مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور اس کا شجرہ طوبی
مدارس اسلامیہ کی تاریخ اور اس کا شجرہ طوبی
از : محمد ثاقب ندوی
مدرسہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں پڑھنے پڑھانے کی جگہ، ابتدائی ادوار میں عالم اسلام میں مدرسہ کے متوازی دوسری اصطلاحیں بھی رائج ہوئیں، مثلاً رباط، زاویہ، دویرہ وغیرہ مگر جو شہرت ومقبولیت اور رواج عام لفظ مدرسہ کو حاصل ہوا وہ کسی دوسری اصطلاح کے حصے میں نہ آسکا۔
لغوی اعتبار سے مدرسہ کی ابتدا قرون اولیٰ سے شروع ہوتی ہے، جن میں مدرسہ صحنِ ابو بکر، مدرسہ دار ارقم، مدرسہ اخت عمر، اور مدرسہ مصعب بن عمیر اور ابن مکتوم، اور جس کی ایک اہم کڑی مدرسہ صفہ ہے جو عہد رسالت میں مدرسہ کے وجود کی اعلیٰ مثال ہے جس کے ممتاز طالب علموں میں سے ایک اہم نام امام المحدثین حضرت ابو ہریرہ کا ہے
عہد خلافت راشدہ میں مکاتب و مدارس کو وسعت ہوئی اور اس کی وسعت کا اندازہ بہ خوبی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کو جامع مسجد دمشق میں قرآن پڑھانے کے لیے مقرر فرمایا جہاں بیک وقت تقریباً سولہ سو طالب علم کی کثیر تعداد ان کے درس میں شریک رہتی تھی۔
خلافت راشدہ کے بعد یہ سلسلہ کڑی در کڑی دور بنوامیہ اور بنوعباس میں چراغ سے چراغ جلاتا رہا، عباسی دور کی دو درس گاہیں خاص طور سے ممتاز تھیں، درس گاہ امام ابو حنیفہ کوفہ میں اور درس گاہ امام مالک مدینہ میں۔
تیسری صدی ہجری میں تیونس کی جامع مسجد میں جامعۃ الزیتونہ اور دوسرا جامع ازہر جو فاطمی سلاطین کے دور میں مصر میں قائم ہوا۔ عرفی معنی کے اعتبار سے مدارس کا باقاعدہ سلسلہ چوتھی صدی ہجری کے اواخر اور گیارہویں صدی عیسوی کے اوائل سے شروع ہوتا ہے، علامہ مقریزی رحمہ اللہ کے مطابق ادارے کی شکل میں مدارس کی بنیاد سب سے پہلے اہلِ نیشاپور رکھی۔
ان ادوار کے مدارس کی فہرست بہت لمبی ہے اور ان کے فضلاء کی تعداد بھی حد شمار سے باہر ہے، اور امت مسلمہ پر ان کے احسانات بھی بے پایاں ہیں، اس کے باوجود یہ مضمون ان سب کے ذکر کا متحمل نہیں ہے، تاہم ان میں سے بعض کا ذکر بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے۔
جن میں سے مشہور، مدرسہ بیہقیہ، مدرسہ سلطان محمود غزنوی، اور مدرسہ نظامیہ ہے جو نظام الملک طوسی رحمہ اللہ نے امام الحرم الجوینی رحمہ اللہ کے لیے تعمیر کرایا تھا، اور مدرسہ قرطبہ جس کی عظمت کا اندازہ اس کے کتب خانہ سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں چار لاکھ نادر کتابیں موجود تھیں اور صرف اس کی فہرست چوالیس جلدوں پر مشتمل تھا۔
ان ادوار کے فضلامیں مشہور نام امام محمد بن محمد غزالی رحمہ اللہ، ابو علی حسین بن عبد اللہ ابن سینا رحمہ اللہ، ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی، امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقی، اور یوسف بن عبد اللہ المعروف ابنِ عبد البر اندلسی رحمہ اللہ ہیں۔
یہ وہ زمانہ ہے جب اسلام کی شعائیں دنیا کے مختلف حصوں میں پہونچ چکی تھیں اور یہی وہ زمانہ ہے جب برصغیر میں ترک پٹھان اور مغل داخل ہونا شروع ہوئے، یوں تو ان سے صدیوں پیشتر عرب تاجر سندھ اور مالابار سے لے کر گجرات تک بحر ہند کے پورے سواحل پر پھیل کر علم و ادب کی قندیلیں روشن کر چکے تھے۔
اور ساتویں صدی ہجری میں پورا ہندوستان علوم و فنون کا گہوارہ بن چکا تھا، مگر افسوس صد افسوس ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر میں آمد کے بعد ہندوستان کا جہاں سیاسی و انتظامی نظام کا نقشہ تبدیل ہوا وہیں تعلیمی نظام بھی یکسر تبدیل کر دیا گیا،دوسری طرف عیسائیت کی تبلیغ کے لیے مشن اسکول کو ترویج دیا گیا۔
جو نظام تعلیم مسلمانوں کی مذہبی زندگی کے لئے تباہ کن و مہلک حربہ تھا۔ اوراٹھارہ سو ستاون کے ہنگامہ نے تو دلوں کو ہیبت زدہ دماغوں کو ماؤف روحوں کو پزمردہ اور پوری قوم کو مفلوج کر دیا۔
ایسے جان گسل اور پر فتن دور میں اربابِ علم و فضل اور علماء ربانیین نے پندرہ محرم الحرام ١٣٨٣ہجری بمطابق ١٨٦٦کو چھوٹی سی چھتہ والی مسجد میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی پھر اس کے بعد کئی عظیم مدارس و جامعات منصۂ شہود پر آۓ اور ایک ایسا لازوال سلسلہ شروع ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں پھیل گیا
اور اسلامی علوم کو غیروں کی کتروبینت سے محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور چہار دانگ عالم میں علم کی قندیلیں روشن کی۔ ہندوستان سے مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی بقا و تحفظ کے لیے دارالعلوم دیوبند اور اس کے بعد قائم ہونے والے مدارس اسلامیہ کی ہمہ گیر خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
ان کا ماضی بھی تاب ناک ہے اور مستقبل بھی اسلامی امیدوں کی آماج گاہ ہے، اور اسلامی تہذیب کی پرداخت کا اسلحہ خانہ ہے۔ اور ان سب مدارس اسلامیہ کا شجرہ طوبی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی درس گاہ سے جا ملتا ہے جہاں تشنگان علم شمع رسالت کے ارد گرد طواف کرتے تھے۔
بہار اب جو دنیا میں آئی ہوئی ہے
یہ سب پود انہیں کی لگائی ہوئی ہے
از : محمد ثاقب ندوی
متعلم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