شبِ برأت میں ایصالِ ثواب کی شرعی حیثیت
شبِ برأت میں ایصالِ ثواب کی شرعی حیثیت
از: مفتی محمد شمس تبریزقادری علیمی
’’شبِ براء ت ‘‘یہ ماہ شعبان کی ایک عظمت ورفعت والی رات ہے، ماہ شعبان کی اہمیت اسی رات کی وجہ سے ہے،اس ماہ کی پندرہویں رات جس کو’’شبرات‘‘بھی کہتے ہیں،شبرات اصل میں شب براء ت ہے ،جس کامعنی ہے جہنم سے آزادی کی رات۔یہ رات نہایت برکت والی اورمبارک ومسعودہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت وبخشش کاخاص نزول رات بھربندوں پرہوتارہتاہے۔اس رات کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے،چنانچہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں: شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ عزوجل تمام مخلوق کی طرف تجلّی فرماتاہے اورسبھوں کی بخشش فرمادیتاہے،مگر کافراورعداوت رکھنے والے(کونہیں بخشتا)۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسولِ ہاشمیﷺنے ارشادفرمایاکہ میرے پاس جبرئیل آئے اورعرض کیایارسول اللہ!یہ شعبان کی پندرہویںرات ہے اس میں اللہ تعالیٰ جہنم سے اُتنے لوگوں کوآزادفرماتاہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگرکافراورعداوت والے اوررشتہ منقطع کرنے والے اورکپڑالٹکانے والے اوروالدین کی نافرمانی کرنے والے اورشراب کی مداومت کرنے والے کی طرف نظرِرحمت نہیں فرماتا۔ امام احمدنے عن ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق سے روایت کیااس میں قاتل کابھی ذکرہے۔
ایک دوسری جگہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے پوچھا،اے عائشہ !اس رات کی کیااہمیت ہے توجانتی ہے یعنی شب براء ت کے متعلق،حضرت عائشہ نے عرض کیایارسول اللہ اس کی کیافضیلت ہے؟
توسرکاراقدس ﷺنے فرمایا:اس سال جوبچے پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ اسی رات میں لکھ لیے جاتے ہیں اوراسی میں لوگوں کے اعمال بارگاہِ خداوندی میں لکھ کرپیش کیے جاتے ہیں اوراسی شب میں ان کی روزیاں اُتاری جاتی ہیں۔توحضرت عائشہ نے عرض کیا:یارسول اللہ! کوئی نہیں جوجنت میں داخل ہومگراللہ کی رحمت سے
حضورنے فرمایا:ہاں!کوئی اللہ کی رحمت کے بغیرجنت میں نہیں جائے گا۔یہ تین بارسرکارنے فرمایاتوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیااورآپ بھی نہیں یارسول اللہ!؟
تورسول اکرم ﷺنے اپنادستِ اقدس سرِمبارک پررکھااورفرمایامیں بھی نہیں،مگریہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں مجھے ڈھانپ لے، سرکاراس بات کوبھی تین مرتبہ فرماتے رہے۔
مذکورہ احادیث کریمہ سے شبِ براء ت کی فضیلتیں عیاں ہورہی ہیں،اس لیے ضروری ہے کہ شب براء ت کو یادِ الٰہی یعنی نمازو تلاوت،تسبیح وتہلیل اور ذکر رسول یعنی محفل میلاد پاک ، دُرود و سلام اور نعت خوانی میں گزاریں، اورتمام شیطانی کاموں مثلاً آتش بازی ، ناچ ورنگ ،گاجے باجے وغیرہ سے دور ونفور رہیں۔
ابن ماجہ شریف میں نبی ٔ اکرمﷺکاارشادگرامی ہے:
’’شبِ براء ت میں جاگ کرعبادت کرواس کے دن میں روزہ رکھو‘‘اس رات کے اندرعبادت کرنے والوں کوفرشتوں کی طرف سے یہ مبارک بادی دی جاتی ہے:طُوْبیٰ لِمَنْ رَکَعَ وَسَجَدَفِیْ ھٰذِہٖ اللَّیْلَۃکہ اس رات میں رکوع وسجودکرنے والوں کے لئے رحمت وبشارت اوربھلائی وسعادت ہے۔
روحوں کا گھروں میں آنا:
اہل سنت وجماعت کاعقیدہ ہے کہ مومنین کی روحیں کچھ مخصوص دنوں میں اپنے گھروں کوآتی ہیں اور گھر والوں سے دعاے خیرکی طالب ہوتی ہیں۔ خزانۃ الروایات میں ہے’’عَنْ بَعْضِ الْعُلَمَائِ الْمُحَقِّقِیْنَ اَنَّ الْاَرْوَاحَ تَتَخَلَّصُ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ وَتَنْتَشِرُوْافَجَاؤُااِلیٰ مَقَابِرِھِمْ ثُمَّ جَاؤُافِیْ بُیُوْتِھِمْ‘‘بعض علمائے محققین سے مروی ہے کہ روحیں شب جمعہ چھٹی پاتی اور پھیلتی ہیں،پہلے اپنی قبروں پر آتی ہیں پھر اپنے گھروں میں۔
دستور القضاۃ مستند صاحب مأتہ مسائل میں فتاویٰ امام نسفی سے ہے’’ مسلمانوں کی روحیں ہرروزوشب جمعہ اپنے گھرآتی اور دروازے کے پاس کھڑی ہوکر دردناک آواز سے پکار تی ہیں کہ اے میر ے گھر والو!اے میرے بچو!اے میرے عزیزو! ہم پر صدقہ سے مہربانی کرو،ہمیں یادکرو ،بھول نہ جاؤ،ہماری غریبی میں ہم پر ترس کھاؤ‘‘۔
نیز خزانۃ الروایات میں ہے’’ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُمَا اِذَا کَانَ یَوْمَ عِیْدٍ اَوْ یَوْمَ جُمْعَۃٍ اَوْ یَوْمَ عَاشُوْرَآئَ وَلَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنَ الشَّعْبَانَ تَاتِیْ اَرْوَاحُ الْاَمْوَاتِ وَیَقُوْمُوْنَ عَلٰی اَبْوَابِ بُیُوْتِہِمْ فَیَقُوْلُوْنَ ہَلْ مِنْ اَحَدٍیَذْکُرُنَا ہَلْ مِنْ اَحَدٍ یَتَرَحَّمُ عَلَیْناَ ہَلْ مِنْ اَحَدٍ یَذْکُرُغُرْبَتَنَا الحدیث‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے جب عید ، یاجمعہ،یاعاشورے کادن ،یاشب براء ت ہوتی ہے ،اموات کی روحیں آکر اپنے گھروں کے دروازے پر کھڑی ہوتی اور کہتی ہیں،ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے،ہے کوئی کہ ہم پر ترس کھائے،ہے کوئی کہ ہماری غربت کی یاد دلائے۔
اعلیٰ حضر ت امام احمدرضاعلیہ الرحمۃ والرضوان شیخ الاسلام کی ’’کشف الغطا‘‘ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں’’ مومنین کی روحیں اپنے گھروں کو آتی ہیں،اور ہر جمعہ کی رات اور عید کے روز اور عاشورہ کے دن اور شب براء ت میں اور اپنے گھروں کے پاس کھڑی غمگین ہوکر آواز دیتی ہیں کہ اے میرے گھر والو!اے فرزندو!اے رشتہ دارو! ہمارے اوپر صدقہ کرکے مہربانی کرو۔
ایصال ثواب کاثبوت
ہر وہ بات جس میں محبوبانِ خدا کی تعظیم و تکریم ہویاوہ بات جو میت مسلم کے حق میں فائدہ سے متعلق ہو وہابیہ و دیوبندیہ اس پر شرک و بد عت کے فتوے داغتے ہیں،خواہ وہ ائمہ کرام و اقوال سلف سے ثابت ہویاحدیث ہی میں کیوں نہ ہو،اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ قرآن وغیرہ پڑھ کر اگر مردوں کو ایصال ثواب کیاجائے یا آدمی اپنی زندگی ہی میں قرآن پڑھوا لے تو اس کاثواب ارواح میت کو پہنچتاہے ، امام اعظم وغیرہ کا مذہب و مسلک یہی ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمدرضا بریلوی قدس سرہٗ فرماتے ہیں’’بے شک زندوں کا مردو ں کے لیے دعا کر نا اور ان کی طرف سے صدقہ دینا مردوں کو نفع دیتاہے،معتزلہ گمراہ فرقہ اس میں مخالف ہے،اور اصل اس میں یہ ہے کہ اہل سنت کے نزدیک آدمی اپنے ہر عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچا سکتاہے،نماز ہویاروزہ یاحج یاصدقہ یا کچھ ،امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے ا صحاب کے نزدیک یہ سب جائز ہیں، اور میت کو اس کاثواب پہنچتاہے
یہ مذہب ہے امام اعظم کا،اگر اس میں کوئی ثبوت دے دے کہ امام نے قرآ ن مجیداور کھانے کاثبوت پہنچاناجائز تو فرمایا لیکن کھانا آگے رکھنے کو منع فرمایا ہے،میت کے لیے دعاتو جائز فرمائی ہے،لیکن اس میں ہاتھ اٹھانامنع فرمایاہے،تو اسے دوسو (۲۰۰) روپے انعام دیے جائیں گے ۔۲۰۰؍ روپے مبلغ بظاہربے وقعت نظرآتاہے مگریہ امام احمدرضارضی اللہ عنہ کی تحریرہے اورآج سے تقریباًسوسال پہلے ۲۰۰؍روپے کی کتنی اہمیت تھی یہ کسی ذی ہوش پرمخفی نہیں۔ن
یز دیوبند وغیرہ وہابی مدارس میں جو نصاب تعلیم ہے ،اور سالانہ جلسے ،طرزِمعلوم کے لیے امتحان ،اور ان کے نمبر اور رودادیں چھاپنا اور کتابیں چھاپ کر بیچنا اور ان پر کمیشن کاٹنا اگر کوئی عالم اس کا ثبوت دے کہ امام اعظم نے ان باتوں کاحکم دیا ہے تو سو (۱۰۰) روپیہ انعام پائے گا۔
ایک دوسرے مقام پر اعلیٰ حضرت امام احمدرضا بریلوی قدس سرہٗ فرماتے ہیں’’امواتِ مسلمین کے نام پر کھانا پکاکر ایصال ثواب کے لیے تصدق کرنا بلاشبہ جائز و مستحسن ہے ،اور اس پر فاتحہ سے ایصال ثواب دوسرا مستحسن ہے ،اور دو چیزوں کا جمع کرنا زیاد ت ِخیر ہے ،اور پانی سے بھی ایصا ل ثواب کرسکتے ہیں ،بلکہ حدیث میں ہے ’’سب سے بہتر صد قہ پانی ہے‘‘
ایک حدیث میں ہے جہاں پانی نہ ملتاہو ،کسی کو پانی پلانا ایک جان کو زندہ کرنے کی مثل ہے،اور جہاں پانی ملتاہو ، وہاں پانی پلانا غلام آزاد کرنے کی مثل ہے۔
امام ابوحفص کبیر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہ ! ہم میت کی طرف سے صدقہ دیتے ،حج کرتے ،دعاکرتے ہیں،تو کیا یہ سب چیزیں ان کو پہنچتی ہیں؟فرمایا: ہاں،وہ ان کو ضرور پہنچتی ہیں ،اور اس سے وہ خوش ہوتے ہیں ،جس طرح تم میں سے ایک آدمی خوش ہوتاہے،جب اس کے پاس طباق ہدیہ دیاجاتاہے ۔
مخالفینِ ایصال ثواب کے بزرگ و پیشوا مولوی اسمعیل دہلوی لکھتے ہیں:
خلاصہ ٔ عبارت یہ ہے’’ جو عبادت مسلمانوں سے ادا ہو ،اس کا ثواب اپنے گزرے ہوؤں میں سے کسی کی روح کو پہنچائے اوراس دعاے خیر کے پہنچانے کاطریقہ جانب الٰہی کے ذریعہ ہے تو یہ خود البتہ بہتر اور مستحسن ہے اور اگر وہ شخص کہ جس کی روح کوثواب پہنچاتاہے اس کے اہل حقوق سے ہے تو اس کے حق کے مقدار کے موافق اس ثواب کے پہنچانے کی خوبی بہت زیادہ ہوگی
پس وہ اُمور جو میت کے لیے مروج ہیں،مثلاً فاتحہ اور اعراس اور نذر و نیاز کے ،ان سب کی خوبی میں شک و شبہ نہیں ‘‘۔
اور ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں :جس وقت کسی کو میت کو نفع پہنچانا منظور ہو تو چاہیے کہ وہ اس نفع کو کھانا کھلانے پر موقوف نہ رکھے اگر بر وقت کھانا میسر ہوجائے تو بہتر ورنہ صرف سورۂ فاتحہ ،اخلاص کا ثواب ہی بہترین ثواب ہے۔
دیلمی مسندالفردوس اور بیہقی شعب الایمان میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً راوی کہ نہیں ہے مردہ اپنی قبر میں مگر مثل ڈوبتے ہوئے کے ،طالب،فریاد رس ہے انتظار کررہا ہے ، باپ یا ماں یا معتمد دوست کی دعا کا،توجب دعا اسے پہنچتی ہے اس کی دنیا و ما فیہاسے بڑھ کر محبوب ہوتی ہے
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ دنیاوالوں کی دعاسے اہل قبور پر پہاڑ جیسے خیروبرکات و انوار داخل کرتاہے اوربے شک مردوں کے لیے زندوں کا تحفہ ان کی مغفرت چاہنا اور ان کی طرف سے صدقہ دیناہے۔
شب براء ت کی فاتحہ بزرگانِ دین کی ارواح کو ایصال ثواب کرناجائز ہے،خواہ تاریخ و دن کی تعیین کے ساتھ ہو یابغیر تعیین کے،دونوں صورتیں جائز ہیں،اسی طرح شب براء ت کی فاتحہ جائز ہے،چاہے اسی رات کو یا اس کے بعد ،دن اور تاریخ کو اس لیے متعین کیاجاتاہے تاکہ لوگوں کویادرہے،مگر کچھ منکرین تعیین تاریخ کے ساتھ فاتحہ اورایصال ثواب کو منع کرتے ہیں،اور کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے،حالانکہ اس پر شریعت مطہرہ میںکوئی ممانعت نہیں آئی ہے ،کسی چیز کا شریعت میں منع نہ ہونا ہی اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے
لہٰذا شب براء ت میں حلوا یا دوسری شیرینی پر فاتحہ دینابلاشبہ جائز ہے ،اصل مقصود اس سے ایصال ثواب ہے۔ شبِ براء ت کی فاتحہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضابریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:شریعت اسلامیہ میں،ایصال ثواب کی اصل ہے اورصدقات مالیہ کا ثواب بہ اجماع اہل سنت پہنچتا ہے اورعرفی طوردن اورتاریخ کی تخصیص کوحدیث نے جائز فرمایاہے۔
منع کرنے والے اسے بے دلیل شرعی منع کرتے ہیں،ان سے پوچھئے تم جومنع کرتے ہوآیااللہ ورسول نے منع کیاہے یااپنی طرف سے کہتے ہواوراللہ ورسول نے منع فرمایاہے تو دکھاؤ کونسی آیت وحدیث میں ہے کہ حلو اممنوع ہے، یاشب برأت میں ممنوع ہے، یا حضرت سیدالشہداء حمزہ ،یاحضرت خیرالتابعین اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو ایصال ثواب پہنچانا ممنوع ہے ،یااعزہ واحبا میں اس کاتقسیم کرنا ممنوع ہے۔ اور جب نہیں دکھا سکتے ،تو جو بات اللہ ورسول نے نہیں فرمائی تم اس کے منع کرنے والے کون؟
شب برأت کاحلوہ
شب براء ت میں حلوہ پکانا نہ توفرض وسنت ہے اور نہ ہی حرام وناجائز ہے،بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ شب براء ت میں دوسرے تمام کھانوں کی طرح حلوہ پکانابھی ایک مباح اور جائز کام ہے،اگر اس نیک نیتی کے ساتھ کہ آج مردوں کوثواب بخشناہے، ان کی طرف سے صدقہ کرناہے، توعمدہ ولذیذ کھانا پکا کر فقرا ومساکین پر صدقہ کرے اور اپنے اہل وعیال کو بھی کھلائے تو یہ ثواب کاکام ہے
عمدہ و نفیس چیز صدقہ کرنے کی قرآن و حدیث میں تاکید آئی ہے،اور اس میں ثواب بھی زیادہ ہے کہ کھانے والے جس قدر خوش ہوںگے اتنا ہی ثواب بڑھے گا،اور میٹھی چیز کو خود رسول اکرم ﷺ پسند فرمایا کر تے تھے ،چناں چہ حدیث پاک میں ہے’’عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کاَنَ النَّبِیُّ ﷺ یُحِبُّ الْحَلْوَآئَ وَالْعَسَل‘‘حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ حلوا اور شہد پسند فرماتے تھے ۔
اور حلوہ کوحلوہ شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ عربی میں حلوہ کا معنی ہی میٹھی چیز ہے اور حلوۃ کے معنی مٹھائی ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے ملفوظات میں ہے جس کاخلاصہ یہ ہے ’’اس شب میں (شب برأت) فاتحہ کادستور ہے، خواہ حلوہ روٹی ہوخواہ اور کچھ ،مگر ہندوستان میں حلوہ ہوتاہے ،اور بخارا اور سمر قند میں قتلماوغیرہ کرتے ہیں۔ حضور صدرالافاضل مفسر مرآدابادی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :
عید کی سویاں اگرچہ نہایت نفیس طیب اور لذیذ غذا ہے مگر’’حلواخوردن روئے باید‘‘ وہابیوں کی چڑہے اس سے بہت کھسیاتے ہیں،لطافت طبع کایہ عالم کہ کوّاہضم،اس کاکھاناسو شہیدوں کاثواب،وہابیوںکو کپورے بہت پسند ہیں،فتاویٰ رشیدیہ میں اس کو جائز لکھاہے، ہندؤں کے یہاں کی ہولی، دیوالی کی کچوری ،پورے شوق سے کھاتے ہیں، مگر شب براء ت کومسلمان حلال مال سے جو پاکیزہ حلوہ تیار کرتاہے اس سے بہت نفرت ہے، عید کے روز سویاں جو کمال نفاست کے ساتھ پکائی جاتی ہیں
اس کی مخالفت میں وہابی بہت سرگرم رہتے ہیں، پوچھیے یہ کیوں ؟
کیا میدہ ناجائز ہے؟
یاسوّیوں میں کوئی ناجائز چیز پڑی ہے یہ کہہ نہیں سکتے تو پھر ناجائز کیسے ہوگئیں،مگر وہابیہ نے قرآن پاک کے احکام نہیں دیکھے یادیدہ و دانستہ قرآن پاک کی مخالفت پرکمرباندھ لی۔
اللہ رب العزت تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یٰاَیُّہاَالَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا لَاتُحَرِّمُوْاطَیِّبٰتٍ مَااَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْن
اے ایمان والو!حرام نہ ٹھہراؤ ان پاک چیزوں کوجنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال فرمایا،اور حد سے نہ گزرو، بیشک اللہ تعالیٰ نہیں پسندکرتا حد سے گزرنے والے کو‘‘مگروہابیہ نے اس کی کچھ پروانہ کی ۔
شب برأت کے حلال طیب حلوے کواورعیدکے حلال وطیب سویوں کوبے دھڑک ناجائزکہہ دیااس میں قرآن کریم کی مخالفت ہے حکم الٰہی کی نافرمانی ہے۔
شبِ براء ت کے حلوہ وغیرہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضابریلوی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:حلوہ وغیرہ پکانا،فقراپرتقسیم کرنا،احباب کوبھیجناجائز ہے،اللہ کے فضل ونعمت پرخوشی کرنے کا قرآن مجید میں حکم ہے،جائز خوشی ناجائزنہیں۔
آتش بازی اسراف وگناہ ہے،دن کی تعیین میں جرم نہیں جبکہ کسی غیرواجب شرعی کوواجب ِشرعی نہ جانے،بدعت کہنے والے خودبدعت میں ہیں،قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ جوکچھ قرآن وحدیث نے منع نہ فرمایااس سے منع کرنے والابدعتی ہے۔
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین!
از: مفتی محمد شمس تبریزقادری علیمی
(ایم.اے.بی.ایڈ) مدارگنج ،ارریہ بہار ۔
Stabrazalimi786@gmail.com