متکبرین کا زوال

Spread the love

گاہے گاہے باز خواں۔

۔فیس بک نے یاد دلایا ہے کہ پچھلے سال آج ہی کے دن یعنی 14 اگست 2022 کو ایک مضمون لکھا تھا

آج جب میں نے اس مضمون کو دوبارہ پڑھا تو خیال ہوا کہ اس مضمون کی معنویت آج بھی باقی ہے۔۔ بلکہ اس مضمون کے کچھ نکات تو عملی شکل بھی اختیار کر چکے ہیں ۔۔ قارئین بھی اس مضمون کو قند مکرر کے طور پر دوبارہ ملاحظہ فرماسکتے ہیں ۔

۔متکبرین کا زوال-

– ودود ساجدبہار کے سدا بہار وزیر اعلی نتیش کمار اور ملک کی صدر جمہوریہ دروپدی مرمو سے وابستہ سیاسی معاملات کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے دروپدی مرمو کے صدر جمہوریہ بننے پر 12سال پرانا ایک واقعہ یاد آگیا

دسمبر 2010 میں‘ سفر امریکہ کے آخری پڑائو کے دوران نیو یارک کی ایک سڑک پار کرتے ہوئے میں نے اپنے لحیم وشحیم اور سیاہ فام پروٹوکول افسر’ڈیوس ابراہم‘ سے پوچھا تھا:

“مسٹر ڈیوس اب جبکہ امریکہ کا صدر ایک سیاہ فام (براک اوبامہ) ہے توکیا امریکہ کے ’کالوں‘ کی زندگی میں کوئی فرق آیا ہے؟”

جواب نفی میں آیا تو میں نے ایک اور ضمنی سوال کیا: کم سے کم احساس تحفظ توپیدا ہوا ہوگا؟ اور یہ بھی نہیں تو ایک فخر کا احساس تو ضرور ہوا ہوگا؟25 دنوں کی رفاقت کے دوران ڈیوس ابراہم نے کبھی کسی سوال کا جواب دینے میں اتنی دیر نہیں لگائی تھی۔چار دن پہلے ہی ڈیوس نے لاس اینجلس کے ایر پورٹ پر اترتے ہی وفد کے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سورج ڈھلنے کے بعد ہوٹل سے باہر کوئی تنہا نہ نکلے۔ہوٹل پہنچنے پر ’آج تک‘ چینل کی اینکر ریتل جوشی نے مجھے بتایا تھا کہ یہاں کالے چاقو کی نوک پر لوٹ لیتے ہیں۔نتیش کمار کو کیا نام دیا جائے؟

بی جے پی انہیں دھوکہ باز قرار دے رہی ہے۔اسی طرح جس طرح لالو نے انہیں اس وقت دھوکہ باز قرار دیا تھا جب 2017 میں انہوں نے آر جے ڈی سے رشتہ توڑکر بی جے پی سے رشتہ جوڑ لیاتھا۔

لا لو سے رشتہ استوار کرنے سے پہلے بھی وہ بی جے پی کے ہی ساتھ تھے اور 20 سال پرانا سیاسی تعلق ختم کرکے ہی لالو سے تعلق قائم کیا تھا۔اب انہوں نے پھر بی جے پی سے تعلق ختم کرکے آر جے ڈی سے قائم کرلیا ہے۔نتیش کہیں بھی گئے لیکن وزیر اعلی خود ہی رہے۔ لہذا 9 اگست کو استعفی دینے کے بعد 10 اگست کو انہوں نے بہار کے آٹھویں وزیر اعلی کے طور پر پھر حلف لے لیا۔ان کے ساتھ لالو کے بیٹے تیجسوی یادو نے بھی دوسری بار نائب وزیر اعلی کے طور پر حلف لیا۔

