امید پہ جیتا ہے زمانہ
امید پہ جیتا ہے زمانہ
نياز احمد سجاد
ظلم پھر بھی ظلم ہے ۔ جب حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کی آندھی دیر تک نہیں ٹکتی۔ مظلوم کی آہ میں اللہ نے وہ قوت و طاقت رکھی ہے کہ وقت کے جابر و ظالم حکمرانوں اور بالا نشینوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے اور ان کے تخت کو تاراج ہوتے دیر نہیں لگتی ۔ ظلم و تشدد کے پہاڑوں کو ڈھیر ہوتے دیر نہیں لگتی ۔ وقت کے فرعونوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ چند دنوں کی مزاحمت میں ملک بدر ہونا پڑے گا اور نا معلوم جگہ میں پناہ لینے میں ہی عافیت ہوگی۔
زندہ مثال ابھی چند ماہ قبل بنگلہ دیش کا کایا پلٹ کا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اور تازہ مثال سقوط شام جسے اب ہم سوریا اور انگلش میں سیریا کہتے ہیں، اس طرح انقلاب کی مثالیں تاریخ کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں ۔ جسے چنداں دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ملک شام کی ایک عظیم الشان اور تابناک تاریخ رہی ہے۔ سینکڑوں انبیاء کرام کی قبریں وہاں موجود ہیں۔
ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بزرگان دین اور سلف صالحین وہاں مدفون ہیں ۔ شام کی سر زمین بہت با برکت اور پاک ہے۔
بخاری شریف کے کتاب الفتن میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ملک شام کے لیے خصوصی دعا کی اور فرمایا کہ “اللہم بارک لنا فی شامنا” کہ اللہ ہمیں ملک شام کے لیے برکت دے۔
تو کہیں آپ ﷺ نے فرمایا ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ : طوبٰی للشام، قلنا: لأیّ ذٰلک یارسول اللّٰہ ؟ قال لأن ملائکۃ الرحمٰن باسطۃ أجنحتَہا علیہا۔‘‘ (رواہ الترمذی)
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ شام کے لیے خوش خبری ہے تو صحابہ نے عرض کیا کہ کیا وجہ ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے ان پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔
ملک شام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ساتویں صدی عیسوی میں اسلام کا سورج طلوع ہوا اور اس وقت سے آج تک وہاں سورج کی کرنیں روشن ہیں ۔
کبھی اسلامی حکومت کا دار الخلافہ رہا تو کبھی دمشق کو مرکزی حیثیت حاصل رہا ۔ شام نے بھی دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ بہت سے نشیب وفراز دیکھے ہیں ۔ کبھی لوگوں کو ملک بدر کیا گیا تو کبھی ان پر ظلم و غارت گری کے پہاڑ توڑے گئے ، انسانیت کا خون پانی کی طرح بہایا گیا ۔ ادھر نصف صدی سے زائد مطلق العنان جابر و ظالم بادشاہ کا قبضہ ہے ۔ بدیہ النظر عوام کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے ۔ لیکن سیاست اور وہاں کی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پہ پابندی ہے ۔
بشار الاسد سے پہلے اس کے والد حافظ الاسد نے فوج اور سویلین آفیسر کے قبضے کے بعد ایک انقلاب کے بعد ملک کا باگ ڈور سنبھالا تھا اور تقریبا 29 سال حکومت پہ قابض رہے اور فی الحال 24 سال سے ان کے بیٹے بشار الاسد شام کی حکومت پہ قابض ہیں۔
یعنی 55 سال سے باپ ، بیٹے اس ملک کو طاقت اور قوت اور بیرونی مداخلت کے زور پر عوام کا خون چوس رہے ہیں اور 1982 میں حافظ الاسد نے حماۃ شہر میں خونی آپریشن کرکے پورے شہر کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا جس میں خواتین و بچوں سمیت ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا ظلم و ستم کی داستان ایسی ہی پروان چڑھتی رہی اور اجتماعی نسل کشی کے جو کارنامے انجام دیئے گئے۔
جس سے انسانیت ہی نہیں بلکہ فطرت خداوندی کو بھی شرم آتی ہے۔ بشار الاسد کے ظلم کی داستان اتنی گھنونی اور اتنی نفرت آمیز ہے کہ 2011 میں اس کی حکومت نے تقریباََ لاکھو لوگوں کو بے گھر کر دیا تھا اور کئی لاکھ افراد کو قتل کر وا دیا تھا جو کہ تاریخ کے بھیانک نسل کشیوں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔
2011 میں تیونس سے درس عبرت لیتے ہوئے بشار الاسد کے ظلم کے خلاف مزاحمتی تحریک عمل میں آئی اور اس نے باغیانہ تیور اختیار کرتے ہوئے بشار الاسد کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ۔ جس کو بشار کی حکومت نے دہشت گرد بتاکر جیلوں میں ٹھونس دیا اور ایسی تباہی مچائی کہ شام کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
2012 میں دو شہروں حلب اور ادلب میں حکومت نے مخالفین اور مزاحمتی تحریک کے جانبازوں کو نشانہ بنا کر دونوں شہر کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا جس میں تین لاکھ سے زائد افراد مارے گۓ ۔ بشار الاسد اپنے باپ سے بھی دو قدم آگے نکلا جس نے ظلم و تشدد کی ساری حدوں کو پار کرتے ہوئے دوسروں کی مدد سے ملک شام کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور نفرت کی آگ میں پورا ملک کو جھونک دیا ۔
بہرحال ظلم کی آندھی دیرپا نہیں ہوتی اور انقلاب اور ھیئۃ تحریر الشام کی کوششیں اور ان کی قربانیاں رنگ لائیں اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ منظم ہو کر بشار الاسد اور اس کی فوج سے نبردآزما ہوئی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ہفتہ و عشرہ میں سوریا کے حالات دگرگوں ہو گئے اور آنا فانا صدر مملکت کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔ لوگ صدارتی محل میں داخل ہوکر اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں ۔
ہر طرف سے تکبیر و تہلیل کی آوازیں گونجنے لگیں۔ چوراہوں اور سڑکوں پہ جشن اور رقص کرنے لگے۔ دمشق کی اموی مسجد سے تکبیرات کی آوازیں پورے شہر کو مسحور کرنے لگیں۔ قرائن اور آثار نے جو خبر دی تھی وہ آج ساکار ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ دمشق کے ساتھ ساتھ حماۃ، حمص ، ادلب پر قبضہ ہو گیا ۔ حمص کی سینٹرل جیل سے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا گیا اور عام معافی کا اعلان کر دیا گیا ۔ عبوری وزیر اعظم محمد غازی الجلالین نے اس موقع پر کہا کہ ہم ملک کے نظام کو مستحکم اور معتدل کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
ریڈیو اور ٹیلیویژن کی عمارت پہ ہمارا پورا کنٹرول ہے۔ صیدنایا جیل سے بھی تمام لوگوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ھیئۃ تحریر الشام کے کمانڈر ان چیف ابو محمد الجولانی نے دو ٹوک لفظوں میں کہ دیا ہے کہ بشار الاسد کو حکومت سے بے دخل کرنا ان کا اولین ہدف تھا اور آج ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے اس خواب کی تکمیل کرلی ہے ۔
بلا تفریق عوام کی حفاظت ہماری سب سے پہلی ترجیح ہے ۔ملک شام کی یہ آزادی نے آج پھر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ (فاتح شام ) کی تاریخ کو تازہ کر دیا ہے اور ملک شام کو ظالم خاندان کی غلامی سے آزادی مل گئی ہے ۔ علامه یوسف القرضاوی رح کی اہل شام کو کرائی گئی یقین دہانی آج پوری ہوئی ۔ “انہوں نے قسم کھاکر کہا تھا : اے شامیو! تم ضرور کامیاب ہوگے، کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ مومنوں کو ظالموں کے رحم و کرم پر چھوڑدے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ باطل حق پر غالب رہے، بس تم لوگ ثابت قدم رہو” اللہ علامہ قرضاوی پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے، آج ان کی بات سچ ثابت ہوئی!
اللہ تعالی شامی عوام کو حقیقی آزادی اور سر بلندی سے سرفراز کرے اور ملک کو ہر طرح کی خارجی و داخلی شرور و فتن سے محفوظ فرمائے ۔ ملک و ملت کے لئے نافع اور دوسروں کے لیے درس عبرت بنائے ۔اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
نياز احمد سجاد