جنون عشق سے تو خدا بھی نہ بچ سکا اقبال
جنون عشق سے تو خدا بھی نہ بچ سکا اقبال
“محمد فاروق حیدر علی
+ 918651733512
فرانس کی دار الحکومت پیرس کی مشہور و معروف سربون یونیورسٹی جو ،سائیس ،کامرس ، آرٹس ،لیٹریچر، سماجیات و انسانیات کی تعلیم اور تحقیق کے میدان میں نمایاں مقام رکھتی ہیں یوسف اسی یونیورسٹی میں لیٹریچر سے ایم اے کر رہا تھا
پر وہ اپنی تعلیمی لیاقت، بے پناہ خوبصورتی اور اپنی معصومیت کے تحت یونیورسٹی میں قمر کی طرح نمایاں تھا۔ ایک شام بعد عصر تفریح کے لئے اپنے چند احباب کے ساتھ نکلا تاکہ چائے کی چسکیاں لے سکے چنانچہ جوں ہیں یوسف یونیورسٹی کے مین گیٹ پر پہنچا دیکھتا ہے کہ زینت اپنے والد کے ساتھ یونیورسٹی آ رہی ہیں کیوں کہ وہ مقابلاتی امتحان میں نمایاں نمبرات سے کام یابی حاصل کر لیٹریچر سے ایم اے کے لیے منتخب کر لی گئیں ہیں
یوسف اپنے احباب سے ہمکلام ہوتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ جائیں کیونکہ میرے بڑے ہی معزز مہمان تشریف لا چکے ہیں تھوڑا میں ان کی مہمان نوازی کر دوں یہ سننا ہی تھا کہ تمام احباب دبے دبے قدموں کے ساتھ چلتے بنے اور یوسف پرتپاک و گرم جوشی سے زینت اور ان کے والد محترم کا استقبال کیا اور اپنے روم کی طرف چلتے بنے یوسف مہمانوں کی فراخ دلی کے ساتھ خوب مہمان نوازی کرائی اور زینت کے ابو سے مختلف موضوعات اور عصر حاضر کی صورتوں پر دقیق نظری سے گفتگو ہوئی ۔
دوران گفتگو یوسف زینت کی جانب اس طرح دیکھتا گویا کہ کوئی حیرت انگیز چیز ہو جسے اس نے نہ کبھی پڑھا اور نہ ہی کبھی دیکھا پر یوسف زینت کو کیوں نہ دیکھے جب یہ وہی زینت تھی جس کے ساتھ تین سال بی اے لیٹریچر سے کیا ،ان سے قلبی انسیت رکھی ،ان کے چہار جانب سایے کی طرح رہا پر اپنے دل کی باتیں شرم اور اپنی معصومیت کے تحت کبھی کہہ نہ سکا ۔
گفتگو کے بعد یوسف زینت کو ان کے مقابلاتی امتحان کے نمبرات کے مطابق ایک عمدہ روم چپراسی سے کہہ کر دلوا دیا ، انہیں عام ضروریاتی چیزوں کے بارے میں بتانے کے بعد یوسف اپنے روم میں چلا گیا
پھر کل علی الصبح زینت کے ابو سے ملے کیوں کہ وہ گھر جا رہے تھے تو یوسف کے لیے لازم تھا کہ انہیں میٹرو اسٹیشن تک چھوڑ آئیں یوسف اور زینت کے والد جب روم سے نکلنے لگے تو انہوں نے یوسف سے کہا کہ بیٹا زینت کا خیال رکھنا کیوں کہ گھر سے دور پہلی دفعہ رہے گی میرا تھوڑا بھی دل نہ تھا اور نہ زینت کی امی کا کہ یہ یہاں آئے
لیکن ہم زوجین اس کے خواہشات کے سامنے خود کو سلینڈر کر دیا ہے خیر زینت اب میں چلتا ہوں اگر کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو بیٹا یوسف کو بتانا یہ کہتے ہوئے یوسف اور زینت کے والد میٹرو اسٹیشن کے لیے نکل گئے