بہار اسمبلی سے متعلق ریکارڈ کا ایک سرسری جائزہ بتاتا ہے کہ نتیش کمار بہار کے واحد سیاستداں ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ تعداد میں حلف لیا اور سب سے زیادہ مدت سے اقتدار میں ہیں۔یہ اسی ریاست کا کمال ہے کہ لالو پرساد یادو کی خالص گھریلو طرز کی سیدھی سادی بیوی رابڑی دیوی بھی تین بار وزیر اعلی بن

گئیں۔1967 کے الیکشن میں ستیش پرساد سنگھ محض پانچ دن کیلئے وزیر اعلی بنے تھے۔ان کے بعد بی پی منڈل بھی 51 دن ہی وزیر اعلی رہے۔ یہ دونوں ایک ہی پارٹی ’شوشت دل‘ کے لیڈر تھے۔ان سے بھی پہلے 1961میں کانگریس کے دیپ نراین سنگھ محض 17 دن ہی وزیر اعلی رہ سکے تھے۔

اس کے علاوہ بھی ایسے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔یہ ایک مستقل موضوع ہے کہ آخر بہار میں ایساکیوں ہوا کہ ایک سے زائد بار پانچ دن‘ پچاس دن اور ایک سال میں ہی کیوں وزیر اعلی بدل گئے۔

وجہ کچھ بھی ہو یہ ریاست اس معاملہ میں بڑی ’دلچسپ‘ نظر آتی ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ لالو پرساد یادو کے بعد بہار کی سیاست کو نتیش کمار نے استحکام بخشا۔

نتیش بھی لالو کے ساتھ جے پی تحریک سے ’پیدا‘ ہوئے تھے۔لیکن نتیش کمار اقتدار میں رہنے کی خواہش کے تحت کبھی اِس ڈال پر اور کبھی اُس ڈال پر بیٹھتے رہے اورغیر اصولی سمجھوتے کرتے رہے۔یہ ان کی سیاسی مہارت کا کمال ہے کہ وہ کسی کے بھی ساتھ گئے وزارت اعلی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔2015 میں لالو اور نتیش کی پارٹیوں نے مل کر اسمبلی الیکشن لڑا۔ آر جے ڈی کی سیٹیں زیادہ ہونے کے باوجود لالو نے حسب وعدہ نتیش کمار کو ہی وزیر اعلی بنایا

اس ضمن میں لالو اخلاقی اعتبار سے‘ نتیش سے آگے نکل گئے۔ مگر نتیش نے اچانک لالو کی پارٹی کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی کو ساتھ لے لیا۔ لالو کیلئے یہ بہت بڑا دھچکا تھا۔بہار کے لوگوں نے مجموعی طور پر اسے پسند نہیں کیا۔ 2020 کے الیکشن میں نتیش کی جنتا دل (یو) کے محض 40 سیٹوں پر سمٹ جانے کا ایک سبب یہ بھی تھا۔اس کے دوسرے اسباب بھی تھے لیکن سب سے بڑا سبب خود ان کی حلیف بی جے پی کی خفیہ سازشیں تھیں

کہتے ہیں کہ بی جے پی نے ہی این ڈی اے کے شریک کار رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان کو نتیش کمار کے خلاف کام کرنے کیلئے بہار میں الگ سے کھڑا کیا تھا۔ چراغ پاسوان خود تو صفر پر سمٹ گئے لیکن ان کی جارحانہ مہم کے سبب خود نتیش کمار کی سیٹیں بھی گھٹ گئیں۔

صورتحال ایسی بن گئی کہ 2020 کے الیکشن کے بعد بی جے پی کو اس کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آیا کہ وہ زیادہ سیٹیں جیتنے کے باوجود نتیش کمار کو ہی وزیر اعلی بنائے۔یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ نتیش کمارنے‘

