گجرات دنگا چرچا بی جے پی کی سیاست کے لیے سود مند
مشرف شمسی
۔ 2002 کی چرچا بی جے پی کی سیاست کے لیے سود مند ۔ گجرات دنگا چرچا بی جے پی کی سیاست کے لیے سود مند
گجرات اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے 2002 کے فساد میں بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری معاملے میں سزایافتہ قیدیوں کو رہا کیا جانا اور گجرات چناؤ کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کا یہ کہنا کہ 2002 میں سبق سیکھا دیا گیا ۔
اس لیے آج گجرات میں امن و سکون ہے۔ان دونوں باتوں سے صاف ہے کہ 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی آج بیس سال بعد بھی بی جے پی کے لئے ووٹ حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
اس لیے ملک کے ایک طبقہ کا یہ کہنا کہ بی بی سی کی ڈاکومنٹری جو گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی پر مبنی ہے اُسے دکھانے سے وزیر اعظم مودی کی عالمی برادری میں فضیحت ہوگی کیوں کہ اس ڈاکومنٹری میں اس وقت کی گجرات سرکار جس کے سربراہ نریندر مودی تھے اپنا راج دھرم نہیں نبھائے۔
وزیر اعظم مودی کی عالمی برادری میں اس ڈاکومنٹری سے تب فضیحت پشیمانی ہوتی جب انگلینڈ کے وزیر اعظم رشی سنک اس ڈاکومنٹری کے ساتھ کھڑے ہوتے ۔
حالاں کہ یہ ڈاکومنٹری اس وقت کی برٹش حکومت کی جانچ رپورٹ پر مبنی ہے۔ اس کے باوجود سنک نے بی بی سی کی اس ڈاکومنٹری سے اپنی حکومت کو الگ کر لیا ہے ۔
سنک یہ جانتے ہیں کہ بی بی سی کی اس ڈاکومنٹری کے ساتھ کھڑے ہونے سے بھارت کے ساتھ آپسی رشتے میں کڑواہٹ آئے گی ۔ بھارت صرف انگلینڈ کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے مغربی ممالک کے لیے نہ صرف تجارتی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ اسٹریٹجک لحاظ سے اُن ممالک کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب سنک اگر اس ڈاکومنٹری کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کرتے تو بھارت کی عدلیہ کے ذریعہ مودی کو کلین چٹ دیئے جانے کے باوجود اس پورے معاملے کو انٹرنیشنل کورٹ میں لے جانا پڑتا جو آسان کام نہیں ہے۔
پھر وزیر اعظم سنک اپنے ملک میں کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کرتے ہیں جو ایک دائیں بازو کی پارٹی ہے اور ایک دائیں بازو کی پارٹی دوسرے دائیں بازو کی پارٹی کے خلاف کام کرے گی یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔
بلکہ بی بی سی کی اس ڈاکومنٹری سے مودی اور بی جے پی کو سیاسی اعتبار سے ملک میں فائدہ ہی فائدہ پہنچے گا۔اس لیے اس ڈاکومنٹری کے وقت پر سوال اٹھایا جا رہا ہے ۔
ایسے وقت میں اس ڈاکومنٹری کو لایا گیا ہے جب بھارت کی مودی سرکار راہل گاندھی کی پیدل یاترا سے بے چینی محسوس کر رہی ہے ۔ راہل گاندھی نے اپنی پیدل یاترا میں مسلسل منہگائی ،بے روزگاری اور ملک میں نفرت کے ماحول کو موضوع بنا کر مودی سرکار کو بیک فٹ پر لا دیا ہے ۔
دوسری جانب بہار میں ذات کی مردم شُماری کرانے سے بی جے پی کے ہندو ووٹ میں درار پڑنے کی امید کی جا رہی ہے۔
ایسے میں 2002 فساد کی ڈاکومنٹری کا سامنے آنے سے کمزور پڑتی بی جے پی میں نئی جان آ گئی ہے۔کیوں کہ 2002 کی مسلم نسل کشی ہمیشہ سے بی جے پی کی سیاست کے لیے زرخیز رہی ہے ۔
ایسے میں جبکہ اس سال دس ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور آئندہ سال لوک سبھا کا چناؤ بھی ہے بی بی سی کی ڈاکومنٹری کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
بی بی سی کی ڈاکومنٹری میں جو کچھ بھی دکھایا گیا ہے اس بات سے مودی مخالف اور حمایتی بہت حد تک پہلے سے متّفق ہیں۔حالانکہ سپریم کورٹ مودی کو کلین چٹ دے دی ہے ۔اس کے باوجود حمایتی مودی کو 2002 کا ہیرو مانتے ہیں جبکہ مخالف اُنھیں ولین مانتے ہیں۔
سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر راج دھرم نہیں نبھانے کی بات کی تھی۔
اس لیے بی بی سی کی ڈاکومنٹری کے وقت پر تو سوال اٹھتا ہی ہے۔ساتھ ہی بھارت سرکار جس طرح سے اس ڈاکومنٹری کو سوشل سائٹ سے ہٹانے میں جلد بازی کی وہ بھی ایک سوال کھڑا کرتا ہے۔
لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ اس ڈاکومنٹری کی چرچا جتنی زیادہ ہوگی وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کو نقصان سے زیادہ انتخابی فائدہ ہوگا ۔ کیوں کہ 2002 نے مودی جی کو وزیر اعلی سے وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچایا ہے۔
میرا روڈ ،ممبئی
موبائل 9322674787
Pingback: اڈانی کے ساتھ مودی جی کی ساکھ داؤ پر ⋆ مشرف شمسی
Pingback: چوبیس کے شہ اور مات کا کھیل شروع ⋆ مشرف شمسی