اہل بیت کے فضائل و مناقب
اہل بیت کے فضائل ومناقب
شمع فروزاں۔۔۔ محمد محفوظ قادری 9759824259
اسلامی سال (سن ہجری) کاآغاز یکم محرم الحرام سے ہوتا ہے ہم 1444ھ مکمل کرکے 1445ھ میں داخل ہو چکے ہیں اس ماہ محرم میں بہت سے واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں کہ جن کا تعلق تاریخ اسلام سے بہت ہی گہرا ہے
اُنہیں واقعات میں سے ایک واقعہ نواسئہ رسول حضرت فاطمتہ الزہرااور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے لخت جگر حضرت امام حسین اور آپ کے 72جانثارساتھیوں کی شہادت کا ہے جو میدان کربلا 61ھ میں یزید پلید کی فوج کے مقابلہ میں پیش آیا
اوریہ واقعہ تاریخ اسلام میں قیامت صغراء سے کم نہیں ہے رہتی دنیا تک انسانیت اس واقعہ پر آنسو بہاکر شرمسار ہوتی رہے گی۔کیونکہ آپ کی یہ جنگ حق اورباطل کے درمیان رسول اللہ کے لائے ہوئے دین مبین کی بقاء کی خاطر تھی۔
اللہ نے آپ کے ذریعہ اس دین مبین کو ایسی بقاء عطافرمائی کہ آج تک نہ کوئی اس دین حق کو مٹا سکا ہے اور نہ ہی کوئی صبح قیامت تک اس دین کو مٹانے کی جرأت کر سکتا ہے کونکہ اس دین حق کا حامی و ناصر اللہ رب العزت خود ہے۔
حضرت فاطمہ،حضرت علی اورحسنین کریمین رضی اللہ عنہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں شامل ہیں۔ان کی فضیلت کو اللہ نے قرآن میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’اے نبی کے گھر والو!اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی ناپاکی دور فرمادے‘‘(سورۃ الاحزاب)
اسی آیت کے تحت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ صبح کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ کے پاس کالے بالوں سے بنی ہوئی نقش دارچادر تھی اسی دوران حسن بن علی تشریف لائے تو آپ نے ان کو اپنی اس چادر میں داخل فرمالیا پھر حسین آئے تو ان کو بھی داخل فرمالیا
پھر حضرت فاطمہ آئیں ان کو بھی داخل فرمالیا پھر حضرت علی تشریف لائے ان کو بھی داخل فرمالیا پھر حضور علیہ السلام نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ’’اللہ صرف یہی چاہتا ہے،اے اہل بیت!کہ وہ تم سے گناہ کی گندگی دورفرمادے اور تم کو مکمل طور پر پاک و صاف کردے ‘‘(مسلم شریف)
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ،حسن اور حسین علیہم السلام کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لیا اورفرما یا کہ اے اللہ!یہ میرے اہل بیت ہیں۔(حاکم المستدرک)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ ’’آپ فرمادیں آئو ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلائو‘‘ نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کو بلایا پھر فرمایا:یہ میرے اہل بیت ہیں۔(مسلم شریف)
اہل بیت سے محبت کے بارے میں قرآن میں اللہ اپنے بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ ’’تم فرمائو میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا،مگرقرابت داروں کی محبت‘‘(سورۃ الشورایٰ)
یعنی اے حبیب مکرم آپ فرمادیں کہ اے لوگو! میں رسالت کی تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا (جس طرح مجھ سے پہلے کسی نبی نے دین کی تبلیغ پر اپنی قوم سے کوئی بدلہ طلب نہیں کیا)بس تم میرے قرابت داروں(یعنی میرے اہل بیت )سے محبت کرنا
اور اہل بیت سے میرے رشتہ کا لحاظ رکھتے ہوئے ایذا رسانی سے باز رہنا۔جمیع بن عمیر بیان کرتے ہیں میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ کے پا گیا تو میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ کس سے محبت تھی۔۔؟
انہوں نے فرمایا:فاطمہ سے،پھر معلوم کیا مردوں میں۔۔ ؟
انہوں نے فرمایا ان کے شوہر علی سے (جامع ترمذی)حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا ذکرفرماتے ہوئے حضورعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔
دوسری روایت میں فرمایا کہ جو چیز اسے قلق (بے چین)کرتی ہے وہی چیز مجھے قلق میں مبتلا کرتی ہے اور جو چیز فاطمہ کو ایذا پہنچاتی ہے وہی چیز مجھے بھی ایذا پہنچاتی ہے۔(مشکوٰۃ شریف)
اپنے نواسہ حسنین کریمین کی نسبی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے لوگو! کیا میں تم کوان کے بارے میں خبر نہ دوں جو اپنے نانا اور نانی کے اعتبار سے سب لو گوں میں بہتر ہیں۔۔؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتائوں جو اپنے چچا اورپھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں۔۔؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتائوں جو اپنے ماموں اورخالہ کے اعتبارسے سب لوگوں سے بہتر ہیں۔۔؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جواپنی ماں اورباپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں۔۔؟
وہ حسن اورحسین ہیں،ان کے نانا اللہ کے رسول ،ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد،ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اللہ،ان کے والد علی بن ابی طالب ،ان کے ماموں قاسم بن رسول اللہ
ان کی خالہ رسول اللہ کی بیٹیاں زینب،رقیہ،اور کلثوم ہیں۔ان کے نانا ،والد، والدہ ، چچا ،پھوپھی،ماموں اور خالہ(سب)جنت میں ہوں گےاور وہ دونوں (حسنین کریمین)بھی جنت میں ہوں گے۔(طبرانی المعجم الکبیر)
