درگزر کرنا سیکھیں
درگزر کرنا سیکھیں
محمد ہاشم رضا مصباحی
مذہب اسلام امن و آشتی اور عفو و رواداری کا مذہب ہے،ظلم و تشدد کی مخالفت کرتا ہے اور عفو و در گذر کرنے کی دعوت و رغبت دیتا ہے۔
عفو و درگزر کرنا انسان کی اخلاقی خوبیوں سے ایک عظیم اور بلند خوبی ہے،عفو و درگذر کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے،عفو و در گذر کرنے سے عزت بڑھتی ہے،ذہن کو سکون اور دل کو سرور حاصل ہوتا ہے،عفو و در گذر کرنے میں جو مزہ ہے وہ انتقام لینے میں کہاں؟عفو و در گذر کرنے والوں کو تو اللہ بھی اللہ بھی پسند فرماتا ہے۔
قرآن و حدیث میں جگہ جگہ عفو و درگزر کرنے کے احکام اور فضائل اور ترغیبات موجود ہیں۔چند آیات و احادیث پیش ہیں۔ارشاد ربانی ہے:خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔
دوسرے مقام پر عفو و درگزر کرنے کا حکم دیتے ہوۓ ارشاد فرمایا گیا: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۲۲) (پ 18،النور: 22)
ترجمہ کنز الایمان: اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ایک مقام پر معاف کرنے والوں کو اللہ کا محبوب بتایا گیا۔قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے۔وَالْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ- وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔
اسی طرح احادیث کریمہ میں بھی عفو درگذر کرنے کے فضائل و ترغیبات کثرت سے آۓ ہیں۔چناں چہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔ (بخاری، 4/135، حدیث: 6114)
معاف کرنے والوں کی بے حساب مغفرت ہوتی ہے چناں چہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوجائے،پوچھا جائے گا کس کے لیے اجر ہے؟
منادی اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542 ، حدیث:1998)
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:”صل من قطعك، وأعط من حرمك، واعف عمن ظلمك”.(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج: 28، صفحہ: 654، رقم الحدیث: 17452، یعنی جو تم سے توڑے اس سے جوڑو اور جو تم کو محروم کرے اور اس کو معاف کرو جو تم پر ظلم کرے۔
سید عالم ﷺ نے جہاں احادیث طیبہ میں عفو درگذر کرنے کے احکام اور فضائل ارشاد فرمائے وہاں اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فرما کر عفو و در گذر کا بے مثال نمونہ پیش فرمایا اور کیوں نہ ہو کہ آپ کے اخلاق کو قرآن نے عظیم کہا ہے ارشاد ربانی ہے: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ” اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔
اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کرتے ہیں
ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خِلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالقِ حسن واَدا کی قسم
اور فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: حق جَلَّ وَ عَلَا نے فرمایا: ’’وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ اور بے شک تو بڑے عظمت والے ادب تہذیب پر ہے کہ ایک حِلم وصبر کیا ،تیری جو خصلت ہے اِس درجہ عظیم و باشوکت ہے کہ اَخلاقِ عاقلانِ جہان مُجْتَمع ہو کر اس کے ایک شِمّہ (یعنی قلیل مقدار) کو نہیں پہنچتے ،پھر اس سے بڑھ کراندھا کون جو تجھے ایسے لفظ سے یاد کرے۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۶۴-۱۶۵)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے اخلاق کا والہانہ تذکرہ کرتی ہوئی ارشاد فرماتی ہیں: لم یکن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فاحشا ولا متفحشا ولا سخابا فی الاسواق ولا یجزی بالسیئۃ السیئۃ ولکن یعفوا ویصفح۔ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فحش گو تھے اور نہ بے ہودہ کلام،نہ کبھی آپ بازاروں میں چلا کر بولے،اور آپ کی بلند اخلاقی کا تو یہ عالم تھا کہ آپ کبھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ ہمیشہ برائی کرنے والوں کو معاف فرما دیتے تھے اور ان کی برائیوں سے درگزر فرماتے تھے۔(مشکوۃ شریف)
یہی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا دوسرے مقام پر ارشاد فرماتی ہیں ما ضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیئا قط بیدہ ولا امرأۃ ولا خادما الا ان یجاھد فی سبیل اللہ وما میل منہ فی شئ فینتقم من صاحبہ الا ان ینتھک شئ من محارم اللہ فینتقم للہیعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے سوا اپنے دست مبارک سے کبھی کسی کو نہیں مارا میں کسی عورت کو نہ کسی خادم کو اور کسی تکلیف پہنچانے والے سے بھی کبھی کوئی انتقام اور بدلہ نہیں لیتے تھے ہاں البتہ اگر کوئی شخص خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کا مرتکب ہوتا تو اپ اس سے ضرور انتقام لیتے تھے اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ خدا کی رضامندی کے لیے ایسا کرتے تھے۔(مشکوۃ شریف)
حضور پاک ﷺ کے اخلاق عالیہ کے متعلق علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں :
’’حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ محاسنِ اَخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔
یعنی حِلم و عَفْو،رحم و کرم، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، عدمِ تشدُّد، شجاعت، ایفائِ عہد، حسنِ معاملہ، صبروقناعت، نرم گفتاری، خوش روئی، ملنساری، مساوات، غمخواری، سادگی و بے تکلُّفی، تواضع واِنکساری اور حیاداری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فائز و سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے ایک جملے میں اس کی صحیح تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ‘‘ یعنی تعلیماتِ قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اَخلاق تھے۔( سیرتِ مصطفٰی، ص۶٠۰)
فتح مکہ کے دن عفو و درگزر کی عظیم مثال کون نہیں جانتا کہ فتح مکہ کے دن وہ مجرمین جنہوں نے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر طرح طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے،سب کے سب گرفتار کر کے رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے دربار میں حاضر کیے گئے مکے کے یہ خون خوار ستم گار سر جھکائے سرکار نام دار احمد مختار صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے ہر ایک مجرم اپنے مظالم کو یاد کر کے اپنے اپنے انجام کے تصور سے لرزہ براندام ہو رہا تھا کہ اتنے میں نگاہ نبوت ان کی طرف ہوئی اور ارشاد فرمایا کہ “ماظنکم بی” بولو میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟
تمام مجرمین اپنی سہمی ہوئی اوازوں میں کہنے لگے کہ “اخ کریم وابن اخ کریم” یعنی آپ خود بھی کریم ہیں اور کرم والے بھائی کے بیٹے ہیں۔اس لیے کریم بن کریم سے ہمیں تو کرم ہی کی امید ہے۔یہ سن کر رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دریائے رحمت جوش میں آگیا اور فرمایا: لا تثریب علکیم الیوم فاذھبوا انتم الطلقاء” یعنی اے اہل مکہ سزا تو کجا میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ آج تمہارے لیے ملامت کا کوئی لفظ بولوں جاؤ سب آزاد ہو۔(حقانی تقریریں،ص:40/41)
رحمت عالمﷺ کا یہ عمل ایسا عالمگیر پیغام امن تھا تاریخ عالم میں جس کی مثال نہیں مل سکتی۔
ایک ایمان والے کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ عفو و درگزر،شفقت و رحمت،محبت و مودت،اخلاص و ایثار جیسی صفات اپنے اندر پیدا کرے اور ظلم و تشدد،نفرت و معاندت، گالی گلوج،فحش گوئ اور بیہودگی،قطع رحمی اور ہر قسم کی ایذاے مسلم سے خود کو دور و نفور رکھے اور اپنی زندگی کو پیارے آقاﷺ کی سیرت مقدسہ کے سانچے
میںڈھالنے کی کوشش کرے۔انھیں کی اتباع میں دنیا و آخرت کی فلاح و نجات ہے۔