قوم کا آخری گناہ
قوم کا آخری گناہ
انس مسرورانصاری
انسانی معاشرہ ایک ایسا نظامِ زندگی ہی جو بہترین انسانوں کو تخلیق کرتا ہے اور بدترین انسانوں کوبھی۔ قوم کے رہ نماؤں اور دانش وروں پرلازم ہے کہ وہ انسانی نظامِ معاشرت کے حرکت و عمل اور بدلتے ہوئے پہلوؤں پرکڑی نگاہ رکھیں۔
وہ قوم کے راہ نما اور دانش ور ہیں۔ قوم کوکن امور سے بچانا اور کن امور کی طرف راغب کرنا ہے،یہ ان کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فرض بھی ہے۔قوم کوکن خطوط پرچلاناہے،یہ وہی طےَ کریں گے۔قوم کے علما و دانش ورقوم کی کشتی کے ناخداہوتے ہیں۔
وہ چاہیں تو قوم کی ڈوبتی ہوئی کشتی کوکناریپرلے آئیں اورنہ چاہیں توکشتی توڈوب ہی رہی ہے۔وہ خلیفتہ اللہ فی الاض اورنائب الرسول ہیں۔
جیسا کہ وہ خودمانتے،جانتی اوراعلان کرتے ہیں ۔اب اگروہ اپنے فرائضِ منصبی سے غافل ہیں تووہ قوم کے بھی مجرم ہیں اور خداکے بھی مجرم ہیں۔
وہ قوم کوبھی جواب دہ ہیں اورخداکوبھی۔!یہی لوگ قوم کے زوال کاسبب ہوتے ہیں۔یہ اپنے معاشرہ میں بے عمل،غیر متحرک اور غیرفعال زندگی بسرکرتے ہیں۔اپنی ذات کے حصارمیں بند قوم کو شیطانوں اورخونی بھیڑیوں کے حوالے کردیتے ہیں۔انھیں صرف ذاتی منفعت سے غرض ہوتی ہے ۔
معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائیوں سے چشم پوشی کسی قوم کا آخری گناہ ہوتی ہے۔پھرقدرت اس قوم کومعاف نہیں کرتی۔تباہی وبربادی اس کامقدربن جاتی ہے۔
تاریخ کامطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس خاک دانِ گیتی میں بہت ساری قومیں ابھریں،عروج حاصل کیا، عیش پرستی میں مبتلا ہوئیں اورتباہی وبربادی نے ان کے نام ونشان تک مٹا ڈالے۔
عجیب لوگ تھے صدیوں تو سربلند رہے
مگر مٹے تو نشا نِ مزار تک نہ رہا
(انس مسرور انصاری)
دراصل برائیاں چھوت کی موذی اورمہلک بیماریوں کی طرح ہوتی ہیں۔
غیرمحسوس طریقے سے معاشرہ میں اندرہی اندرپرورش پاتی اورنشوونماحاصل کرتی ہیں چوں کہ انسان کوحظِ نفس کا سامان فراہم کرتی اوروقتی لذتوں سے ہمکنارکرتی ہیں اس لیے ان کی بیخ کنی کے لیے پیش بندی کی طرف توجہ نہیں ہوپاتی اور قصداَ بھی نظراندازکیاجاتاہے۔
سب سے پہلے معاشرے کامقتدرطبقہ انھیں اپناتا اورگلے لگاتا ہے ۔ابتداء میں پوشیدہ طریقے پراعلاطبقہ میں رائج ہوتی ہیں لیکن جب آہستہ آہستہ ان کے تباہ کن اثرات کا احساس کم ہوجاتاہے ہے یاجب کثرتِ گناہ سے احساسِ گناہ معدوم ہو جاتاہے تویہ برائیاں پردہء خفاسے باہرنکل آتی ہیں چوں کہ معاشرے میں اعلاطبقہ کے افعال بھی اعلاطبقہ سے ادنیٰ اورمتوسط طبقوں میں چلے آتے ہیں۔
چناں چہ جس طرح چھوٹے لوگ ہر معاملہ میں بڑے لوگوں کا اتباع کرتے ہیں اسی طرح برائیوں کوبھی یہ لوگ رائج کرلیتے ہیں۔ مقتدرطبقہ میں ان برائیوں کا انسدادجس قدرآسان ہوتا ہے ، چھوٹے طبقوں میں اتناہی مشکل اورکبھی کبھی ناممکن ہوتاہے۔
بغیر کسی روک ٹوک اور دشواری کے یہ برائیاں معاشرے میں نشوونماپاتی رہتی ہیں۔
رفتہ رفتہ ان کادائرہ وسیع سے وسیع تر ہوجاتاہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ان کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست ہوجاتی ہیں اور اپنے تباہ کن اثرات پھیلاتی رہتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے معاشرہ اورقوم کاانجام نہایت ہی عبرت ناک ہوگا۔
قوم کے افرادجب معاشرہ کی برائیوں سے نگاہیں بچانے لگتے ہیں اوران کے انسدادکاجذبہ پیدانہیں ہوتاتوبچے کھچے صالح عناصر کمزور اوربے جان ہوجاتے ہیں۔
چوں کہ کسی طرف سے انھیں طاقت نہیں مل پاتی اس لیے معصیت کے مقابلہ میں ان کی قوتِ مدافعت بے کار ہوجاتی ہے۔برائیاں دیمک کی طرح معاشرے کواندرہی اندرچاٹ جاتی ہیں ۔
یہ وہ آخری گناہ ہے جسے ہم قوم کی تباہی وبر بادی کاپیش خیمہ کہہ سکتے ہیں۔
موجودہ مسلم معاشرہ میں رائج غیراسلامی رسومات ،منگنی (تلک) شادی ،بارات،جہیز،ہنودی رسمیں،زینت وزیبائش وآرائش،پٹاخے،پھلجھڑیاں،دھوم دھام ایسے سلگتے مسائل ہیں جن کی وجہ سے مسلم معاشرہ کے تاروپودبکھرگئے ہیں۔ ان موضوعات پربارباراورکثرت سے لکھنے کی ضرورت ہے
انس مسرورانصاری
قومی اردوتحریک فاؤنڈیشن
سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔ امبیڈنگر۲۲۴۱۹۰۔(یو،پی)
Pingback: آم کی چٹنی ⋆ اردو دنیا انس مسرورؔانصاری
Pingback: بک رہا ہوں جنوں میں قسط دوم ⋆ اردو دنیا
Pingback: کڑوا شربت ⋆ اردو دنیا انس مسرورانصاری
Pingback: نعت رسول مقبول در صنعت غیر منقوطہ ⋆ انس مسرور انصاری
Pingback: جنگ آخر جنگ ہے ⋆ اردو دنیا