حضرت امام حسن سے محبت کےتعلق سے حضرت براء بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی آپ کے کاندھے پر سوار تھے اورحضور فرمارہے تھے اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔(مشکوٰۃ شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دن کے کسی حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوایہاں تک کہ آپ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے
اور آپ نے معلوم کیا ’’کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے یعنی حسن ہے۔۔؟ ‘‘کچھ ہی دیر میں حسن دوڑ تے ہوئے آئے اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کو گلے لگا یا
پھر حضور نے ارشاد فرمایا ’’اے اللہ! بے شک میں اس سے محبت کرتا ہوں،تو بھی اس سے محبت رکھنے والوں سے محبت فرما۔حضرت امام حسین سے محبت کا ذکرکرتے ہوئے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں:جو شخص حسین سے محبت کر تا ہے اللہ اس سے محبت کرے،اور حسین میری اولاد ہیں۔(مشکوۃ شریف)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین کے مقام ومرتبہ کو بیان کرتے ہو ئے ارشاد فرما یا کہ حسن وحسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ (حدیث)
اسی طرح حضور علیہ السلام نے دنیوی مقام کو ظاہر کرتے ہو ئے ارشاد فرماکہ حسن وحسین دینا میں میرے دو پھول ہیں۔(حدیث)
حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو دیکھا حسن و حسین علیہماالسلام رسول اللہ کے سامنے یا گود میں کھیل رہے تھے میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں ۔۔؟
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ میرے گلشن دنیا کے یہی تو دو پھول ہیں جن کی مہک سونگھتا رہتا ہوں۔(طبرانی المعجم الکبیر)
حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت کی وجہ سے حضور کے پاس حاضر ہواآپ باہر تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ آپ کسی چیز کو چھپائے ہوئے تھے میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چیز تھی۔۔ ؟
جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا کہ آپ نے یہ کیا چیز چھپا رکھی ہے ۔۔؟حضور نے کپڑا ہٹایا تو آپ کے دونوں کولہوں پر حسن وحسین تھے
اورآپ نے ارشاد فرما یا کہ ’’کہ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ! میں انہیں محبوب رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما،اوران سے محبت رکھنے والوں سے بھی محبت فرما‘‘۔(جامع ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن سینے سے لیکر سر تک رسول اللہ مشابہ تھے جبکہ حسین نچلے حصہ سے مشابہت رکھتے تھے۔(ترمذی)
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک روزنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اورفرمایا کہ:میرے بیٹے کہاں ہیں ۔۔؟میں نے عرض کیا علی (رضی اللہ عنہ)ساتھ لے گئے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تلاش میں نکلے پانی پینے کی جگہ پر کھیلتے ہوئے پایا اور ان کے سامنے کچھ کھجوریں بچی ہوئی تھیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے علی! خیال رکھنا میرے بیٹوں کو گرمی شروع ہونے سے واپس لے آنا۔(حاکم المستدرک)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین کریمین کی محبت کو اپنی محبت کاذریعہ بھی قراردیا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی،اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں(نواسواں) سے بھی محبت کرے۔(نسائی)
دوسری روایت میں آتا ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور کوارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے حسن اورحسین سے محبت کی،اس نے مجھ سے محبت کی،اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی،اور جس نے اللہ سے محبت کی اس نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔(حاکم المستدرک)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔(ابن ماجہ)
اہل بیت سے جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ، حضرت فاطمہ ،حضرت حسن، حضرت حسین سلام اللہ علیہم سے فرمایا کہ جس سے تم لڑوگے اس سے میری بھی لڑائی ہوگی،اور جس سے تم صلح کروگے اس سے میری بھی صلح ہوگی۔(جامع ترمذی) اہل بیت سے محبت اور ان کی راہ پر چلنا دنیا وآخرت میں نجات کا ذریعہ بھی ہے حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں ایک روز مکہ اورمدینہ کے درمیان پانی کی جگہ خم نامی مقام پر رسول اللہ نے ہمیں خطبہ دیا سب سے پہلے آپ نے اللہ کی حمدوثناء بیان کی وعظ و نصیحت کی
پھر فرمایا اے لوگو!میں بھی انسان ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی بات قبول کر لوں! میں تمہارے درمیان دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں،ان میں سے پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے اس میں ہدایت اورنور ہے تم اللہ کی کتاب کو لازمی پکڑے رہنا۔
پھر فرمایا دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں،میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں۔دوسری روایت میں آتا ہے کہ اللہ کی کتاب،وہ اللہ کی رسی ہے،جس نے اس کی اتباع(کتاب)کی وہ ہدایت پر ہے،اور جس نے اسے چھوڑدیا وہ گمراہی پر رہے گا۔(مسلم شریف)
اللہ رب العزت قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرماکر،رسول اللہ اور آپ کے ’’اہل بیت‘‘کی صحیح معنیٰ میں اتباع کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
Pingback: حضرت مخدوم صابرکلیری ⋆ محمد محفوظ قادری