بی جے پی کے ساتھ حکومت بنائی لیکن بی جے پی کو حاوی نہیں ہونے دیا‘ نہ خود پر اور نہ بہار پر۔ انہوں نے بی جے پی کو ریاست کا ماحول بگاڑنے نہیں دیا۔انہوں نے یوگی کی بلڈوزر جیسی محبوب پالیسی کو بھی بہار میں پنپنے نہیں دیا۔ بہار کی جیلوں میں مسلمانوں کی شرح بھی تمام ریاستوں سے کم ہی رہی۔ میں نے اسی کالم میں کبھی تفصیل سے لکھا تھا کہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں جیلوں میں بند مسلمان اپنی آبادی کی شرح سے دوگنی سے کہیں زیادہ ہیں۔لیکن بہار میں جہاں مسلمانوں کی آبادی 17فیصد ہے’

جیلوں میں 15فیصد مسلمان بند ہیں۔یعنی وہاں یا تو مسلمانوں میں جرائم کا رجحان کم ہے یا پولیس مسلمانوں کے خلاف تعصب سے کام نہیں کرتی۔مسلم اداروں کوکام کرنے کی نسبتاً زیادہ آزادی ہے۔اقلیتی فلاح کا بجٹ بھی اچھا خاصا ہے۔حج بھون کے ذریعہ بھی پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کی تیاری کی سہولت فراہم کرائی جاتی ہے۔

یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے۔اسے یہیں چھوڑتے ہیں۔یہ تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بی جے پی نے کتنی ہی ریاستوں میں اپوزیشن کی حکومتوں کو گراکر اپنی حکومت بنالی۔تازہ مثال مہاراشٹر کی ہے جہاں پچھلے ڈھائی سال سے کانگریس‘ این سی پی اور شوسینا کی اچھی خاصی مخلوط حکومت چل رہی تھی لیکن شوسینا کے دو تہائی سے زیادہ ممبران اسمبلی کو ورغلاکر بی جے پی اقتدار والی ریاست گوا میں لے جاکر رکھا گیا اور آخر کار اودھو ٹھاکرے کو استعفی دینا پڑا۔

شرد پوار جیسا تجربہ کار اور جہاں دیدہ لیڈر بھی دیکھتا ہی رہ گیا۔بی جے پی نے بال ٹھاکرے خاندان کو سیاسی طور پر قلاش کرکے چھوڑدیا۔بہار میں بھی یہ کھیل ہوسکتا تھا

۔نتیش کمار اور ان کے لیڈروں نے یہ الزام عاید بھی کیا ہے کہ بی جے پی ان کی جماعت جے ڈی یو کو توڑنے کی ساز ش کر رہی تھی۔نتیش کمار اور تیجسوی یادو کی پچھلے دنوں چند خوشگوار ملاقاتوں سے بھی یہ اشارہ مل رہا تھا کہ نتیش کوئی بڑا فیصلہ کرسکتے ہیں۔نتیش کایہ قدم بھلے ہی موقع پرستانہ اورخود غرضانہ ہو‘ لیکن انہوں نے منتشر اور بصیرت سے عاری اپوزیشن کو ایک راستہ دکھایاہے

انہوں نے بتایا ہے کہ کمزور ہونے کے باوجود طاقتور بی جے پی کو کس طرح ’پٹخنی‘ دی جاسکتی ہے۔انہوں نے گزشتہ 12 اگست کو اپوزیشن سے اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنے کی اپیل بھی کی ہے۔یہاں کانگریس کا رویہ ناقابل فہم ہے۔

بی جے پی کا سب سے بڑا نشانہ کانگریس ہی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کانگریس ہی وہ واحد جماعت ہے جس کی جڑیں کمزور ہی سہی مگر پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔

7 فروری 2018 کو راجیہ سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ کانگریس سے پاک ہندوستان مہاتما گاندھی کا خواب تھا۔

