اعتماد کا زخم
اعتماد کا زخم
روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
ودود ساجد
سپریم کورٹ کے سابق جج‘ جسٹس عبدالنذیر کی سبکدوشی کے محض ایک مہینے بعد انہیں گورنر بنائے جانے کے واقعہ سے انصاف پسند حلقوں کے اعتماد کو جو زخم لگا تھا‘ جسٹس کے ایم جوزف کے کئی فیصلوں اور تبصروں نے اس کے مندمل ہونے کا سامان کردیا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے تو ایک واقعہ میں غیر معمولی تبصرہ کرکے نہ صرف اگلے دو سال تک کے اپنے منصوبے اور عزائم ظاہر کردئے ہیں
بلکہ جبر و نا انصافی کی بنیاد پر نظام چلانے والوں کے خلاف بھری عدالت میں اپنی شمشیر کو بے نیام کرکے لہرا بھی دیا ہے۔اس وقت سپریم کورٹ کی مختلف بنچوں میں شہریوں اور خاص طور پر اقلیتوں کے بنیادی حقوق اور ان کے وقار سے متعلق کئی اہم معاملات پر سماعت ہورہی ہے۔ ایک دو اہم فیصلے آبھی چکے ہیں۔ کچھ معاملات میں بڑی بنچ کی تشکیل ہونی ہے۔
یہ فطری امر ہے کہ آمروں کے ہاتھ اقتدار آجائے تو ملکوں کے سیاسی اور سماجی احوال کی بربادی میں زیادہ عرصہ نہیں لگتا۔ فطرت کا دوسرا رُخ احوال کی لازمی اصلاح بھی ہے۔ لیکن احوال کی اصلاح جلد نہیں ہوتی۔ وہ ایک تدریجی امر ہے اور اپنی رفتار سے ہی انجام پاتا ہے۔ قرآن اس فطری اصول کی تائید کرتا ہے۔
خالق کائنات کے مطابق اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں تخلیق کیا۔ لیکن جب اس کائنات کا وقت ختم ہوجائے گا تو آن واحد میں سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔ اس کو تباہ ہونے میں ’’چھ دن‘‘ نہیں لگیں گے۔ قرآن پاک کی متعدد سورتیں اس کی تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں آنے والے بھیانک زلزلے اس کا ایک بڑا ثبوت ہیں۔
ترکی کے حالیہ زلزلہ سے آنے والی تباہی کے مناظر بتاتے ہیں کہ تباہی آن واحد میں آجاتی ہے لیکن از سر نو تعمیر کے کام کو ایک بڑا عرصہ درکار ہوتا ہے۔میں دیکھتا ہوں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ‘ یہاں تک کہ مدارس کے بعض نوعمر فضلاء تک ناامیدی اور بیزاری کی باتیں کرتے ہیں۔ مہذب دنیا میں شرپسندی کا مقابلہ شرپسندی سے نہیں کیا جاسکتا۔
اصلاح حال ہمیشہ صبر آزما علمی‘ قانونی اور سماجی اقدامات کرکے ہی کی جاتی ہے۔ فطرت کے دنیوی ضابطہ کے تحت مظلوم شہریوں کی آخری امید عدلیہ ہے۔ عدالتوں میں بھی انسان ہی بیٹھے ہیں۔
ان سے غلط فیصلے بھی ہوتے ہیں اور درست فیصلے بھی۔ لیکن شہریوں کو بہر حال انہی پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے۔ ہر جج کی اپنی بصیرت اور انصاف کرنے کا اپنا زاویہ نگاہ ہوتا ہے۔کسی ایک جج کے غلط فیصلے کو پورے ادارے کی معتبریت کی کسوٹی نہیں بنایا جاسکتا۔عدلیہ کا دفاع میری ذمہ داری نہیں ہے۔ مجھے فکر مظلوم طبقات اور انصاف سے محروم شہریوں کی ہے۔
عدالتوں سے کسی مظلوم کو انفرادی طور پر یا کسی طبقہ کو اجتماعی طور پر کوئی راحت ملتی ہے تو ہمارے پُرجوش لوگ اس پر شک وشبہ ظاہر کرتے ہیں۔ایسے ایسے تبصرے کرتے ہیں کہ جن سے نہ صرف اظہار مایوسی ہوتا ہے بلکہ جن سے توہین عدالت بھی لازم آتی ہے۔ دونوں ہی عناصر مضر ہیں۔سپریم کورٹ میں جاری کئی معاملات قابل ذکر ہیں۔
جسٹس کے ایم جوزف کی ہی سربراہی میں کئی دلچسپ اور اہم معاملات کی سماعت ہورہی ہے۔ ان میں دھرم سنسدوں میں شرپسندوں کی نفرت انگیزی اور ٹی وی چینلوں کے اینکروں کی اشتعال انگیزی کے مقدمات بھی شامل ہیں۔ گزشتہ 2 مارچ کو جس آئینی بنچ نے الیکشن کمشنروں کی تقرری کے تعلق سے تاریخی فیصلہ دیا ہے اس کی سربراہی بھی جسٹس جوزف ہی کر رہے تھے۔
400 کے قریب صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ الیکشن کمیشن پر حکومت کے ’کنٹرول‘ کے خلاف ایک بہت اہم اور جامع دستاویز ہے۔ گوکہ جسٹس اجے رستوگی نے اپنا فیصلہ الگ سے تحریر کیا تاہم مجموعی طور پر انہوں نے بھی باقی چاروں ججوں کے فیصلہ کی تائید کی۔ شہروں کے نام تبدیل کرنے کیلئے کمیشن کے قیام کے مطالبہ والی رٹ بھی جسٹس جوزف کی بنچ نے ہی خارج کی تھی۔
یہ رٹ بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے دائر کی تھی۔ اس رٹ پر بھی جسٹس جوزف نے جو تبصرے فیصلہ کے حصہ کے طور پر کئے ہیں وہ کمال کے ہیں۔جسٹس جوزف اس سال جون میں سبکدوش ہوجائیں گے۔امید ہے اس وقت تک وہ زیر بحث معاملات کو فیصل کردیں گے۔ چیف جسٹس دھننجے چندر چوڑ کی عدالت میں اس وقت سب سے اہم مقدمہ مہاراشٹر میں شوسینا کے دو گروہوں کے درمیان تنازعہ کا ہے۔
یہ مقدمہ عدلیہ کی تاریخ کا انوکھا مقدمہ ہے۔ بنچ کہہ چکی ہے کہ اس تنازعہ کو فیصل کرنا بہت مشکل ترین کام ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ مہاراشٹر میں تین مختلف سیاسی پارٹیوں کا انوکھا اتحاد کامیابی کے ساتھ حکومت چلارہا تھا۔ شوسینا نے 90 کی دہائی میں اپنے بانی بال ٹھاکرے کی قیادت میں مسلمانوں کے خلاف ایک ایسے خونی اور بھیانک ٹولے کی شبیہ بنالی تھی کہ جس کی شرپسندیوں کے آگے دوسرے گروہ پھیکے پڑگئے تھے۔
لیکن مہاوکاس اگھاڑی (ایم وی اے) کی حکومت بننے کے بعد مسلمانوں کے تعلق سے شوسینا کا رویہ حیرت انگیز طور پر بدل گیا تھا۔ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں کورونا میں لاک ڈائون کے دوران سحرو افطار کے لیے پولیس کی گاڑیوں کو وقت کا اعلان کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ نمازیوں کو مسجدوں میں جانے کی چھوٹ بھی دی گئی
لیکن آخر کار دو ڈھائی برس کے اندر شوسینا کے ہی لیڈروں کو توڑ کر بغاوت کرادی گئی۔آج وہاں بی جے پی کی حمایت سے شوسینا کے باغی گروہ کی قیادت میں حکومت چل رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں اسی کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔ یہ مقدمہ فی الواقع بہت پیچیدہ ہے۔
اس کا جو بھی نتیجہ آئے گا وہ مستقبل کے ہندوستان میں جوڑ توڑ کی سیاست کے خلاف جمہوری اقدار کی سمت طے کرے گا۔۔ دو فیصلے جسٹس چندر چوڑ کی بنچ نے ایسے کئے ہیں جو بظاہر ریاستی سطح کے ہیں لیکن ان دونوں کی زد مرکز کے آمرانہ رویہ پر پڑی ہے۔ پنجاب میں اس وقت عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے گورنر کو کابینہ کی سفارش بھیجی کہ پنجاب اسمبلی کا خصوصی بجٹ سیشن بلائیے۔
گورنر اس سلسلہ میں حکومت کی سفارش کا پابند ہوتا ہے۔ لیکن دہلی کی طرز پر پنجاب کے گورنر نے بھی اس سفارش پر عمل نہ کرتے ہوئے سوال جواب شروع کردئے۔ چیف جسٹس نے اس صورتحال پر سخت تنقید کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا کہ گورنر حکومت کی سفارش پر عمل کرنے کا پابند ہے اور اسے بجٹ سیشن بلانا چاہئے تھا۔
یہ معاملہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد معاملہ تھا۔ جیسے ہی چیف جسٹس نے سماعت شروع کی‘ سالیسٹر جنرل نے پنجاب کے گورنر کی طرف سے کہا کہ گورنر نے بجٹ سیشن کی تاریخ طے کردی ہے۔ ایسے میں عدالت سرسری کارروائی کے بعد مقدمہ کو ختم کرسکتی تھی۔
لیکن چیف جسٹس نے باقاعدہ فیصلہ لکھا اور اس میں اس صورتحال پر ناگواری کا اظہار کیا۔ گوکہ چیف جسٹس نے وزیر اعلی کے خط کی زبان پر ان کو بھی تنبیہ کی تاہم غیر آئینی رویہ کیلئے گورنر کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا۔ یہ فیصلہ ان ریاستوں کے گورنروں کے لیے بھی بالواسطہ طور پر عدلیہ کی ایک تنبیہ ہے جو جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کو بات بات پر پریشان کر رہے ہیں۔
دوسرا فیصلہ دہلی میں ایم سی ڈی کے میئر وغیرہ کے انتخاب کے تعلق سے ہے۔ دہلی والوں کو معلوم ہے کہ ایم سی ڈی کے میئر کے الیکشن میں لیفٹننٹ گورنر کی طرف سے کتنی اڑچنیں ڈالی گئیں اور ہائوس میں کیسے نظارے دیکھنے کو ملے۔ لیفٹننٹ گورنر چاہتے تھے کہ دس نامزد اراکین بھی میئر کے الیکشن میں ووٹ ڈالیں۔
قانون نامزد اراکین کو ووٹنگ کا حق نہیں دیتا۔ اگر ان سے ووٹنگ کرائی جاتی تو عام آدمی پارٹی کو اندیشہ تھا کہ اس کا امیدوار شکست کھا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ نامزد اراکین میئر کے الیکشن میں ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ یہی نہیں بنچ نے حکم دیا کہ 24 گھنٹے کے اندر تاریخ اور وقت کا تعین کرکے ضابطہ کے مطابق میئر وغیرہ کا الیکشن کرایا جائے۔
دہلی میں لیفٹننٹ گورنر اور منتخب حکومت کے درمیان ایک عرصہ سے رسہ کشی جاری ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر آئین و قانون کے خلاف کام کرنے کا الزام عاید کرتے رہے ہیں۔بہت سے محکموں پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔اس تعلق سے بھی سپریم کورٹ کی آئینی بنچ میں سماعت ہورہی ہے۔
وکیلوں کے چیمبر کے لیے جگہ الاٹ کرنے کے ایک معاملہ میں حال ہی میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر وکاس سنگھ نے عدالت میں بحث کرتے ہوئے کچھ ہتک آمیز انداز اختیار کیا تو چیف جسٹس کو طیش آگیا۔ انہوں نے وکاس سنگھ کو خاموش رہنے اور فوراً ان کی عدالت سے نکل جانے کو کہہ دیا۔
انہوں نے آگے جو تبصرہ کیا وہ کئی آمروں کیلئے بھی ایک انتباہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی دبائو میں نہیں آتا اور میں کسی کو اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں 22 سال سے عدلیہ میں ہوں اور اپنے حتمی دوسالوں میں کسی بھی دبائو کو قبول نہیں کروں گا۔
بہت سے ماہرین قانون ان کے اس تبصرے کو مرکزی حکومت کے خلاف بھی ایک انتباہ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس چندر چوڑ اگلے سال نومبر میں سبکدوش ہوں گے۔ حکومت ججوں کی تقرری میں عمل دخل چاہتی ہے اور اس کیلئے وہ وقتاً فوقتاً کالجیم کی سفارشات پر عمل درآمد میں غیر معمولی تاخیر کرتی رہی ہے۔ اس سلسلہ میں بھی جسٹس کشن کول کی بنچ میں سماعت چل رہی ہے۔
مختلف سماعتوں میں حکومت کو سخت لعن طعن کیا گیا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کئی ناموں کو حکومت نے کلیر کردیا ہے۔نفرت انگیزی کے خلاف جسٹس جوزف کی عدالت میں جاری مختلف سماعتوں میں حکومتوں اور پولیس کو سخت ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔
ابھی حتمی فیصلہ آنا باقی ہے۔ شہروں کے نام بدلوانے کی عرضی خارج کرتے ہوئے جسٹس جوزف نے جو کھری کھوٹی اشونی اپادھیائے کی معرفت شرپسندوں کو سنائی ہیں وہ اب عدلیہ کی تاریخ اور ریکارڈ کا حصہ ہیں۔اشونی اپادھیائے نے جب عدالت کاسخت رویہ دیکھا تو انہوں نے عرضی واپس لینے اور حکومت سے رجوع کرنے کی اجازت طلب کی لیکن جسٹس جوزف نے صاف کہہ دیا کہ ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ ملک ہر وقت ’اُبلتا اورکھولتا‘ رہے‘ ہم یہ نہیں ہونے دیں گے‘ تاریخ کو پلٹا نہیں جاسکتا۔ بنچ کی دوسری جج جسٹس بی وی ناگرتھنا نے بھی سخت سوالات اور تبصرے کئے۔ جسٹس ناگرتھنا نے ہی اس پانچ رکنی بنچ میں اپنا اختلافی فیصلہ لکھا تھا جس نے نوٹ بندی کو جائز ٹھہرا دیا تھا۔اس بنچ کی سربراہی جسٹس عبدالنذیر کر رہے تھے
جنہوں نے سبکدوشی کے محض ایک مہینے بعد ہی گورنرکا منصب قبول کرلیا۔ بہت سے انصاف پسند حلقے اپنے آپ سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا نوٹ بندی کے خلاف سماعت کے دوران جسٹس عبدالنذیر کو آنے والے کل کا علم ہوگیا تھا۔
بہر حال یہ برا ہوا کیونکہ اب اس طرح کے مقدمہ میں جب بھی عدالت حکومت کو راحت دے گی تو ججوں کی معتبریت مشکوک ہوگی جو اچھی بات نہیں ہے۔ جسٹس جوزف نے الیکشن کمیشن کی تقرریوں کے سلسلہ میں حکومت کے ہاتھ کاٹ دئے ہیں۔
اب یہ تقرری وزیر اعظم‘ اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس پر مشتمل ایک کمیٹی کرے گی۔اس فیصلہ میں جسٹس جوزف نے جو لکھا ہے‘ قانون کے طلبہ کو ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں اور اس ملک کے عام شہریوں کو بھی اس کا بار بار مطالعہ کرنا چاہئے۔
تفصیل پھر سہی لیکن ان کا اس مفہوم کا تبصرہ انتہائی اہم ہے کہ جو الیکشن کمشنر حکومت کا مقروض اور اس کے زیر بار احسان ہوگا وہ شفافیت کا کیا خیال رکھے گا۔۔۔۔