اور یوسف ایسا نکلا گویا کہ گم ہی ہو گیا ،لگ بھگ زینت اور یوسف کی ملاقات دس دنوں تک نہیں ہوئی جس کے سبب وہ بہت پریشان تھی ایک دن اچانک زینت یوسف کو یونیورسٹی کے مین گیٹ پر دیکھ لی اور دور سے ہی آواز لگائی یوسف ۔۔۔۔۔۔۔
قریب آنے کے بعد مختلف شکایتیں یوسف سے کرنے لگیں ساتھ ہی ایک درخواست بھی کہ آج شام تفریح کے لئے ہم لوگ باہر چلتے ہیں پر یوسف منفی میں جواب دیا لیکن زینت کی مسلسل اصرار پر انہیں ہامی بھرنی پڑی ۔ یوسف اور زینت دونوں ایک نہایت ہی خوبصورت مقام پر گئے جہاں قدرت کا حسین و جمیل منظر تھا
جہاں چڑیوں کی چہچہاہٹ ، متنوع رنگ و برنگ کی مختلف تتلیاں پرواز بھر رہی تھی جہاں ٹھنڈی ٹھنڈی سکون بخش ہوائیں چل رہی تھیں پر دور دور تک ماکولات ومشروبات کی کوئی دوکان نہ تھی اور غیر علمی کے سبب ان دونوں نے کسی بھی چیز کی خریداری نہ کر سکے دوران تفریح زینت کو سخت پیاس لگی
تو یوسف زینت کو کہتا ہے کہ بیگ لیں اور آپ یہیں بیٹھیں جب تک میں آپ کے لئے پانی تلاش کر کے لاتا ہوں ۔یوسف کے جانے کے بعد زینت اس کا بیگ چیک کی تو ایک نہایت ہی خوب صورت ڈائری ملی جس پر زینت کی تصویر لگی تھی اور ” میری زینت” کے نام سے پوری ڈائری سیاہ تھی زینت یوسف کی ڈائری پڑھنا شروع کی یوسف لکھتا ہے ” میری پیاری زینت آپ کا یونیورسٹی میں قدم رنجہ ہونا میرے لیے بہت ہی خوشی کا باعث ہے کیونکہ میرے نفس میں آپ اس طرح بس گئیں ہیں کہ اس روئے زمین پر آپ سے بہتر مُجھے کوئی نہیں لگتا
آپ میری زندگی میں خوش نما ہواؤں کی طرح ہیں جو ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں سے لوگوں کو اپنے جانب متوجہ کرتی ہیں ، جب میں آپ کے ساتھ بی اے کر رہا تھا تو میں آپ کے لئے محافظ کا کام کیا کرتا تھا
آپ کو ہر قسم کی مصائب سے نجات دلانے کی کوشش کرتا تھا ، آپ کو علمی مواد مہیا کراتا تھا ساتھ ہی ہم دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے لیکن میں کبھی بھی اپنی قلبی احساسات آپ کے سامنے ظاہر نہ کر سکا، نہ کبھی انسیت کا الف آپ کو بتایا اور نہ کبھی آپ کی تعریف کے پل باندھے جب کہ اللہ نے آپ کو نہایت ہی خوب صورت بنا ہے
آپ کی تخلیق بڑے ہی دل کش انداز اور پُرکشش طریقے سے کی ہیں اگر آپ کے حسن و جمال کی باتیں کی جائیں تو آپ کا چہرہ اتنا پُرکشش اور بارونق ہے کہ اندھیری راتوں میں بھی کتابوں کی ورق گردانی اور رقمطرازی بڑے ہی آسانی سے کی جا سکتی ہیں ۔۔
زینت مسکراتے ہوئے آگے بڑھیں ۔۔ زینت پر آپ نے کبھی مُجھے اپنی انسیت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں اور نہ میرے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کی یہ جانتے ہوئے کہ میں نہایت ہی شرمیلا ہوں آپ کے علاوہ کسی بھی لڑکیوں سے بات کرنے کے لئے مُجھے ہزاروں دفعہ سوچنا پڑتا ہے
شاید آپ کو یاد بھی ہو کہ ایک دفعہ مجھے شبنم سے سخت ضرورت پڑی لیکن میں اس سے بات نہ کر سکا اور آپ کو جبراً بھیجا تاکہ آپ میری ضرورت پوری کر کے آئیں ، اس کے بعد بھی زینت آپ نے مجھے نہیں سمجھ پائی اور نہ میرے احساسات کو، خیر زینت وہ زمانہ ختم ہو گیا اور میں آپ کے سبب یونیورسٹی ہی بدل ڈالی پر کبھی میرے یقین میں بھی نہ تھا کہ آپ سربون یونیورسٹی آئیں گیں پر آپ اللہ کے فضل سے آ گئیں ۔
زینت گزشتہ کل جب میں آپ کے ابو کو میٹرو اسٹیشن پر چھوڑنے کے لئے گیا تو وہ آپ کی بہت تعریف کر رہے تھے اور آپ کے علمی قابلیت کی بھی ساتھ ہی وہ بہت متفکر تھے آپ کی شادی کے تعلق سے کہ زینت کے مانند لڑکا تلاش کرنے کی بہت کوشش کر رہا پر ملتا ہی نہیں ہے اور جو ملتا ہے زینت اس میں نہ کہہ دیتی ہیں میں اس کا والد اور اسلام کا پیروکار ہوں کیسے اس سے جبرا کروں سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کی شادی کس سے کراؤں ۔
زینت آپ کی یادوں اور آپ سے انسیت قلبی کے سبب ڈائری بھرنے جا رہی ہیں تو اچانک میرے زہن میں علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آیا “جنون عشق سے تو خدا بھی نہ بچ سکا اقبال، تعریف حسن یار میں سارا قرآن لکھ دیا “یوسف علامہ اقبال کا شعر لکھنے کے بعد کسی کام میں مشغول ہونے کے سبب آگے نہ لکھ سکا پر زینت اس شعر کے بعد” میرے یوسف” کے عنوان پر لکھنا شروع کی” میرے یوسف کیا اور کیسے لکھوں ،کہاں سے شروع کروں سمجھ میں نہیں آتا
آپ کی والہانہ محبت کو کس شکل میں قلم بند کروں اور کہاں سے کروں کیوں کہ میں آپ کی معصومیت ،آپ کی شرافت ،آپ کا کم بولنا ،آپ کی علمی صلاحیت اور کی یونیورسٹی میں شہرت کی اتنی دیوانی ہو گئی کہ دل بہت چاہتا تھا کہ آپ کو اپنی قلبی احساسات بتا دوں اور کوشش بھی کی بتانے کی پر ہمت نہ کر سکی کیوں کہ مُجھے آپ کی عزت ، شہرت اور مقبولیت کا بہت ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ مصائب میں گرفتار ہو جائیں
میرے سبب آپ کو شرمندگی محسوس کرنا نہ پر جائے جس کے سبب میں ہمیشہ خاموش رہی اور اپنی والہانہ محبت دبا کر رکھی لیکن جب مُجھے معلوم ہوا کہ آپ یونیورسٹی چھوڑ دیئے اور سربون یونیورسٹی میں داخلہ لے کر لیٹریچر سے ایم اے کرنے لگے تو میں شب و روز ایک کر کے مقابلاتی امتحان میں کام یابی حاصل کی
لیکن اس کے بعد بھی والدین کا دباؤ مجھ پر پڑا کہ میں داخلہ نہ لوں لیکن میں صرف آپ کے خاطر داخلہ لیں اور میں یہ فیصلہ بھی کر لیں کہ شادی آپ سے ہی کرنی ہے گرچہ مصائب کے سنگلاخ وادیوں میں کیوں نہ زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے ۔
زینت لکھ ہی رہی تھی کہ یوسف پانی اور کچھ کھانے کا سامان لے کر آئے زینت فوراً ڈائری بند کر بیگ میں ڈالیں اور یوسف کا پر مسرت اور گرم جوشی کے ساتھ استقبال کی ، یوسف زینت کے پرتپاک استقبال اور فرحت بھرے چہرے سے بہت خوش ہوئے چنانچہ دونوں تفریح کا خوب لطف اٹھائے پھر اس کے بعد یونیورسٹی کی جانب چل دئیے ۔