یہ دراصل بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کی اپنی خواہش ہے جس کا اظہار انہوں نے مہاتما گاندھی کا نام لے کر کردیا۔ حال ہی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی کہا ہے کہ اگلے 30-40 برسوں تک بی جے پی ہی اقتدار میں رہے گی۔اپنے دوسرے بیان میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب توصرف آئیڈیا لوجی والی پارٹی ہی باقی رہے گی اوروہ بی جے پی ہے

۔یہ فقط اظہار خیال یا خواہش کا ہی اظہار نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کا اشاریہ ہے کہ بی جے پی اور حکومت ایسے تمام اقدامات کر رہی ہے جس سے بی جے پی کے علاوہ تمام پارٹیاں یا تو اپنی طاقت کھودیں یا پھر بی جے پی کی دست نگر بن کر رہیں۔کچھ علاقائی پارٹیاں بی جے پی کے ہاتھ پر ہمیشہ کیلئے ’بیعت‘ کر بھی چکی ہیں۔

لیکن اب بھی اگر کانگریس کو ہوش آجائے اور وہ دوسری علاقائی پارٹیوں کی حیثیت کو تسلیم کرلے تو نتیش کمار‘ تیجسوی یادو‘ اکھلیش یادو‘ ممتابنرجی‘ کے سی آر‘ جگن ریڈی‘ ایم کے اسٹالن‘ شردپوار‘ اودھو ٹھاکرے اور اروند کجریوال مل کر ایک بڑا‘ موثر اور مضبوط محاذ بناسکتے ہیں۔

عام آدمی پارٹی اور مجلس اتحاد المسلمین کو کانگریس‘ بی جے پی کا ایجنٹ قرار دیتی رہی ہے لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ کانگریس ہی بی جے پی کی راہ آسان کر رہی ہے۔کانگریس کو ضد چھوڑنی پڑے گی۔ابھی راہل گاندھی کو 2029 تک انتظار کرنا چاہئے۔ 2024 میں تو وہ کسی صورت وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ اولین سطور میں صدر جمہوریہ دروپدی مرموکا ذکر آیا تھا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بی جے پی نے اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں عہدہ صدارت’دے کر‘ ایک بڑا تاریخی اورجرات مندانہ کام کیاہے لیکن اگر انہیں اس عہدہ تک پہنچانے کا مقصد یہ ہے کہ اس سے ہندوستان کی قبائلی آبادی کے دن بدل جائیں گے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا۔

اس حکومت کے معاشی اقدامات سے ہرگز نہیں لگتا کہ وہ کمزوروں کی فلاح چاہتی ہے۔اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ وہ جو تھوڑی بہت حیا باقی تھی اور جس کی وجہ سے کابینہ میں ایک آدھ نام کا ہی سہی‘ مسلم وزیر ہوتا تھا وہ بھی اب نہیں ہوگا۔۔وزیر اعظم نے پسماندہ مسلمانوں پر محبت کا جال پھینکا ہے لیکن انہوں نے بی جے پی کی پارلیمانی سیاست کو ’’مسلمانوں سے پاک‘‘ بھی کردیا ہے

۔اب حکومت میں تو کوئی مسلم وزیر ہے ہی نہیں خود پارلیمنٹ میں بھی بی جے پی کا کوئی مسلم ممبر نہیں ہے۔ راجیہ سبھا کی مدت ختم ہوتے ہی مختار عباس نقوی بھی منظر نامہ سے غائب ہوگئے ہیں۔اپنی پوری زندگی کو بی جے پی میں کھپادینے والے شاہ نواز حسین کو تو پہلے بہار تک محدود کیا گیا اور اب تو وہ ’بہار کے بھی نہیں‘ رہے

یہ دراصل اللہ کا نظام ہے جو کبھی’نتیش کمار‘ کی صورت میں سامنے آتا ہے اور کبھی ’شاہ نوازحسین‘ اور‘ مختار عباس نقوی کی صورت میں۔بہار کی سیاسی پیش رفت بتاتی ہے کہ متکبرین کے سیاسی زوال کا آغاز ہوگیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *