل ناگہاں جن کو فسادوں کی صلیب۔ ان میں اک نورِ نظر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے۔ اپنی حالت پر نہیں تنہا کوئی بھی سوگوار۔ دامنِ دل تر بہ تر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے۔ کچھ تو ہم اپنے ضمیروں سے بھی کر لیں مشورہ۔ گرچہ رہبر معتبر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے۔ غم تو یہ ہے گر گئی دستارِ عزت بھی قتیل۔ ورنہ ان کاندھوں پہ سر تیرا بھی ہے، میرا بھی ہے۔

✒️سرفرازاحمدقاسمی،حیدرآباد

برائے رابطہ: 8099695186

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں

sarfarazahmedqasmi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *