سورۃالانفال ایک مختصر تعارف
سورۃالانفال ایک مختصر تعارف
محمد عبدالحفیظ اسلامی
سورۃ الانفال مدنی سورتوں میں شامل ہے۔ اس میں 75 آیات اور دس رکوع آئے ہیں۔ اس کا نام ’’انفال‘‘ ہے اس کا آغاز ’’انفال‘‘ (اموال غنیمت) کے احکام بیان کرنے سے ہوا ہے لیکن اس میں صرف اموال غنیمت کا بیان ہی نہیں بلکہ یہ سورت ’’جنگ بدر‘‘ 2 ھ کے بعد نازل ہوئی اور اس جنگ ( جس میں اہل ایمان کو فتح حاصل ہوئی) پر مفصل تبصرہ کیا گیا ہے۔
لہٰذا ہجرت کے بعد سے لے کر جنگ بدر کے واقعہ ہونے تک کے واقعات کا مطالعہ ، مذکورہ سورہ کو سمجھنے میں معاون ومددگار رہے گا۔ کفار قریش خاتم النّبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دست حق پرست ایمان لانے والے صحابہ کرام ؓ کو بہت ستانے لگے اور مکہ میں رہنا ان اہل ایمان کے لیے دشوار ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک بہترین انتظام فرمادیا۔
وہ تھا مدینہ منورہ جسے سابق میں یثرب کہا جاتا تھا۔ محترم مفسرین کرام نے اس سورہ کے تاریخی پس منظر اور تعارف میں جو تحریر فرمایا ہے اس کے اقتباسات قارئین کے پیش خدمت ہے۔
’’مکی دور کے آخری تین چار سالوں سے یثرب میں آفتاب اسلام کی شعائیں مسلسل پہنچ رہی تھیں اور وہاں کے لوگ متعدد وجوہ سے عرب کے دوسرے قبیلوں کی بہ نسبت زیادہ آسانی کے ساتھ اس روشنی کو قبول کرتے جارہے تھے۔
آخرکار نبوت کے بارہویں سال حج کے موقع پر 75 نفوس کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے رات کی تاریکی میں ملا اور اس نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے پیروؤں کو اپنے شہر میں جگہ دینے پر بھی آمادگی ظاہر کی۔
بندگی رب کی لذت سے نوع انسانی کو روشناس کروانا اہم فریضہ ہے
یہ اسلام کی تاریخ میں ایک انقلابی موقع تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت سے فراہم کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بڑھاکر پکڑ لیا۔
اہل یثرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کے نائب اور اپنے امام و فرمان روا کی حیثیت سے بلارہے تھے اور اسلام کے پیروؤں کو ان کا بلاوا اس لیے نہ تھا کہ وہ ایک اجنبی سرزمین میں محض مہاجر ہونے کی حیثیت سے جگہ پالیں بلکہ مقصد یہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل اور خطوں میں جو مسلمان منتشر ہیں وہ یثرب میں جمع ہوکر اور یثربی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک منظم معاشرہ بنالیں۔
اس طرح یثرب نے دراصل اپنے آپ کو ’’مدینۃ الاسلام‘‘ کی حیثیت سے پیش کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کرکے عرب میں پہلا ’’دارالاسلام‘‘ بنالیا۔اس پیش کش کے معنی جو کچھ تھے اس سے اہل مدینہ ناواقف نہ تھے
اس کے صاف معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے آپ کو پورے ملک کی تلواروں اور معاشی و تمدنی بائیکاٹ کے مقابلہ میں پیش کررہا تھا۔ چناں چہ ’’بیعت عقبہ‘‘ کے موقع پر اس مجلس میں اسلام کے اولین مددگاروں (انصار) نے اس نتیجہ کو خوب اچھی طرح جان بوجھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا۔
جسے تاریخ میں بیعت عقبہ ثانیہ کہتے ہیں۔ جس رات بیعت عقبہ واقع ہوئی اسی رات اس معاملہ کی بھنک اہل مکہ کے کانوں میں پڑی اور پڑتے ہی کھلبلی مچ گئی۔ پہلے تو اُنھوں نے اہل مدینہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے توڑنے کی کوشش کی۔ پھر جب مسلمان ایک ایک دو دو کرکے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے لگے اور قریش کو یقین ہوگیا کہ اب محمد {صلی اللہ علیہ وسلم} بھی وہاں منتقل ہوجائیں گے تو وہ اس خطرہ کو روکنے کے لیے آخری چارہ کار اختیار کرنے پر آمادہ ہوگئے۔
ہجرت نبوی سے چند ہی روز پہلے قریش کی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی جس میں بڑی رد و کد کے بعد آخرکار یہ طے پا گیا کہ بنی ہاشم کے سوا تمام خانوادہ ہائے قریش کا ایک ایک آدمی چھانٹا جائے اور یہ سب لوگ مل کر محمد {صلی اللہ علیہ وسلم} کو قتل کریں تاکہ بنی ہاشم کے لیے تمام خاندانوں سے تنہا لڑنا مشکل ہوجائے اور وہ انتقام کے بجائے خون بہا قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں لیکن خداکے فضل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد علی اللہ اور حسن تدبیر سے اُن کی یہ چال ناکام ہوگئی اور حضور بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔
اس طرح جب قریش کو ہجرت کے روکنے میں ناکامی ہوئی تو اُنھوں نے مدینہ کے سردار عبداللہ بن ابی کو (جسے ہجرت سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانے کی تیاری کرچکے تھے اور جس کی تمناؤں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ پہنچ جانے اور ”اَوس“ و ”خَزرج“ کی اکثریت مسلمان ہوجانے سے پانی پھر چکا تھا)
انہوں نے خط لکھا کہ ’’تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو اپنے ہاں پناہ دی ہے ، ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ یا تو تم خود ان سے لڑو یا انہیں نکال دو ، ورنہ ہم سب تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہارے مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے‘‘۔ عبداللہ بن ابی اس پر کچھ آمادہ شر ہوا مگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بروقت اس کے شر کی روک تھام فرمادی۔
پھر سعد بن معاذ رئیس مدینہ عمرہ کے لیے مکہ گئے۔ وہاں عین حرم کے دروازے پر ابوجہل نے ان کو ٹوک کر کہا۔
’’تم تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ان کی امداد و اعانت کا دم بھرو اور ہم تمہیں اطمینان سے مکہ میں طواف کرنے دیں ؟ اگر تم اُمیہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو زندہ یہاں سے نہیں جاسکتے تھے‘‘۔
سعد نے جواب میں کہا ’’بخدا اگر تم نے مجھے اس چیز سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لئے اس سے شدید تر ہے (یعنی مدینہ پر سے تمہاری رہ گزر) یہ گویا اہل مکہ کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ زیارت بیت اللہ کی راہ مسلمانوں پر بندہے اور اس کا جواب اہل مدینہ کی طرف سے یہ تھا کہ شامی تجارت کا راستہ مخالفین اسلام کے لئے پُرخطر ہے۔
(اقتباسات تفہیم القرآن جلد دوم ص 118 تا 121)۔
ہجرت کا دوسرا سال اور شعبان کا مہینہ تھا (فروری یا مارچ 623 ء) جب ابو سفیان کی قیادت میں اہل مکہ کا ایک تجارتی کاروان جس میں پچاس ہزار پاؤنڈ کی مالیت کا سامان تھا ، شام سے مکہ کی طرف لوٹ رہاتھا۔ اس کے ساتھ محافظ دستہ کی تعداد بہت کم تھی۔ اس خوف سے کہ کہیں مسلمان اس کاروان کی اطلاع پاکر اس پر حملہ نہ کردیں، ابو سفیان نے ضمضم بن عمرو الغفاری کو اُجرت دی اور اسے دوڑایا کہ جاکر اہل مکہ کو اطلاع دے کہ وہ اس قافلہ کو مسلمانوں کی دست بُرد سے بچانے کیلئے نکلیں۔
جب وہ مکہ پہنچا تو (جاہلیت کے طریقہ کے مطابق اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے) زور زور سے چلاّنا شروع کردیا (جھوٹ سے کام لیتے ہوئے کہا) ’’اے گروہ قریش ! تمہارا مال و اسباب تمہارا ساز و سامان تمہارے اموال جو ابو سفیان کے قافلے میں تھے ان پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے یاروں سمیت حملہ کردیا ہے۔ میں نہیں خیال کرتا کہ تم اس کی حفاظت کرسکو گے فریاد کو پہنچو فریاد کو پہنچو‘‘۔
یہ سنتے ہی ابوجہل نے لوگوں کو جنگ ہر اُبھارنا شروع کردیا۔ مکہ کے ہر گھر سے آدمی جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے اور تھوڑی دیر میں ایک ہزار آزمودہ کار سپاہیوں کا لشکر جرار تیار ہوگیا۔ اس طرح بڑے کر و فر سے یہ لشکر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے نکلا لیکن راستے میں ہی یہ اطلاع ملی کہ قافلہ صحیح سلامت مسلمانوں سے بچ کر نکلنے میں کام یاب ہوگیا۔
لہٰذا اس قافلے میں شامل کئی لوگوں نے یہ رائے دی کہ ہم جس مقصد کے لیے نکل پڑے تھے اس میں ہم کامیاب ہوگئے۔ لہٰذا ہمیں مکہ واپس چلے جانا چاہیے
لیکن بشمول ابوجہل اکثریت کا یہ ارادہ تھا کہ مسلمانوں کی اس مختصر جمعیت کو آج ہی ٹھکانے لگادیا جائے تاکہ ان کا مذہب اور ان کی تجارتی شاہ راہ جو اِن کی رگِ حیات ہے اس مہیب خطرہ سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجائے اور اس کے ارد گرد بسنے والے قبائیل بھی اتنے ہراساں اور خوفزدہ ہوجائیں کہ وہ ان کی طرف آنکھ اُٹھانے کی جرأت بھی نہ کرسکیں۔
اب مسلمانوں کے مد مقابل وہ تجارتی قافلہ نہ تھا جس کے محافظوں کی تعداد تیس چالیس کے لگ بھگ تھی بلکہ جنگجو اور تجربہ کار بہادروں کا ایک لشکر عظیم تھا جس کی قیادت مکہ کا مشہور سردار ابوجہل کررہا تھا جو تعداد میں مسلمانوں کی اس مختصر جماعت سے تین گنا تھا اور اسلحہ میں مسلمانوں کو ان سے کوئی نسبت ہی نہ تھی۔ (یعنی مسلمانوں کی تعداد 313 اور سامان حرب انتہائی کم)۔
رمضان کی 17 تاریخ تھی٫ جمعہ کا دن تھا۔ وادیٔ بدر میں حق و باطل کی جنگ ہوئی اور اللہ نے بے سرو سامانی کے باوجود مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور باطل جوکہ اپنی پوری قوت و جبروت سے مسلح ہوکر حق کو کچلنے نکلا تھا ، حق سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگیا۔ یہ ہے جنگ بدر کا مختصر سیاسی اور تاریخی پس منظر جس کے متعلق اس سورہ میں گفتگو فرمائی گئی۔
نیز اس میں مسلمانوں کو ان کی اپنی کوتاہیوں پر بھی آگاہ کردیا تاکہ وہ اپنی پہلی فرصت میں ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور یہ بھی واضح کردیا کہ یہ فتح و کامرانی محض اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا نتیجہ ہے۔
اس لیے اس کی اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کوشاں رہو تاکہ تائید غیبی ہمیشہ ہمیشہ تمہارے شامل حال رہے۔
ایسا نہ ہو کہ تم اپنی بہادری اور شجاعت پر مغرور ہوکر احکام الٰہی اور ارشادات مصطفوی سے سرتابی کرنے لگو۔ مال غنیمت کی تقسیم کا طریقہ بھی واضح طور پر بیان کردیا تاکہ اس کے متعلق بھی کسی قسم کا تنازعہ پیدا نہ ہو۔اس کے ضمن میں صلح و جنگ کے متعلق معاہدوں کی پابندی کا حکم بھی فرمایا تاکہ یہ اُمت جس کے نبی کی بعثت کی ایک بڑی غرض مکارم اخلاق کی تکمیل ہے وہ صلح و جنگ ہر حالت میں ان مکارم اخلاق کی علمبردار ہو۔
سورہ کے آخری حصہ میں حضور کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے صحابہ کرام کی شان بھی بیان فرمادی جن کی سرفروشیوں ، قربانیوں ، جانبازیوں ، پیہم جدوجہد اور مسلسل سعی و عمل سے دین اسلام کو کام یابی اور عروج نصیب ہوا تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں ان اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا رہ کر اسی اخلاص، اسی للہیت ، اسی ایثار اور اسی جانفروشی سے پرچم اسلام کو بلند سے بلند تر کرنے کے لیے ہمہ تن مصروف جہاد ہیں۔ اولک ھم المومنون حقا (یہی لوگ سچے ایماندار ہیں) ۔ (اقتباسات و استفادہ ، تفسیر ضیاء القرآن جلد دوم ص 125 تا 127 از مولانا پیر محمد کرم شاہ صاحب رحمت اللہ علیہ)
اس طرح سورۃ الا انفال کے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر تفصیلی مطالعہ کیا جاے تو ان شاء اللہ اس کے مضامین کھل کر ہمارے سامنے آتے رہیں گےجو ایک بندے مومن کے لیے روح کی غذا فراہم کرتے ہیں۔
محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار حیدرآباد
فون نمبر : 9849099228
Pingback: سورہ توبہ ایک مختصر تعارف ⋆